"MMC" (space) message & send to 7575

فیڈرل شریعت کورٹ کا امتناعِ ربا کا فیصلہ

ابتدائی طور پر فیڈرل شریعت کورٹ نے ''امتناعِ ربا (To Declare Interest unlawful)‘‘ کا فیصلہ 1992ء میں دیا تھا، پھر اس کے بعد سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بینچ میں اس کے خلاف اپیل ہوئی اور 1999ء میں سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بینچ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا اور حکومت کوحکم جاری کیا کہ 30 جون 2002ء تک نظامِ بینکاری و معیشت کو غیر سودی بنایا جائے۔ پھر 2002ء میں اُس وقت کے صدر پرویز مشرف نے سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بینچ کی تشکیلِ نو کی۔ مانچسٹر برطانیہ سے علامہ خالد محمود کو درآمد کرکے اُن کو اور ڈاکٹر رشید احمد جالندھری کو سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بینچ کا رکن بنایا اور پھر امتناعِ ربا کے فیصلے کو دوبارہ فیڈرل شریعت کورٹ کی طرف نظرِ ثانی کے لیے بھیج دیا‘ یعنی Refer Back کر دیا۔ پھر فیڈرل شریعت کورٹ 20 سال تک مرغی کے انڈوں کی طرح اسے سینچتی رہی تاآنکہ آخرِ کار 28 اپریل 2022ء کو فیڈرل شریعت کورٹ نے ایک بار پھر اپنے سابق فیصلے کو برقرار رکھا اور حکومت کو'' ربائی نظامِ معیشت‘‘ کو تبدیل کرنے کے لیے پانچ سال کی مدت دی، نیز فیصلے کو واپس فیڈرل شریعت کورٹ کی طرف Refer Back کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بینچ نے جو تحفظات پیش کیے تھے‘ اُن سب کو ردّ کردیا اور اصل فیصلے کو برقرار رکھا۔
فیڈرل شریعت کورٹ نے قرار دیا ہے کہ لاربائی بینکنگ 2002ء کے مقابلے میں آج دنیا میںنہ صرف مسلم ممالک میں بلکہ غیر مسلم ممالک میں بھی بڑے پیمانے پر قابلِ قبول بھی ہے اور قابلِ عمل بھی ہے۔ 2008ء کی کساد بازاری (Recession) کے بعد تو اِس کی قبولیت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، یہاں تک کہ اُس وقت کیتھولک مسیحیوں کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا پاپائے اعظم نے L'OSSERVATORE ROMANO کی 6 مارچ 2009ء کی اشاعت میں ایک باقاعدہ بیان دیاتھا: ''دنیا آئندہ اِس طرح کے مالیاتی بحران سے محفوظ رہنا چاہتی ہے اور اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز کے اعتماد کو دوبارہ سے بحال کرنا چاہتی ہے تو پھر اِسے اَخلاقی بنیادوں پر قائم اسلامی اُصولوں پر بینکاری نظام کو فروغ دینا پڑے گا‘‘۔ 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران اور کساد بازاری کا بنیادی سبب یہ تھا کہ ربائی بینکنگ کی بنیاد مستحکم اثاثوں پر نہیں ہوتی؛ چنانچہ اُس مالیاتی بحران کے بعد فرانس، برطانیہ اور سپین جیسے ترقی یافتہ ممالک میں عوام کے بعض طبقات نے اپنی حکومت سے اِسلامی بینکاری نظام کو قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا، لہٰذا اسلامی بینکاری دنیا کی بھی ضرورت بن چکی ہے۔ پس لازم ہے کہ بینکنگ کمپنیز آرڈیننس 1962ء اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایکٹ 1956ء کے فریم ورک میں لاربائی بینکنگ کے نفاذ کے لیے قانونی سہولتیں فراہم کی جائیں؛ نیز وفاقی شرعی عدالت نے قرار دیا ہے کہ شخصی قرض اور کاروباری قرض میں فرق محض ایک فریب ہے، سود کی ہر صورت کا ایک ہی حکم ہے۔ حکومت اپنی ضروریات کے لیے داخلی اور خارجی ذرائع سے آئندہ جو رقوم لے‘ اس کے لیے لاربائی پروڈکٹ بنائے، آئی ایم ایف، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک Sharia'h Compliant (شریعت کے مطابق) طریقۂ کار کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں‘ حتیٰ کہ چین بھی سی پیک کے لیے اس طرف پیش قدمی کے لیے تیار ہے۔
