"MMC" (space) message & send to 7575

منصبِ قضا ..... (2)

امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک نصرانی کے مقابل اپنی زِرہ کے مقدمے میں قاضی شُریح کی عدالت میں پیش ہوئے۔ قاضی شُریح کو روزِ روشن کی طرح یقین تھا کہ زِرہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ہے اور وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں‘ لیکن اسلامی قانونِ عدل کے مطابق ان کے پاس گواہ نہیں تھے‘ کیونکہ آپ نے اپنے بیٹے حسَن اور اپنے غلام قَنبر کو گواہ کے طور پر پیش کیا۔ قاضی نے کہا: بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں اور غلام کی گواہی آقا کے حق میں معتبر نہیں ہے‘ اس لیے اُن کے خلاف فیصلہ دیا۔ یہ منظر دیکھ کر نصرانی حیران ہوگیا کہ مسلمانوں کا خلیفہ ایک غیرمسلم کے مقابل مساوی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوا‘ قاضی نے اُس کے خلاف فیصلہ صادر کیا اور انہوں نے اس فیصلے کو خوش دلی سے قبول کر لیا‘ (یہ معیارِ عدل دیکھ کر) اُس نصرانی نے اعترافِ جرم کیا کہ آپ نے یہ زِرہ لشکر کے کسی آدمی سے خریدی تھی اور پھر یہ آپ کے خاکستری اونٹ سے گر گئی اور میں نے اسے اٹھا لیا تھا۔ مثالی عدل کا یہ منظر دیکھ کر نصرانی ایمان لے آیا‘ کلمہ شہادت پڑھا‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وہ زِرہ اُسے ہبہ کردی اور اس کا وظیفہ دو ہزار درہم مقرر کیا‘ پھر وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا یہاں تک کہ جنگِ صفین میں جامِ شہادت نوش کیا‘ (السنن الکبریٰ للبیہقی ج:10، ص:136، ملخّصاً)۔ میرٹ کو کسی قیمت پر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے‘ چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:
(۱) ''حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک پالتو بکری کا دودھ دوہا گیا‘ اس وقت آپؐ اُن کے گھر میں تھے‘ حضرت انسؓ کے گھر کے کنویں سے پانی لے کر اس دودھ میں ملایا گیا تھا‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ دودھ پیش کیا گیا‘ آپؐ نے اس دودھ سے پیا پھر اس پیالے کو اپنے منہ سے الگ کردیا۔ آپؐ کی بائیں جانب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور دائیں جانب ایک اَعرابی تھا۔ حضرت عمرؓ کو یہ خوف ہوا کہ آپ اپنا پس خوردہ دودھ اَعرابی کو دیدیں گے تو انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ابوبکرؓ آپ کے پاس ہیں‘ آپؐ ان کو عطا کردیں، لیکن آپؐ نے وہ دودھ اس اَعرابی کو دے دیا جو آپؐ کی دائیں طرف تھا۔ پھر آپؐ نے فرمایا: دائیں طرف سے دو‘ پس دائیں طرف سے دو‘ (صحیح البخاری:2352)‘‘۔ سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضیلت پر اصول کو ترجیح دی اور میرٹ کو قائم رکھا کیونکہ ہر کام کو دائیں جانب سے شروع کرنا آپؐ کی سنت ہے۔
علامہ بدرالدین عینی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: ''اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو دائیں جانب بیٹھا ہو‘ اس کو ترجیح دینی چاہیے خواہ وہ کم درجہ کا ہو اور جب اصول یہ ہے کہ دائیں جانب سے ابتدا کرنی چاہیے تو اس اصول پر عمل کرنا چاہیے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس عمل سے یہ بتایا ہے کہ اصول کو توڑنا نہیں چاہیے‘ خواہ اصول پر عمل کرنے کی وجہ سے اعرابی کو حضرت ابوبکر پر ترجیح دینی پڑے‘ (عمدۃ القاری ،ج:12،ص:270)‘‘۔
(۲) ''حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بحرین سے مال آیا اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے والے اموال میں سب سے زیادہ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو مسجد میں پھیلادو‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے کے لیے چلے گئے اور آپؐ نے اس مال کی طرف کوئی توجہ نہیں کی‘ جب آپؐ نے نماز پڑھ لی تو آپؐ اس مال کے پاس آکر بیٹھ گئے‘ آپؐ جس شخص کو بھی دیکھتے‘ آپؐ اس کو اس مال سے عطا کرتے‘ اچانک آپؐ کے پاس (آپ کے چچا) حضرت عباس رضی اللہ عنہ آگئے اور انہوں نے عرض کی: یارسول اللہ! مجھے دیجیے! کیونکہ میں نے اپنا فدیہ بھی دیا تھا اور عقیل کا فدیہ بھی دیا تھا‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے فرمایا: آپ لے لیں‘ انہوں نے اپنا کپڑا بچھایا اور اس میں مال ڈالا حتیٰ کہ اس کی چوٹی (بڑا ڈھیر) بن گئی‘ پھر وہ اس کو اٹھا نہ سکے‘ انہوں نے کہا: یارسول اللہ! آپ کسی سے کہیے کہ وہ اس کو اٹھاکر میرے اوپر رکھ دے‘ آپؐ نے فرمایا: نہیں، انہوں نے کہا: پھر آپ اس کو اٹھا کر میرے اوپر رکھ دیں‘ آپؐ نے فرمایا: نہیں، انہوں نے اس سے مال کم کیا‘ پھر بھی اس کی چوٹی بن گئی‘ پس انہوں نے کہا: یارسول اللہ! آپ کسی سے کہیے: یہ مال اٹھاکر میرے اوپررکھ دے‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں‘ انہوں نے کہا: اچھا! آپ خود اٹھاکر میرے اوپر رکھ دیں‘ آپ نے فرمایا: نہیں‘ انہوں نے اس سے کچھ مال کم کیا‘ پھر اٹھاکر اس کو اپنے کندھے کے اوپر رکھ لیا‘ پھر چلے گئے اور ان کی حرص پر تعجب کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر مسلسل ان کا پیچھا کرتی رہی حتیٰ کہ وہ نظر سے اوجھل ہوگئے اور جب تک وہاں ایک درہم بھی باقی تھا‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نہیں اٹھے‘ (صحیح البخاری:421)‘‘۔ غور کا مقام ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا بھی تھے اور آپ سے عمر میں بھی بڑے تھے لیکن آپؐ چونکہ بحیثیتِ حاکم مال کو تقسیم فرمارہے تھے‘ اس لیے آپ نے عدل کے اصول کو قائم رکھا اور قرابت کو ترجیح نہیں دی کیونکہ آپؐ نے ہر ایک کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ جتنا مال خود اٹھا سکتا ہے‘ اٹھالے۔
(۳) ''حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئیں‘ وہ آپ سے یہ شکایت کرنے گئی تھیں کہ چکی پیسنے سے ان کے ہاتھ میں چھالے پڑ گئے ہیں اور ان کو یہ خبر پہنچی تھی کہ آپ کے پاس کچھ غلام آئے ہیں‘ لیکن حضرت سیدہ کی آپ سے ملاقات نہیں ہوئی‘ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر آئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت سیدہ فاطمہؓ کے آنے کی آپ کو خبر دی‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے‘ اس وقت ہم اپنے بستر میں جا چکے تھے‘ ہم آپ کو دیکھ کر اٹھنے لگے تو آپ نے فرمایا: اپنی جگہ پر رہو‘ آپ آکر میرے اور حضرت سیدہ کے درمیان بیٹھ گئے‘ حتیٰ کہ آپ کے قدموں کی ٹھنڈک میں نے اپنے پیٹ پر محسوس کی‘ پھر آپ نے فرمایا: کیا میں تم دونوں کو وہ چیز نہ بتائوں جو تم دونوں کے سوال سے بہتر ہے‘ جب تم دونوں اپنے بستروں پر جائو تو ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ پڑھو‘ ۳۳مرتبہ الحمد للہ پڑھو اور ۴۳ مرتبہ اللہ اکبر پڑھو، پس یہ پڑھنا تم دونوں کے لیے خادم سے بہتر ہے، (صحیح البخاری:۵۳۶۱)‘‘۔پس غور کیجیے! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مالِ غنیمت میں غلام اور باندیاں آئیں‘ آپ نے ان میں سے سب لوگوں کو حصہ دیا‘ نہیں دیا تو اپنی سب سے محبوب ترین صاحبزادی کو‘ جن کے ہاتھ پر چکی پیستے پیستے چھالے پڑ گئے تھے۔ آج ہمارے ہاں اقربا پروری اور دوست نوازی کا جو دور دورہ ہے‘ کیا اسے شِعار نبوت سے کوئی نسبت ہے ۔
قاضی کو مغلوب الغضب ہوکر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے‘ حدیث پاک میں ہے: ''حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: کوئی شخص غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے‘ (مسلم:1717)، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ غصے کے عالم میں اس سے بے انصافی ہو جائے‘ اسلام نے یہ اصول بھی بتایا کہ فیصلہ کرنے میں بہتر معیار کو قائم رکھنا چاہیے‘ قرآنِ کریم میں ہے: ''اور داؤد اور سلیمان کو یاد کیجیے! جب وہ ایک کھیت (کے تاراج ہونے کے بارے میں) فیصلہ کر رہے تھے‘ جب کچھ لوگوں کی بکریوں نے رات میں اس کھیت کو اجاڑ دیا تھا اور ہم ان کے اس فیصلے کو دیکھ رہے تھے‘ سو ہم نے سلیمان کو اس کا صحیح فیصلہ سمجھا دیا اور ہم نے دونوں کو قضا کی اہلیت اور (نبوت کا) علم عطا کیا تھا‘ (الانبیاء:78-79)‘‘، اس کی تفصیل میں علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے:
''حضرت داؤد علیہ السلام کی خدمت میں ایک مقدمہ پیش ہوا کہ ایک شخص کے کھیت میں رات کے وقت دوسرے لوگوں کی بکریاں آگئیں اور کھیت کا نقصان کردیا‘ حضرت داؤد علیہ السلام نے یہ دیکھ کر کہ بکریوں کی قیمت اس مالیت کے برابر ہے جس کا کھیت والے نے نقصان اٹھایا تھا‘ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ بکریاں کھیت والے کو دیدی جائیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: میری رائے یہ ہے کہ کھیت والا اپنے پاس بکریاں رکھے اور ان سے فائدہ اٹھائے اور بکریوں والے کھیت کو دوبارہ اصل حالت پر لانے کے لیے کھیتی باڑی کریں اور جب کھیت پہلی حالت پر واپس آجائے تو بکریاں ان کے مالکوں کو لوٹا دیں اور کھیت والے اپنا کھیت لے لیں‘ اس میں دونوں کا نقصان نہ ہوگا۔ حضرت دائود نے یہ فیصلہ سن کر حضرت سلیمان کی تحسین فرمائی اور اپنی رائے سے رجوع کر لیا‘ فقہی اصطلاح میں حضرت دائود نے حضرت سلیمان کے استحسان کے مقابلے میں اپنے قیاس سے رجوع فرما لیا‘ (شرح صحیح مسلم‘ ج: 3، ص: 319-320)‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں