امام احمد رضا قادری لکھتے ہیں: ''اللہ تعالیٰ کی ذات کے حوالے سے لفظِ عشق استعمال کرنے کی ممانعت کی بابت حکم کا منشا لفظِ ''یَعْشَقُنِیْ‘‘ ہے، یعنی یہ دعویٰ کرنا کہ اللہ مجھ سے عشق فرماتا ہے، اس کے بجائے کہنا چاہیے: ''یُحِبُّنِیْ‘‘ یعنی وہ مجھ سے محبت فرماتا ہے، لیکن اس سے اس بات کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی کہ بندہ کہے: ''اَعْشَقُہٗ‘‘ میں اللہ سے عشق کرتا ہوں، یعنی بندے کا اللہ تعالیٰ کی ذات سے عشق کا دعویٰ کرنا ممنوع نہیں ہے، گویا بندہ اپنے آپ کو اللہ کا عاشق کہہ سکتا ہے، لیکن یہ کہنا اللہ کے شایانِ شان نہیں ہے کہ وہ بندے سے عشق فرماتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لیے عشق کے معنی متحقق نہیں ہو سکتے۔ اس کے برعکس دونوں طرف سے محبت کا اطلاق درست ہے، یعنی یہ کہ اللہ بندے سے محبت فرماتا ہے اور بندہ اللہ سے محبت کرتا ہے، کیونکہ یہ مائدہ: 54 میں مذکور ہے: ''یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ایسے بندوں کو لائے گا جن سے وہ محبت فرمائے گا اور وہ اُس سے محبت کریں گے‘‘، پس اللہ کا بندے سے محبت کرنا اور بندے کا اللہ سے محبت کرنا معنیٔ حقیقی لغوی کے اعتبار سے جائز ہے اور قرآنِ کریم میں منصوص ہے اور بندے کی اللہ سے محبت جب مؤکّد ہو جائے اور اس میں پختگی آ جائے تو اُسی کو عشق کہتے ہیں، محبت کی پختگی کے معنی ہیں : وہ ہمہ وقت اس کے ذکر و فکر اور اطاعت و فرمانبرداری میں مشغول رہے‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج: 21، ص: 115، ملخّصاً، رضا فائونڈیشن، لاہور)۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ عاشق کہہ سکتے ہیں اور نہ معشوق؛ البتہ بندہ کہے: ''مجھے اللہ سے عشق ہے‘‘ تو اس میں شرعی خرابی نہیں ہے۔
مفتی محمد شریف الحق امجدی سے سوال ہوا: ''رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ کا دل بر، دل رُبا اور معشوق کہہ سکتے ہیں‘‘، آپ نے جواب میں لکھا: ''اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرتے ہوئے ان تینوں الفاظ: (دل بر، دل رُبا اور معشوق) میں سے کسی کا اطلاق صحیح نہیں ہے، یعنی یہ کہنا جائز نہیں کہ حضور اقدسﷺ اللہ تعالیٰ کے دل بر یا دل رُبا یا معشوق ہیں، اس لیے کہ دل بر، دل رُبا کہنے میں باری تعالیٰ کے لیے ایہامِ تجسّم (جسمانیت کا وہم پیدا ہوتا) ہے اور معشوق کہنے میں اثباتِ نَقص، کیونکہ عشق کا حقیقی معنی محبت کی وہ منزل ہے جس میں جنون پیدا ہو جائے‘‘ (فتاویٰ شارح بخاری، جلد: 1، ص: 281)۔
ہمارے عُرف میں عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں: ''عشقِ حقیقی سے مراد فرطِ محبت کا وہ تصور جس میں تقدیس ہے، ہوائے نفس سے تطہیر ہے اور کوئی سفلی جذبات نہیں ہوتے، اس معنی میں عشق مُقدّس شخصیات کے لیے استعمال ہوتا ہے اور عشقِ مَجازی میں ہوائے نفس اور لذتِ سماع و نظر بھی آ جاتی ہے، یہ عام انسانوں کے ایک دوسرے سے محبت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ فرہنگِ آصفیہ میں ہے: ''عشقِ حقیقی، عشقِ مَجازی کا نقیض۔ خدا تعالیٰ کا عشق، عشقِ مولیٰ، اصلِ عشق، مَحبتِ الٰہی، عشقِ مَجازی، عشقِ حقیقی کا نقیض، بناوٹ کا عشق، جھوٹا عشق، نفسانی عشق، دنیوی معشوقوں کا عشق، حسن پرستی‘‘ (جلد سوم، ص: 273 تا 274)۔