جب حکومت اپنی ضروریات کے لیے داخلی اور خارجی ذرائع سے مالی وسائل لے گی اور وہ شرعی احکام کے مطابق ہوں گے تو یقینا وہ اپنی نوعیت کے مطابق اسلامی تمویل کے طریقوں پر ہوں گے اور وہ مالی وسائل پیداواری اور نفع بخش منصوبوں پر لگیں گے توحکام انہیں اپنی عیاشیوں اور فضول خرچیوں میں استعمال نہیں کر پائیں گے۔ وفاقی شرعی عدالت نے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ ادائیگی میں تاخیر یا اس طرح کے دیگر معاملات میں Interest کے لفظ کو ختم کرے؛ نیز وفاقی اور صوبائی حکومتیں 31 دسمبر 2022ء تک تمام ضروری قانونی اقدامات کریں اور تمام مالیاتی قوانین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق تبدیل کریں۔ فیڈرل شریعت کورٹ نے ملک کے بینکاری اور مالیاتی نظام کو شریعت کے مطابق بنانے کے لیے اٹارنی جنرل کی درخواست پر حکومتِ پاکستان کو پانچ سال کا مناسب وقت دیا ہے۔ فیڈرل شریعت کورٹ دستور کے آرٹیکل 203-D(1) کے تحت اس کا مکمل اختیار رکھتی ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ کون سا قانون خلافِ اسلام ہے۔ فیڈرل شریعت کورٹ نے صدر اور حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ قوانین میں مناسب ترامیم کریں؛ نیز یہ کہ وفاقی حکومت یا کوئی پارٹی دستور کے آرٹیکل 203-F کے تحت اس فیصلے کے اجرا کے چھ ماہ کے اندر اگر کوئی درخواست دائر کرتی ہے‘ تو اس کا فیصلہ ساٹھ دن میں صادر کرنا ہو گا۔
ہماری نظر میں حکومتِ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ فوری طور پر اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے ایک با اختیار Steering Committee بنائے جو یکسو ہوکر اور کُل وقتی طور پر کام کرے۔ حکومتی پیش رفت کا مسلسل جائزہ لے اور اس راہ میں کوئی حقیقی یا فنی رکاوٹیں حائل ہوں تو اُن کا حل پیش کرے۔ علاوہ ازیں مالیاتی اداروںسے وابستہ تمام سٹیک ہولڈرز کو چاہیے وہ فیڈرل شریعت کورٹ کے اِس فیصلے کوغنیمت جانتے ہوئے لاربائی بینکاری نظام کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ آئین کے آرٹیکل 38-F میں واضح طور پر لکھا ہے: ''جتنی جلدی ہو سکے ملک سے ربائی مالیاتی نظام کو ختم کیا جائے‘‘۔
سرِ دست خالص اسلامی نظامِ معیشت کی منزل کافی دور ہے، کیونکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی بنیادی ساخت ربائی بینکنگ کے لیے ہے، صرف اس کے تحت ایک اسلامک بینکنگ ڈیپارٹمنٹ بنا دیا گیا ہے، اِسی طرح بینکنگ کمپنیز آرڈیننس 1962ء (BCO 1962) میں ضروری ترمیم کرکے اِسلامی بینکاری نظام کیلئے گنجائش پیدا کی گئی اور اِسی ترمیم کی بنیاد پر موجودہ اسلامی بینکاری کا پورا ڈھانچہ قائم کیا گیا۔ اگرچہ اسلامی بینکاری کے آغاز کیلئے یہ ایک احسن اقدام تھا؛ تاہم اِسی پر اکتفا کرنے کی صورت میں ملک میں مکمل لاربائی بینکاری و مالیاتی نظام کا خواب کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ علاوہ ازیں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کے بعض مروّجہ قوانین میں اِسلامی بینکاری کی ساخت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے فوری تبدیلی کی اشد ضرورت ہے‘ وگرنہ اِسلامی بینکوں کی کئی پروڈکٹس کو اُن اصل روح کے مطابق نافذ کرنا مشکل ہوتا ہے، خاص طور پر ڈبل ٹیکس کا مسئلہ انتہائی گمبھیر ہے‘ مثلاً: مرابحہ اور شرکتِ متناقصہ (Diminishing Musharakah) وغیرہ کے لیے ایف بی آر اور صوبوں کے مالیاتی محکموں کو خصوصی قوانین بنانے تھے، جو نہیں بنائے گئے۔ یعنی ہونا یہ چاہیے تھا کہ جائداد کی ملکیت باقاعدہ بینک کے نام پر منتقل ہوتی اور اس مرحلے پر قانون کی رُو سے جو ڈیوٹی وغیرہ عائد ہوتی ہے، اسلامی بینکوں کو اُس سے استثنا دیا جاتا اور جب اس جائداد کی ملکیت بینک اپنے کلائنٹ کے نام منتقل کرتا ہو، تو قانون کی رُو سے واجب الادا ڈیوٹی وصول کر لی جاتی اور اس صورت میں ریاست اور حکومت کو کوئی مالی نقصان نہیں ہوتا، کیونکہ اگر ایک ہی چیز پر دو مرتبہ پوری ڈیوٹی عائد کر دی جائے، تو پھر مارکیٹ سے مسابقت مشکل ترین ہو جاتی ہے، اس لیے حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اسلامی بینکوں کو اس حوالے سے سہولتیں (Facilitation) فراہم کریں، کیونکہ یہ دستورِ پاکستان کے آرٹیکل 31 کا تقاضا بھی ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اِسلامک بینکنگ ڈیپارٹمنٹ نے اِسلامی بینکوں کے اِسٹاف کی ٹریننگ کے لیے Enhanced Training & Capacity Building Measures for Islamic Banking Institutions کے عنوان سے ایک باقاعدہ سرکلر جاری کیا ہے؛ تاہم اسلامی بینکوں میں سٹاف کی ہائرنگ کے حوالے سے پہلے سے موجود قوانین پر بھی نظرِ ثانی کی جائے اور ایسے قوانین بنائے جائیں، جن کے تحت سٹاف ہائر کرنے سے پہلے ان کی ذہن سازی کی جائے اور صرف اُن لوگوں کو سٹاف میں شامل کیا جائے، جو ذہنی طور پر لاربائی نظامِ بینکاری سے مطابقت رکھتے ہیں، حلال وحرام میں تمیز رکھتے ہیں، وہ صرف بے روزگاری اور حالات کے جبر کے تحت یا پُرکشش مشاہروں اور مراعات کی خاطر اسلامی بینکوں کا حصہ نہ بنیں، بلکہ اپنی ترجیحِ اول کے تحت اسے اختیار کریں۔ اس عدمِ احتیاط کا ثبوت یہ ہے کہ بڑی تعداد ایسے بینکاروں کی مل جائے گی جو پہلے سودی بینک میں کام کر رہے تھے، پھر اسلامی بینک میں چلے آئے اور پھر کہیں سے بہتر پیشکش ملی تو دوبارہ سودی بینک میں چلے گئے۔
فیڈرل شریعت کورٹ کے اِس فیصلے پر لفظاً و معنًا عملدرآمد کی صورت ہی میں ملک میں مکمل لاربائی بینکاری نظام قائم ہوگا۔ لوگوں کے پاس غیر سودی بینکوں کی طرف رجوع کرنے کا آپشن ہی نہیں رہے گا، جیسا کہ اس وقت ہے، کیونکہ بہت سے سودی بینک اور انشورنس کمپنیاں بحیثیتِ مجموعی ربائی بینکاری کو جاری رکھتے ہوئے صرف اپنی چند برانچیں مختص کر کے، جنہیں Windows سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ جزوی طور پر اسلامی بینکاری کر رہے ہیں اور یوں ایک ہی ادارے میں بیک وقت سودی اور غیر سودی دونوں طرح کا کام ہو رہا ہے، یہ اِسلامی نظامِ معیشت و بینکاری کی حقیقی ترقی میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
اسلامی بینکوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ مقدار پر معیار کو ترجیح دیں، افقی سطح پر توسیع کو ترجیح دینے کے بجائے عمودی سطح پر معیار کو ترجیح دیں، مشتبہات سے بچیں۔ جن مفتیانِ کرام نے ماضی میں بعض امور پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، ان کے ساتھ مشترکہ اجلاس منعقد کریں اور ''تَعَاوُنْ عَلَی الْبِر‘‘ کے جذبے کے تحت ایک دوسرے کے علمی تفقّہ اور تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے بہتر متبادلات کی طرف آئیں یا اسلامی بینکوں میں جو پروڈکٹس رائج ہیں‘ اُن کو اور زیادہ شفاف بنائیں تاکہ تمام علما اور مفتیانِ کرام اس کے پشتیبان بنیں، صنعتکاروں اور کارپوریٹ کلائنٹ کی بھی ذہن سازی کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں