"MMC" (space) message & send to 7575

منصب ِ قضا …(حصہ اول)

اللہ تعالیٰ نے کائنات کے تکوینی نظام (System of the Universe) کو توازن و اعتدال پر قائم کر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور سورج اور چاند ایک (لگے بندھے) حساب کے مطابق چل رہے ہیں‘‘ (الرحمن: 5)۔ نیز فرمایا: ''سورج کی مجال نہیں کہ (چلتے چلتے) چاند سے جا ٹکرائے اور نہ رات دن سے پہلے آ سکتی ہے، یہ بہت غالب اور بڑے علم والی ہستی کا (طے شدہ) نظام ہے‘‘ (یس: 40)۔ اگر کبھی آیاتِ عبرت کے طور پر اللہ کی حکمت سے اور انسانوں کی تنبیہ کے لیے یہ نظام جزوی اور عارضی طور پر درہم برہم ہو تو زلزلے آتے ہیں، سیلاب آتے ہیں، طوفان اٹھتے ہیں، سونامی آتے ہیں، آندھیاں چلتی ہیں، ہلاکتیں اور بربادیاں ہوتی ہیں۔ اسی طرح اسلام نے انسانوں کے نظمِ اجتماعی کو توازن پر قائم رکھنے کے لیے نظامِ حکومت اور نظامِ عدل کے لیے ہدایات دی ہیں تاکہ عالَمِ انسانیت کے حقوق کا تحفظ ہو، مظلوموں کو انصاف ملے اور ظالموں کے ظلم کی طرف بڑھتے ہوئے ہاتھ جھٹک دیے جائیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے اولین خطبۂ خلافت میں اسی مقصد کو اپنی خلافت کی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے فرمایا تھا: ''تم میں سے جو (بظاہر) کمزور ہے، وہ (درحقیقت) میرے نزدیک طاقتور ہے تاوقتیکہ میں( ظالم سے) اُس کا حق چھین کر اُسے لوٹا دوں اور تم میں سے جو (بظاہر) طاقتور ہے، وہ میرے نزدیک کمزور ہے تاوقتیکہ میں اُس سے مظلوم کا حق واپس لے لوں‘‘۔
عدل کی فراہمی جن کے کندھوں پر ہے، انہیں کبھی امیر، کبھی امام، کبھی حاکم اور کبھی قاضی سے تعبیر کیا گیا ہے، الغرض نظامِ عدل کے لیے شریعت میں واضح احکامات ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانت اُس کے حق داروں تک پہنچا دو اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے لگو تو انصاف پر مبنی فیصلہ کرو، بے شک اللہ تمھیں کتنی عمدہ نصیحت فرماتا ہے، بے شک اللہ خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا ہے‘‘ (النسآء: 58)۔ چونکہ عدالت میں کسی کے حق کا ثبوت شہادت پر موقوف ہوتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں شہادت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ''اے ایمان والو! عدل پر مضبوطی سے قائم رہنے والے اور اللہ کے لیے گواہی دینے والے بن جائو، خواہ یہ گواہی تمہاری ذات یا تمہارے ماں باپ اور رشتے داروں کے خلاف ہو، (فریقِ معاملہ) خواہ امیر ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کاخیرخواہ ہے، پس تم خواہش کی پیروی کر کے عدل سے روگردانی نہ کرو اور اگر تم نے گواہی میں ہیر پھیر کیا یا پہلو تہی اختیار کی تو اللہ تمہارے سب کاموں سے خوب باخبر ہے‘‘ (النسآء: 135)۔ کبھی حاکمِ یا قاضی کی ذاتی نفرت یا عداوت عدل کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے، اس پر متنبہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اے ایمان والو! اللہ کے لیے (حق پر) مضبوطی سے قائم رہنے والے ہو جائو دراں حالیکہ تم انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے ہو اور کسی قوم کی عداوت تمہیں ناانصافی پر نہ ابھارے، (ہرصورت میں) عدل کرو، یہ (شِعارِ عدل) تقوے کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تمہارے کاموں کی بہت خبر رکھنے والا ہے‘‘ (المائدہ: 8)۔ نیز فرمایا: ''اورگواہی کو نہ چھپائو اور جو (حق کی) گواہی کو چھپائے گا، اُس کا دل گناہگار ہے اور اللہ تمہارے کاموں کو خوب جاننے والا ہے‘‘ (البقرہ: 283)۔
عدل کا ترازو پلِ صراط کی طرح ہے، جہاں ذرا سی لغزش جہنم کی اتھاہ گہرائیوں میں گرا دیتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''قاضی تین قسم کے ہیں: ایک جنت میں جائے گا اور دو جہنم میں جائیں گے، پس جو حق کو جانتا ہے اور حق پر مبنی فیصلے بھی کرتا ہے، تو وہ جنت میں جائے گا اور جو حق کو جانتے ہوئے ناحق فیصلہ کرتا ہے، وہ جہنم میں جائے گا اور جو جہل پر مبنی فیصلہ کرے گا، وہ بھی جہنم میں جائے گا‘‘ (ابودائود: 3573)، اس کے برعکس رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جب حاکم (قاضی) فیصلہ کرے اور وہ حق تک رسائی کے لیے اپنی پوری علمی اور فکری توانائیوں کو صرف کرکے صحیح نتیجے پر پہنچ جائے تو اُس کے لیے دو اجر ہیں اور اگر وہ اپنی پوری علمی اور فکری توانائی صرف کرنے کے باوجود بشری کوتاہی سے غلط نتیجے پر پہنچے، تو بھی اُس کے لیے ایک اجر ہے‘‘ ( ترمذی: 1326)، یعنی اُس نے اپنی طرف سے کسی کی رُو رعایت یا کسی کی طرف میلان یا کسی کی نفرت سے بچتے ہوئے حق تک پہنچنے کے لیے اپنی پوری علمی اور فکری توانائی کو پوری دیانت داری سے صَرف کیا، تو نتیجے میں خطا کے باوجود اس ذہنی ریاضت اور فکری دیانت پر ایک اجر کا حق دار ہو گا۔ اسی لیے منصبِ قضا کو طلب کرنا شریعت میں ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: (1) ''جس نے منصبِ قضا کو طلب کیا حتیٰ کہ اُسے پا لیا، پھر اس کا عدل اس کے ظلم پر غالب آ گیا تو اُس کے لیے جنت ہے اور جس کا ظُلم اُس کے عدل پر غالب آ گیا تو اس کے لیے جہنم ہے‘‘ ( ابودائود: 3575)، (2) ''قاضی کو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل ہوتی ہے جب تک کہ وہ ظلم نہ کرے، پس جب وہ ظلم کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر کی توفیق سے محروم ہو جاتا ہے اور شیطان اُس کو چپک جاتا ہے‘‘ ( ترمذی: 1330)، (3) ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے قضا طلب کی اور اُس پر دوسروں سے مدد چاہی تو اُسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا اور جو نہ قضا طلب کرے اور نہ اُس پر دوسروں سے مدد مانگے (اور بن مانگے اُسے منصبِ قضا مل جائے) تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ نازل فرماتا ہے جو اُسے سیدھی راہ پر رکھتا ہے‘‘ (ابودائود: 3578)۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے مجھے قاضی بنا کر یمن کی طرف بھیجا تو میں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! آپ مجھے قاضی بناکر بھیج رہے ہیں، حالانکہ میں نوعمر ہوں اور مجھے قضا کا علم بھی نہیں ہے تو آپﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تمہارے دل کو راستی پر رکھے گا اور تمہاری زبان کو حق پر جمائے رکھے گا، پس جب تم دو فریقوں کے درمیان فیصلہ کرنے بیٹھو تو اُس وقت تک فیصلہ نہ کرو حتیٰ کہ تم دوسرے فریق کا موقف بھی سن لو جیسا کہ تم نے پہلے فریق کا موقف سنا تھا، یہی شِعار اس لائق ہے کہ تم پر قضا کی حقیقت واضح ہو جائے گی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پھر میں ہمیشہ قاضی رہا اور اس کے بعد مجھے کبھی بھی فیصلہ کرنے میں کوئی تردُّد نہیں ہوا۔ ( ابودائود: 3582)۔
