واضح رہے کہ خلفائے راشدین کی طرف منسوب اِن روایات کے موضوع اور من گھڑت ہونے کی وجہ سے کوئی اس غلط فہمی کا شکار نہ ہو کہ نبی کریمﷺ کا میلاد منانا اور آپﷺ کی ولادت اور تشریف آوری کی خوشی میں صدقات و خیرات کرنا بھی ممنوع اور ناجائز عمل ہے۔ اس لیے کہ کسی ایسے عمل‘ جو اپنی اصل کے اعتبار سے خیر ہو اور اس سے کسی سنّت کا ترک بھی لازم نہ آتا ہو، کی بابت حدیث کے موضوع ہونے سے اُس عمل کا ناجائز و ممنوع ہونا لازم نہیں آتا۔ محدثین و فقہائے کرام نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے: ''موضوع حدیث کو حدیثِ نبوی مانتے ہوئے اُس پر عمل کرنا ناجائز و حرام ہے‘‘، لیکن اگر حدیثِ موضوع کا مضمون شریعت کے کسی عمومی اُصول اور قاعدے کے خلاف نہیں ہے، تو اُس پر فی نفسہٖ خیر ہونے کے باعث عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ وہ شریعت کے عام اُصول کے تحت داخل ہے، بلکہ حسنِ نیت کے ساتھ عمل کرنا مستحسن اور اجر و ثواب کا موجب ہو گا، مثلاً: افتتاحِ بخاری و ختم بخاری شریف کی محافل کا اہتمام کرنا شریعت کے عام اُصول و قواعد کی رُو سے جائز ہے، لیکن اگر ختم بخاری شریف کی مجلس منعقد کرنے کی فضیلت کے حوالے سے کوئی حدیث گھڑ کر نبی کریمﷺ کی طرف منسوب کر دی جائے اور اُس من گھڑت حدیث کی تعمیل اور اس میں بیان کردہ فضیلت کے حصول کی غرض سے ختم بخاری کی مجلس منعقد کی جائے، تو یہ ناجائز و حرام ہے۔ محدثین و فقہائے کرام نے یہ تصریحات فرمائی ہیں: ''موضوع احادیث کو اُن کی موضوعیت کی وضاحت کیے بغیر بیان کرنا یا اُن پر حدیثِ نبوی ہونے کی حیثیت سے عمل کرنا یا اِس کی ترغیب دلانا ناجائز و حرام ہے، لیکن اگر کسی موضوع روایت میں مذکور مضمون شریعت کے عام اُصول اور قواعد کے خلاف نہ ہو تو اس پر اس حیثیت سے عمل کرنا جائز ہے کہ وہ شریعت کے عمومی اُصول و قواعد کے تحت داخل ہے، لیکن حدیثِ نبوی کی حیثیت سے اُس پر عمل کسی بھی حال میں جائز نہیں ہے، وہ حدیث جو موضوع نہ ہو، بلکہ ضعیف ہو تو اُس پر بھی فضائلِ اعمال کے باب میں چند شرائط کے ساتھ عمل کرنا جائز ہے: (1) اس حدیث کا کوئی راوی جھوٹا یا مُتَّہَمْ بِالْکِذْب نہ ہو، (2) حدیث کسی نہ کسی شرعی اُصول اور قاعدے کے تحت داخل ہو، (3) نبی کریمﷺ سے یقینی طور پر اُس روایت کے ثابت ہونے کا اعتقاد نہ رکھا جائے اور اُسے سنت کا درجہ نہ دیا جائے اور جب اُسے سند کے بغیر بیان کیا جائے تو ازراہِ احتیاط تمریض کے صیغے (یعنی جس سے روایت کا کمزور ہونا ظاہر ہوتا ہو) کے ساتھ یوں کہا جائے: ''روایت بیان کی گئی ہے‘‘ یا ''نقل کیا گیا ہے‘‘ یا ''نبی کریمﷺ کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے‘‘، وغیرہا، جزم اور یقین کے ساتھ یوں نہ کہا جائے: ''نبی کریمﷺ نے فرمایا‘‘ یا ''آپﷺ نے یہ حکم دیا ہے‘‘ یا ''نبی کریمﷺ نے یہ فعل کیا‘‘ وغیرہ۔
علامہ علاء الدین حصکفی حنفی لکھتے ہیں: ''ضعیف حدیث پر عمل کرنے کی (ایک) شرط تو یہ ہے کہ اُس کا ضُعف سخت قسم کا نہ ہو (یعنی اس کی سند میں کَذَّابْ یا مُتَّہَمْ بِالْکِذْب راوی نہ ہو) اور (دوسری) شرط یہ ہے کہ وہ (شریعت کے کسی) عام اصل اور قاعدے کے تحت داخل ہو اور (تیسری) شرط یہ کہ اُس حدیث کی وجہ سے اس عمل کے سنت ہونے کا اعتقاد نہ رکھا جائے۔ رہی بات موضوع حدیث کی‘ تو اس پر تو کسی بھی حال میں عمل کرنا جائز نہیں ہے اور اس کے من گھڑت اور جعلی ہونے کی وضاحت کیے بغیر اُسے بیان کرنا بھی جائز نہیں ہے‘‘ (دُرِّمختار، ج: 1، ص: 128)۔
اس کے تحت علامہ ابن عابدین شامی حنفی لکھتے ہیں: ''(رہی بات موضوع حدیث کی) یعنی رسول اللہﷺ کی طرف جھوٹ منسوب کرنا تو اس کی حرمت پر اجماع، بلکہ بعض محدثین نے اِسے کفر قرار دیا ہے، کیونکہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: جو شخص میری طرف کوئی ایسی بات منسوب کرے جو میں نے نہ کہی ہو تو وہ اپنا ٹھکاناجہنم میں بنا لے‘‘ (علامہ حصکفی کا قول: اُسے کسی بھی حال میں بھی بیان کرنا جائز نہیں ہے)، یعنی اُسے فضائلِ اعمال میں بیان کرنا بھی جائز نہیں ہے، لیکن یہ اُس صورت میں ہے کہ جب وہ شریعت کے قواعد کے خلاف ہو، لیکن اگر وہ شریعت کی کسی عام اصل کے تحت داخل ہے تو اُس پر عمل کی کوئی ممانعت نہیں ہے، لیکن یہ عمل اس کے حدیثِ نبوی ہونے کی وجہ سے نہ ہو، بلکہ اس وجہ سے ہو کہ وہ شریعت کے عام قاعدے کے تحت داخل ہے، (علامہ حصکفی نے فرمایا: موضوع حدیث کو اس کے موضوع ہونے کی وضاحت کے ساتھ بیان کرنا جائز ہے) یعنی جب موضوع حدیث کے متعلق یہ بیان کر دیا جائے کہ یہ جعلی اور من گھڑت ہے (تاکہ لوگ نبی کریمﷺ کی طرف اس روایت کو منسوب کرنے سے اجتناب کریں)، البتہ ضعیف حدیث کو اس کا ضُعف بیان کیے بغیر بیان کرنا جائز ہے۔ لیکن خیال رہے کہ جب تم کسی ضعیف حدیث کو سند کے بغیر بیان کرنے کا ارادہ کرو تو یوں نہ کہو: ''رسول اللہﷺ نے ایسا فرمایا‘‘ اور اس کے لیے ایسے دوسرے صیغے بھی استعمال نہ کیے جائیں جو اُس روایت کے یقینی ہونے کا فائدہ دیتے ہوں، بلکہ یوں کہو: ''اِس طرح روایت کیا گیا ہے‘‘ یا کہو: ''ہمیں یہ روایت پہنچی ہے‘‘ یا ''نبی کریمﷺ کے حوالے سے اِس طرح وارد ہوا ہے یا آیا ہے‘‘ یا ''آپﷺ سے نقل کیا گیا ہے‘‘ اور اس کے مشابہ تَمْرِیْض کے صیغے استعمال کیے جائیں، یہی طریقہ کار اُن احادیث کے معاملے میں بھی اختیار کرنا چاہیے جن کی صحت و ضُعف کا معاملہ مشکوک ہو، ''تقریبِ نووی‘‘ میں اِسی طرح مذکور ہے‘‘ (رَدُّ الْمُحْتَار، ج: 1، ص: 128)۔
امام احمد رضا قادری اپنے رسالے ''مُنِیْرُ الْعَیْنِ فِیْ حُکْمِ تَقْبِیْلِ الْاِبْہَامَیْن‘‘ میں ضعیف حدیث کے مراتب و درجات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''پھر درجہ ششم میں ضُعفِ قوی و وَھن (کمزوری) شدید ہے، جیسے راوی کا فسق وغیرہ قوادحِ قویہ (قوی عیوب) کے سبب متروک ہونا بشرطیکہ ہنوز سرحدِ کذب سے جُدائی ہو، اس حدیث کو احکام کے ثبوت میں دلیل بنانا تو درکنار‘ یہ اعتبار کے بھی لائق نہیں۔ ہاں! فضائل میں مذہبِ راجح پر مطلقاً اور بعض کے نزدیک جب کثرتِ طُرق اور کئی حوالہ جات کے ساتھ بیان کی جائے بعدِ انجبار بتعدُّدِ مَخارج و تنوُّعِ طُرُق منصبِ قبول و عمل پاتی ہے (یعنی اگر حدیث کے مآخِذ کئی ہوں اورکئی طُرق سے مروی ہو تو شدتِ ضُعف میں کمی آ جاتی ہے)۔ پھر درجہ ہفتم میں مرتبہ مطروح (متروک) ہے، جس کا مدار وَاضعینِ حدیث، کذّاب یا مُتَّہَمْ بِالْکِذْب پر ہو، یہ بدترین اقسام میں ہے، بلکہ بعض محاورات کے رُو سے مطلقاً اور ایک اصطلاح پر اس کی نوعِ اشدّ، یعنی جس کا مدار کَذَّاب پر ہو، عین موضوع، یا نظرِ تدقیق میں یوں کہے کہ ان اطلاقات پر داخلِ موضوعِ حکمی ہے، ان سب کے بعد درجہ موضوع کاہے، یہ بالاجماع نہ قابلِ انجبار (یعنی یہ کسی بھی صورت درست قرار دینے کے قابل نہیں)، فضائل وغیرہ کسی باب میں لائقِ اعتبارنہیں، بلکہ اُسے حدیث کہنا ہی توسُّع وتجوُّز (یعنی حد سے تجاوز) ہے،حقیقتاً حدیث نہیں محض مَجْعُول (خود ساختہ) و افتراء‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج: 5، ص: 440، بتصرّف)۔
اِسی رسالے میں اٹھائیسویںافادے کے تحت لکھتے ہیں: ''حدیث اگر موضوع بھی ہو تو پھر بھی اس سے فعل کی ممانعت لازم نہیں، میں کہتا ہوں: اچھا سب جانے دیجیے، اپنی خاطر پُورا تنزل لیجیے، بالفرض حدیث موضوع و باطل ہی ہو؛ تاہم حدیث کا موضوع ہونا اُس کے حدیث نہ ہونے کا سبب ہے، نہ حدیثِ عدم (یعنی یہ مراد نہیں کہ اس مضمون پر کوئی حدیث سرے سے نہیں ہے)، اس کا اثر صرف اتنا ہو گا کہ اس بارے میں کچھ وارد نہ ہوا، نہ یہ کہ انکار و منع وارد ہوا، اب اصل فعل کو دیکھا جائے گا، اگر قواعدِ شرع ممانعت بتائیں، تو ممنوع ہو گا ورنہ اباحتِ اصلیہ پر رہے گا اور نیتِ حَسَن سے حَسَن و مُستحسن ہو جائے گا، حدیث کے موضوع ہونے سے فعل کیوں ممنوع ہونے لگا۔ موضوع خود باطل و مہمل و بے اثر ہے یا نہی و ممانعت کا لازمی پروانہ، علامہ سیدی احمد طحطاوی فرماتے ہیں: ''جس فعل کے بارے میں حدیث موضوع وارد ہو، اُسے کرنا اُسی حالت میں ممنوع ہے کہ خود وہ فعل قواعدِ شرع کے خلاف ہو اور اگر ایسا نہیں، بلکہ کسی اصل کلی کے نیچے داخل ہے تو اگرچہ حدیث موضوع ہو، فعل سے ممانعت نہیں ہو سکتی، نہ اس لیے کہ موضوع کو حدیث ٹھہرائیں، بلکہ اس لیے کہ وہ قاعدہ کلیہ کے نیچے داخل ہے‘‘، میں کہتا ہوں: سید احمد طحطاوی نے یہ علّت بیان کر کے افادہ فرمایا: مراد یہ ہے کہ موضوع حدیث میں بیان شدہ ایسا عمل جو شرعی قاعدہ کے موافق ہے، اس پر عمل کرنا جائز ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ موضوع حدیث پر عمل کرنا جائز ہے، عنقریب ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس پر تفصیلی گفتگو کریں گے، پس آپ انتظار کریں‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج: 5، ص: 561 تا 562)۔
یہ عنوان ہم نے اس لیے اختیار کیا کہ سید المرسلین، رحمۃٌ للعالمین، سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی عظمت و فضیلت اور آپﷺ کی بارگاہ کے آداب قرآنِ مجید میں جا بجا بیان کیے گئے ہیں، اسی طرح صحیح احادیث میں آپﷺ کے فضائل و خصائص اور امتیازات بیان کیے گئے ہیں، ہمیں اُن کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور مجالس و محافل میں عوام کے سامنے یہی چیزیں بیان کرنی چاہئیں۔ جب قرآنِ کریم اور ذخیرۂ احادیث میں صحیح اور ثابت شدہ باتیں موجود ہیں، تو موضوعات کے بیان کرنے کا کوئی جواز نہیں، کیونکہ حُسنِ عقیدت کے نام پر یہ دروازہ کھول دیا جائے تو پھر دین بازیچۂ اطفال بن جائے گا۔ عام مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ صاحبانِ علم کی مجالس میں بیٹھیں اور علم و تقویٰ کے زیور سے آراستہ طریقت کے رہنمائوں کی صحبت اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ اس کا حکم فرماتا ہے: ''اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچوں کی صحبت اختیار کرو‘‘ (التوبہ: 119)۔