ہمارے ملک میں جب کوئی لڑکی اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ جاتی ہے اور پھر نکاح رچاتی ہے، تو قانون نافذ کرنے والے ادارے سب سے پہلے نکاح خواں کو تلاش کرتے ہیں اور اُسے حوالات یا جیل میں بند کر دیتے ہیں اور اس کی ضمانت بھی منظور نہیں ہوتی۔ نہ جانے یہ عدل کا کون سا معیار ہے، عدالت تو انصاف دینے کے لیے ہوتی ہے، لیکن یہ ایسا ہی انصاف ہے: '' کسی بادشاہ کی ریاست میں قتل ہوگیا، قاتل کے لیے پھندا تیار ہوا اور پھر شاہی حکم صادر ہوا: ''جس کے گلے میں یہ پھندا فِٹ آ جائے، اُسے سولی پر لٹکا دو‘‘، یعنی اس سے غرض نہیں کہ قاتل کون ہے۔
نکاح خواں تو دیہات میں کسی چودھری، وڈیرے یا سردار کے زیرِ نگیں ہوتا ہے، آج کل شہری علاقوں میں بھی ایسے دادا گیر اور رسّہ گیر موجود ہیں، جن کا حکم چلتا ہے اور ریاست کسی کی داد رسی نہیں کر پاتی۔ فی زمانہ بات عدالت تک پہنچ جائے تو کافی سرمایہ چاہیے، جو ہر ایک کے پاس نہیں ہوتا۔
میرا سوال یہ ہے: کس قانون میں نکاح خواں کی یہ ڈیوٹی لگائی گئی ہے کہ وہ نکاح سے پہلے تحقیقی و تفتیشی ادارے (Investigating Agency) کا کردار ادا کرے یا اُن اداروں کو حکم صادر کرے کہ وہ نکاح سے پہلے تحقیق وتفتیش کر کے اُسے حقائق سے آگاہ کریں یا نکاح خواں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ نکاح سے پہلے میڈیکل بورڈ بناکر نکاح کرنے والی لڑکی کی عمر کا تعین کرے، یہ اختیار تو صرف عدالت کے پاس ہے اور نکاح خواں عدالت نہیں ہوتا۔ نکاح خواں نکاح فارم میں وہی معلومات درج کرتا ہے جو فریقین اُسے فراہم کرتے ہیں، نہ اُس کا کام تحقیق و تفتیش ہے، نہ قانون نے اسے اس کا پابند کیا ہے اور نہ یہ تاریخ کے کسی دور میں ہمارے ہاں رائج رہا ہے کہ نکاح خواں نکاح سے پہلے مندرجات کی تحقیق کرے۔ نیز خطبۂ نکاح سنّت ہے اور اس کا مقصد اعلانِ نکاح ہے، اُس میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثناکی جاتی ہے، اُس کے رسولِ مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجا جاتا ہے اور نکاح کے احکام کے متعلق آیات و احادیث پڑھی جاتی ہیں، لیکن نکاح کے شرعی اور قانونی طور پر جائز ہونے کے لیے خطبۂ نکاح لازمی شرط نہیں ہے، اسی طرح نکاح خواں کا کردار بھی لازمی نہیں ہے، اس کی خدمات تو صرف برکت، دعا اور شرعی رہنمائی کے لیے حاصل کی جاتی ہیں تاکہ ایجاب و قبول کے کلمات صحیح طور پر ادا کیے جائیں، ورنہ شریعت اور قانون کی رُو سے عاقل و بالغ لڑکا اور لڑکی دوگواہوں کی موجودگی میں براہِ راست بھی ایجاب و قبول کر سکتے ہیں اور اس سے شرعاً و قانوناً نکاح منعقد ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری کتبِ حدیث و فقہ میں ''کتاب النکاح‘‘ کے عنوان سے احادیث اور مسائل بیان کیے جاتے ہیں، اُن میں نکاح کی شرعی حیثیت، نکاح کے فضائل و مسائل، ایجاب و قبول کے مسائل، مہر کے مسائل، ولایتِ نکاح کے مسائل، وکالتِ نکاح کے مسائل، رضاعت کے احکام، محرّماتِ نکاح، طلاق کی اقسام، عدت کے احکام و مسائل اور حقوق الزوجین سے متعلق مسائل درج کیے جاتے ہیں‘ اُن میں ''نکاح خواں‘‘ کے عنوان سے کوئی باب نہیں ہوتا، نہ اس کی بابت کوئی ذیلی عنوان ہوتا ہے۔
نکاح کا رُکن فریقینِ نکاح کا ایک مجلس میں اِیجاب ((Proposal و قَبول ((Acceptance ہے اور دو گواہوں کا موجود ہونا نکاح کے شرعی طور پر جائز انعقاد کے لیے شرط ہے، ورنہ نکاح فاسد قرار پائے گا۔ پاکستان میں جو دینی مکاتبِ فکر پائے جاتے ہیں (یعنی حنفیہ، شافعیہ، جعفریہ اور سلَفیہ)، ان سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر نابالغ لڑکی کا باپ اُس کا نکاح منعقد کر لے تو وہ شرعی طور پر نافذ العمل ہوگا اور ولی کو یہ اختیار شریعت نے عطا کیا ہے، کسی ریاست و حکومت کو یہ اختیار سلب کرنے کا حق شریعت کی رُو سے حاصل نہیں ہے؛ البتہ حکومتِ وقت اور علمائے دین لوگوں کو تعلیم و تلقین کر سکتے ہیں، مشورہ دے سکتے ہیں، اس بات پر قائل کر سکتے ہیں کہ اپنے عہد کے تقاضوں کو سمجھیں، اپنی فکر اور سوچ میں وسعت پیدا کریں، اولاد کا نکاح اُن کی بلوغت کے بعد اُن کی رضا مندی سے کریں، لیکن شریعت کسی کو یہ حق عطا نہیں کرتی کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح احکام کو منسوخ کردیں یا باطل قراردے دیں۔
پاکستان میں عائلی قوانین پہلی بار 1961ء میں آرڈیننس کی صورت میں نافذ کیے گئے تھے، کیونکہ وہ اُس وقت کے صدر محمد ایوب خان مرحوم کے مارشل لا کا دور تھا، بعد میں اس آرڈیننس کو دستور میں تحفظ دیا گیا۔ اس میں دُلہا اور دلہن کی عمر کے کالم موجود ہیں، فریقین جو عمر بتاتے ہیں، نکاح خواں کالم میں درج کر دیتا ہے، اس قانون میں کہیں نہیں لکھا گیا کہ نکاح کے انعقاد سے پہلے نکاح خواں عمر کے بارے میں تحقیق کرے گا، نکاح خواں کے سامنے تو لڑکی ہوتی ہی نہیں ہے، اس کا وکیل اور گواہ ہوتے ہیں اور وکیل اور گواہان کی تحقیق و تفتیش بھی اُس قانون میں نکاح خواں کے ذمے عائد نہیں کی گئی، نہ اُس کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ فریقین کی فراہم کردہ معلومات کو وہ ردّ کر دے، تو اُسے کس بنیاد پر ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے؟ صرف اس لیے کہ ''غریب کی جورو‘ سب کی بھابھی‘‘ کے مصداق ہر ایک کا حکم یا اتھارٹی صرف نکاح خواں پر چلے گی۔ اگر عدالت یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کوئی تحقیق و تفتیش یا کارروائی کرنی ہے تو اس کا تعلق نکاح خواں سے نہیں، بلکہ زوجین، اُن کے والدین اور گواہوں کے ساتھ ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں قومی شناختی کارڈ سب سے پہلے 1973ء میں متعارف ہوا، اُس کے مندرجات بھی متعلقہ شخص کی فراہم کردہ معلومات پر مبنی ہوتے تھے، ادارۂ شماریات کے پاس اُن معلومات کی تحقیق و تفتیش کے نہ وسائل تھے اور نہ انہیں ردّ کرنے کا اختیار تھا۔ اس کے بعد ''ب فارم‘‘ کا سلسلہ شروع ہوا، پھر مارچ 2000ء میں ''قومی ادارۂ شماریات‘‘ یعنی ''Nadra‘‘ وجود میں آیا، پھر اس کے تحت کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ (CNIC) کا سلسلہ شروع ہوا اور پاسپورٹ کو بھی اسی سے منسلک کر دیا گیا، لیکن اس کے باوجود جتنے جعلی یا ایک سے زیادہ شناختی کارڈ؍ پاسپورٹ پاکستان میں بنتے ہیں، شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں بنے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے پاس بیک وقت ایک سے زائد شناختی کارڈ؍ پاسپورٹ ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ملک کا کوئی باشندہ رشوت دے کر پاکستان کا شناختی کارڈ؍ پاسپورٹ بنوا سکتا ہے۔ ہمیں تسلیم ہے کہ کمپیوٹرائزڈ نظام سے کافی حد تک بہتری آئی ہے، کیونکہ اس میں تحدید و توازن کی گنجائش موجود ہے، یہ ایسا شعبہ ہے جس میں پاکستان دنیا کے بیشتر ممالک سے آگے رہا ہے۔ اس کے باوجود خبریں آتی رہتی ہیں کہ ووٹر لسٹ میں مرنے والوں کے نام بھی شامل ہیں یا کسی مخصوص حلقۂ انتخاب میں بعض حقیقی ووٹرز کے نام موجود نہیں ہیں یا کسی دوسرے علاقے سے من پسند ووٹرکے نام کسی خاص حلقے میں منتقل کر دیے گئے ہیں۔ یہ اعتراض ہماری جانب سے نہیں ہوتا، بلکہ اُن کی جانب سے ہوتا ہے جو یا تو کل حکومت کے منصب پر فائز رہے ہیں یا آج ہیں یا آئندہ انتظار کی قطار میں لگے ہوئے ہیں۔ اسی طرح محرم الحرام؍ ربیع الاول میں نفرت انگیزی پر مبنی خطابات کرنے والے ذاکرین؍ خطباء کے داخلے بعض علاقوں میں ممنوع قرار دیے جاتے ہیں، جبکہ اُن میں سے بعض وفات پا چکے ہوتے ہیں، سو ہمارے ہاں ''مکھی پر مکھی مارنے‘‘ کا رواج بہت ہے۔
یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ ہمارے عرف میں جسے ''خفیہ نکاح‘‘ کہا جاتا ہے، وہ درحقیقت خفیہ نہیں ہوتا، بلکہ لڑکا لڑکی خاندان سے بغاوت کر کے عدالت میں یا کہیں اور جا کر نکاح کرتے ہیں، پھر اُس کی رجسٹریشن بھی کرا لیتے ہیں۔ اگر ایسا نکاح دو گواہوں کی موجودگی میں ہوا ہے تو وہ شرعاً اور قانوناً منعقد ہو جاتا ہے۔ یہاں ''خفیہ‘‘ سے مراد یہ ہوتی ہے کہ لڑکے؍ لڑکی نے اپنے والدین اور سرپرستوں کو اس سے بے خبر رکھا ہے۔ یہ اُس صورت میں ہوتا ہے کہ اولاد اور والدین کے فیصلوں میں مطابقت نہیں ہو پاتی۔ اس لیے ہم ہمیشہ اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ اولاد کی سعادت مندی اسی میں ہے کہ شادی کے بارے میں والدین کی فرمانبرداری کریں، کیونکہ بزرگوں کا آئی کیو (یعنی وسعتِ نظر) نوعمر اور نوخیز نوجوانوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ وہ سرد و گرم چشیدہ اور اچھے برے حالات سے گزرے ہوتے ہیں۔ انہیں اُن کے نتائج کا نہ صرف اندازہ ہوتا ہے، بلکہ وہ اس تجربے سے گزر چکے ہوتے ہیں، جبکہ نوجوان ذہنوں پر جذبات و احساسات اور بعض اوقات خواہشات و شہوات کا غلبہ ہوتا ہے، جس کا انہیں بہت بعد میں جا کر احساس ہوتا ہے، لیکن وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔ پھر کفِ افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ یا تلافی کا کوئی ذریعہ نہیں رہتا، گزشتہ کل کو واپس لاکر فیصلے بدلے نہیں جا سکتے۔ آئی کیو (Intelligence Quotient) کے معنی ہیں: ''دور اندیشی، اِقدام سے پہلے اُس کے نتائج کا ادراک یعنی بصیرت و دانش کا دائرہ وسیع ہونا‘‘۔ لیکن اگر اولاد کے مقدر میں ماں باپ کے آگے سرنگوں ہونے کی سعادت نہیں ہے، تو ماں باپ کی دور اندیشی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ صبر کریں، اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں اور حالات سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کریں، کیونکہ سرِعام رسوا ہونے سے یہ بہتر ہے اور اولاد کے لیے دعا بھی کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں سعادت مند بنائے اور اُن کی فکری کجی کو راستی میں تبدیل فرمائے۔ والدین اولاد کے لیے ہدایت کی دعا تو کریں، لیکن کسی حال میں اُن کے لیے بددعا نہ کریں۔ حدیث شریف میں ہے: ''اپنے لیے، اپنی اولاد کے لیے اور اپنے اموال کے لیے بددعا نہ کرو، مبادا یہ اللہ کے نزدیک قبولیتِ دعا کا لمحہ ہو اور یہ دعا قبول ہو جائے (اور پھر تمہیں خود پچھتانا پڑے)‘‘ (صحیح مسلم: 3009)۔
یہ سطور میں نے مظلوم اور کمزور علماء کے لیے لکھی ہیں، ورنہ میں نوجوان علماء کو ہمیشہ تاکیداً ہدایت کرتا ہوں کہ اگر انہیں معمولی سا بھی احساس ہو جائے کہ معاملہ کچھ گڑبڑ ہے، تو وہ چند سکوں کی خاطر اپنے آپ کو مشکل میں نہ ڈالیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:''مومن کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ذلت سے دوچار کرے، عرض کیا گیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کوئی اپنے آپ کو ذلت سے کیسے دوچار کرتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اپنے آپ کو ایسی مشکل میں ڈالتا ہے کہ پھر اُس سے عہدہ برآ ہونے کی طاقت نہیں رکھتا‘‘ (ترمذی: 2254)۔