جنابِ عمران خان 2011ء سے ایک ہی گردان دہرائے جا رہے ہیں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ کرپشن ہے۔ اسے اردو میں بدعنوانی کہتے ہیں اور اس کی مختلف صورتیں ہیں: رشوت کا لین دین، ترقیاتی منصوبوں کی رقوم میں خورد برد، حکومتی مناصب پر تقرری میں اقربا پروری اور جانبداری یا بے جا رعایت۔ ذہانت، اہلیت، قابلیت اور محنت کی جگہ دولت نے لے لی ہے۔ بے لاگ اور شفاف عدل کا فقدان، حکومتی اختیارات کا ناجائز استعمال، نااہلوں کوحکومتی اور ریاستی مناصب کی تفویض، ٹیکس کی تشخیص، ادائیگی اور وصولی میں خیانت، سیاسی جماعتوں کی طرف سے امیدواروں کے انتخاب میں علم، اہلیت، دیانت و امانت، تقویٰ اور کردار کے بجائے بارسوخ، دولت مند اور قابلِ انتخاب امیدواروں کو ترجیح دینا، کیونکہ سیاست پر اب دولت مند طبقات کی اجارہ داری قائم ہوگئی ہے۔ سیاست اب بہت بڑی سرمایہ کاری ہے اور ظاہر ہے کہ سرمایہ دار سرمایہ لگا کر مع منافع وصول کرنے کا عادی ہوتا ہے۔
اس پر بھی عالمی ماہرین کا اتفاق ہے کہ موجودہ دنیا میں کوئی بھی معیشت یا کسی بھی ملک کا نظامِ حکومت کرپشن سے بالکل پاک نہیں ہے؛ البتہ اُس کی مقدار اور تناسب میں فرق ہو سکتا ہے اور بعض جائزہ لینے والے عالمی ادارے اس کی سالانہ جائزہ رپورٹ شائع کرتے رہتے ہیں کہ کس ملک میں کرپشن کا گراف کتنا بڑھا ہے اور کس ملک میں اس میں کمی آئی ہے اور کون سا ملک ہے جو ایک خاص سطح پر قائم ہے‘ حتیٰ کہ امریکا کو بھی کسی نے کرپشن فری قرار نہیں دیا۔ جنابِ عمران خان نے بھی اپنی حکمرانی میں کوئی اعلیٰ مثال قائم نہیں کی۔ بائیس‘ تئیس کروڑ پاکستانیوں کو نالائق گردان کر بیرونِ ملک سے وہ افراد درآمد کیے، جنہوں نے ان پر سرمایہ لگایا تھا اور پھر انہیں مناصب عطا کیے، کرپشن کا چلن بھی حسبِ سابق رہا۔ صرف انھوں نے یہ حربہ کامیابی سے استعمال کیا کہ اپنی حکمرانی کے لیے جوابدہ بننے کے بجائے اپنے مخالف سابق حکمرانوں پر یلغار جاری رکھی۔ الغرض شروع سے اُن کا ماٹو رہا ہے کہ ''جارحیت بہترین دفاع ہے‘‘ اور وہ تاریخ کے پہلے حکمران ہیں جنہوں نے حکومت میں رہتے ہوئے اپوزیشن کو دبائو میں رکھا، حالانکہ عام طور پر صورتِ حال اس کے برعکس ہوتی ہے۔
الغرض پاکستان کے اصل اقتصادی مسئلے کی تمام ذمہ داری کرپشن پر نہیں ڈالی جا سکتی؛ البتہ اسے بہت بڑا عنصر قرار دیا جا سکتا ہے۔ اصل مسئلہ آمد اور خرچ میں عدم توازن ہے، حکومتی اور ریاستی مصارف کا آمدنی سے زیادہ ہونا اور آمد وخرچ میں پیدا شدہ خلا کو سودی قرضوں سے پُر کرنا، یہ بیماری پاکستان کی پوری تاریخ پر محیط ہے اور پی ٹی آئی حکومت کے ساڑھے تین سالہ دور میں نہ برسرِ زمین ترقیاتی کام ہوئے اور نہ کوئی میگا پروجیکٹ لانچ کر کے پایۂ تکمیل تک پہنچائے گئے۔ اس کے باوجود ماضی کی تمام حکومتوں کے مقابلے میں اس حکومت کے دور میں قرضوں کی شرح سب سے زیادہ رہی ہے۔ اب ہم اس مرحلے کے قریب ہیں کہ ہمارے داخلی اور خارجی قرض ہماری مجموعی داخلی آمدنی (GDP) کے برابر ہونے والے ہیں، اس کے نتیجے میں قرضوں سے عہدہ برآ ہونے کی ہماری صلاحیت مفقود ہو جائے گی۔
ایک ماہرِ معیشت کہہ رہے تھے: ''Bankruptcy یا دیوالیہ پن کا اطلاق افراد، کارپوریشنوں اور مالیاتی اداروں پر ہوتا ہے، ملک Bankrupt نہیں ہوتے، بلکہ Default کر جاتے ہیں‘ یعنی نادہندہ قرار پاتے ہیں‘‘۔ ایک اور ماہرِ معیشت نے کہا: ''آپ امریکا کو لاکھ ملامت کریں، اس کی مذمت میں نعرے لگائیں، اسے برا کہیں، لیکن آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر وہ تمام سرچشمے جہاں سے ہمیں زرِمبادلہ کی شکل میں سہارا مل سکتا ہے‘ اِن سب کی کنجی واشنگٹن کے پاس ہے‘‘۔ ہمارے رواں مالی سال (2021-2022) کے بجٹ میں بھی کُل مجوّزہ آمدنی اور کُل متوقع اخراجات کے درمیان ڈھائی سے تین ہزار ارب روپے کا خلا ہے، جسے قرض سے پُرکرنا ہو گا۔ سو ہمارے مسائل کا اصل حل اپنے اخراجات کو اپنی آمدنی کے مجموعی تخمینے کے اندر رکھنا ہے، جس میں قرضوں کی ادائیگی کی اقساط بھی شامل ہوں۔ اس کے لیے سیاسی قائدین اور ماہرینِ معیشت کو مل بیٹھنا ہوگا اور اتفاقِ رائے سے حکمتِ عملی ترتیب دینی ہو گی اورحکومت کوئی بھی ہو‘ اس کی پابندی سب پر لازم قرار دینا ہو گی۔ دفاع سمیت اپنے تمام شعبوں کے اخراجات کو کم کرنا ہو گا، کچھ عرصے کے لیے ترقیاتی منصوبوں کو روکنا ہو گا، نیز قومی آمدنی کے ذرائع کو بڑھانا ہو گا، برآمدات میں غیر معمولی اضافہ کرنا ہو گا تاکہ زرِ مبادلہ کی ادائیگیوں کا توازن قابو میں رہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت نے تعمیری صنعت کو ہدف بنایا اور اس کے لیے مراعات کے دروازے کھول دیے، یہ بھی کھلی اجازت دے دی کہ ہائوسنگ کی صنعت میں صَرف کی جانے والی دولت کے ذرائع کی بابت کوئی باز پرس نہیں ہو گی۔ پورے ملک میں تعمیراتی منصوبوں کا جال اتنی تیزی سے پھیل رہا ہے کہ آئندہ پچیس سے پچاس سال کے درمیان زراعت کے لیے زمین کی قلّت محسوس کی جانے لگے گی، کیونکہ تعمیرات اُفقی (Horizontally) سطح پر بے تحاشا پھیل رہی ہیں، جبکہ کم آمدنی والوں کے لیے عمودی سطح (Vertically) کی کالونیاں بنائی جانی چاہئیں تاکہ کم جگہ پر زیادہ سے زیادہ آبادی کو سمویا جا سکے اور بجلی، گیس، آب رسانی، سیوریج، سڑکوں، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، مساجد اور کھیل کے میدانوں وغیرہ کے لیے منصوبہ بندی نسبتاً آسان ہو۔
ملکی معیشت اس حد تک زوال کا شکار ہو چکی ہے کہ اصلاحِ احوال کے لیے کوئی مختصر المیعاد منصوبہ کارگر ثابت نہیں ہو سکتا، اسی طرح کمزور قیادت بنیادی اور دیرپا اصلاحات کی سیاسی قیمت ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی، کیونکہ سیاسی جماعتوں کی نظر آنے والے انتخابات پر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی حکومت کو ڈانواں ڈول دیکھ کر اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے گیس، بجلی، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں آئندہ بجٹ تک منجمد کر دیں اور تحریکِ عدم اعتماد کے بعد آنے والی حکومت بھی اس حوالے سے مشکل فیصلے نہیں کر پا رہی، جبکہ تمام ماہرینِ معیشت کا اس پر اتفاق ہے کہ ملکی معیشت کو پہلے بحالی اور پھر ترقی کی شاہراہ پر ڈالنے کے لیے مشکل، دیرپا اور ناپسندیدہ فیصلے کرنے ہوں گے اور ان کے اثرات بھی فوری ظاہر نہیں ہوں گے، بلکہ اس میں کچھ وقت لگے گا۔
