"MMC" (space) message & send to 7575

آخرِ کارشیرازہ بکھر ہی جاتاہے

چودھری وجاہت حسین نے کہا ہے: ''ہمارا خاندان بکھر گیا ہے‘‘۔ چودھری صاحب! ایک وقت آتا ہے کہ خاندان بکھر جاتے ہیں، پورا عالَمِ انسانیت حضرت آدم و حوا علیہما السلام کی اولاد ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اے لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈرتے رہا کرو جس نے تمہیں ایک جان (آدم) سے پیدا کیا اور اُسی سے اُن کا جوڑا (حوا کو) پیدا کیا اور ان دونوں سے کثیر تعداد میں مرد اور عورتیں (زمین میں) پھیلادیے‘‘ (النسآء: 1)۔ پھر بتدریج خاندان بکھرتے چلے گئے، اللہ تعالیٰ نے انسان کی خِلقت کی بابت فرمایا: (1) ''اُس نے انسان کو ٹھیکری ایسی بجتی ہوئی خشک مٹی سے پیدا کیا اور جنّ کو آگ کے خالص شعلے سے پیدا کیا‘‘ (الرحمن: 14 تا 15)، (2) ''اور بے شک ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی مٹی سے بنایا اور اس سے پہلے جنّات کو دھوئیں کی آمیزش سے خالی آگ سے پیدا کیا‘‘ (الحجر: 26 تا 27)، سو انسان کی اصل مُشتِ خاک ہے، اُس کے بعد قطرۂ آب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اے لوگو! اگر تمہیں موت کے بعد (دوبارہ) جی اٹھنے میں کوئی شک ہے، تو (غور کرو کہ) ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر جمے ہوئے خون سے، پھر گوشت کے لوتھڑے سے جو (کبھی) کامل صورت میں اور (کبھی) ناقص صورت میں ہوتا ہے تاکہ ہم تمہارے لیے اپنی قدرت کو ظاہر کر دیں اور ہم جسے چاہتے ہیں، ایک مقررہ مدت تک (مائوں کے) رحموں میں رکھتے ہیں، پھر ہم بچے کی صورت میں تمہیں پیدا کرتے ہیں تاکہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچ جائو، تو تم میں سے بعض لوگ (اس سے پہلے) وفات پا جاتے ہیں اور بعض ناکارہ عمر کی طرف لوٹا دیے جاتے ہیں کہ وہ بہت کچھ جاننے کے بعد (اب) کچھ بھی نہیں جانتا‘‘ (الحج: 5)۔ یعنی بعض صورتوں میں انسان ضعیف العمر ہونے کے باعث یادداشت بھی کھو دیتا ہے۔
حدیث پاک میں ہے: ''حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پورے روئے زمین سے حاصل کردہ ایک مٹھی مٹی سے پیدا فرمایا، پس بنی آدم زمین کی مٹی کی صورتوں میں آئے، پس اُن میں سے بعض سرخ، بعض سیاہ اور بعض درمیانی رنگتوں کے ہیں، (اسی طرح مٹی کے مزاج کے اعتبار سے) بعض نرم خو، بعض تند خو، بعض خبیث الفطرت اور بعض پاک طینت ہیں‘‘ (ترمذی: 2955)۔ پس حدیثِ مبارک کی رُو سے مٹی کے جتنے رنگ تھے، اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو اُن میں سے کسی نہ کسی رنگت کا حامل بنا کر پیدا فرمایا اور مٹی کے مزاج میں جو خصلتیں تھیں وہ انسان کے مزاج میں ڈھل گئیں۔ پس بعض انسان سفید رنگ کے، بعض سیاہ رنگ کے، بعض گندمی رنگ کے، بعض زرد رنگ کے اور بعض ملی جلی رنگتوں کے بھی ہیں اور اُن کے مزاج میں بھی مٹی کی خصلتیں موجود ہیں۔ پس انجامِ کار خاندانوں اور قبیلوں کا شیرازہ بکھرنا تو ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور تم سب مل کر اللہ کی رسّی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹ جائو اور اپنے اوپر اللہ کا احسان یاد کرو جب تم باہم دشمن تھے، تو اس نے تمہارے (ٹوٹے ہوئے دلوں کو) جوڑ دیا، سو تم اُس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے اور تم جہنم کی آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے تو اُس نے تمہیں اس سے نجات دی، اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیتوں کو بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پائو‘‘ (آل عمران: 103)۔ نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ''اور اُس نے مسلمانوں کے درمیان الفت پیدا فرمائی، اگر آپ روئے زمین کے تمام خزانے بھی خرچ کر دیتے تو آپ (از خود) اُن کے درمیان محبت پیدا نہ کر سکتے، لیکن اللہ ہی نے ان کے درمیان باہم محبت پیدا فرمائی ہے، بے شک وہ بہت غلبے والا، حکمت والا ہے‘‘ (الانفال: 63)۔
خلاصہ یہ کہ دلوں کا جڑے رہنا اور انسانوں کے قبیلوں اور خاندانوں میں محبت کا قائم رہنا اللہ تعالیٰ کے فضل ہی سے ممکن ہے، ورنہ یہ انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ رسول اللہﷺ نے عرب کے باہم برسرِ پیکار قبیلوں اور مہاجرین و انصار میں باہمی محبت و اُخوت کا جو رشتہ قائم کیا، اس کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''پس یہ اللہ کی رحمت کا فیضان ہی توہے کہ آپ اُن کے لیے نرم دل ہوگئے ہیں اور اگر آپ تندخُو اور سخت دل ہوتے تو یہ صحابہ (جو آپ پر پروانوں کی طرح نثار ہو رہے ہیں) آپ کے اردگرد سے منتشر ہو جاتے‘‘ (آل عمران: 159)۔
لیکن بکھرے ہوئے انسانوں کو ایک لڑی میں پروئے رکھنا اور ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑے رکھنا ایثار کے بغیر ممکن نہیں ہے اور ایثار کے معنی ہیں: ''دوسرے کو اپنے اوپر ترجیح دینا‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اور یہ (اموال) اُن کے لیے ہیں جو دارِ ہجرت اور ایمان میں ان سے پہلے (اپنے لیے) جگہ بنا چکے ہیں اور اُن سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے اُن کی طرف آئے ہیں اور اپنے دلوں میں اُس مال کی کوئی طلب نہیں پاتے جو ان مہاجرین کو دیا گیا ہے اور وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں، خواہ انہیں خود شدید حاجت ہو اور جس کو اُس کے نفس کے بخل سے بچایا گیا، سو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘ (الحشر: 9)۔
اس آیت کے شانِ نزول کی بابت حدیث پاک میں ہے: ''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی کریمﷺ کے پاس ایک (بھوکا) شخص آیا، آپﷺ نے اس کو اپنی ازواج کی طرف (کھانا کھلانے کے لیے) بھیج دیا، ازواجِ مطہّرات نے عرض کی: ہمارے پاس تو صرف پانی ہے، تب رسول اللہﷺ نے فرمایا: کون ہے جو اس شخص کو اپنے ساتھ لے جائے گا یا فرمایا: کون اسے مہمان بنائے گا؟ پس انصار کے ایک شخص نے کہا: میں (اس کو مہمان بنائوں گا)، سو وہ اُس شخص کو مہمان بناکرگھر لے گیا اور اپنی بیوی سے کہا: رسول اللہﷺ کے مہمان کی تکریم کرو۔ اس کی بیوی نے کہا: میرے پاس تو صرف اپنے بچوں کے لیے کھانا ہے۔ اُس انصاری نے کہا: اپنا کھانا تیار کرو اور چراغ جلاؤ اور جب بچے رات کے کھانے کاتقاضا کریں تو انہیں سلا دو، پس اُس کی بیوی نے کھانا تیار کیا، چراغ کو روشن کیا اور اپنے بچوں کو سلادیا، پھر وہ خاتون اِس طرح کھڑی ہوئی جیسے وہ چراغ کو درست کر رہی ہو، پس (اِس بہانے سے) اُسے بجھا دیا، یوں وہ دونوں میاں بیوی (خالی منہ چلا کر) مہمان پر یہ ظاہر کر تے رہے کہ گویا وہ بھی کھا رہے ہیں۔ سو اس خاندان نے رات بھوکے رہ کر گزاری، پھر جب صبح کو وہ انصاری شخص رسول اللہﷺ کے پاس آئے تو آپﷺنے فرمایا: آج کی رات اللہ تعالیٰ نے تم دونوں کے طرزِ عمل سے خوش ہوکر ضِحک فرمایا (جیساکہ اس کی شان کے لائق ہے)۔ پھر اللہ تعالیٰ نے (مندرجہ بالا) آیت نازل فرمائی‘‘ (صحیح بخاری: 3798)۔ الغرض صحابۂ کرامؓ ایثار کاکامل نمونہ تھے۔
حدیث پاک میں ہے: ''حبیبؓ بن ابی ثابت بیان کرتے ہیں: جنگِ یرموک کے دن حارِث بن ہشامؓ، عکرمہؓ بن ابی جہل اور عیاشؓ بن ابی ربیعہ کو پانی کی طلب تھی، (پانی لایا گیا) تو حارِث نے پینے کے لیے پانی مانگا، عِکرمہ نے اُن کی طرف دیکھا تو حارث نے کہا: عکرمہ کو دے دو، پھر عیاش بن ابی ربیعہ نے اُن کی طرف دیکھا تو عکرمہ نے کہا: عیاش کو دے دو، پس پانی عیاش تک نہ پہنچ پایا اور (جذبۂ ایثار کے باعث) اُن میں سے کوئی ایک پانی نہ پی سکا یہاں تک کہ پانی کا ایک گھونٹ چکھے بغیر (تینوں) شہید ہو گئے‘‘ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 5058)۔ مادّیت اور نفسانیت کے غلبے کے اس دور میں ایثار کی ایسی مثالوں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
الغرض قوموں، ملّتوں، قبیلوں، برادریوں اور خاندانوں کا جڑے رہنا ایثار کا تقاضا کرتا ہے، لیکن جب تمام اختیارات، مناصب اور مراعات ایک فرد یا ایک خاندان میں جمع ہو جائیں تو زیادہ دیر تک خاندانوں کا جڑے رہنا مشکل ہو جاتا ہے، اس کے لیے ایثار چاہیے، جذبۂ قربانی چاہیے، دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دینے کا سلیقہ اورشعار چاہیے۔ پاکستان کی مثال بھی ایک خاندان کی سی ہے، یہ ایک وفاق ہے جو چار اکائیوں اور بعض دیگر علاقوں پر مشتمل ہے، ایک صوبہ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ہے اور ایک صوبہ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا مگر آبادی کے لحاظ سے سب سے کم ہے۔ وہ پارلیمنٹ میں اپنی کم نمائندگی کے باعث دبائو ڈال کر اپنے مطالبات منوانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا مگر محرومی کا لاوا اندر ہی اندر پکتا رہتا ہے۔ جب یہ لاوا پھٹتا ہے تو دشمن اس کی تاک میں رہتا ہے، اُسے آکسیجن فراہم کرتا ہے، داخلی طور پر اپنے ایجنٹ پیدا کر کے اُسے ابھارتا ہے اور بین الاقوامی فورموں پر اُسے نمایاں کرتا ہے۔ پس یہاں بھی سب کو جوڑے رکھنے کے لیے ایثار چاہیے۔ اگر وفاق کی کسی ایک اکائی میں احساسِ محرومی بڑھے گا تو یہ قومی وحدت و اتفاق کے لیے نقصان دہ ہو گا، حکمت و تدبر اور وسعتِ نظر کی حامل قیادتیں چنگاری کو شعلۂ جوّالہ بننے سے پہلے بجھانے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ گھر کے جھگڑے گھر ہی میں طے کر دیے جائیں، نہ عالمی سطح پر رسوائی کا سامنا کرنا پڑے اور نہ شیرازہ منتشر ہو۔
خاندانوں میں ابنائے اَعمام (Cousins) میں رقابتیں ہوتی ہیں، پھر جیسے جیسے خاندان وسیع ہوتے ہیں، یہ رقابتیں پھیلتی جاتی ہیں اور پھر مختلف گروہ بن جاتے ہیں۔ پنجاب میں اسے ''شریکا‘‘ کہتے ہیں۔ پختونخوا کے بعض علاقوں میں اسے ''تُربور ولی‘‘ اور بعض علاقوں میں ''عزیز ولی‘‘ کہتے ہیں۔ یہ بیماری آفتابِ اسلام کے طلوع ہونے سے پہلے عرب کے خاندانوں اور قبیلوں میںبھی موجود تھی۔ قبیلوں کے درمیان عشروں تک انتقامی جنگوں اور قتل و غارت کا سلسلہ جاری رہتا۔ عالمِ عرب میں بھی قبائل کے درمیان حریف (Rival) اور حلیف (Ally) کا تصور موجود تھا۔
اعلانِ نبوت سے پہلے جب سیلاب کے نتیجے میں بیت اللہ کی عمارت منہدم ہو گئی تو قریش نے اُسے دوبارہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب تعمیر اُس سطح تک پہنچی جہاں ''حجرِ اسود‘‘ کو نصب کیا جانا تھا، تو اس اعزاز کو حاصل کرنے پر قریش کے قبائل کے سرداروں میں اختلاف ہو گیا اور اندیشہ تھا کہ قتل و غارت کی نوبت آ جائے گی یہاں تک کہ بنو عدی نے ایک بڑے پیالے میں خون ڈالا اور اُس میں انگلیاں ڈبو کر معاہدہ کیا کہ اس اعزاز کو حاصل کرنے کے لیے جان لڑا دیں گے، اس معاہدے کو ''لُعْقَۃُ الدَّم‘‘ کا نام دیا گیا۔ پھر رسول اللہﷺ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بصیرت سے اس اختلاف کو رفع کیا اور اللہ کی تقدیر سے آپﷺ کو یہ اعزاز آپ کو عطا ہوا (سیرتِ ابن ہشام، ج: 1، ص: 197)۔ الغرض ایک دوسرے کے خون کے پیاسوں کو باہم شِیر و شکر کر دینا ذاتِ نبوت کا اعجاز ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں