(7) شدید زخمی ہونے کی صورت میں کسی شخص کے جسم سے بڑی مقدار میں خون نکل گیا، اگر بروقت اس کے جسم میں خون نہ پہنچایا گیا تو وہ مر جائے گا، اس صورت میں بھی انتقالِ خون کے ذریعے اس کا علاج کرانا ضروری ہے۔ (8) ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے کسی شخص کے کسی عضو پر فالج گر گیا اور مستقل معذوری کا خطرہ ہے، اب چونکہ فالج قابلِ علاج ہے، اس لیے علاج کرانا واجب ہے۔ (9) شوگر، ہائی بلڈ پریشر ایسی بیماریاں ہیں کہ اگر ان کا باقاعدگی سے علاج اور پرہیز نہ کیا گیا تو فالج، برین ہیمرج، ہارٹ اٹیک، گردے یا جگر یا کسی اور عضو کے ناکارہ ہونے اور کینسر وغیرہ کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اور ان بیماریوں کا علاج نہ کرنا اپنے آپ کو ہلاکت کے خطرے سے دوچار کرنا ہے۔ (10) شدید کالی کھانسی، نمونیہ، چیچک، تپ دق، گردن توڑ بخار وغیرہ ایسی بیماریاں ہیں کہ اگر ان کا بروقت علاج نہ کرایا جائے تو انسان مرتا تو نہیں‘ لیکن وہ ناقابلِ کار ہو جاتا ہے اور اس کے لیے زندگی عذاب بن جاتی ہے، پس ان صورتوں میں بھی علاج کرنا ضروری ہے۔
یہ ایک واضح اور بدیہی بات ہے کہ شدید بیماری کے سبب انسان اپنے معمول کے کام انجام نہیں دے پاتا حتیٰ کہ عبادت سے بھی قاصر ہو جاتا ہے، اگر وہ مزدور ہے یا روز مرہ کی اجرت پر کام کرتا ہے، اگر وہ علاج نہیں کرے گا تو کام پر نہیں جا سکے گا اور نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت اور اس کی عبادات میں خلل واقع ہو گا، بلکہ زندگی بوجھ بن جائے گی، اس صورت میں بھی علاج واجب ہے۔ عام حالات میں شریعت کی رُو سے علاج سنّت ہے، فرض کے درجے میں نہیں ہے کہ اس کا تارک گناہگار قرار پائے، لہٰذا مہلک امراض کے انتہائی درجے میں کہ جب علاج کے باوجود بحالی اور نفع مند زندگی گزارنے کا یقین یا ظنِّ غالب نہ رہے، تو علاج ترک کیا جا سکتا ہے۔ شریعت نے ضرورت کے وقت قرضِ حسن لینے کی اجازت دی ہے، لیکن ہر ایک کی استطاعت کی حد تک ہے۔
فقہائے متقدمین کے زمانے میں میڈیکل سائنس ابتدائی مراحل میں تھی اور بہت سی پیچیدہ بیماریوں کے علاج کے نتائج زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھے، علاج کے باوجود ہلاکت کا تناسب زیادہ تھا، اسی وجہ سے علماء نے علاج کو صرف مستحب کہا تھا اور ان کے نزدیک علاج نہ کرانے والا گناہگار نہیں قرار پاتا تھا۔ لیکن آج صورتِ حال مختلف ہے جو ہر ذی شعور پر واضح ہے۔ لہٰذا ہم نے جو علاج کو بعض صورتوں میں لازم قرار دیا ہے، وہ ان علماء کے قول کی مخالفت نہیں ہے، بلکہ امراض اور علاج کے بارے میں جدید طبی تحقیقات کی روشنی میں انسانی جان کی حرمت کے تحفظ اور انسان کو ممکن حد تک راحت پہنچانے اور تکلیف سے نجات دلانے کے لیے ہے، تبدیلی حالات سے بعض اوقات احکام بھی بدل جاتے ہیں۔
اسی طرح اگر مریض کی بحالی اور صحت یابی کی صورت میں نفع بخش زندگی کا امکان ہو تو مریض کو وینٹی لیٹر پر ڈالا جا سکتا ہے، لیکن اگر ڈاکٹروں کو یقین یا ظنِّ غالب ہو کہ وینٹی لیٹر کے ہٹانے سے موت واقع ہو جائے گی، تو محض حرکتِ قلب جاری رکھنے کے لیے مریض کو وینٹی لیٹر پر ڈالے رکھنا یعنی مشینوں کے ذریعے زندہ رکھنا ضروریاتِ شرعیہ میں سے نہیں ہے اور اس کے ہٹانے پر ڈاکٹر یا وارث گنہگار نہیں ہوں گے، یہ لمحات شدید کرب اور اذیت کے ہوتے ہیں اور شریعت اس امر کا پابند نہیں بناتی کہ آلات کے ذریعے محض سانس کی آمد و رفت کو جاری رکھا جائے، جبکہ خدا ترس ماہر ڈاکٹر یہ کہیں کہ انہیں یقین یا ظنِ غالب ہے کہ اب یہ شخص نفع بخش زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہا اور وینٹی لیٹر ہٹانے کی صورت میں موت واقع ہو جائے گی؛ تاہم ہمارا مشاہدہ ہے کہ مالدار لوگ بعض اوقات اپنے مریضوں کو وینٹی لیٹر پر ڈالے رکھتے ہیں، ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کا بل بنتا رہتا ہے جو اُن کے لیے مسئلہ نہیں ہوتا، لہٰذا نہ وہ وینٹی لیٹر کو ہٹانے کی اجازت دیتے ہیں اور نہ ڈاکٹر اس کا مشورہ دیتے ہیں۔
