وقوفِ عرفہ سے پہلے عملِ زوجیت کرنے سے حج فاسد ہوجاتا ہے‘ تاہم ایسا شخص حج کے تمام ارکان ادا کرے اور حج پورا کرکے دَم دے اور آئندہ سال اِس حج کی قضا کرے۔ وقوف کے بعد اور حلق وطواف سے پہلے جماع کیا تو بُدنہ (اونٹ قربان کرنا) واجب ہوجاتا ہے۔
اگر کسی شخص نے سعی کے چار یا زیادہ چکر چھوڑ دیے تو اس پر دم واجب ہے‘ اگر سعی کے چار یا زیادہ چکر ویل چیئر پر بلا عذر ادا کیے تو دم لازم ہے اور اگربیمار یا معذور یا ضعیف ہے تو کوئی دم نہیں۔ طوافِ زیارت کے بعد سعی کرنے میں احرام شرط نہیں ہے‘ البتہ عمرے میں حلق سے پہلے سعی کرنے میں احرام واجب ہے اوراگر احرام کے بغیر سعی کی تو عمرہ ادا ہو جائے گا، مگر دم واجب ہوگا۔ طوافِ زیارت کی سعی نہیں کر سکا اور دوسرے سال قضا کی‘ تو دم ساقط ہو جائے گا‘ لیکن حلق کے بعد ہونے کی وجہ سے دم واجب ہوگا‘ سعی کی تاخیر سے ادائیگی پر کوئی دم نہیں ہے۔
دس ذو الحجہ کی صبح صادق سے طلوعِ آفتاب کے درمیان کچھ دیر تک مزدلفہ میں وقوف واجب ہے‘ اگر بلا عذر مزدلفہ کا وقوف چھوڑ دیا تو دم واجب ہے‘ مِنْ جَانِب اللّٰہ عذر کی صورت میں کوئی دم نہیںہے‘ البتہ اگر دشمن کے خوف سے مزدلفہ کا وقوف نہ ہو تو دم واجب ہے۔ اسی طرح دشمن کے خوف کے سبب وقوفِ عرفہ کے بعد رکاوٹ پیدا ہوجائے یہاں تک کہ ایامِ نحر گزر جائیں‘ تو مُحرِم پر وقوفِ مزدلفہ کے ترک‘ رمی کے ترک اور طوافِ زیارت کے ایامِ نحر سے تاخیر پر تین دم واجب ہوں گے۔
حجِ قِران اور حجِ تمتُّع میں مُحرِم پر شکرانے کا جو دَم واجب ہے اور کفارے کے سبب جو قربانی واجب ہوتی ہے‘ اُن کا حرم کی حدود میں ذبح کرنا لازم ہے‘ یہ دَم جب تک حدودِ حرم میں ذبح نہیں ہوں گے‘ اُس وقت تک کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ حجِ تمتُّع اور حجِ قِران کا دمِ تشکُّر ایامِ نحر میں کرنا ضروری ہے‘ اگر ایامِ نحر سے تاخیر کی تو اِس پر دوسرا دَم بھی واجب ہو جائے گا۔
اِحصار کی صورت میں بھی مُحرِم قربانی بھیجے گا اور اُس کے بعد احرام کے احکام سے باہر ہوگا۔ اگر مُحرِم کے لیے حج میں وقوفِ عرفہ اور طوافِ زیارت سے اور عمرے میں طواف سے خطرات مانع ہوں‘ تو اِسے اِحْصَار کہتے ہیں اور ایسے شخص کو مُحْصَر کہتے ہیں‘ جیسے رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کو کفارِ مکہ نے 6ہجری میں حدیبیہ کے مقام پر روک لیا تھا اور طوافِ بیت اللہ کی اجازت نہیں دی تھی‘ لہٰذا رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرامؓ سے فرمایا: تم اپنے ساتھ لائے ہوئے جانور یہیں ذبح کردو‘ الغرض صلح کے بعد مسلمان اُس سال واپس چلے گئے تھے اور اگلے سال اُس عمرے کی قضا کی گئی۔
حج افراد میں جمرہ عقبہ کی رمی اور حلق میں ترتیب واجب ہے‘ اگر کسی شخص نے رمی سے پہلے حلق یا قصر کر لیا تو دم واجب ہے۔ حج تمتع اور قِران میں دس ذی الحج کے دن پہلے جمرہ عقبہ کی رمی‘ پھر قربانی اور پھر حلق یا قصر ہے‘ یہ ترتیب امامِ اعظم کے نزدیک واجب ہے اور خلافِ ترتیب عمل کرنے پر دم واجب ہے‘ جب کہ صاحبین کے نزدیک مذکورہ امور میں ترتیب سنت ہے اور خلاف کرنے پر کوئی کفارہ نہیں۔ امام ابن ہمام کی تحقیق کے مطابق ترتیب میں تقدیم و تاخیر کی متعدد صورتوں میں ایک ہی دم واجب ہوگا۔
احرام میں پوری داڑھی یا چوتھائی یا اُس سے زیادہ حصے کوعذر کے بغیر منڈانے‘ کتروانے یا جلانے پر دم واجب ہے اور اگر عذر کے سبب ہو تو دم یا صدقہ یا روزے میں اختیار ہے‘ چاہے تو دم دے یا تین روزے رکھے یا چھ صدقاتِ فطر کی مقدار صدقہ دے۔ بغل کے بال یا زیر ناف بال ہٹانے پر دم واجب ہے۔
مُحرِم نے دوسرے مُحرم کا سر مونڈا، اس پر بھی صدقہ ہے‘ خواہ اُس نے اسے حکم دیا ہو یا نہیں‘ خوشی سے مونڈایا ہو یا مجبور ہوکر اور غیر محرم کا مونڈا تو کچھ خیرات کردے۔ غیر مُحرِم نے مُحرِم کا سر مونڈا‘ اس کے حکم سے یا بلا حکم تو مُحرِم پر کفارہ ہے اور مونڈنے والے پر صدقہ اور وہ مُحرِم اس مونڈنے والے سے اپنے کفارے کا تاوان نہیں لے سکتا اور اگر مُحرِم نے غیر کی مونچھیں کاٹیں یا ناخن تراشے تو مساکین کو کچھ صدقہ کھلادے۔ دونوںہاتھوں، دونوں پیروں یا ایک ہاتھ یا ایک پیرکے تمام ناخن حالتِ احرام میں ایک مجلس میں کاٹے جائیں تو ایک دم واجب ہے۔
تین دنوں کی رمی کے ترک پر یا ایک دن کی پوری رمی کے ترک پر اور کل دنوں کی اکثر رمی کے ترک پر بھی دم واجب ہے۔
امامِ اعظم کے نزدیک کسی ایک دن کی کل کنکریاں یا اکثر کو ترک کر کے دوسرے دن تک موخر کرنے کی صورت میں ایک دم واجب ہے اور اگر یہ کسی آسمانی عذر کی وجہ سے ہو تو پھر نہ دم واجب ہے اور نہ صدقہ۔ امامِ اعظم کے نزدیک ایک دن کی کل کنکریاں دوسرے دن زوال سے پہلے قضا کرنا لازم ہے اور تاخیر پر دم واجب ہے‘ مگر امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک صرف قضا واجب ہے۔
طوافِ زیارت یا عمرہ کے سوا دوسرے طواف کے تین یا تین سے کم چکر چھوٹ جائیں تو ہرچکر کے بدلے ایک صدقہ واجب ہے۔ سعی کے تین یا کم چکر چھوڑ دیے تو ہر چکر کے بدلہ میں صدقہ ہے اور اگر عذر کی وجہ سے سعی ترک کردی تودم یا صدقہ واجب نہیں ہے‘ اگر کسی نے عذر کے بغیر سعی کے تین یا کم چکر سواری یا چارپائی یا ویل چیئر پر ادا کیے تو اس پر صدقہ ہے۔
مُحرم کو ایک جوں مارنے یا پھینکنے میں روٹی کا ٹکڑا صدقہ کرنا واجب ہے‘ دو میں مٹھی بھر گندم اور تین میں ایک صدقۂ فطر کے برابر صدقہ کرنا واجب ہے۔
خوشبو سونگھنے پر کوئی کفارہ نہیں ہے‘ البتہ مکروہ ہے۔ کپڑوں پر نجاست کی صورت میں طواف مکروہ ہے‘ لیکن اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے۔ طواف میں نقصان پائے جانے کی صورت میں اگر اُس کا اعادہ صحیح طریقے پر کیا جائے تو پھر کوئی کفارہ نہیں۔ نفلی طواف میں اگر کشفِ ستر ہو جائے تو کوئی کفارہ نہیں‘ معذور کے لیے سعی ترک کرنے اور غیر معذور کے لیے سعی میں تاخیر پر کوئی کفارہ نہیںہے۔ سر اور چہرے کے علاوہ بدن کے دوسرے حصے پر پٹی باندھنے یا چھتری سے سایا کرنے یا ناخن خود کٹ جانے کی صورت میں کوئی کفارہ نہیں ہے۔
کسی موذی جانور نے مُحرم پر حملہ کیا اور اُس نے اُسے مار ڈالا تو اس پر کوئی کفارہ نہیںہے۔ اسی طرح بھیڑیا‘ کٹکھناکتے‘ کوے‘ سانپ‘ بچھو‘ چوہا‘ کاٹنے والی چیونٹی‘ مچھر‘ مکھی‘ بھِڑ وغیرہ کے قتل پر کوئی کفارہ نہیں ہے۔ حدودِ حرم میں جوخودرو (یعنی بویا نہیں گیا‘ نہ اس قسم سے ہے جسے لوگ بوتے ہیں) تر گھاس، پودے اور درختوں (جیسے ببول وغیرہ) کے کاٹنے پر کفارہ ہے یعنی اُس کی قیمت کے برابر مساکین پر صدقہ کرے اور خشک ہوجانے والے پودوں‘ درختوں‘ کاشت کردہ گھاس‘ درختوں اور اِذخَرگھاس کاٹنے پر کوئی کفارہ نہیںہے۔
عام طور پر پوچھا جاتا ہے: جو شخص کسی بھی سبب سے حج کے موسم (شوال‘ ذوالقعدہ اور ذوالحجہ) میں حرم میں پہنچ گیا تو کیا اس پر حج فرض ہو جائے گا اور حج فرض ادا نہ کیا تو گنہگار ہوگا۔ اب پاکستان سے لوگ رمضان المبارک میں عمرے کے لیے جاتے ہیں اور بعض اوقات فلائٹ میں نشست نہ ملنے کی وجہ سے انہیں شوال کے ابتدائی دنوں تک مجبوراً رکنا پڑتا ہے‘ بلکہ اب خود سعودی حکومت شوال کے مہینے میں عمرے کے ویزے جاری کرتی ہے۔ پس کیا اس صورت میں ان پر حج فرض ہو جائے گا اور نہ کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوں گے‘ حالانکہ اُن کے پاس حج تک قیام وطعام کے لیے پیسے نہیں ہوتے‘ مزید یہ کہ سعودی حکومت کے نزدیک ان کا قیام غیر قانونی ہوتا ہے اور قانون کی گرفت میں آنے کی صورت میں انہیں سزا ہو سکتی ہے یا ملک بدر کیا جا سکتا ہے اور بعض صورتوں میں لوگ غیر قانونی طور پر رک جاتے ہیں اور بھیک مانگتے ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ وہ واپس اپنے وطن چلے آئیں‘ اُن پر حج فرض نہیں ہوا اور حج اد اکیے بغیر واپس آنے کی صورت میں وہ گنہگار نہیں ہوں گے‘ کیونکہ حج صاحبِ استطاعت پر فرض ہے اور ایامِ حج تک رکنے اور مصارفِ حج ادا کرنے کی ان کے پاس استطاعت ہی نہیں ہے اور اگر اُن کے پاس تکمیلِ حج تک سعودی عرب میں قیام اور دیگر مصارفِ حج کی استطاعت تو ہے، لیکن سعودی حکومت ان دنوں میں وہاں قیام کی اجازت نہیں دیتی‘ تو غیر قانونی طور رکنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ کیونکہ جب ہم کسی ملک کا ویزا لے کر جاتے ہیں تو اس کے ضمن میں اُس ملک کے قوانین کی پابندی کا عہد بھی شامل ہوتا ہے اور قانون شکنی کی صورت میں سزا یا بے توقیری کے ساتھ ملک بدری کی نوبت بھی آ سکتی ہے‘ لہٰذا یہ شرعاً ناجائز ہے‘ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ''مومن کے لیے روا نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرے‘ صحابہ نے عرض کیا: (یا رسول اللہ! )کوئی شخص اپنے آپ کو کیسے ذلیل کرتاہے‘ آپ ﷺنے فرمایا: وہ اپنے آپ کو ایسی صورتِ حال سے دوچارکرے کہ جس سے عہدہ برا ہونے کی وہ طاقت نہیں رکھتا‘ (اورانجامِ کار اسے ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے )‘ ( سنن ترمذی : 2254)‘‘۔ الغرض مومن کے لیے عزتِ نفس اور اپنے شخصی وقار کا تحفظ ضروری ہے۔