''جہاد‘‘ ایک جامع اصطلاح ہے، گزشتہ کچھ عشروں سے دشمنانِ اسلام نے جہاد کو فساد کا ہم معنی قرار دے رکھا ہے۔ یہ نظریہ فریب ہے، باطل ہے اور اسلام سے نفرت کا آئینہ دار ہے۔ جہاد کے اپنے تقاضے اور حدود و قیود ہیں۔ اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ مسلمان ہر وقت اور ہر ایک کے ساتھ جِدال و قِتال کے لیے آمادہ رہتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہم ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس وقت جن اقوام کو دنیا پر مادّی وسائل اور حربی صلاحیت کے اعتبار سے غلبہ حاصل ہے‘ انہوں نے آج تک دانستہ انتہا پسندی (Extremism)، دہشت گردی (Terrorism)، عسکریت پسندی (Militancy) کی کوئی جامع مانع متفق علیہ (Comprehensive & Agreed upon) تعریف نہیں کی تاکہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں، ان الزامات کو ایک حربے کے طور پر مسلمانوں کے خلاف استعمال کر سکیں۔ انہوں نے حریّتِ وطن کی جِدّوجُہد (Struggle for Freedom) اور دہشت گردی میں بھی نہ تفریق کی ہے اور نہ ان دونوں کے درمیان ''مابہ الامتیاز (Distinctive Feature) بتایا ہے۔ انسانی تاریخ میں جِدال و قِتال ہمیشہ ایک غیر مطلوب اور ناگزیر ترجیح رہی ہے۔
رسول اللہﷺ نے ایک موقع پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ''لوگو! دشمن سے تصادم کی تمنا نہ کرو اور اللہ سے عافیت مانگتے رہو، لیکن جب (ناگزیر طور پر) دشمن سے ٹکرائو ہو جائے تو (پھر) صبر کرو (اور ثابت قدم رہو)‘‘ (صحیح بخاری: 2966)۔ امریکیوں کے اجداد نے بھی برطانوی استعمار سے آزادی کے لیے اٹھارہویں صدی کے رُبعِ آخر میں مسلح جِدّوجُہد شروع کی تھی اور امریکی آج بھی اپنی آزادی کے لیے مسلّح جِدّوجُہد کرنے والوں کو اپنا ہیرو اور نشانِ افتخار (Symbol of Pride) مانتے ہیں۔
بھارتی دستور کے آرٹیکل 25 تا 30 کے تحت بھارتی شہریوں کو آزادیِٔ ضمیر و آزادیِٔ مذہب کی اجازت ہے، انہیں اپنے مذہب، زبان، رسم الخط، ثقافت، مذہبی تعلیم اور رفاہی مقاصد کے لیے ادارے قائم کرنے، وقف قائم کرنے اور اُن کے انتظامی امور کو چلانے کا حق حاصل ہے۔ جبکہ ڈاکٹر پروین بائی توگڑیا جیسے متعصب ہندو توا کے نظریات کے حامل لوگ مسلمانوں کے آئینی حقوق کو سلب کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ اُن کے نزدیک مسلمانوں کے دینی مدارس و جامعات معاذ اللہ! کینسر ہیں اور ان کو جڑ سے اکھیڑنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں جن مقامی باشندوں نے اسلام قبول کیا ہے‘ انہیں ہندو توا کے حامی دَلِت اور ملیچ سمجھتے ہیں، جو اُن کے نزدیک قابلِ نفرت و حقارت ہیں۔
اسلام آفاقی دعوتی دین (Missionary Religion) ہے، اسے کسی خاص ملک کی سرحدوں کے اندر محدود نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی دعوت سارے عالَمِ انسانیت کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''(اے رسولِ مکرّم!) آپ کہیے: لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں‘‘ (الاعراف: 158)، رسول اللہﷺ نے فرمایا (1): ''(مجھ سے پہلے) نبی ایک خاص قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور مجھے سارے عالَمِ انسانیت کے لیے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘ (صحیح بخاری: 335)، (2) ''مجھے تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہے اور مجھ پر نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے‘‘ (صحیح مسلم: 523)۔
اسلام میں دین اور ملّت ہم معنی ہیں، ان میں فرق محض اعتباری ہے: شریعت‘ اِس حیثیت سے کہ اُس کی اطاعت کی جاتی ہے، دین ہے اور جب اُسے مدوَّن اور منضبط کر دیا جائے تو یہ ملّت اور مذہب کہلاتی ہے۔ دین اللہ کی طرف منسوب ہوتا ہے، ملّت رسول کی طرف منسوب ہوتی ہے اور مذہب مجتہد کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ ہر ملّت دین ہے، لیکن ہر دین ملّت نہیں ہے۔ وہ قوم یا گروہ جس کی طرف کوئی رسول مبعوث کیا گیا ہے، امت کہلاتی ہے۔ سو تمام مسلمانانِ عالم سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی اُمّتِ اجابت (Followers) ہیں، اس نظریے سے مسلمان کبھی بھی دست بردار نہیں ہو سکتے۔ مسلمان مصلحت پسندی کا شکار ہو کر غیر مسلموں کے ساتھ کتنی ہی ملایَنت (Leniency) اور ملاطفت کا برتائوکریں یا مداہنت سے کام لیں‘ قرآنِ کریم نے متنبہ کیا ہے کہ کافر اس حد تک جانے کے باوجود تم سے خوش نہیں ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1) ''اور یہود و نصاریٰ آپ سے ہرگز راضی نہیں ہوں گے تاوقتیکہ آپ ان کی ملّت کی پیروی کریں، آپ کہیے: اللہ کی (دی ہوئی) ہدایت ہی (حقیقی ) ہدایت ہے (اور اے مخاطَب!) اگر (حق کا) علم آنے کے بعد بھی تم اُن کی خواہشات کی پیروی کرو گے تو تمہیں اللہ (کے عذاب سے) بچانے کے لیے نہ کوئی دوست ہو گا اور نہ مددگار‘‘ (البقرہ: 120)، (2) ''اور اگر آپ اہلِ کتاب کے پاس ہر قسم کی نشانیاں بھی لے کر آ جائیں، پھر بھی وہ آپ کے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے، نہ آپ ان کے قبلے کی پیروی کرنے والے ہیں، نہ وہ ایک دوسرے کے قبلے کی پیروی کرنے والے ہیں اور (اے مخاطَب!) اگر علم حاصل ہونے کے بعد تم نے اُن کی خواہشات کی پیروی کی تو تم بے شک ضرور ظلم کرنے والوں میں سے ہو گے‘‘ (البقرہ: 145)، (3) ''اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بنائو، وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو اُنہیں دوست بنائے گا تو یقینا وہ ان ہی میں سے ہو گا، بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘ (المائدہ: 51)۔
الغرض اگرچہ کفار کے درمیان باہم مفادات کا ٹکرائو (Conflict of Interest) بھی ہوتا ہے، وہ ایک دوسرے کو ناپسند بھی کرتے ہیں، لیکن جب ان کا مقابلہ اسلام اور مسلمانوں سے ہو جائے تو پھر وہ اپنے باہمی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر اسلام کے مقابل یکجا ہو جاتے ہیں؛ چنانچہ مشہور مقولہ ہے: ''اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَّاحِدَۃٌ‘‘، یعنی سارے کافر اسلام کے مقابل ایک ہی ملّت ہیں۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمان اپنے تصورِ امّت اور ملّت سے دست بردار ہو کر اپنے سارے امتیازات اور خصوصیات کو چھوڑ دیں اور کافروں میں اس حد تک گھل مِل جائیں کہ ان کا کوئی امتیاز باقی نہ رہے۔ علامہ اقبال نے اسی حقیقت کو عام فہم زبان میں بیان کیا ہے:
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسَب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے، جَمعِیَّت تیری
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اسی حقیقت کو بیان فرمایا ہے: ''اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرو، بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، بے شک اللہ خوب جاننے والا، بے حد خبر رکھنے والا ہے‘‘ (الحجرات: 13)۔ علامہ اقبال نے کہا ہے:
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں، مَحفلِ انجم بھی نہیں
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
قرآنِ کریم نے غزوۂ بدر کو ''یوم الفرقان‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اس کے معنی ہیں: ''حق کو باطل سے ممتاز کرنے والا دن‘‘۔ غزوۂ بدر میں جو لشکر ایک دوسرے کے مقابل صف آرا تھے، اُن میں دنیاوی لحاظ سے ایک دوسرے سے جڑے رہنے کے تمام اسباب موجود تھے۔ اُن کی زبان ایک تھی، نسب، قبیلہ اور برادری ایک تھی، خونی رشتے بھی موجود تھے، رنگ بھی ایک تھا حتیٰ کہ اگر ایک طرف باپ تھا تو دوسری طرف بیٹا، ایک طرف چچا تھا تو دوسری طرف بھتیجا، بعض ابنائے اَعمام (Cousins) تھے، ایک طرف ماموں تھا تو دوسری طرف بھانجا، الغرض وہ تمام نسبتیں موجود تھیں جو انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ باہم ٹکرائے اور فیصلہ کن جنگ ہوئی۔ یہی منظر غزوۂ اُحد اور غزوۂ خندق میں تھا، کم وبیش یہی رشتے صلح حدیبیہ کے موقع پر موجود تھے، لیکن جب یہ رشتے اسلام سے متصادم ہوئے تو امام الانبیاء والرُّسل،خاتِمُ النَّبِیّٖن سیدنا محمد رسول اللہﷺ اور آپ کے جانثار صحابہ نے رشتۂ اسلام کو مقدم رکھا اور ان تمام رشتوں، نسبتوں اور قربتوں کو اسلام پر قربان کر دیا۔
اقوامِ عالَم اگرچہ نظریاتی طور پر حقوقِ انسانیت، حقِ آزادیٔ مذہب اور حقِ آزادیٔ اظہار کی داعی ہیں اور حقوقِ انسانی کے منشور پر دستخط کر چکی ہیں، اپنے آپ کو اُن کا پابند سمجھتی ہیں، لیکن کشمیر، فلسطین، مشرقی تیمور اور سوڈان کے حوالے سے ان کے معیارات بدل جاتے ہیں۔ بھارت چونکہ آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا ملک ہے، ایک بڑی عالمی منڈی ہے، بظاہر آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا جمہوری ملک ہے، اُس کی معیشت بھی مستحکم ہے، نیز امریکہ اور اس کے اتحادی اُسے چین کے مقابل قوت بنانا چاہتے ہیں تاکہ وہ چین کے لیے خطرہ بنا رہے اورچین اپنے سیاسی و اقتصادی مفادات کو پوری دنیا پر حاوی نہ کر سکے، اس لیے بھارت کی جانب سے حقوقِ انسانی، مذہبی منافرت و عصبیت اور اقلیتوں پر مظالم کے حوالے سے اس کے خلاف انضباطی اور تادیبی اقدامات نہیں کیے جاتے، صرف رسمی بیانات پر اکتفا کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے بھارت اقوامِ عالَم کی پروا بھی نہیں کرتا، کیونکہ چین کے محاصرے کے لیے بڑی اقوام کا جو چار رکنی اتحاد (Quad) بنایا گیا ہے، اس میں امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ بھارت بھی شامل ہے۔ ماضی میں جب امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان دنیا کے ممالک کو اپنے زیرِ اثر لانے کے لیے سرد جنگ جاری تھی، تو اُس وقت نہرو کی قیادت میں بھارت غیر وابستہ ممالک (Non Alliend Countries)کی قیادت کر رہا تھا، لیکن اب نریندر مودی کی قیادت میں بھارت نے غیر وابستگی کا چولا اتار پھینکا ہے اور وہ چین کے مقابل امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے ساتھ کھڑا ہے، حالانکہ اس وقت بھی بھارت چین کا ایک بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔
اللہ تعالیٰ کی قدرت سے بیشتر مسلم ممالک بحری اور برّی ذرائع سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے بعض مسلم ممالک کو معدنیات کی بے پناہ دولت سے مالا مال کر رکھا ہے، یہ ممالک عالمی تجارتی گزرگاہوں پر واقع ہیں، ان کی مجموعی آبادی بھی بہت ہے، اگر یہ صدقِ دل سے اپنی اپنی خود مختاری کو قائم رکھتے ہوئے ایک مشترکہ بلاک اور مشترکہ منڈی قائم کریں تو بلاشبہ عالمی پالیسیوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے اور نہ اس کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ ان مسلم ممالک میں باہم آویزش بھی جاری ہے، ان میں سے بیش تر امریکہ اور مغرب کے زیرِ اثر ہیں، بعض ممالک بدستور روس کے زیرِ اثر ہیں، اس لیے یہ اپنی کوئی متفقہ پالیسی بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، یعنی آزاد ہوتے ہوئے بھی آزاد نہیں ہیں، ورنہ بھارتی انتہا پسند کبھی بھی مسلمانانِ ہند کے بارے میں یہ رویہ اختیار کرنے کی جسارت نہ کر پاتے۔