ایک شخص نے سوال کیا: کیا یہ روایت صحیح ہے: ''ایک مرتبہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اذان نہیں دی تھی، تو سورج ہی نہیں نکلا‘‘، اسی طرح یہ روایت بھی بعض قصہ گو واعظ سناتے ہیں: ''حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان میں لکنت تھی اور وہ ''ش‘‘ کا تلفظ ''س‘‘ سے کرتے تھے؛ چنانچہ بعض لوگوں کی شکایت پر نبی کریمﷺ نے بلال کو اذان سے منع کر دیا تو اُس دن صبحِ صادق طلوع نہ ہوئی۔ صحابۂ کرام پریشان ہوگئے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اللہ کے نزدیک بلال کا ''س‘‘ بھی ''ش‘‘ ہے، جب تک بلال اذان نہ دیں، صبح نہیں ہو سکتی‘‘۔ یہ روایت بھی موضوع اور من گھرٹ ہے، اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ اس کی بابت حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی شارحِ بخاری لکھتے ہیں: ''تمام محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے: یہ روایت موضوع، من گھڑت اور بالکلیہ جھوٹ ہے‘‘ (فتاویٰ شارحِ بخاری، ج:2،ص: 38)۔ مزید لکھتے ہیں: ''مقررین نے اُن کی زبان میں تتلا پن بتایا ہے، وہ بھی غلط ہے، اُن کی آواز انتہائی شیریں، بلند اور دلکش تھی‘‘ (فتاویٰ شارحِ بخاری، ج: 2، ص: 41)۔ شیخ مرع بن یوسف کرمی مقدّسی (الفوائد الموضوعہ، ص: 38)، امام بدر الدین زرکشی (التذکرۃ فی الاحادیث المشتھرۃ، ج: 1، ص: 208)، امام جلال الدین سیوطی (اَلدُّرَرُ الْمُنْتَثِرَۃ فِی الْاحَادِیث المشتھَرۃ) اوردیگر محدثین نے بھی یہی بات لکھی ہے۔
چنانچہ عربی زبان کے علم المعانی میں خبر کی تعریف یہ لکھی ہے: ''خبر وہ ہے جو صدق وکذب (دونوں) کا احتمال رکھتی ہے‘‘، یعنی جب تک خبر کا سچا ہونا ثابت نہ ہو جائے، اُسے کسی بات کے ثبوت یا ردّ میں دلیل کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ صدق سے مراد یہ ہے : ''جو کہا گیا ہے، وہ نفس الامر اور واقع کے مطابق ہو‘‘ اور کذب سے مراد یہ ہے: ''جو کہا گیا ہے، وہ نفس الامر اور واقع کے خلاف ہو‘‘۔ بعض خطباء اور مقررین اپنے خطبات میں یہ حدیث بیان کرتے ہیں: '' نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''الْفَقْرُ فَخْرِیْ‘‘ (فقر میرا فخر ہے)۔ نہ صرف واعظین بلکہ بہت سی نامور شخصیات اپنی کتب و رسائل میں بکثرت اسے رسول اللہﷺ کی حدیث کے طور ذکرکرتے ہیں اور نعت گو شعراء اپنے کلام میں اس مضمون کو منظوم کرتے ہیں۔ چنانچہ علامہ اقبال نے کہا:
سماں الْفَقْرُ فَخْرِیْ کا رہا، شانِ امارت میں
بآب و رنگ و خال و خط، چہ حاجت رُوئے زیبا را
حفیظ جالندھری نے کہا:
اگرچہ فَقْرُ فَخْری رتبہ ہے، تیری قناعت کا
مگر قدموں تلے ہے، فرِ کِسرائی وخاقانی
بہادرشاہ ظفر نے کہا:
جس کو حضرت نے کہا: الْفَقْرُ فَخْرِی اے ظفرؔ!
فخرِ دیں، فخرِ جہاں پر، وہ فقیری ختم ہے
محدثین کے نزدیک ایسی کوئی حدیث نبی کریمﷺ سے ثابت نہیں ہے اور یہ جعلی اور من گھڑت روایت ہے۔ امیر المومنین فی الحدیث امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: ''اس حدیث کے بارے میں حافظ ابن تیمیہ سے پوچھا گیا تو اُنہوں نے کہا: یہ جھوٹ ہے، مسلمانوں کے ذخیرۂ روایات میں اس قسم کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی اور امام صغانی نے بھی اس کے موضوع ہونے کی تصدیق فرمائی ہے‘‘ (اَلتَّلْخِیْصُ الْحَبِیْر، ج: 3، ص:241)۔ علامہ سخاوی نے اَلْمَقَاصِدُ الْحَسَنَہ (ص: 480)، علامہ عجلونی نے ''کَشْفُ الْخِفَاء (ج: 2، ص: 87)، علامہ محمد طاہر پٹنی نے ''تَذْکِرَۃُ الْمَوْضُوْعَاتْ (ص: 178) میں اس روایت کو باطل و من گھڑت قرار دیا ہے۔
اس کے برعکس صحیح احادیثِ مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے کہ نبی کریمﷺ فقر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کرتے تھے اور آپﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو بھی یہی تعلیم ارشاد فرمائی کہ وہ فقر و فاقے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کریں؛ چنانچہ آپﷺیہ دعا مانگا کرتے تھے: ''اے اللہ! میں فقر کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘ (صحیح بخاری: 6376)، ایک روایت میں ہے: آپﷺ نے دعافرمائی: ''(اے اللہ!) میں کفر و فقر سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘ (سنن ابوداود: 5090)۔
البتہ آپﷺ کا اللہ تعالیٰ سے مَسکنت کی دعا مانگنا ثابت ہے۔ حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں: نبی کریمﷺ نے فرمایا:'' اے اللہ! مجھے مسکین ہی زندہ رکھ، مَسکنت میں موت عطا فرما اور مساکین کے ساتھ میرا حشر فرما‘‘ (سنن ترمذی: 2352)، لیکن محدثین فرماتے ہیں: یہاں مَسکنت سے غربت اور فقر و فاقہ مراد نہیں، بلکہ تواضع و انکسار اور اپنے رب کے حضور عَجز و احتیاج کا احساس اور اس کی حفاظت، رحمت اور نگرانی کا طالب ہونا ہے۔ امام بیہقی فرماتے ہیں: ''میرے نزدیک اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے اُس مَسکنت کو طلب نہیں کیا جس کا معنی قِلّت لیا جاتا ہے، بلکہ آپﷺ نے اس مَسکنت کا سوال کیا ہے جس کے معنی انکسار اور عاجزی کے ہیں‘‘ (سنن بیہقی، ج: 7، ص: 18)۔
ائمہ دین و فقہائے اسلام نے انبیائے کرام کے متعلق فقیر، غریب، یتیم، مسکین اور بے چارہ وغیرہ ایسے کلمات کے استعمال کو سختی سے ناجائز و حرام قرار دیا ہے، جن میں بے توقیری، بے ادبی اور اہانت کا پہلو پایا جاتا ہے؛ چنانچہ امامِ اہلسنت امام احمد رضا قادری سے سوال ہوا: ''ایک خطیب نے وعظ کے دوران نبی کریمﷺکے متعلق کہا: آپ یتیم، غریب، بے چارے تھے‘‘، امامِ اہلسنت نے اس کے جواب میں نبی کریمﷺ کے جو اوصاف و کمالات اور خصائص و القابات ذکر فرمائے، وہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں؛ چنانچہ آپ نے جواب کا آغاز اس طرح فرمایا:
''حضورِ اقدس، قَاسِمُ النِّعَم، مَالِکُ الْاَرْض وَرِقَابُ الْاُمَم، مُعْطِی مُنْعِم، قُثُمْ، قَیِم، وَلِیْ، وَالِیْ، عَلِی، عَالِیْ، کَاشِفُ الْکُرَبْ، رَافِعُ الرُّتَبْ، مُعِیْنِ کَافِیْ، حَفِیْظِ وَافِیْ، شَفِیْعِ شَافِیْ، عَفْوِ عَافِیْ، غَفُوْرِ جَمِیْل، عَزِیْزِ جَلِیْل، وَہَّابِ کَرِیْم، غَنِیِ عَظِیْم، خَلِیْفَۂِ مُطْلَق حَضْرَتِ رَبّ، مَالِکُ النَّاسِ وَدَیَّانِِ عَرَبْ، وَلِیُ الْفَضْل، جَلِیُّ الْاَفْضَال، رَفِیْعُ الْمِثْلِ، مُمْتَنِعُ الْاَمْثَال صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم وَاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ کی شانِ اَرفع و اعلیٰ میں الفاظِ مذکورہ (یتیم، غریب، مسکین، بے چارہ)کا اطلاق ناجائز و حرام ہے‘‘۔
پھر متعدد کتب کے حوالہ جات کے ساتھ لکھا: انبیائے کرام علیہم السلام کو فقر سے موصوف نہ کیا جائے اور یہ جائز نہیں کہ ہمارے آقا نبی کریمﷺ کو فقیر کہا جائے۔ رہا لوگوں کا ''الْفَقْرُ فَخْرِیْ‘‘ کو آپﷺ سے مروی کہنا تو اس کی کوئی اصل نہیں۔ امام بدر الدین زرکشی نے امام سبکی کی طرح یہ کہا ہے کہ یہ جائز نہیں کہ آپ کو فقیر یا مسکین کہا جائے اور آپﷺ اللہ کے فضل سے لوگوں میں سب سے بڑھ کر غنی ہیں، خصوصاً اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ''ہم نے آپ کو حاجت مند پایا سو غنی کر دیا‘‘ کے نزول کے بعد، رہا آپﷺ کا یہ فرمان:'' اے اللہ! مجھے مسکین زندہ رکھ‘‘، تو اس سے مراد باطنی مَسکنت کو خشوع کے ساتھ طلب کرنا ہے اور''الْفَقْرُ فَخْرِیْ‘‘ باطل ہے۔ اس کی کوئی اصل نہیں۔ جیسا کہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے فرمایا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، ج: 14، ص: 628)۔
اِسی طرح واقعۂ معراج کی بابت بہت سے لوگوں نے مختلف حدیثیں گھڑ رکھی ہیں؛ چنانچہ بہت سے مقررین بڑے ترنگ اور جوش کے ساتھ یہ روایت بیان کرتے ہیں: ''نبی کریمﷺ نے جب شبِ معراج عرشِ الٰہی کی طرف عروج فرمانے کا ارادہ فرمایا تو دل میں خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ''وادیِ طُویٰ‘‘میں نعلین اُتار نے کا حکم دیا تھا، سو اس فرمانِ الٰہی کے پیشِ نظر آپﷺ نے بھی اپنے نعلین اُتارنے چاہے۔ آواز آئی: اے محمد! اپنے نعلین نہ اُتارو، نعلین سمیت ہی آئو تاکہ آپ کے نعلین کی برکت سے عرش اعظم کو فضیلت حاصل ہو جائے‘‘، اس روایت کو بھی محدثین نے سراسر من گھڑت اور بے اصل قرار دیا ہے۔ علامہ عبدالحیی لکھنوی اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں: ''اس قصے کا تذکرہ اکثر نعت گو شعراء نے کیا ہے اور اسے اپنی تالیفات میں درج کیا ہے اور ہمارے زمانے کے اکثر واعظین اسے طوالت و اختصار کے ساتھ اپنی مجالسِ وعظ میں بیان کرتے ہیں، جبکہ شیخ احمد اَلْمُقْرِی نے اپنی کتاب ''فَتْحُ الْمُتَعَال فِیْ مَدْحِ النِّعَال‘‘ میں اور علامہ رضی الدین قزوینی اور محمد بن عبدالباقی زرقانی نے ''شَرْحُ مَوَاہِبِ اللَّدُنْیَہ‘‘ میں نہایت صراحت سے وضاحت کی ہے کہ یہ قصہ مکمل طور پر موضوع ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے گھڑنے والے کو برباد کرے۔ معراج شریف کی کثیر روایات میں سے کسی ایک سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ نبی کریمﷺ اس وقت پاپوش پہنے ہوئے تھے۔ بعض محدثین فرماتے ہیں: ''جس شخص نے یہ روایت گھڑی ہے کہ آپﷺ نعلین سمیت عرش پر چڑھے، خدا اس کو غارت کرے کہ اس نے شدید بے حیائی کا مظاہرہ کیا ہے اور مؤدِّبین کے سردار اور عارفین کے پیشوا کے بارے میں ایسی جسارت کی ہے‘‘ (اَلْآثَارُ الْمَرْفُوْعَۃ فِی الْاَخْبَارِ الْمَوْضُوْعَۃ، ملخصًا، ص: 92 تا 93)۔ علامہ لکھنوی نے اس حوالے سے اپنے رسالے ''غَایَۃُ الْمَقَال فِیْمَا یَتَعَلَّقُ بِالنِعَال‘‘ میں بھی کلام فرمایا ہے۔
امامِ اہلسنّت سے سوال ہوا: ''حضور اقدسﷺ کا شبِ معراج عرشِ الٰہی پر نعلین مبارک سمیت تشریف لے جانا صحیح ہے یا نہیں؟‘‘، آپ نے جواباً ارشاد فرمایا: ''یہ محض جھوٹ اور موضوع ہے‘‘ (احکام شریعت، ص: 166)۔ شارحِ بخاری علامہ شریف الحق امجدی لکھتے ہیں: ''اس روایت کے جھوٹ اور موضوع ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ حدیث کی کسی معتبر کتاب میں یہ روایت مذکور نہیں ہے، جو صاحب یہ بیان کرتے ہیں کہ نعلین پاک پہنے عرش پر گئے، ان سے پوچھئے کہ کہاں لکھا ہے‘‘ (فتاویٰ شارحِ بخاری، ج: 1، ص: 307)۔
حضرت اویس قرنیؓ کے بارے میں بعض روایات میں ہے: ''جب انہوں نے غزوۂ اُحد میں حضورﷺ کے دودندانِ مبارَک کے ٹوٹنے کا سنا تو فرطِ عشق میں اپنے سارے دانت توڑ دیے کہ نہ جانے آپﷺ کے کون سے دندانِ مبارک شہید ہوئے ہیں، ایک جگہ تو یہ بھی پڑھنے کو ملا: ''ان کے ٹوٹے ہوئے دانت پھر صحیح سالم نکل آئے انہوں نے پھر توڑے اور ایسا سات بار ہوا، پھر چونکہ وہ ٹھوس غذا نہیں چبا سکتے تھے، اس لیے اُن کی خاطر قدرت نے کیلے کا پودا پیدا فرمایا‘‘۔ خوفِ خدا سے عاری نعت خواں ایسے اشعار پڑھ کر نذرانے سمیٹتے ہیں، یہ روایت کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے اور نہ ہی یہ عشقِ مصطفیﷺ کا وہ معیار ہے، جو شریعت کو مطلوب ہے۔ اگر محبتِ مصطفیﷺ کا معیار یہی ہوتا تو صحابۂ کرام جو محبتِ رسول میں اپنی جانیں نچھاور کر رہے تھے، ضرور مشابہتِ رسول کی خاطر اپنے دانتوں کو توڑ دیتے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پس وہی قرینۂ عشقِ رسول پسندیدہ اور معتبر ہے، جو شریعت کے اصولوں کے مطابق ہو، جبکہ شریعت کی رو سے اپنی جان یا کسی عضو کو تلف کرنا جائز نہیں ہے۔