آج کل وکالت کا شعبہ کافی ترقی پر ہے اور ماہر وکلا کی بڑی بھاری فیسیں ہوتی ہیں، ایسے حالات کی بابت رسول اللہﷺ نے تعلیمِ امت کے لیے فرمایا: ''میں بشر ہوں اور تم میرے پاس اپنے مقدمات لے کر آتے ہو اور شاید تم میں سے ایک فریق دوسرے فریق کے مقابلے میں حجت بازی میں بڑا ماہر ہو، میں اس کا موقف سن کر اس کے حق میں فیصلہ دیدوں، تو میں نے اُس کے بھائی کے حق میں سے جس چیز کا اُس کے حق میں فیصلہ دیا ہے (اگر وہ درحقیقت اس کی نہیں ہے) تو وہ اُس چیز کو نہ لے، بلکہ (وہ سمجھ لے) کہ میں اُسے جہنم کی آگ کا ٹکڑا دے رہا ہوں‘‘ (بخاری: 7168)۔ رسول اللہﷺ کو تو اللہ تعالیٰ اشیا اور معاملات کی حقیقت پر مطلع فرماتا تھا، یہ بات آپﷺ نے تعلیمِ امت کے لیے ارشاد فرمائی کہ حجت بازی، مکر و فریب اور حیلے سے دوسرے کا حق لینا جائز نہیں ہے اور آخرت میں اس کی جواب دہی ہو گی۔
احادیثِ مبارکہ کا خلاصہ یہ ہے کہ عادل قاضی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق نصیب ہوتی ہے اور ظالم قاضی اس سے محروم رہتا ہے: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ قاضی کے ساتھ ہوتا ہے، جب تک کہ وہ ظلم نہ کرے، پس جب وہ ظلم کرے تو اللہ کی حفاظت اُس سے اٹھ جاتی ہے اور اُسے اس کے نفس کے حوالے کر دیا جاتا ہے‘‘ (ابن ماجہ: 2312)، اسی لیے رسول اللہﷺ تعلیمِ امت کے لیے دعا فرمایا کرتے تھے (1): ''اے اللہ! تو میرے نفس کو اُس کا تقویٰ عطا فرما، اِسے (نفسانی کمزوریوں سے) پاک فرما، کیونکہ تو ہی اسے بہترین پاکیزگی عطا فرمانے والا ہے‘‘ ( مسلم: 2722)، (2) ''اے اللہ! میری تیری رحمت پر یقین رکھتا ہوں، سو تو مجھے پلک جھپکنے کی مقدار بھی میرے نفس کے سپرد نہ فرما اور میرے تمام معاملات کی اصلاح فرما‘‘ (ابودائود: 5090)۔ قاضی پر یہ بھی لازم ہے کہ مقدمے کے دونوں فریقوں کے ساتھ یکساں برتائو کرے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''مقدمے کے دونوں فریق قاضی کے سامنے یکساں بیٹھیں‘‘ (ابودائود: 3588)۔
اس حوالے سے حضرت زید بن ثابتؓ کا حضرت عمرؓ اور حضرت ابی بن کعبؓ کے درمیان فیصلہ ایک بہترین مثال ہے۔ حضرت عمرؓ اور حضرت ابی بن کعبؓ کے درمیان ایک معاملے میں اختلاف ہو گیا، حضرت عمرؓ نے فرمایا: اپنے اور میرے درمیان کسی کو حَکَم (قاضی) بنا لو، دونوں نے حضرت زید بن ثابتؓ کو حَکم بنایا اور دونوں ان کے پاس آئے۔ حضرت عمرؓ نے کہا: ہم فیصلہ کرانے کے لیے آپ کے پاس آئے ہیں، جب دونوں ان کے پاس فیصلہ کے لیے پہنچے تو حضرت زیدؓ اپنی نشست سے ہٹ گئے اور عرض کی: امیر المومنین! یہاں تشریف رکھیے، حضرت عمرؓ نے فرمایا: یہ تم نے پہلی ناانصافی کی، میں اپنے فریق کے ساتھ بیٹھوں گا۔ دونوں حضرات ان کے سامنے بیٹھ گئے، حضرت اُبی بن کعبؓ نے دعویٰ کیا اور حضرت عمرؓ نے ان کے دعوے کا انکار کیا (شریعت کا اصول یہ ہے کہ مدعی اپنے دعوے کے حق میں گواہ پیش کرے اور اگر اس کے پاس گواہ نہ ہوں اور مدعیٰ علیہ دعویٰ تسلیم کرنے سے انکاری ہو تو اُسے قسم دی جائے گی)، حضرت زیدؓ نے حضرت ابی بن کعبؓ سے کہا: امیر المومنین کو حلَف سے معاف رکھو، حضرت عمرؓ نے(شریعت کے تقاضے کے مطابق) قسم کھا لی اور کہا: جب تک زید بن ثابت کے نزدیک عمر اور دوسرا فریق برابر نہ ہوں، انہیں کوئی فیصلہ سپرد نہ کیا جائے‘‘ (سنن الکبریٰ للبیہقی: 20463)، یعنی جو مدعی اور مدعیٰ علیہ میں کسی قسم کی تفریق کرے، وہ قاضی بننے کا اہل نہیں ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں