جی سی یونیورسٹی لاہور کے شعبۂ عربی و علوم اسلامیہ کی پی ایچ ڈی ریسرچ سکالر محترمہ عائشہ نعیم نے چند سوالات بھیجے ہیں، ہم عام لوگوں کے استفادے کے لیے ان کے سوالات مع جوابات شائع کر رہے ہیں۔ اہلِ علم اپنے دلائل کی روشنی میں ہمارے موقف سے اتفاق یا اختلاف کر سکتے ہیں۔ سوالات درج ذیل ہیں:
''(1) اگر کسی شخص کی بیماری کو ڈاکٹرز لاعلاج قرار دے چکے ہیں، تو کیا شدید تکلیف سے جلد نجات دینے کے لیے ایسے مریض کا علاج ترک کیا جا سکتا ہے تاکہ وہ اس مرض سے جلد وفات پا کر تکلیف سے چھٹکارا حاصل کر لے، نیز اگر لاعلاج مریض کو کوئی دوسری قابلِ علاج بیماری (جیسے کینسر کا مریض نمونیہ میں مبتلا ہو جائے) لاحق ہو جائے تو کیا نمونیہ کا علاج ترک کیا جا سکتا ہے، کیونکہ اس کے علاج کو ترک کرکے مریض کی موت جلد واقع ہونے کا امکان ہے؟ (2) شرعی اعتبار سے کسی شخص کی موت واقع ہو جانے کا حکم کس صورت میں لگایا جاتا ہے: (الف) حرکتِ قلب بند ہو جائے اور دماغی موت (Brain Death) بھی واقع ہو یا (ب) صرف حرکتِ قلب بند ہو جائے، خواہ دماغ ابھی زندہ ہو یا (ج) جب دماغی موت واقع ہو جائے، لیکن حرکتِ قلب باقی ہو؟ (3) اگر کوئی شخص کوما میں ہو یا اس کی دماغی موت واقع ہو جائے تو اس کا علاج جاری رکھنا واجب ہے یا مستحب یا مباح، ہر صورت کا شرعی حکم بیان فرمائیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق زندگی کی امید ابھی باقی ہو، لیکن مریض کے رشتے دار اخراجات برداشت نہیں کر سکتے تو کیا حکم ہو گا، کیا وینٹی لیٹر ہٹایا جا سکتا ہے یا نہیں؟ دوسری صورت میں اگر اخراجات ناقابلِ برداشت ہیں اور بچنے کی امید بھی نہیں تو کیا اب علاج ترک کیا جا سکتا ہے یا قرض لے کر علاج کروانا ضروری ہے؟‘‘۔ ہمارے نزدیک ان سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
ہمارے جسم و جاں اللہ تبارک و تعالیٰ کی تخلیق، اس کی مِلک، اُس کا انعام اور اُس کا عطیہ ہیں۔ خالق و مالک نے شریعت کی طے کردہ حدود کے اندر اپنے اختیارِ تمیزی کے ساتھ ان کو استعمال کرنے کا ہمیں حق عطا کیا ہے، اسی پر جزا و سزا کا مدار ہے اور اسی بنا پر بندہ اللہ تعالیٰ کے احکام کا مُکلَّف اور اس کے حضور جوابدہ ہے۔ ہم اس جسم و جاں کے مالک نہیں ہیں، اس لیے ہمیں اپنی جان کو تلف کرنے کا قطعاً اختیار نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ شریعت کی رُو سے خود کشی حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1) ''اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘ (البقرہ: 195)۔ (2) ''اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بلاشبہ اللہ تم پر بڑا مہربان ہے‘‘ (النساء: 29)۔ احادیث مبارکہ میں ہے: (1) ''حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے آپ کو آہنی ہتھیار سے قتل کیا، تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہو گا اور وہ نارِ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور وہ ہتھیار اپنے پیٹ میں گھونپتا رہے گا اور جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو ہلاک کیا، تو وہ نارِ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور زہر پیتا رہے گا اور جس نے کسی پہاڑ سے گر کر اپنے آپ کو ہلاک کیا تو وہ نارِ جہنم میں ہمیشہ رہے گا اور (جہنم کی گہرائیوں میں) لڑھکتا چلا جائے گا‘‘ (صحیح مسلم: 109)۔ (2) ''حضرت جابرؓ ایک طویل حدیث میں بیان کرتے ہیں: جب نبی کریمﷺ نے مدینے کی طرف ہجرت کی تو آپ کے ساتھ حضرت طفیلؓ بن عمرو دَوسی اور اُن کی قوم کے ایک شخص نے بھی ہجرت کی۔ اس شخص کو مدینے کی آب وہوا راس نہ آئی، سو وہ بیمار ہو گیا اور فریاد کرنے لگا۔ پس (تکلیف سے بے قابو ہوکر) اس نے چوڑے پھل کا ایک تیر لیا اور اپنی انگلیوں کو جوڑوں سے کاٹ دیا، پھر اس کے ہاتھوں سے خون بہتا رہا یہاں تک کہ وہ فوت ہو گیا۔ بعد میں طفیلؓ بن عَمرو نے اُسے خواب میں اچھی حالت میں دیکھا، اچانک اس نے دیکھا کہ اس کے ہاتھوں پر کپڑا لپیٹا ہوا ہے۔ طفیلؓ نے اس سے پوچھا: آپ کے رب نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اس نے جواب دیا: نبی کریمﷺ کے ساتھ ہجرت کی برکت سے اللہ نے مجھے بخش دیا۔ پھر انہوں نے پوچھا: یہ آپ کے ہاتھوں پر کپڑا لپیٹا ہوا میں کیا دیکھ رہا ہوں؟ اس نے جواب دیا: مجھے فرمایا گیا: جس چیز کو تم نے خود بگاڑا ہے، ہم ہرگز اسے درست نہیں کریں گے۔ پس جب طفیل نے یہ خواب رسول اللہﷺ کے سامنے بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا: اے اللہ! اس کے دونوں ہاتھوں کی خطا کو بھی بخش دے‘‘ (صحیح مسلم: 116)۔ الغرض حالتِ اضطرار میں ایک صحابی رسولﷺ کے اس عمل کے باعث اُن کی اُس علامت کو برقرار رکھا جو اُن کی موت کا باعث بنی، سو رسول اللہﷺ نے اُن کے ہاتھوں کی خطا کی معافی کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا فرمائی، اُن کے لیے تو یہ وسیلہ موجود تھا، آج کے دور میں کوئی مسلمان خود کشی کے جرم کا ارتکاب کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور کیا جواب دے گا۔
لہٰذا اگرکسی شخص کو ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دیا ہو یا وہ کسی بیماری کے سبب زندگی سے عاجز آ گیا ہو اور اُس کے لیے تکلیف ناقابلِ برداشت ہو گئی ہو‘ تب بھی شریعتِ اسلامیہ کی رو سے موت میں اس کی مدد کرنا جائز نہیں ہے۔ راحت و تکلیف اور حیات و موت اللہ کے اختیار میں ہے۔ موت میں مدد قتلِ نفس کے مترادف ہے۔ موت میں مدد سے مراد یہ ہے کہ اُسے کوئی زہریلا انجکشن لگا دیا جائے یا کوئی ایسی دوا پلائی جائے جس سے اس کی موت واقع ہو جائے۔ طبی اصطلاح میں موت میں مدد دینے کو Mercy for Death (تَرَحُّمْ لِلْمَوت) یا Euthanasia یا Physician- Assisted Death یا Medical Aid in Dying کہتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ مریض کی خواہش اور درخواست پر ہوتا ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق بلجیم، لگسمبرگ، کینیڈا، نیوزی لینڈ، سپین، ہالینڈ، کولمبیا اور امریکہ کی ریاستوں کیلیفورنیا، کولوراڈو، ہوائے، مونٹانا، نیوجرسی، نیومیکسیکو، اوریگن، ورمَنٹ اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیا یعنی واشنگٹن میں بھی قانونی طور پر یہ سہولت موجود ہے۔ پس اسلام کی رو سے حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں‘ موت میں مدد کرنا جائز نہیں ہے، حیات و موت اللہ تعالیٰ کی قدرت و اختیار میں ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''وہ جس نے موت اور حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے عمل کے اعتبار سے بہترین کون ہے‘‘ (الملک: 2)۔
علاج بعض صورتوں میں واجب ہے، بعض صورتوں میں سنّت اور بعض صورتوں میں مباح ہے۔ نیز جن صورتوں میں علاج واجب ہے، وہ اس امر کے ساتھ مشروط ہے کہ علاج دستیاب ہو، اُس پر قدرت ہو اور اُس کی مالی استطاعت بھی رکھتا ہو، ورنہ استطاعت نہ رکھنے والا علاج نہ کرنے کی صورت میں گناہگار نہیں ہوگا، اس علاج سے صحت یابی کا ظنِّ غالب ہو، کیونکہ پھر یہ تکلیف مالا یُطاق یعنی بندے کو ایسے فعل کا پابند بنانا ہو گا، جس سے عہدہ برآ ہونا اُس کے بس سے باہر ہوگا اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اللہ تعالیٰ کسی انسان کو صرف ایسے کام کے لیے جوابدہ بناتا ہے جس سے عہدہ برآ ہونا اُس کے بس میں ہو‘‘ (البقرہ: 286)۔
جن صورتوں میں علاج واجب ہے، اس کی تفصیل درج ذیل ہے: (1) عورت مر جائے اور اس کے پیٹ میں بچہ زندہ ہو، اگر اس کے پیٹ کی سرجری کر کے زندہ بچے کو مردہ عورت کے پیٹ سے نہ نکالا جائے تو وہ بچہ مر جائے گا اور اگر اس عورت کو یونہی دفن کر دیا گیا تو اس بچے کو زندہ درگور کرنا لازم آئے گا۔ لہٰذا اس صورت میں سرجری کے ذریعے زندہ بچے کو مردہ عورت کے پیٹ سے نکالنا فرض ہے۔ ایک دلچسپ واقعہ: شرح معانی الآثار کے مصنف امام ابوجعفر احمد بن محمد بن سلامہ طحاوی، شافعی المذہب تھے۔ انہوں نے فقہِ شافعی کا ایک مسئلہ پڑھا: ''حاملہ عورت اگر فوت ہو جائے اور اس کے پیٹ میں بچہ زندہ ہو تو عورت کے پیٹ کا آپریشن کر کے اس زندہ بچے کو نہیں نکالا جائے گا‘‘، جبکہ امام اعظم کا مذہب یہ ہے: ''مردہ عورت کے پیٹ کو جرّاحی کے ذریعے چیر کر زندہ بچے کو نکالا جائے گا‘‘ اور امام طحاوی اسی طریقے سے پیدا ہوئے تھے، جب انہوں نے فقہ شافعی کا یہ مسئلہ پڑھا تو انہوں نے کہا: ''مجھے ایسا مذہب پسند نہیں ہے، جو میری ہلاکت پر راضی ہو‘‘، سو انہوں نے مذہبِ شافعی ترک کرکے مذہبِ حنفی کو اختیار کر لیا اور اُن کا شمار فقہ حنفی کے عظیم المرتبت مجتہدین میں ہوتا ہے‘‘ (النبراس، ص: 110)۔
(2) ایک شخص بلڈ کینسر کا مریض ہے اور اس کا علاج یہی ہے کہ اس کے جسم کے پورے خون کو تبدیل کر دیا جائے، ورنہ وہ شخص مر جائے گا، لہٰذا اس صورت میں بھی انتقالِ خون کے ذریعہ علاج کرنا فرض ہے، بشرطیکہ اُسے یہ سہولت دستیاب ہو۔ انسانی خون کا فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے؛ البتہ جان بچانے کے لیے مریض کو خون کا عطیہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر بغیر قیمت کے خون دستیاب نہ ہو تو جان بچانے کے لیے خریدنا جائز ہے، لیکن فروخت کرنے والے کا یہ فعل ناجائز ہے۔ (3) ایک شخص کا جگر فیل ہو گیا اس نے خون بنانا بند کر دیا، اب اس کو زندہ رکھنے کے لیے انتقالِ خون کے ذریعے اس کے جسم میں نیا خون پہنچانا ضروری ہے، ورنہ وہ شخص مر جائے گا۔ (4) ایک شخص شوگر کا مریض ہے اس کا پیر زخمی ہے، اس میں زہر پھیل گیا ہے، اگر سرجری کے ذریعہ اس کا پیر کاٹ کر الگ نہ کیا گیا تو یہ زہر پورے جسم میں پھیل جائے گا اور اس کی موت واقع ہو جائے گی اس صورت میں اس کی جان بچانے کے لیے سرجری کے ذریعے اس کا علاج کرانا ضروری ہے، اسے طبی زبان میں Gangrene کہتے ہیں، اس میں بتدریج جسم مردہ ہوتا ہے اور یہ بیماری دوسرے حصوں میں سرایت کرتی جاتی ہے۔
(5) ایک شخص کو برین ہیمرج ہو گیا یعنی اس کے دماغ کی شریان پھٹ گئی، اگر سرجری کے ذریعے اس کا بروقت علاج نہ کیا گیا تو اس کی موت واقع ہو جائے گی، اس صورت میں بھی سرجری کے ذریعے اس کا علاج کرانا لازم ہے۔ (6) دہشت گردی کی کارروائی کے نتیجے میں اچانک ایک شخص کے سینے اور پیٹ میں کئی گولیاں لگ گئیں، اگر بروقت کارروائی کر کے سرجری کے ذریعے اس کے جسم سے گولیاں نہ نکالی گئیں تو اس کی موت واقع ہو جائے گی، اس صورت میں بھی سرجری کے ذریعے اس کا علاج کرانا فرض ہے، (جاری)