ہم نے قرآن و سنت اور شریعتِ اسلامیہ کی روشنی میں ''منصبِ قضا‘‘ پر بالترتیب 21 اور 23 جولائی کو دو کالم لکھے۔ اس سے یہ بتانا مقصود تھا کہ نظامِ ریاست و حکومت کا توازن اعلیٰ عدالتی معیار کا مرہونِ منّت ہوتا ہے، ورنہ اگر میزانِ عدل کسی ایک جانب جھک جائے تو حق داروں کے حقوق تلف ہو جاتے ہیں اور پھر داد رسی اور شنوائی کا کوئی اور فورم بھی دستیاب نہیں ہوتا، کیونکہ ریاست و حکومت کی ستم رانی پر تو عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے، لیکن اگر عدالت سے ہی عدل مفقود ہو جائے تو پھر صرف اللہ تعالیٰ کی عدالت ہی باقی رہ جاتی ہے، دنیا میں محرومی و نامرادی مقدر بن جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت کسی کو اسی دنیا میں ہی مکافاتِ عمل سے دوچار فرما دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے شدید عذاب ہے، (یہ) وہ لوگ ہیں کہ جب دوسروں سے ناپ کر لیں تو پورا لیں اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیں تو کم کر دیں‘‘ (المطففین: 1 تا 3)۔
مشہور مقولہ ہے: ''عدل ہونا بھی چاہیے اور ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے‘‘، اللہ تعالیٰ تو مالکِ حقیقی ہے، وہ چاہے تو ایک امرِ کُن سے پورے نظامِ کائنات کو نیست و نابود کردے، وہ کسی کو جوابدہ نہیں ہے، کیونکہ وہ سب کا خالق و مالک ہے۔ لیکن اس کے باوجود اُس نے آخرت میں جزا و سزا کے لیے نظامِ عدل قائم فرمایا، میزانِ عدل قائم کیا تاکہ عدل ہوتا ہوا نظر بھی آئے، ورنہ وہ تو''عالِمُ الغیب وَالشَّھَادَہ‘‘ہے، اُسے ظاہر و مستور ہرچیز کا علم ہے، وہ اپنے علم کی بنیاد پر جنتیوں کو جنت میں اور جہنمیوں کو جہنم میں بھیج سکتا تھا، ماضی کے عقل پرستوں یعنی مُعتزِلہ کا یہی عقیدہ تھا۔ لیکن اُس نے ''میزانِ عدل‘‘ قائم کرنے کی بابت فرمایا: ''آج (قیامت )کے دن (اعمال کا ) وزن حق ہے‘‘ (الاعراف: 8)، نیز فرمایا: ''اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو قائم فرمائیں گے‘‘ (الانبیاء: 47)۔ اسی طرح قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں اعمال کے بھاری ہونے اور ہلکا ہونے اور دونوں کے انجام کا بھی ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا: ''اور بیشک تم پر نگہبان (فرشتے) مقرر ہیں، (وہ) معزز لکھنے والے ہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو، وہ سب جانتے ہیں‘‘ (الانفطار: 9 تا 11)، نیز فرمایا: ''وہ جو بات بھی کہتا ہے، اس کے پاس ( لکھنے کے لیے) محافظ (فرشتہ) تیار رہتا ہے‘‘ (ق: 18)۔
اسی طرح قرآنِ کریم نے بتایا ہے کہ انسان کے اعمال کا باقاعدہ ریکارڈ مرتب ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''سو جس کو اُس کانامۂ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، وہ کہے گا: لو! میرا نامۂ اعمال پڑھو، مجھے یقین تھا کہ مجھے اپنا حساب ملنا ہے، پس وہ بلند باغات میں پسندیدہ زندگی میں ہو گا، جن کے پھلوں کے خوشے جھکے ہوئے ہوں گے، (اُس سے کہا جائے گا) گزشتہ ایام میں تم نے جو نیک اعمال کیے، اُن کے عوض خوب مزے سے کھائو اور پیو اور رہا وہ جس کو اُس کا صحیفۂ اعمال اُس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، پس وہ (حسرت زدہ ہوکر) کہے گا: کاش! مجھے میرا اعمال نامہ دیا ہی نہ جاتا اور مجھے معلوم ہی نہ ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے، کاش! (موت کے ساتھ ہی) قصہ تمام ہو چکا ہوتا‘‘ (الحاقہ:19 تا 27)۔ دوسرے مقام پر فرمایا: ''سو جس شخص کا نامۂ اعمال اُس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو عنقریب اس سے بہت آسان حساب لیا جائے گا اور وہ خوشی خوشی اپنے گھر والوں کی طرف لوٹے گا اور جس کا نامۂ اعمال اسے پیٹھ پیچھے سے دیا جائے گا تو وہ عنقریب اپنی موت طلب کرے گا اور اُسے بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دیا جائے گا‘‘ (الانشقاق: 7 تا 12)۔
ہمارے ہاں عالی مرتبت جج صاحبان بعض اوقات ریمارکس دیتے ہیں:''ہمیں لوگوں کی باتوں کی پروا نہیں ہے‘‘، انہیں یقینا اُن لوگوں کی پروا نہیں ہونی چاہیے جو واہی تباہی بکتے ہیں، جنہیں حقیقی عدل سے چِڑ ہے اور وہ ذاتی نفرت و عناد میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ لیکن جن کی حق تلفی ہوئی ہے اور جو کسی غیر منصفانہ فیصلے کی زَد میں آئے ہیں، اُن کی ضرور پروا ہونی چاہیے۔ حدیث پاک میں ہے: ''حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے معاذ بن جبلؓ کو یمن کی طرف (قاضی بنا کر) بھیجتے ہوئے تاکید فرمائی: مظلوم کی پکار سے ڈرو، کیونکہ اُس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے‘‘ (بخاری: 2448)، نیز حضرت عمرؓ نے اپنے آزاد کردہ غلام ''ھُنَیّ‘‘ کو ایک (سرکاری) چراگاہ کا نگران بنایااور فرمایا: ''ھُنَیّ! اپنے بازو کو مسلمانوں سے ملا کر رکھنا اور مظلوم کی دعا سے ڈرتے رہنا، کیونکہ مظلوم کی دعا قبول ہوتی ہے‘‘ (بخاری: 3059)، نیزفرمایا: ''تین قسم کے افراد ایسے ہیں کہ اُن کی دعا ردّ نہیں ہوتی: عادل حکمران، افطار کے وقت روزے دار کی دعا اور مظلوم کی دعا بادلوں سے اوپر جاتی ہے اور اُس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ربّ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے: میری عزت کی قسم! میں ضرور تمہاری مدد کروں گا، خواہ کچھ وقت گزرنے کے بعد ہو‘‘ (ترمذی: 2526)۔ اسی لیے کہا جاتا ہے: ''اللہ کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں ہے‘‘۔
4 اکتوبر کو عالی مرتبت چیف جسٹس آف پاکستان نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت پارلیمنٹیرین کو تاحیات نا اہل قرار دینے کو ''ڈریکونین لا‘‘ کہا ہے۔ اسے اردو میں ''کالا قانون‘‘ کہا جاتا ہے۔ نہایت ادب کے ساتھ گزارش ہے: ''اسے کالا قانون قرار دینا تب درست ہوتا، جب تاحیات نا اہلی آئین میں درج ہوتی یا ایکٹ کی صورت میں پارلیمنٹ سے پاس ہوتی۔ 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کی تعبیر سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے فیصلے میں کی ہے، سو اِسے ''ڈریکونین لا‘‘ کے بجائے ''سیاہ فیصلہ‘‘ قرار دینا چاہیے‘‘۔ یہ فیصلہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے سنایا اور اس بنچ کے دیگر ارکان یہ تھے: جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد۔ آج سپریم کورٹ آف پاکستان کو اپنے ہی فیصلے کو ''ڈریکونین لا‘‘ کہنا پڑ رہا ہے۔ مزید یہ کہ آئین و قانون اور عدالتی نظائر پر مبنی فیصلے کرنے کے بجائے ''بلیک لا ڈکشنری‘‘ سے فیصلے کرنے کی روایت ہماری عدلیہ نے ڈالی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے فیصلوں میں خلیل جبران کے اقوال اور افسانوں کے کرداروں گاڈ فادر اور سیسلین مافیا کی اصطلاحات بھی استعمال کیں۔ جج تو آئین و قانون کے سانچے میں ڈھلی ہوئی شخصیت کا نام ہوتا ہے، اس کے فیصلے صرف اور صرف آئین و قانون اور عدالتی نظائر کے حوالہ جات سے مزیّن ہونے چاہئیں، اسی لیے تو ربِ کائنات نے فرمایا تھا: ''اے ایمان والو! انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ہوئے اللہ کے حکم پر مضبوطی سے قائم رہو اور کسی قوم کی عداوت تمہیں ناانصافی پر نہ ابھارے، تم عدل کرتے رہو، یہی شعار تقویٰ کے زیادہ قریب ہے‘‘ (المائدہ: 8)۔
اگر موجودہ سپریم کورٹ فل بنچ قائم کر کے اپنے تمام متنازعہ فیہ فیصلوں پر نظرِ ثانی کر ے اور آئین و قانون کے خلاف سب فیصلوں کو منسوخ کرکے انہیں آئین وقانون کے مطابق ڈھالے تو یہ اچھی روایت ہو گی۔ کوئی ادارہ ہو یا صاحبِ جاہ و منصب فرد، غلطی سے کوئی مبرّا نہیں اور آدم علیہ السلام کی سنّت یہ ہے کہ اپنی لغزش کو تسلیم کر کے اس پر اللہ سے غیر مشروط معافی مانگی جائے اور جہاں تلافی ممکن ہے، اُس کی تلافی کی جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا تحریکِ عدم اعتماد کے موقع پر رات کو کھلنا قابلِ فہم تھا، کیونکہ آئین شکنی کا مسئلہ درپیش تھا اور اُس کے سدِّباب میں کوئی بھی کوتاہی ملک کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی تھی، لیکن کسی فرد، خواہ وہ کتنا ہی مقبولِ عام ہو، کے لیے راتوں کو یا چھٹی کے دن ضمانت کے لیے عدالت کا کھلنا ایک امتیازی اور خصوصی رعایت ہے، یہ کسی بھی صورت میں مساوات پر مبنی عدل کی مثال نہیں ہے اور اس پر لوگوں کا انگشت زنی کرنا درست ہے یا اگر ہم عدل کے ایسے ہی اعلیٰ معیار قائم کرنا چاہتے ہیں تو ایسا قانون بننا چاہیے جس سے پاکستان کا ہر شہری یکساں طور پر مستفید ہو سکے۔
ہماری اعلیٰ عدلیہ کی ایک قابلِ تقلید روایت رہی ہے کہ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے بنچ کے کسی جج پر کسی فریقِ مقدمہ نے عدمِ اعتماد کا اظہار کیا ہو تو وہ اپنے آپ کو اس بنچ سے الگ کر دیتے ہیں، حالانکہ اُن پر قانون کی رُو سے ایسی کوئی پابندی عائد نہیں ہوتی، لیکن وہ اعلیٰ عدالتی اَقدار کی پاس داری کرتے ہوئے رضاکارانہ طور پر ایسا کرتے رہے ہیں، عدلیہ کی تاریخ میں اس کی درجنوں مثالیں مل جائیں گی۔ لیکن ہمارے ہاں ایسا بھی ہوا کہ ایک پورے بنچ پر ایک فریق نے عدمِ اعتماد کا اظہار کیا، لیکن بنچ نے اُسے قابلِ توجہ نہ سمجھا، پرِکاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دی اوراسی بنچ کو قائم رکھنے پر اصرار کیا، قانون میں تو اس کی گنجائش ہے، لیکن عدالتی روایات اس کے برعکس ہیں۔ وقت گزر جاتا ہے، فیصلے نافذ بھی ہوجاتے ہیں، لیکن جسٹس محمد منیر، جسٹس مولوی مشتاق احمد، جسٹس انوارالحق اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو سزائے موت دینے والے اُن کے رفقاء، جسٹس ارشاد حسن خاں، جسٹس ثاقب نثار، جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس آصف سعید کھوسہ اورجسٹس گلزار احمد کے نام اس وقار کے ساتھ نہیں لیے جاتے۔ اس کے برعکس جسٹس عبدالرشید، جسٹس حمود الرحمن، جسٹس اے آر کارنیلیس، جسٹس دراب پٹیل، جسٹس ایم آر کیانی اور جسٹس فخر الدین جی ابراہیم و بعض دیگر جج صاحبان کے نام نہایت احترام کے ساتھ لیے جاتے ہیں۔ (جاری)