عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب اس سال پاکستان میں غیر معمولی بارشیں ہوئیں اور ماضی قریب کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ ماضی میں سیلاب دریائوں سے آتے تھے، مگر اس بار آسمان سے سیلاب خیز بارشیں ہوئیں، غیر متوقع طور پر بے پناہ تباہی و بربادی ہوئی، ماہرینِ موسمیات کے مطابق کلائوڈ برسٹ ہوا، یعنی بادل پھٹ پڑے اور سیلاب آسمان سے برسا۔ ابھی تک جانی اور مالی نقصان کے قطعی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ بعض ذرائع نے نقصانات کا مجموعی تخمینہ 30 ارب ڈالر یعنی 66 کھرب روپے بتایا ہے، جبکہ رواں مالی سال میں ہمارے سالانہ محصولات کا تخمینہ سات کھرب روپے ہے۔ نیز متاثرہ انسانی آبادی کا تخمینہ تقریباً ساڑھے تین کروڑ اور متاثرہ رقبہ سندھ کے مجموعی رقبے کا ایک تہائی بتایا جا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا، فضائی جائزہ بھی لیا اور کہا: ''میں نے زندگی میں ایسا سیلابی منظر نہیں دیکھا، حدِ نظر تک پانی ایک بڑی جھیل کا منظر پیش کر رہا تھا‘‘، انہوں نے یہ بھی کہا: ''عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بڑے صنعتی ممالک کے کارخانوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا اخراج ہے‘‘۔
گرین ہائوس گیسوں سے کیمیائی مرکب میتھین نکلتا ہے، اس کا کیمیائی فارمولا CH4 ہے، یہ ماحولیاتی حرارت میں غیر معمولی اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس کیمیائی مادّے کی پیداوار اور اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، لیکن اس کا نوّے فیصد اثر پاکستان پر پڑا ہے۔ الغرض پاکستانی قوم کودوسروں کے گناہوں کی سزا بھگتنی پڑی ہے، علامہ اقبال نے کہاہے:
نوائے صُبح گاہی نے، جگر خُوں کر دیا میرا
خدایا! جس خطا کی یہ سزا ہے‘ وہ خطا کیا ہے!
اقوامِ عالَم نے پاکستان سے ہمدردی کا اظہار توکیا ہے، لیکن جتنی مقدار میں بیرونی مدد آنی چاہیے، وہ نہیں آئی۔ یہ عالمی بے حسی کا ثبوت ہے۔ یوکرین کی جنگ پر امریکہ کی قیادت میں نیٹو اتحاد اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے، لیکن پاکستان کی امداد اس کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جدید انداز میں اس تباہی کے مناظر کو فلمایا جائے، عالمی فورموں پر اس کی تشہیر کی جائے اور انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑا جائے۔ اس تباہی کا اُفقی اور عمودی پھیلائو پاکستان میں 1974ء اور 2005ء کے زلزلوں سے کئی گنا زائد ہے، لیکن ہم شاید اس کی سائنسی بنیادوں پر تشہیر نہیں کر سکے۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی فورموں پر اس ارضی وسماوی آفت کی کماحقہٗ تشہیر کی جائے، عالمی برادری اور امیر ممالک کے ضمیر کو جھنجوڑا جائے، نیز بیرونی قرضوں کی معافی کی تحریک مؤثر انداز میں برپا کی جائے، کیونکہ اُن قرضوں کی اقساط اور سود کی صورت میں ہم کافی حصہ پہلے ہی ادا کر چکے ہیں، ورنہ جو تھوڑی بہت مدد آئے گی، وہ بھی قرضوں کی واجب الادا اقساط کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔ کورونا کے دوران بھی پی ٹی آئی حکومت نے قرضوں کو مؤخر کرنے کی سہولت حاصل کی تھی، لیکن اب اُن سب کی ادائیگی سر پر ہے، پس اس کا حل یہ ہے کہ قرضوں کی معافی کی تحریک چلائی جائے تاکہ پاکستانی معیشت کو دیگر حکومتوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے غیر معمولی بوجھ سے نَجات ملے، ہم اپنے وسائل سے ترقیاتی کاموں کا آغاز کریں، نیز اگر پاکستان کو زرِ مبادلہ کی شکل میں خاطر خواہ نقد امداد مل جائے تو اس سے معاشی سرگرمی بھی تیز ہو سکتی ہے اور روزگار کے مواقع بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ان نتائج کے حصول کے لیے ملک میں سیاسی استحکام بے حد ضروری ہے، جبکہ سیلاب کے زمانے میں ایک طرف فقید المثال تباہی اور بربادی ہو رہی تھی اور دوسری طرف ایک پاپولر لیڈر جلسوں پہ جلسے کرکے سیاسی تقسیم کو بڑھاوا دے رہے تھے۔ انہیں عوام کے دکھ درد سے کوئی غرض نہ تھی، انہیں اگر کوئی دکھ تھا تو اپنے اقتدار کے زوال کا اور اگر کوئی امنگ تھی تو دوبارہ مسندِ اقتدار پر فائز ہونے کی تھی۔
ہمارا میڈیا سکرین کی رونق بڑھانے کے لیے اکثر چیزوں کی منفی تصویر پیش کرتا ہے۔ ہر روز کسی نہ کسی سیلاب زدہ کو دکھائے گا کہ ہمارے پاس کوئی نہیں آیا، کوئی مدد نہیں پہنچی، ہم بے یار و مددگار پڑے ہیں، یقینا ایسے لوگ بھی ہوں گے کہ جن تک کسی کی رسائی نہ ہوئی ہو، لیکن ایسا بھی نہیں کہ کوئی امداد کسی تک نہ پہنچی ہو۔ حکومت کے علاوہ رفاہی اداروں نے بڑے پیمانے پر امدادی کارروائیاں کی ہیں، ان اداروں میں اخوت، سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل، فیضان گلوبل ریلیف فائونڈیشن (FGRF)، الخدمت اور دیگر رفاہی ادارے بڑے پیمانے پر کام کر رہے ہیں۔ ہم نے بھی محدود پیمانے پر بعض علاقوں میں راشن تقسیم کیا ہے۔ حکومت نے بھی ریسکیو کے موقع پر بی آئی ایس پی کے تحت نقد رقوم تقسیم کی ہیں اور بحالی کے لیے پیکیج کا اعلان بھی کیا ہے۔ سو جہاں کام ہو رہا ہے، اُس کی تحسین کی جانی چاہیے اور جہاں کوتاہی ہو رہی ہے، اُس کی نشاندہی کرنی چاہیے، لیکن بحیثیتِ مجموعی یہ تاثر نہیں دینا چاہیے کہ برسرِ زمین ریسکیو اور بحالی کا سرے سے کوئی کام ہی نہیں ہوا، اس سے پاکستان کے بارے میں عالمی سطح پر منفی تاثر جاتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری، وزیر اعلیٰ سندھ اور دیگر حکام برسرِ زمین دورے کرتے رہے ہیں، وزیراعظم نے بھی صوبائی وزیراعلیٰ کے ہمراہ دورے کیے ہیں؛ البتہ اُن کے کام کی تفصیلات ہمارے علم میں نہیں ہیں۔ دعوتِ اسلامی، الخدمت اور تحریک لبیک کے ہر جگہ اپنے مقامی کارکنا ن بھی مصروفِ کار رہے ہیں۔ سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل نے بدنظمی سے بچنے کے لیے آرمی کے اشتراک سے کام کیا ہے اور فیضان گلوبل ریلیف فائونڈیشن نے ٹرانسپورٹیشن کے لیے پاکستان ایئر فورس کی مدد لی ہے تاکہ چھینا جھپٹی نہ ہو، اسی طرح دیگر رفاہی تنظیمیں بھی میدانِ عمل میں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ چھوٹے بڑے رفاہی اداروں اور افراد کی خدمات بھی قابلِ قدر ہیں۔
ہم نے سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل، فیضان گلوبل ریلیف فائونڈیشن اور الخدمت سے کہا ہے کہ جہاں جہاں یہ کام کر رہے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کریں تاکہ امداد کا ایک ہی جگہ ارتکاز نہ ہو کہ بعض لوگوں کو ایک سے زیادہ ذرائع سے امداد پہنچ جائے اور بعض بالکل محروم رہیں۔ اسی طرح بحالی کے کام کے لیے بھی اگر یہ تنظیمیں اپنے لیے علاقے مختص کر لیں تو ہر ایک کا کام نمایاں نظر آئے گا اور یہ بھی نہیں ہو گا کہ تمام وسائل کا رُخ ایک ہی طرف ہو جائے، بلکہ خدمات کا زیادہ پھیلائو ہو گا۔ معلومات کے تبادلے کا ایسا مرکز دفاعی اداروں کی مدد سے بھی قائم کیا جا سکتا ہے اور رفاہی ادارے خود بھی ایسا انتظام کر سکتے ہیں۔
حکومت ماہرین کی مدد سے متاثرین کیلئے نئے مکانات کی تعمیر کے لیے ایسے مقامات کا تعین کرے جو دوبارہ سیلاب کی زد میں نہ آئیں، پری کاسٹ مکانات کا ایک معیاری ڈیزائن تیار کیا جائے جو کم خرچ و بالا نشین ہو، سب مکانات ایک ہی سائز اور ایک ہی معیار کے بنائے جائیں، پری کاسٹ سے مراد ایسے مکانات ہیں جن کے بیم، پِلر اورچھت کے اجزا پہلے سے تیار کر لیے جاتے ہیں۔ اس سے پری کاسٹ انڈسٹری کو بھی فروغ ملے گا۔
آئندہ اس طرح کی سیلابی تباہی اوربربادی سے بچنے کی تدابیر بھی اختیار کی جائیں، اس کی صورت یہ ہے کہ مختلف علاقوں میں پانی کے ذخائر کے لیے بڑی بڑی جھیلیں یا چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جائیں۔ قدرت سے جنگ کوئی نہیں کر سکتا، لیکن نقصانات کے امکانات میں قابلِ ذکر حد تک کمی لانے کی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔ بلوچستان اور پختونخوا پہاڑی علاقے ہیں، وہاں چھوٹے چھوٹے ڈیم کم خرچ پر بنائے جا سکتے ہیں، اس طرح بارانی سیلاب کی تباہی میں قابلِ ذکر حد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔
ہمارے ہاں قومی مزاج پر سفلی سیاست کا اس قدر غلبہ ہوچکا ہے کہ دوسری دینی، ملکی، ملّی اور قومی ترجیحات پسِ منظر میں چلی گئی ہیں۔ ہم نے کسی مین سٹریم چینل پر ایسا کوئی پروگرام نہیں دیکھا کہ ماہرین پر مشتمل پینل بحالی کے لیے ''کم خرچ و بالا نشین‘‘ منصوبے تجویز کرے۔ غیر ملکی دوروں میں ہم نے دیکھا: اُن اقوام کا ہر فرد ہر وقت سیاستِ دوراں پر مشقِ ناز نہیں کرتا، سیاسی رہنمائوں کے پیروکار اور معتقدین انہیں دیوتا کے روپ میں پیش نہیں کرتے، اپنے من پسند رہنما کو تمام خوبیوں اور مخالفین کو تمام خرابیوں کا مجسّمہ بنا کر پیش نہیں کرتے۔ الغرض ہم فکری اور عملی اعتبار سے ایک متوازن قوم نہیں رہے، یہاں تک کہ ہم اپنی نفرتوں اور عداوتوں کو حرمین طیبین میں بھی ترک نہیں کر سکتے، وہاں کے پُرنور اور روح پرور ماحول میں بھی ہم اپنی ذہنی اور فکری نفرتوں کو فراموش نہیں کر سکتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سیاسی رہنما مزے میں ہیں اور اُن کے انتہاپسند پیروکار سعودی عرب کی جیلوں میں ہیں۔ اب سنا ہے کہ امریکی حکومت بھی اس بارے میں انضباطی اقدامات اور کارروائیوں کی بابت غور کر رہی ہے۔ من حیثُ القوم ہمارے لیے شرم کا مقام ہے کہ ہم اپنا تاثر ایک تہذیب سے عاری، مغلوب الغضب اور بے حس قوم کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔
پاکستان اور بھارت ایک ہی وقت میں آزاد ہوئے، تلاشِ معاش میں برصغیر کے سب علاقوں سے لوگ ترکِ وطن کر کے مغربی ممالک گئے۔ یوکے، یورپ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا وغیرہ میں ہمارے بعض لوگوں کی تیسری یا چوتھی نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ بھارتی وہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، وائٹ ہائوس کی ایڈمنسٹریشن میں موجود ہیں، یہی صورتِ حال برطانیہ کی ہے۔ حال ہی میں برطانیہ کے سابق وزیراعظم بورس جانسن کے مستعفی ہونے کے بعد کنزرویٹو پارٹی کی لز ٹرس وزیراعظم منتخب ہوئیں، وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ میں دوسرے نمبر پر ایک بھارتی نژاد رشی سوناک تھے، وہ ممکنہ طور پر وزیراعظم بن سکتے تھے۔ لیکن ہمارے پاکستانیوںکی نفسیاتی کمزوری یہ ہے کہ جس ملک کو انہوں نے اپنا وطن بنا رکھا ہے، حلفِ وفاداری اٹھا کر وہاں کی شہریت قبول کی ہے، وہاں کا پاسپورٹ جیب میں لیے پھرتے ہیں، لیکن وہاں اپنی حیثیت اور مقام تسلیم کرانے کے بجائے گروہ بندیوں میں الجھے رہتے ہیں اور پاکستانی سیاست دانوں کے سیاسی مزارعین بننے پر انہیں خوشی نصیب ہوتی ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کی تذلیل کرتے ہیں اور دوسری اقوام کے سامنے اپنے وطنِ اصلی کی بے توقیری کا باعث بنتے ہیں۔