امام احمد بن حنبلؒ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں: ''حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہﷺ کے پاس عَکَّاف بن بِشر تمیمی نامی شخص آیا، نبیﷺ نے اُس سے فرمایا: عَکَّاف! تمہاری کوئی بیوی ہے؟ اس نے کہا: نہیں! آپﷺ نے فرمایا: تمہاری کوئی باندی ہے، اس نے کہا: نہیں! آپﷺ نے فرمایا: تمہاری مالداری خیر کا باعث نہیں ہے۔ اس نے کہا: میری مالداری خیر کا باعث ہے۔ آپﷺنے فرمایا: پھر تو تم شیطان کے بھائی ہو اور اگر تم نصرانی ہوتے تو اُن کے راہبوں میں سے ہوتے، ہماری سنّت تو نکاح ہے۔ تمہارے مرنے والوں میں سے بے توقیر وہ ہوں گے جو اہل وعیال والے نہ ہوں، کیا تم شیطان کے انداز اختیار کرتے ہو۔ عورتیں نیک لوگوں کے لیے شیطان کا ہتھیار ہیں، سوائے شادی شدہ لوگوں کے کہ وہ پاک باز ہوتے ہیں اور فحش گوئی سے دور ہوتے ہیں۔ عکّاف ! تم پر افسوس ہے، بے شک یہ وہ عورتیں ہیں جن سے ایوب، دائود، یوسف (علیہم السلام) اور کُرسُف کو واسطہ پڑا تھا، بشر بن عطیہ نے پوچھا: یا رسول اللہﷺ! کُرسُف کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: یہ شخص سمندر کے ساحلوں پر تین سو سال تک عبادت کرتا رہا، دن کو روزے رکھتا اور راتوں کو قیام کرتا، پھر اُس نے ایک عورت کے عشق کے سبب خداوند بزرگ و برتر کی ناشکری کی اور اللہ کی عبادت کے شِعار کو ترک کر دیا، پھر اللہ تعالیٰ نے اُس کی بعض نیکیوں کے سبب اُس کی توبہ قبول فرمائی۔ آپﷺ نے فرمایا: عَکّاف! تم پر افسوس ہے، نکاح کرو ورنہ تم تشکیک کے ماروں میں شامل ہو جائو گے، اس نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! میرا نکاح کر دیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا: میں نے کلثوم حِمیَری کی بیٹی کریمہ سے تمہارا نکاح کر دیا، (مسند احمد: 21450)۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کی محبت میں گرفتار ہو کر انسان بھٹک سکتا ہے، بہک سکتا ہے، سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اس کے شاملِ حال ہو، جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے ازراہِ تواضع فرمایا: ''میں اپنے نفس کی پارسائی کا دعویٰ نہیں کرتا، نفس کا توکام ہی برائی پر اکسانا ہے، مگر جس پر میرا رب رحم فرمائے، بے شک میرا رب بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے‘‘ (یوسف: 53)۔ اس کا مطلب یہ ہے: اللہ تعالیٰ جس پر مہربان ہو، اس کی حفاظت فرماتا ہے، مکرِ شیطان، فریبِ نفس اور فریبِ نظر سے اُسے بچائے رکھتا ہے، اُسے ہمیشہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوکر جوابدہی کا خوف لاحق رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اور جو اپنے پروردگار کے حضور پیش ہوکر (جواب دہی کے تصور سے) ڈرتا رہا اور اپنے نفس کو خواہشات کی پیروی سے روکے رکھا تو بہشت ہی اس کا ٹھکانا ہے‘‘ (النازعات: 40 تا 41)، نیز فرمایا: ''بے شک جو لوگ تقوے پر کاربند رہتے ہیں، جب کوئی شیطانی خیال انہیں چھوتا ہے تو انہیں اللہ یاد آ جاتا ہے اور اچانک اُن کی چشمِ بصیرت وا ہو جاتی ہے‘‘ (الاعراف: 201)، مفسرین نے یہاں ''مُبْصِرُون‘‘ کے کلمے کو ظاہری معنی میں بھی لیا ہے، یعنی اُن کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور ایسے اعمال کا انجام انہیں نظر آ جاتا ہے اور اس کی طرف اُن کے بڑھتے ہوئے قدم رک جاتے ہیں اور بعض مفسرین نے اسے بصیرت کے معنی میں لیا ہے، یعنی اُن کے دل روشن ہو جاتے ہیں اور دلوں پر معصیت کی جو ظلمت چھا ئی ہوتی ہے، وہ یادِ الٰہی کی برکت سے چھَٹ جاتی ہے اور دل روشن ہو جاتے ہیں، حق آشکار ہو جاتا ہے اور دل و دماغ باطل سے متنفر ہو جاتے ہیں۔
