"MMC" (space) message & send to 7575

خدمتِ خلق

حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں: ایک شخص رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور عرض کی: یا رسول اللہﷺ! وہ کون شخص ہے جو اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے اور کون سا عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لوگوں میں سے اللہ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جس کی ذات انسانیت کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہو اور اللہ تعالیٰ کو وہ عمل سب سے زیادہ محبوب ہے جو کسی مسلمان کو خوشی عطا کرے یا کسی مصیبت زدہ سے مصیبت کو دور کرے یا اُس کا قرض ادا کرے یا اُسے بھوک سے نَجات دے، میں کسی بھائی کی حاجت روائی کے لیے اُس کے ساتھ پیدل چلوں، یہ مسجدِ نبوی میں ایک مہینے کے اعتکاف سے زیادہ مجھے محبوب ہے اور جو اپنے غصے پر قابو پائے گا، اللہ تعالیٰ اُس کی (کمزوریوں) پر پردہ ڈالے گا اور جو غصے کو ضبط کر لے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کے دل کو امن سے بھر دے گا اور جو اپنے بھائی کے ساتھ چل کر اس کی حاجت پوری کر دے توجب پلِ صراط پر سب کے قدم ڈگمگا رہے ہوں گے‘ اللہ تعالیٰ اُسے ثابت قدم رکھے گا۔ (المعجم الاوسط للطبرانی: 6026) علامہ اقبال نے اسی مفہومِ حدیث کو اپنے شعر میں بیان کیا ہے:
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا، جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (1) ''پس وہ (دشوار) گھاٹی میں کیوں نہ داخل ہوا اور تو کیا جانے کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟ وہ (قرض یا غلامی سے) گردن چھڑانا یا بھوک کے دن کھانا کھلانا ہے، ایسے یتیم کوجو رشتے دار بھی ہو یا کسی خاک نشین مسکین کو‘‘ (البلد: 11 تا 16)، (2) ''بات یہ ہے کہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے ہو اور ایک دوسرے کو کھانے کھلانے کی طرف راغب نہیں کرتے ہو اور وراثت کا سارے کا سارا مال ہڑپ کر جاتے ہو اور مال سے ٹوٹ کر محبت کرتے ہو‘‘ (الفجر: 17 تا 20)۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا: (1) ''مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ اُس پر خود ظلم کرتا ہے اور نہ (مصیبت میں) اُسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے، جو اپنے بھائی کی حاجت روائی کرے گا، اللہ تعالیٰ اُس کی حاجت روائی فرمائے گا اور جو کسی مسلمان سے تکلیف کو دور کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کی تکلیفوں کو دور فرمائے گا اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا‘‘ (بخاری: 2442)، (2) ''اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا: اے بنی آدم! میں بیمار تھا، تُو نے میری عیادت نہ کی، (بندہ) عرض کرے گا: اے پروردگار! میں تیری عیادت کیسے کرتا، تو ربُّ العالمین ہے (اور ان حاجات سے پاک ہے)، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ (تیرے سامنے) بیمار ہوا، تو نے اس کی عیادت نہ کی، تجھے نہیں معلوم کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا، (اللہ تعالیٰ پھر فرمائے گا:) اے بنی آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا، تو نے مجھے نہ کھلایا، (بندہ) عرض کرے گا: پَرْوَردْگار! میں تجھے کیسے کھلاتا، تو رب العالمین ہے (جبکہ بھوک و پیاس بندوں کی حاجات ہیں)، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگاتھا، تو نے اسے نہ کھلایا، کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس محتاج بندے کو کھلاتا، تو اُس کو میرے پاس پاتا، (اللہ تعالیٰ پھر فرمائے گا:) اے بنی آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا، تو نے مجھے نہ پلایا، بندہ عرض کرے گا :پروردگار! میں تجھے کیسے پانی پلاتا، تو ربُّ العالمین ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تجھ سے میرے فلاں پیاسے بندے نے پانی مانگا تھا، تو نے اسے نہ پلایا، اگر تو نے اسے پانی پلایا ہوتا، تواس کو میرے پاس پاتا‘‘ (مسلم: 2569)۔ بندوں کے لیے غور و فکر کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محتاج بندے کی بیماری کو اپنی بیماری، اس کی بھوک کو اپنی بھوک اور اس کی پیاس کو اپنی پیاس سے تعبیر فرمایا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ہستی ان تمام حاجات سے پاک، بے عیب اور بالاتر ہے۔ یہ در اصل ان اعمالِ صالحہ کی بے انتہا فضیلت کا بیان ہے۔ محدّثینِ کرام نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا: اس حدیثِ قدسی کا منشا یہ ہے کہ بیمار کی عیادت، بھوکے کو کھلانا اور پیاسے کو پانی پلانا، یہ بالواسطہ اللہ کی عبادت اور اس کے حبیبِ مکرمﷺ کی سُنَّتِ جلیلہ ہے۔ حدیث پاک کی ترتیب سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیمار کی عیادت اور تیمارداری کا ثواب بھوکے کو کھانا کھلانے اور پیاسے کو پانی پلانے سے بھی زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد: ''اے بنی آدم ! اگر تو بیمارکی عیادت کرتا، بھوکے کو کھانا کھلاتا اور پیاسے کو پانی پلاتا تو، مجھے اپنے قریب ہی پاتا‘‘۔ یعنی ان کاموں سے اللہ تعالیٰ کی رِضا اور اس کا قُرب حاصل ہوتا ہے، بندہ اللہ کے قریب ہو جاتا ہے اور اللہ کی رحمت بندے پر سایہ فگن ہو جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اپنے دکھی بندوں کے دکھوں کا مداوا کرنے والوں کو اپنا قُرب عطا کرتا ہے۔ حدیثِ قدسی میں ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ''میں اپنے ان بندوں کے قریب ہوتا ہوں، جو خشیتِ الٰہی سے لرز اٹھتے ہیں اور بے بسی و بے کسی کے عالم میں شکستہ دل ہو کر مجھے پکارتے ہیں‘‘ (مرقاۃ المفاتیح)۔
عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ زلزلے اور سیلاب کے موقع پر لوگ پرانے کپڑے اور ناکارہ چیزیں لے جاکر کسی سٹال پر جمع کرا دیتے ہیں، یہ درست نہیں ہے۔ بعض صورتوں میں ان کا کرایہ ان کی قیمت سے زیادہ ہوتا ہے اور پھر یہ ڈَمپ کر دی جاتی ہیں، جو بھی تعاون کیا جائے، اشیائے خوراک ہوں یا کمبل، رضائیاں، گدے اورکپڑے وغیرہ‘ سب عمدہ ہونے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اے ایمان والو! تم اپنی کمائی اور اُس پیداوار میں سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کی ہے، پاکیزہ چیزوں کو (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو اور (خبردار!) ناپاک (اور ناکارہ) چیزوں کو خرچ کرنے کا سوچنا بھی نہیں، (اگر کوئی تمہیں ناکارہ چیز دے) تو تم کبھی (خوش دلی سے) نہیں لیتے، سوائے اس کے کہ تم چشم پوشی کرو اور جان لو! یقینا اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے اور تمام تعریفیں اُسی کو سزاوار ہیں، شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا ہے اور تمہیں بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تم سے مغفرت اور فضل و احسان کا وعدہ فرماتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والااور خوب جاننے والا ہے‘‘ (البقرہ: 267 تا 268)، (2) ''تم ہرگز نیکی (کے مرتبۂ کمال) کو نہیں پائو گے حتیٰ کہ تم (اللہ کی راہ میں) اپنا پسندیدہ مال خرچ کرو اور تم جو چیز بھی خرچ کرو گے، بے شک اللہ اُسے خوب جاننے والا ہے‘‘ (آل عمران: 92)۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا: (1) ''تم میں سے کوئی (کامل) مومن نہیں ہو سکتا حتیٰ کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لیے کرتا ہے‘‘ (صحیح بخاری: 13)، (2) ''اللہ تعالیٰ کی ایسی مخلوق ہے جسے اُس نے اپنے بندوں کی حاجت روائی کے لیے پیدا فرمایا، لوگ اپنی حاجت روائی کے لیے اُن سے رجوع کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو (آخرت میں) اللہ کے عذاب سے محفوظ رہیں گے‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی: 13334)، (3) ''بندہ جب تک اپنے بھائی کی حاجت روائی میں مشغول رہے، اللہ تعالیٰ اُس کی حاجت روائی فرماتا ہے‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی: 4802)، (4) ''(پچھلی امتوں میں) ایک شخص راستے پر پیدل جا رہا تھا، اس کو شدید پیاس لگی، اس نے ایک کنواں دیکھا، وہ اس میں اترا اور پانی پی کر باہر نکل آیا۔ پھر اس نے ایک کتا دیکھا جو پیاس کی شدت سے ہلکان ہو رہا تھا اور گیلی مٹی کو چوس رہا تھا، اس شخص نے سوچا: اس کتے کو بھی اتنی ہی شدید پیاس لگی ہے جتنی (کچھ دیر پہلے) مجھے لگی ہوئی تھی، وہ پھر کنویں میں اترا اور اپنے موزے میں پانی بھرا، پھر اس موزے کو اپنے منہ سے پکڑا اورکنویں سے باہر آکر اس کتے کو پانی پلایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اس فعل کی قدر افزائی فرمائی اور اس کو بخش دیا۔ صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! کیا ہمارے لیے ان جانوروں میں بھی اجر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں! ہرذی حیات کو راحت پہنچانے میں اجر ہے‘‘ (بخاری: 6009)۔ (5) ''تم مسلمانوں کو ایک دوسرے پر رحم کرنے، ایک دوسرے سے محبت کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ شفقت سے پیش آنے میں ایک جسم کی طرح دیکھو گے کہ جب ایک عضو کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کی خاطر سارا جسم بیداری اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے‘‘ (بخاری:6011)، (6) ہر مسلمان پر صدقہ واجب ہے، ان میں سے ایک آپﷺ نے یہ بیان فرمایا: ''مصیبت زدہ کی مدد کرے‘‘ (بخاری: 1445)۔ خواجہ میر درد نے کہا ہے:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کَرُّو بیاں
اہلِ کراچی خود بھی بارشوں سے متاثر ہوئے، لیکن یہ ایک حوصلہ افزا علامت ہے کہ وہ اپنے سیلاب زدہ بھائیوں کی دل کھول کر اعانت کر رہے ہیں۔ دینی اور رفاہی تنظیموں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ اسی سے کھرے اور کھوٹے کی پہچان ہو جاتی ہے۔ الحمدللہ! اہلِ پاکستان کا مجموعی کردار اس حوالے سے نہایت حوصلہ افزا ہے۔ رمضان مبارک میں ٹیلی وژن چینلوں پر میلے ٹھیلے سجانے والے، تشہیر کے لیے کاریں، موٹر سائیکلیں اور سونے کے سکے بانٹنے والے اور طرح طرح کے قیمتی تحائف دینے والے خدمتِ خلق کے میدان میں نظر نہیں آ رہے۔
ہمارا مشورہ ہے کہ امدادی سامان کو ٹرکوں پہ سجاکر سڑکوں پر تقسیم نہ کیا جائے، اس سے لوٹ مار کے جو مظاہر سامنے آتے ہیں، اس سے قومی اخلاقیات کی کوئی اچھی تصویر سامنے نہیں آتی، نیز جو تندرست و توانا اور ہٹے کٹے ہیں، وہ تو چھین جھپٹ کر لے لیتے ہیں، لیکن جو ضعیف مرد، عورتیں اور بچے ہیں، وہ محروم رہ جاتے ہیں۔ ہمارے نزدیک بہتر صورت یہ ہے کہ سروے کیا جائے اور حقیقی مستحقین کا تعیّن کر کے کسی چہار دیواری کے اندر باوقار انداز میں سامان تقسیم کیا جائے۔ اصل متاثرین سیلاب کا پانی اترنے کے بعد اپنے ٹھکانوں کی تلاش میں جائیں گے، سڑکوں پر جمع ہونے والے ضروری نہیں کہ سب متاثرین ہوں، پس یہ امدادی سامان بھی امانت ہے اور بشری استطاعت کی حد تک دینی و رفاہی اداروں اور دیگر تنظیمات کی ذمہ داری ہے کہ امانت اُس کے اصل حق داروں تک پہنچائی جائے۔ دفاعی افواج چونکہ ایک منظّم ادارہ ہیں، اس لیے اُن کے کام میں نظم نظر آتا ہے، لیکن ظاہر ہے دوسرے اداروں کو یہ سہولت حاصل نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں