''رَطْب‘‘ کے معنی ہیں: 'تر‘ اور ''یَابِسْ‘‘ کے معنی ہیں: 'خشک‘۔ قرآنِ کریم میں ہے: ''اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں، انہیں اُس کے سوا (ازخود) کوئی نہیں جانتا اور وہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو خشکی اور سمندروں میں ہے اور وہ ہر اُس پتّے کو جانتا ہے جو (درخت سے) گرتا ہے اور زمین کی تاریکیوں میں ہر دانہ اور ہر خشک و تر چیز لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی ہے‘‘ (الانعام: 59)۔
قرآنِ کریم میں ''رطب و یابس‘‘ ہر قسم کی معلومات کے احاطے کے لیے آیا ہے، لیکن ہمارے اردو محاورے میں سچ اور جھوٹ، کھرے اور کھوٹے اور صحیح اور غلط کے مجموعے کو ''رطب و یابس‘‘ کہتے ہیں ۔ جب کسی کتاب میں ثقہ اور غیر ثقہ‘ دونوں طرح کی باتیں جمع ہوں تو کہا جاتا ہے: ''یہ رطب و یابس‘‘ کا مجموعہ ہے۔ ہمارے ہاں بظاہر میڈیا کی یلغار ہے، بے شمار ٹیلی وژن چینل ہیں۔ اس کے علاوہ یوٹیوب پر ڈیجیٹل چینلوں کی بھرمار ہے، نیز وٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام اور ٹویٹر کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ خبروں اور تجزیات کی بہتات ہے، جن میں سے بعض حقائق پر مبنی ہوتے ہیں، لیکن زیادہ تر تخمینوں، قیاسات، ظنّیات، مفروضات اور خواہشات پر مبنی ہوتے ہیں، ایک ہی چیز سے ہر ایک اپنا مَن پسند نتیجہ نکالتا ہے۔ سو خبر ذریعۂ علم ہے، لیکن اس سے بے خبری، ذہنی انتشار اور فکری کجی عام ہو رہی ہے۔ سراج اورنگ آبادی نے کہا ہے:
خبرِ تَحَیُّرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی
نہ تو، تُو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی
قرآنِ کریم نے خبر کی بابت یہ اصول بتایا: ''اے ایمان والو! تمہارے پاس کوئی فاسق شخص کوئی خبر لائے تو اچھی طرح چھان بین کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بے علمی میں کسی قوم کو تکلیف پہنچا دو پھر تمہیں اپنے کیے پر شرمندہ ہونا پڑے‘‘ (الحجرات: 6)۔
احادیثِ مبارکہ کے لیے بھی ردّ و قبول کے لیے معیارات مقرر کیے گئے ہیں اور اُس کے لیے علم کا ایک پورا شعبہ ''جرح و تعدیل‘‘ وجود میں آیا۔ حدیث کے راویوں کے احوال کو منضبط کرنے کے لیے ''اَسْمَآئُ الرِّجَال‘‘ کی کتب موجود ہیں۔ سند اور راویوں کے اعتبار سے احادیثِ مبارکہ کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ رسول اللہﷺ نے اپنی ذاتِ مبارکہ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنے پر بڑی وعید فرمائی ہے: ''جو مجھ پر دانستہ جھوٹ بولے، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے‘‘ (بخاری: 107)، نیز حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے فرمایا: میرے حوالے سے کوئی بات بیان کرنے میں احتیاط کیا کرو، صرف وہی بات میری طرف منسوب کیا کرو جس کا تمہیں یقینی علم ہو، جس نے مجھ پر دانستہ جھوٹ بولا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے اور جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی، وہ (بھی) اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے‘‘ (ترمذی: 2951)۔
یہی وجہ ہے کہ علمائے حدیث نے بڑی عرق ریزی اور باریک بینی سے احادیث کی چھان بین کی۔ حدیث کے راویوں کے احوال قلم بند کیے۔ لوگوں کی وضع کردہ احادیث کو چھان بین کر کے الگ کیا۔ کھرے کو کھوٹے سے ممتاز کیا۔ موضوع احادیث پر کتابیں لکھیں۔ علامہ علی بن سلطان محمد القاری لکھتے ہیں: ''شعبی بیان کرتے ہیں: میں ایک مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا، میرے پاس ایک لمبی ڈاڑھی والا شخص بیٹھا وعظ کر رہا تھا، اس کے گرد لوگوں کا ایک بڑا حلقہ تھا، اس نے بیان کیا: '' فلاں نے فلاں سے اور فلاں نے فلاں سے اور اس نے نبیﷺ سے یہ حدیث بیان کی: اللہ تعالیٰ نے دو صُور بنائے ہیں اور ہر صور دو مرتبہ پھونکا جائے گا، ایک بار پھونکنے سے لوگ بے ہوش ہوں گے اور دوسری بار قیامت کے لیے پھونکا جائے گا‘‘، شعبی کہتے ہیں: مجھ سے برداشت نہ ہوا، میں نمازجلدی ختم کر کے اس کی طرف مڑا اور کہا: شیخ! اللہ سے ڈرو اور غلط بیانی نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے صرف ایک صور پیدا کیا ہے، اسی کو دو بار پھونکا جائے گا۔ اُس شیخ نے کہا: اے فاجر! مجھ سے فلاں، فلاں نے یہ حدیث بیان کی ہے اور تُو مجھ پر ردّ کرتا ہے، پھر اس نے اپنی جوتی اُٹھا کر مجھے پیٹنا شروع کر دیا اور اس کی پیروی میں اس کے تمام مریدوں نے بھی مجھے اپنے جوتوں سے مارنا شروع کر دیا۔ بخدا! ان لوگوں نے مجھ کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک کہ انہوں نے مجھ سے یہ نہیں کہلوا لیا کہ اللہ تعالیٰ نے تین صور پیدا کیے ہیں‘‘ (موضوعاتِ کبیر، ص: 12، مطبوعہ: مطبع مجتبائی، دہلی)۔
حافظ ابوالقاسم علی بن الحسن المعروف بابن عساکرمتوفّٰی 571ھ بیان کرتے ہیں: ''ہارون الرشید کے پاس ایک زندیق کو لایا گیا، خلیفہ نے اس کو قتل کرنے کا حکم دیا، اس زندیق نے کہا: مجھ کو تو تم قتل کر دو گے، لیکن چار ہزار حدیثوں کا کیا کرو گے جن کومیں نے وضع کر کے لوگوں میں پھیلا دیا ہے، ان میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دیا ہے اور ان میں نبیﷺ کا فرمایا ہوا ایک حرف بھی نہیں ہے۔ ہارون الرشید نے کہا: اے زندیق! تُو عبداللہ بن مبارکؒ اور ابن اسحاق الفزاری کو کیا سمجھتا ہے، ان کی تنقید کی چھلنی سے تیری وضع کی ہوئی حدیثوں کا ایک ایک حرف نکل جائے گا‘‘ (تاریخ دمشق، ج: 7، ص: 127)۔ الغرض سوشل میڈیا پر ایسی خرافات کی یلغار ہے اور لوگ صحیح اور غلط کی تمیز کیے بغیر ہر سنی سنائی بات کو آگے پھیلا دیتے ہیں۔ اس کی بابت نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ثبوت ہی کافی ہے کہ وہ (تحقیق کیے بغیر) ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کرتا پھرے‘‘ (سنن ابودائود: 4992)۔
علامہ علی بن سلطان محمد القاری لکھتے ہیں: ''امام احمد اور یحییٰ بن معین نے مسجد رُصافہ میں نماز پڑھی، ان کے سامنے ایک قصہ گو کھڑا ہوا اور اس نے حدیث بیان کی: '' احمد بن حنبل و یحییٰ بن معین نے عبدالرزاق سے، انہوں نے معمر سے، انہوں نے قتادہ سے اور انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے: رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے لا الٰہ الا اللہ کہا، اللہ تعالیٰ اس کے ہر کلمہ سے ایک پرندہ پیدا کرتا ہے جس کی چونچ سونے کی ہوتی ہے اور پَر مرجان کے... اس نے بیس ورق کا ایک طویل قصہ بیان کیا۔ امام احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے، ان دونوں نے اس حدیث سے لاعلمی کا اظہار کیا اور قصہ گو واعظ سے پوچھا: تم نے یہ حدیث کس سے روایت کی ہے؟ اس نے کہا: احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین سے۔ یحییٰ بن معین نے کہا: میں یحییٰ بن معین ہوں اور یہ احمد بن حنبل ہیں، ہم نے رسول اللہﷺ کی یہ حدیث ہرگز روایت نہیں کی، تم کیوں رسول اللہﷺ پر جھوٹ باندھتے ہو؟ اس نے کہا: میں ایک عرصہ سے سن رہا تھا کہ یحییٰ بن معین احمق آدمی ہے، آج مجھے اس کی تصدیق ہو گئی۔ یحییٰ نے پوچھا: کیسے؟ اس نے کہا: تم یہ سمجھتے ہو کہ دنیا میں صرف تمہی یحییٰ بن معین اور احمد بن حنبل ہو؟ میں سترہ ایسے آدمیوں سے حدیث روایت کرتا ہوں جن کا نام احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین ہے اور ان کا مذاق اُڑا کر چل دیا‘‘۔ (موضوعاتِ کبیر، ص: 12)۔
علامہ ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں:''حدیث کے موضوع ہونے پر ایک قرینہ یہ ہے: کسی معمولی سی بات پر بہت سخت عذاب کی وعید ہو یا کسی معمولی سے کام پر بہت عظیم ثواب کی بشارت ہو اور یہ چیز بازاری لوگوں اور قصے اور واقعات بیان کرنے والوں کے ہاں بکثرت موجود ہے‘‘ (اَلنُّکَتْ عَلٰی کِتَابِ ابْنِ الصَّلَاح، ج: 2، ص: 843 تا 844)۔
اسی طرح ہمارے ہاں رمضان المبارک اور ربیع الاول کی آمد سے قبل ایک من گھڑت حدیث سوشل میڈیا پر پھیلائی جاتی ہے: ''جس نے سب سے پہلے رمضان المبارک کی یا ربیع الاول کی آمد کی اطلاع دی، اس کو جہنم سے آزاد کر دیا جاتا ہے‘‘، اس طرح کی حدیث کسی بھی صحیح بلکہ ضعیف اور موضوع احادیث پر لکھی گئی کتب میں بھی نہیں ملتی۔ اس لیے اس کی نسبت رسول اللہﷺ کی طرف کرنا درست نہیں ہے۔ پس اس طرح کے پیغامات دوسروں کونہیں بھیجنے چاہئیں۔
حدیث پاک میں ہے: ''رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا: کیا مسلمان بزدل ہو سکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں! (ایسا ہو سکتا ہے)، پھر سوال ہوا: کیا مسلمان بخیل ہو سکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں! (ایسا ہو سکتا ہے)، پھر سوال ہوا: کیا مسلمان جھوٹاہو سکتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں!‘‘ (موطا امام مالک: 3630)۔ لیکن ہمارے ہاں سچ جھوٹ میں تمیز ختم ہو گئی ہے، ہر ایک کا اپنا سچ ہے اور ہر ایک کو وہی سچ قبول ہے جو اُس کے فائدے میں ہو، مثلاً: ایک پاپولر لیڈر اپنی ہر تقریر میں کہتے ہیں: ہمارے ہاں دُہرا عدالتی معیار ہے، امیر کے لیے الگ اور غریب کے لیے الگ، لیکن جب اُن کی اپنی ذات کا مسئلہ آتا ہے تو یکساں عدالتی معیار انہیں کسی صورت میں قبول نہیں ہے، وہ اپنے لیے امتیاز چاہتے ہیں۔
اسی طرح ایک ہی بات کی ہر ایک مَن پسند تاویل کرتا ہے، جو اُس کے ''ولیِ نعمت‘‘ کے حق میں ہو اور اُس کے برعکس ہر تاویل مردود ہے، خواہ وہ صحیح ہی کیوں نہ ہو۔ انہیں اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہی اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے بجائے اپنے ممدوح اور محبوب کی خوشنودی درکار ہوتی ہے، خواہ اس کا موقف باطل ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح ایک حیلہ یہ تراشا جاتا ہے: ''میری بات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کیا گیا ہے‘‘۔ جب کوئی کلام مرکبِ مفید ہو، اس کی دلالت اپنے مفہوم پر بالکل واضح ہو، اس کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے کسی سیاق و سباق کی ضرورت نہ ہو، یعنی اُس کا مفہوم سمجھنا ماقبل اور مابعد پر موقوف نہ ہو، تو اپنے کلام کے حکم سے بچنے کے لیے ''سیاق و سباق کے بغیر‘‘ والی تاویل قابلِ قبول نہیں ہوتی۔ سیاق وسباق کا حوالہ اُس صورت میں قابلِ قبول ہوتا ہے جب اُس کے بغیر کلام سے فائدۂ تامّہ حاصل نہ ہو۔ (جاری)