1990ء کے عشرے میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں اس موضوع پر ایک سیمینار منعقد ہوا تھا، اس موقع پر شفا انٹرنیشنل ہاسپٹل کے ایک سپیشلسٹ ڈاکٹر نے مجھ سے پوچھا: ''فرض کریں! ہمارے پاس ایک ہی وینٹی لیٹر ہے جو ایسے مریض کو لگا ہوا ہے، جس کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ اگر وینٹی لیٹر ہٹا دیا جائے تو جلد اس کی موت واقع ہو جائے گی، پھر اس دوران ایک نوجوان کو حادثہ پیش آتا ہے، اس کے دماغ پر چوٹ لگتی ہے، وہ کومے میں چلا جاتا ہے، ہمیں یقین ہوتا ہے کہ اگر ہم اس لا علاج مریض سے وینٹی لیٹر ہٹا کر اس نوجوان کو لگا دیں تو اس کی زندگی بچ جائے گی اور یہ نفع بخش زندگی گزار سکے گا۔ پس اگر ہم اس لاعلاج مریض سے وینٹی لیٹر ہٹا کر زندگی بچانے کے لیے اس نوجوان کو لگائیں، تو کیا ہم پہلے مریض سے وینٹی لیٹر ہٹانے پر گناہگار ہوں گے‘‘، میں نے انہیں جواب میں کہا: ''میری دینی معلومات کے مطابق یہ عمل کرنے سے آپ گناہگار نہیں ہوں گے، کیونکہ ایک طرف جان بچانے کا مسئلہ ہے اور دوسری طرف محض مشین کے بل پر تنفُّس کو جاری رکھنے کا مسئلہ ہے، تو ترجیح جان بچانے کو دینی چاہیے اور میری اس رائے کی حکمت یہی تھی کہ اگر خدا ترس سپیشلسٹ ڈاکٹر کو یقین یا ظنِّ غالب ہے کہ پہلے مریض سے وینٹی لیٹر ہٹانے کی صورت میں تھوڑی دیر میں اس کی موت واقع ہو جائے گی، تو یہ ضروریاتِ شرعیہ میں سے نہیں ہے کہ مشینوں کے ذریعے اذیت پہنچا کر سانس کو جاری رکھا جائے‘‘۔
عرفِ عام میں حیات کی ظاہری علامت تنفُّس کا جاری رہنا ہے؛ چنانچہ حرکتِ قلب بند ہو جانے یعنی تنفُّس کے منقطع ہونے کو موت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں دماغ مفلوج یا ناقابلِ کار ہو جاتا ہے، لیکن تنفُّس کا سلسلہ جاری رہتا ہے، اسی کو ''کوما‘‘ کی کیفیت کہتے ہیں، لیکن ڈاکٹروں کے نزدیک Brain Stem کے مر جانے سے موت واقع ہو جاتی ہے، اسے Brain Death بھی کہتے ہیں۔ ہمیں ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ یہ دماغ کی وہ اصل ہے جو ریڑھ کی ہڈی سے مرتبط رہتی ہے، باقی سارے بدن اور دماغ کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے، یعنی یہ دماغ کو سگنل دیتا ہے اور اس سے ہدایات لے کر جسم پر نافذ کرتا ہے، پس جب تک Brain Stem کام کرتا ہے، زندگی باقی رہتی ہے اور اس کی موت کی صورت میں طبی اعتبار سے موت واقع ہو جاتی ہے۔ ہم نے امریکہ میں مقیم ایک سپیشلسٹ پاکستانی ڈاکٹر محترم خالد اعوان صاحب سے رابطہ کیا، ڈاکٹر صاحب وسیع المطالعہ ہیں، دیندار ہیں اور ان کی دینی معلومات بھی قابلِ رشک ہیں۔ انہوں نے کہا: حرکتِ قلب بحال کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ دو دفعہ مریض کو وینٹی لیٹر پر ڈالنا کافی ہے، مستقل طور پر ایسا کرنا ضروری نہیں ہے۔ انہوں نے لکھا: ''میرے خیالات اُسی کے مطابق ہیں جو آپ نے جواب کے اس حصے میں لکھا ہے۔ بہت عرصہ سے میں نے بیماری کے بہت بڑھ جانے کی حالت میں مریض کو حرکتِ قلب رک جانے کے سبب دوبارہ جاری کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ دو دفعہ وینٹی لیٹر پر ڈالنے کو کافی قرار دیا ہے، میں نے اس حدیث کو بنیاد بنایا: ''حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ان کے گھر میں بیبیوں کو غم کی حالت میں نوحہ کرنے سے دو دفعہ منع کیا گیا اور تیسری دفعہ منہ کو مٹی سے بھر دیے جانے کا حکم ہوا‘‘۔ میرے نزدیک غم بھی ایک بیماری ہی ہے، لہٰذا دو دفعہ انتہائی قدم اٹھانے کے بعد ایمان کا تقاضا ہے کہ مسلمان صبر کرے اور معاملہ اللہ کے سپرد کرے، جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے: میرے نزدیک زندگی اور موت کا فیصلہ سانس کے مکمل بند ہو جانے کے ساتھ ہے، حقیقت یہ ہے کہ طبی علم کی بنیاد پر بھی دل اور دماغ‘ دونوں کا انحصار سانس پر ہے، مثلاً دماغ کے خلیے آکسیجن نہ ملنے پر دس منٹ بعد مرنا شروع ہو جاتے ہیں، اسی طرح ہارٹ اٹیک میں دل کے اعصاب (پٹھوں) کو آکسیجن نہ ملے، تو ایک گھنٹے کے بعد وہ مرنا شروع ہو جاتے ہیں اور چار گھنٹے کے بعد نہ ان کو آکسیجن بحال کر سکتی ہے، نہ وہ دوبارہ بن سکتے ہیں اور اگر بن بھی جائیں تو فقط Scar یعنی Dead Tissues پیدا ہوتے ہیں، Muscle یعنی پٹھینہیں بنتے۔ دینی طور پر بھی زندگی کا آغاز روح کے نفخ (Blow) سے ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ نفخ کا تعلق سانس کے جاری رہنے سے ہے، اس کا تعلق دورانِ خون یا دماغ کے اعصاب سے نہیں ہوتا۔ لہٰذا میرے نزدیک موت سانس کے مکمل بند ہونے کا نام ہے، اگر ایک دو گھنٹوں سے زیادہ انسان کا سانس بند رہے تو وہ طبعی اور شرعی دونوں اعتبار سے مر جاتا ہے۔
نیز انہوں نے لکھا: ''میں اسی کا قائل ہوں کہ Euthanasia یا خودکشی یا مریض کا اجازت دینا کہ مجھے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے، مریض اور ڈاکٹر‘ دونوں کے لیے حرام اور ممنوع ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''گناہ اور ظلم میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو‘‘ (المائدہ: 2)۔
''کوما‘‘ کی حالت میں مریض ہوش میں نہیں رہتا، مگر تنفُّس (Breathing) کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ الغرض دماغ پورے بدن پر حاکم ہے، لیکن دل پر اس کا اس طرح کا کنٹرول نہیں ہے جیسا کہ باقی بدن پر ہے؛ چنانچہ کوما کی صورت میں مریض کے دیگر اعضا کام نہیں کرتے، لیکن بعض صورتوں میں جب تک زندگی ہے، تنفُّس کا عمل جاری رہتا ہے، اس لیے دماغ اور دل‘ دونوں کو اعضائے رئیسہ کہتے ہیں۔ بعض اوقات حادثے یا برین ہیمرج یا دماغ تک خون پہنچانے والی رگ بلاک ہونے کے نتیجے میں وقتی طور پر انسان ہوش میں نہیں رہتا، لیکن علاج کے ذریعے یا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہوش میں آ جاتا ہے، پس ایسے مریضوں کے لیے‘ جن کے ہوش میں آنے اور نفع بخش زندگی گزارنے کا یقین یا ظنِّ غالب ہو‘ وینٹی لیٹر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ انسانی جان کا تحفظ مقدم ہے، مقاصدِ شرعیہ میں سے ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کو پسند ہے، لیکن محض سانس جاری رکھنے کے لیے وینٹی لیٹر پر ڈال کر مریض کو اذیت سے دوچار کرنا شریعت کا مطلوب نہیں ہے، اگر مریض یا اُس کے قریبی رشتے دار یا ڈاکٹر ایسا کرنا چاہیں تو یہ اُن کی صوابدید ہے۔ یہ لمحات انتہائی کرب ناک ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو ایسے احوال سے عافیت اور امان میں رکھے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ جب ڈاکٹروں کو یقین یا ظنِّ غالب ہو کہ وینٹی لیٹر ہٹانے کی صورت میں مریض کی موت جلد واقع ہو جائے گی۔ حقیقتِ حال صرف اللہ کے علم میں ہے۔