شہباز شریف صاحب کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ وہ اب پاکستان کے وزیراعظم ہیں، لہٰذا کپڑے بیچ کر آٹا سستا کرنے یا اس طرح کے جذباتی اعلانات نہ صرف بے معنی ہوتے ہیں بلکہ قیادت کی فکری ناپختگی کا تاثر دیتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا یہ مطالبہ بجا ہے کہ اگر مشکل اور دیرپا فیصلے کرنے ہیں تو حکومتی اتحاد میں شامل تمام فریقوں کوسامنے آکر اس کی ذمہ داری لینی ہوگی اور لازم ہوگا کہ قوم کے سامنے معیشت کی حقیقی تصویر رکھی جائے۔ اس کے لیے وفاقی اور صوبائی ترقیاتی بجٹ میں معتدبہ تخفیف کرنی ہو گی اور صرف جاری منصوبوں کی تکمیل پر اکتفا کرنا ہو گا۔ اس ابہام کو بھی ختم کرنا ہو گا کہ آیا حکومت بقیہ میعاد پوری کر کے 2023ء میں مقررہ وقت پر انتخاب کرائے گی، کیونکہ جلد یا سالِ رواں کے آخر میں انتخابات کرانے کی صورت میں حکومت مشکل اور دیرپا فیصلے نہیں کر پائے گی اور اس کے نتیجے میں معیشت مزید زوال کا شکار ہو گی اورملک خدانخواستہ ڈیفالٹ کی طرف جا سکتا ہے۔ اسی طرح قیمتی گاڑیوں کے علاوہ دیگر سامانِ تعیّش کی درآمد پر بھی مکمل پابندی لگانی ہو گی، صرف عوام کی بنیادی ضروریات سے متعلق اشیا یا برآمدی صنعتوں کی ضروریات کے لیے مشینری اور خام مال کی درآمد کی اجازت ہونی چاہیے۔
حکومت ویسے بھی جامد اور بے اثر محسوس ہو رہی تھی، حالیہ ایک فیصلے نے بے یقینی کی کیفیت میں اور اضافہ کردیا ہے۔ صدرِ پاکستان بھی اپنے پارٹی سربراہ کی ہدایت پر نظام کو جامد اور مفلوج کیے ہوئے ہیں، پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلے کسی صدر نے نہیں کیا۔ صوبائی گورنروں کی تقرری کو بھی معرضِ التوا میں ڈال رکھا ہے، اس لیے صوبے آئینی سربراہ سے محروم ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑے صوبے پنجاب میں نظام تقریباً جامد ہے، ابھی تک صوبائی کابینہ تشکیل نہیں پا سکی، کیونکہ نئے گورنر کی تقرری تک کابینہ کی حلف برداری موقوف ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی ہر پارٹی اپنے حسبِ منشا تشریح وتعبیر کر رہی ہے۔ آئینی وقانونی ماہرین کی آرا منقسم ہیں۔
صدارتی ریفرنس کے جواب میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے حالیہ فیصلے نے صورتِ حال کو بے حد پیچیدہ بنادیا ہے۔ اس وقت ابہام ہی ابہام ہے، کسی کو معلوم نہیں کہ اصل طاقت کا مرکز کہاں ہے اور کون ہے جو ملک کو اس ابہام اور جمود سے نکال پائے گا۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی تیزرفتاری سے گراوٹ، سٹاک ایکسچینج میں مندی کا تسلسل اس کا واضح ثبوت ہے۔ ایک بار پھر سابق صدر غلام اسحاق خان کی پشتو کہاوت یاد آ رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 1990ء میں جب انہوں نے بے نظیر حکومت کو معزول کیا اور چند وزرا تو مقرر کر دیے، لیکن وزیر اعظم کا تقرر نہ کیا تو اُن سے سوال ہوا: ''وزیر اعظم کا تقرر آئینی تقاضا ہے، لیکن آپ نے کسی کو وزیراعظم نہیں بنایا‘‘، انہوں نے اس کے جواب میں مبینہ طور پر پشتو کی ایک کہاوت بیان کی (نقلِ کفر، کفر نباشد): ''(العیاذ اللہ!) کیا خدا ایسا پتھر بنا سکتا ہے جسے خود نہ اٹھا سکے‘‘، اُن کی مراد یہ تھی کہ جس وزیر اعظم کا تقرر میں کروں گا، وہ میری مرضی ہی کے تابع ہو گا۔ لیکن اب ہماری مقتدرہ نے 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں ایک ایسا ''بھاری پتھر‘‘ تخلیق کر دیا ہے، جو اُن سمیت کسی سے اٹھایا نہیں جا رہا اور نظام ''گویم مشکل ونہ گویم مشکل‘‘ اور ''نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن‘‘ والی کیفیت سے دوچار ہے۔