علامہ علاء الدین علی بن حسام الدین ہندی خطیب بغدادی کے حوالے سے روایت کرتے ہیں: (1) ''حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جس نے عشق کیا اور پاک دامن رہا اور اسی پاکدامنی میں اس کی وفات ہوئی، تو وہ شہید کی موت مرا‘‘ (کنز العمال: 6999)، (2) ''حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: (الف) جس نے عشق کیا اور اسے ظاہر نہ کیا اور پاکدامنی کی موت مرا تو وہ شہید (کے حکم میں) ہے‘‘ (کنز العمال: 7000)، (ب) ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: میری امت کے بہترین لوگ وہ ہیں کہ جب ان پر کوئی آزمائش آتی ہے تو پاک دامن رہتے ہیں، صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! کون سی آزمائش مراد ہے، آپﷺ نے فرمایا: عشق‘‘ (کنز العمال: 8732)۔ ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عشق کا زیادہ اطلاق عورتوں کی طرف میلان پر ہوتا ہے اور یہ انسان کی بشری کمزوری اور ایک آزمائش ہے، اس میں مبتلا ہونے سے بچنا اور اپنی پاکدامنی کی حفاظت کرنا بڑے درجے والوں کا کام ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لیے عاشق و معشوق کے الفاظ اور اللہ تعالیٰ کی نسبت سے رسول اللہﷺ کے لیے معشوق‘ دلبر اور دل رُبا کے الفاظ استعمال کرنا ذاتِ باری تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں ہے اور علمائے کرام نے اس سے منع فرمایا ہے؛ تاہم رسول اللہﷺ کے محبین کے لیے عاشق کا لفظ بکثرت استعمال ہو رہا ہے، اس کی جمع عُشّاق ہے اور ع کے فتحہ کے ساتھ عَشّاق کے معنیٰ ہیں: ''بہت زیادہ عشق کرنے والا‘‘، یعنی یہ مبالغہ کا صیغہ ہے۔ البتہ رسول اللہﷺ کے لیے ''معشوق‘‘ کا لفظ کبھی نہیں سنا اور یہ لفظ آپﷺ کے شایانِ شان معلوم نہیں ہوتا، اس سے اجتناب بہتر ہے، حالانکہ معنوی اعتبار سے اس میں خرابی نہیں ہے، لیکن چونکہ یہ کلمہ مُبتذِل ہے، سفلی جذبات کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، اس لیے ہماری رائے میں رسول اللہﷺ کے لیے معشوق کا کلمہ استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔ آپﷺ کے لیے حبیب اور محبوب کے کلمات استعمال کیے جائیں، ان میں حرمت ہے، وقار ہے، تقدیس ہے اور قرآن و حدیث میں ان کی ترغیب دی گئی ہے، بلکہ اسے ایمان کا تقاضا قرار دیا گیا ہے کہ مومن کی نظر میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرّمﷺ کی ذواتِ مقدسہ صرف محبوب نہیں، بلکہ اَحَبّ (محبوب ترین) ہونی چاہئیں۔ احادیث مبارکہ میں ہے: (1) ''حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مومن (کامل) نہیں ہو سکتا تاوقتیکہ وہ مجھے اپنے والد، اپنی اولاد اور تمام لوگوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ محبوب (اَحَبّ) نہ جانے‘‘ (صحیح بخاری: 15)۔ (2) ''حضرت عبداللہ بن ہشامؓ بیان کرتے ہیں: ہم نبیﷺ کے ساتھ تھے، دراں حالیکہ وہ عمر بن خطابؓ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، حضرت عمرؓ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہرچیز سے زیادہ محبوب ہیں، تو نبیﷺ نے فرمایا: نہیں! اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے، تم اُس وقت تک مومنِ کامل نہیں ہو سکتے جب تک کہ میں تمہارے لیے تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جائوں، اس پر حضرت عمرؓ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! بخدا! اب آپ میرے لیے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں، تو نبیﷺ نے فرمایا: عمر! اب تم نے کمالِ ایمان کو پا لیا‘‘ (بخاری: 6632)۔
رسول اللہﷺ کی نسبت سے اللہ تعالیٰ کے لیے لفظِ ''شیدا‘‘ کے اطلاق کے بارے میں مفتی شریف الحق امجدی لکھتے ہیں: ''(اللہ تعالیٰ)کو شیدائے محمد کہنا بھی جائز نہیں کہ اس میں معنیٔ سوء کا احتمال ہے، کیونکہ شیدا کے معنی ہیں: ''آشفتہ، فریفتہ، مجنون، عشق میں ڈوبا ہوا، عاشق‘‘، اللہ تعالیٰ ان تمام باتوں سے مُنَزَّہ (پاک) ہے‘‘ (فتاوی شارح بخاری، ج: 1، ص: 141)۔