عاملوں کی تلاش میں سرگرداں ہونا اور اپنے آپ کو بے عمل اور بدعقیدہ عاملوں کے دامِ فریب میں پھنسا دینا اور محض حصولِ دنیا کے لیے بیعت و ریاضت تقاضائے شریعت نہیں ہے۔ حدیث پاک میں ہے: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''آخری زمانے میں ایسے لوگ نکلیں گے جو دین کے بدلے میں دنیا کو طلب کریں گے، وہ لوگوں کے سامنے درویشی ظاہر کرنے کے لیے موٹا جھوٹا لباس پہنیں گے، ان کی زبانیں شکر سے زیادہ شیریں ہوں گی اور ان کے دل بھیڑیوں کے دلوں کی طرح ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ''کیا وہ (میری مہلت سے) دھوکا کھا رہے ہیں یا وہ میری نافرمانی کی جسارت کر رہے ہیں، میں انہیں ایسی آزمائش میں ڈالوں گا کہ ان کا عقل مند آدمی بھی حیران رہ جائے گا‘‘ (ترمذی:2404)۔ اس حدیث کی شرح میں علامہ علی القاری لکھتے ہیں: ''یہ لوگ صوفیوں اور درویشوں کا لباس پہن کر اور ریاکاری سے عبادت کر کے لوگوں کو دھوکا دیں گے اور لوگوں کو اپنا معتقد اور مرید بنانے اور دنیا کا مال بٹورنے کے لیے زُہد و تقویٰ کا اظہار کریں گے، اُن پر حیوانی صفات اور شہوات کا غلبہ ہوگا اور اُن کے سارے کام ریاکاری پر مبنی ہوں گے‘‘ (مرقاۃ المفاتیح، ج: 8، ص: 3335)۔
یہ تو اُس دور کی بات تھی جب سادہ لوح مسلمانوں کو اپنی عقیدت کا گرویدہ بنانے کے لیے دامِ ہم رنگِ زمیں بچھانا پڑتا تھا، کم از کم ظاہری طور پر اللہ والوں کی وضع اختیار کرنی پڑتی تھی، مگر اب اس کی ضرورت بھی باقی نہیں رہی، لوگوں نے اپنے روحانی پیشوائوں کو شریعت و طریقت کے ظاہری معیار پر بھی پرکھنا چھوڑ دیا ہے۔ یہ تنزّل کا دور ہے، کوئی شعبدے بازی دکھا رہا ہے، کسی نے کرامات کا جال پھیلانے کے لیے اپنے نمائندے مقرر کر رکھے ہیں، اللہ کا خوف اور عاقبت کی فکر دلوں سے نکل گئی ہے۔
آئے دن اخبارات و الیکٹرانک میڈیا میں ایسے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں کہ دین بھی برباد ہوتا ہے، دنیا بھی لٹ جاتی ہے اور بے آبرو بھی ہو جاتے ہیں۔ شریعت کا تقاضا تو یہ ہے کہ خود عامل بنیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر کے حق دار بنیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''مرد و زن میں سے جوکوئی ایمان پر قائم رہتے ہوئے نیک کام کرے تو ہم اُسے ضرور پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ہم انہیں اُن کے بہترین اعمال کے مطابق ان کو اجر عطا فرمائیں گے‘‘ (النحل:97)۔ اسی طرح قرآنِ کریم نے یہ تعلیم بھی دی کہ بندۂ مومن اپنے پیچھے اچھے آثار چھوڑ کر جائے۔ فرمایا: ''وہ نیک کام جس کے آثار (موت کے بعد بھی) باقی رہیں، وہ تمہارے رب کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے بہترین ہیں اور انہی کی بابت (آخرت میں) اچھی امید قائم کی جا سکتی ہے‘‘ (النحل:46)۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے فکرِ آخرت کی زیادہ ترغیب دی ہے۔ فرمایا: ''اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سوچو کہ تم اپنے (آنے والے) کل کے لیے آگے کیا بھیج رہے ہو‘‘ (الحشر:18)۔ نیز فرمایا: ''(وہاں جاکر) ہر شخص جان لے گا کہ اس نے کیا (ذخیرۂ عمل) آگے بھیجا اور کون سے (صدقاتِ جاریہ) پیچھے چھوڑ آیا ہے‘‘ (الانفطار: 5)۔
قرآنِ کریم میں رسول اللہﷺ کے فرائضِ نبوت چار بیان کیے گئے ہیں؛ فرمایا: ''اللہ وہ ہے جس نے اُمّیوں میں انہی میں سے ایک رسولِ عظیم کو مبعوث فرمایا، وہ ان پر آیاتِ الٰہی کی تلاوت کرتے ہیں اور ان (کے قلب و روح) کا تزکیہ کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘ (الجمعہ: 2)۔ قرآنِ کریم نے اسی مضمون کو الفاظ کی تقدیم و تاخیر کے ساتھ سورۃ البقرہ‘ آیت 129، 151 اور سورہ آل عمران آیت 164 میں بھی بیان کیا ہے۔ پس ہماری نظر میں کسی مرشدِ باصفا اور شیخِ طریقت کے فرائض یہی چار ہیں: ان میں آیاتِ الٰہی کی تلاوت بھی ہے، باطن کا تزکیہ بھی ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم بھی ہے، حکمت ایک نہایت جامع اصطلاح ہے، لیکن اس کے ایک معنی سنّت بھی ہیں، کیونکہ تفہیم و تفہّمِ دین کے لیے کتاب و سنّت لازمی ہیں۔
پس مُرشدِ حق اور ہادی و رہنما کا فریضہ ہے کہ اپنے مریدین، معتقدین اور محبین کی تربیت کریں، تزکیہ کریں، انہیں حرص وہوس، حسد، بغض، کینہ، عداوت، غیبت، بہتان تراشی، بدگوئی اور ترش روئی سے بچاکر رکھیں، اُن کے قلب کو مجلّیٰ، مصفّٰی اور مُزَکّٰی بناکر رکھیں۔ لوحِ قلب پر میل نہ آئے، رین اور غین نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''ہرگز نہیں! بلکہ اُن کے دل اُن کے کرتوتوں کے سبب زنگ آلود ہوگئے ہیں‘‘ (المطففین: 14)۔ جتنے اولیائے کرام گزرے ہیں، وہ سب صاحبانِ علم تھے، شریعت و طریقت کے امام تھے، اُن کے ہاں درسگاہیں اور تربیت گاہیں تھیں۔ غوث الاعظم محی الدین عبدالقادر الجیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں:
دَرَسْتُ الْعِلْمَ حَتّٰی صِرتُ قُطْبًا
وَنِلْتُ السّعْدَ مِنْ مَّوْلَی الْمَوَالِ
ترجمہ: ''میں نے علم حاصل کیا یہاں تک کہ میں قطبیت کے مرتبے پر فائز ہوا اور میں نے ذاتِ باری تعالیٰ سے سعادت مندی پائی‘‘۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اللہ نے بہترین کلام نازل کیا ہے، جس کے مضامین ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں (اور) بار بار دہرائے جاتے ہیں، اسے (سن کر اور سمجھ کر) اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیںجو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر ان کے جسم اور ان کے دل اللہ کے ذکر کے لیے نرم ہوجاتے ہیں، یہ اللہ کی ہدایت ہے، وہ اس کے ذریعے جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے اللہ گمراہی پر چھوڑ دے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے‘‘ (الزمر: 23)۔ نیز فرمایا: ''وہی لوگ (کامل) مومن ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جائے تو اُن کے دل دہل جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اللہ کی آیتیں پڑھی جائیں تو ان کے ایمان کو تقویت ملتی ہے اور وہ اپنے رب پربھروسا کرتے ہیں، وہ جو نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں، وہی لوگ سچے پکے مومن ہیں، اُن کے رب کے پاس اُن کے لیے (بلند) درجات اور مغفرت ہے اور باعزت روزی ہے‘‘ (الانفال: 2 تا 4)۔
پس لازم ہے کہ ہمارے بزرگانِ دین اور اولیائے کرام کے مزاراتِ مبارکہ کے ماحول پر دینی مزاج کا غلبہ ہو، شریعت کی پابندی ہو، نماز کا اہتمام ہو، تعلیم و تربیت کا انتظام ہو، دینی درسگاہیں ہوں، جو لوگ مسندِ سجادگی پر فائز ہیں، وہ درحقیقت شریعت وطریقت کا مظہر ہوں، یہ وہ اعزاز نہیں جو کسی قابلیت و اہلیت کے بغیر محض وراثت میں منتقل ہو جائے، اس کے لیے وہی اہل قرار پائے جو اُن بزرگانِ دین کی تعلیمات کا حامل ہو، اُن کے تقوے اور خشیتِ الٰہی کا حقیقی وارث ہو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا: ''بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں، انبیاء درہم و دینار کی وراثت چھوڑ کر نہیں جاتے، وہ علم کی وراثت چھوڑ کر جاتے ہیں، سو جس نے جتنا زیادہ علم حاصل کیا، وہ اتنا ہی بڑا وارثِ نبوی بنا‘‘ (ترمذی: 2682)‘‘۔
ایک طویل حدیث میں علاماتِ قیامت بیان کرتے ہوئے رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے: علمِ حق اٹھا دیا جائے گا اور جہالت کا غلبہ ہو گا، بدکاری اور شراب نوشی عام ہو گی‘‘ (ترمذی: 2205)۔ سو اب رہا یہ سوال کہ قیامت سے پہلے علم کیسے اٹھایا جائے گا تو اس کی بابت رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''بے شک اللہ علم کو حسّی طور پر اپنے بندوں کے درمیان سے نہیں اٹھاتا، بلکہ علمائے حق کے اٹھائے جانے سے علم کو اٹھا لیتا ہے، حتیٰ کہ جب کوئی عالمِ ربانی باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا دینی پیشوا بنائیں گے، پھر لوگ اُن سے (دینی مسائل) پوچھنے آئیں گے، وہ جہل پر مبنی فتوے دیں گے، سو وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘ (بخاری: 100)، یعنی جاہل مقتدا و پیشوا کا عُجبِ نفس اس کو اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ وہ اپنے جہل کا اعتراف کرے اور سائل کو کسی عالم کی طرف متوجہ کرے، کیونکہ اس سے اس کے تقدّس کا بھانڈا پھوٹ جائے گا اور عقیدت مند منتشر ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور جب اس سے کہا جاتا ہے: اللہ سے ڈرو تو پندارِ نفس اُسے گناہ پر ابھارتا ہے‘‘ (البقرہ: 206)۔