پاکستان اس وقت سنگین مسائل سے دوچار ہے، ان مسائل کی آگ زیرِ زمیں نہیں، بلکہ برسرِ زمیں سلگ رہی ہے۔ تاریخ میں پہلی بار ہماری مغربی اور مشرقی سرحدوں پر خطرات منڈلا رہے ہیں اور قومی قیادت ''گھر پھونک تماشا دیکھ‘‘ کی مشق میں مصروف ہے۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ افغانستان کی خاطر پاکستان نے مسائل کا سامنا کیا، مصائب جھیلے، کئی ملین کی تعداد میں افغان مہاجرین کو ٹھکانا دیا، لیکن کسی بھی دور میں دونوں ممالک کے مابین حقیقی اخوّت اور باہمی اعتماد کی فضا قائم نہ ہو سکی۔ پاکستانی افواج نے اپنی سرحدوں کے اندر دہشت گردی کو قابو میں لانے اور کچلنے کے لیے متعدد آپریشنز کیے، جن کی تفصیل درجِ ذیل ہے:
2009ء میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں بالترتیب مالا کنڈ‘ سوات اور جنوبی وزیرستان میں''آپریشن راہِ راست‘‘ اور ''آپریشن راہِ نجات‘‘ کیے، 2014ء میں جنرل راحیل شریف کی قیادت میں جنوبی وزیرستان میں ''آپریشن ضربِ عضب‘‘ ہوا، واضح رہے کہ ''عَضب‘‘ کے معنی ہیں: ''کاٹ دار تلوار‘‘۔ غزوۂ اُحد سے پہلے حضرت سعدؓ بن عُبادہ نے ''عضب‘‘ نامی تلوار رسول اللہﷺ کوتحفے میں دی تھی۔ کہا جاتا ہے: ''یہ تلوار اب بھی قاہرہ کی مشہور جامع مسجد ''حسین بن علی‘‘ میں محفوظ ہے۔ واللہ اعلم بالصّواب! پھر 2017ء میں شمالی وزیرستان میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں ''آپریشن رَدُّ الفساد‘‘ ہوا، ہم نے اُس وقت بھی لکھا تھا: ''اس کا عنوان ''رَدُّالفساد‘‘ کے بجائے ''دَفْعُ الْفَساد‘‘ ہونا چاہیے، کیونکہ رَدّ کے معنی ہیں: ''کسی چیز کو قبول نہ کرنا‘‘ اور ''دَفع‘‘ کے معنی ہیں: ''کسی چیز کا قَلع قَمع کرنا‘‘۔ قرآن میں یہی اصطلاح استعمال ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''اور اگر اللہ بعض لوگوں کے ذریعے بعض (شرپسند) لوگوں کو دفع نہ فرماتا تو ضرور زمین میں فساد برپا ہو جاتا، لیکن اللہ تمام جہانوں پر احسان فرمانے والا ہے‘‘ (البقرہ:251)۔
آج پھر یہ فساد نہ صرف ہمارے وطنِ عزیز کی سرحدوں پر دستک دے رہا ہے بلکہ اس کے آثار خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں نظر آ رہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور کو معاشی اعتبار سے بہتر قرار دیا جاتا ہے، لیکن اُن کے طویل ادوارِ حکومت کی یادگار کے طور پر کوئی بڑے معاشی منصوبے، ڈیم یا بڑی صنعتیں آج موجود نہیں ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جہادِ افغانستان کے نام پر سعودی عرب، امارات، کویت، امریکہ اور مغربی ممالک سے ڈالر آ رہے تھے اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بننے پر ''کولیشن سپورٹ فنڈ‘‘ کے نام سے ڈالر آ رہے تھے، مگر ان دونوں ادوار میں اس بیرونی امداد کو کفایت اور منظّم معاشی حکمتِ عملی کے ساتھ ملک کی اقتصادیات کو مستحکم کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا، بلکہ مشرف دور کے وزیرِ اعظم شوکت عزیز نے پاکستان کی زراعت و صنعت کو مستحکم کرنے کے بجائے پاکستانی معیشت کو مارکیٹ اکانومی میں تبدیل کر دیا۔ بڑے پیمانے پر کریڈٹ کارڈ کا رواج انہی کے دور میں شروع ہوا۔ پاکستان میں صدر ایوب خان کے دور میں تربیلا اور منگلا ڈیم اور نواز شریف کے دور میں موٹرویز کے علاوہ برسرِ زمین بڑے اقتصادی منصوبے وجود میں نہیں آئے، بلکہ ریلوے کے نظام، پاکستان سٹیل مل اور پی آئی اے وغیرہ کو بھی تباہ و برباد کر دیا گیا، نیز جو بڑی صنعتیں بھٹو دور میں قومیائی گئی تھیں، وہ بھی تباہ و برباد ہو گئیں۔ بینک اور مالیاتی ادارے بھی قومیانے کے بعد تباہ و برباد ہوئے اور پھر انہیں دوبارہ نجی ملکیت میں دینا پڑا۔ یہی حال قومیائے گئے تعلیمی اداروں کا ہوا۔
ایک خرابی یہ پیدا ہوئی کہ ہمارے ادارے‘ جو پاکستان کے اندر اور پاکستان کے مفاد کے خلاف عالمی ایجنسیوں کی کارروائیوں کو ناکام بنانے کے لیے بنائے گئے تھے‘ داخلی مسائل اور داخلی سیاست میں بہت زیادہ الجھ گئے، لہٰذا عالمی اداروں اور دہشت گردوں نے ہمارے وطنِ عزیز میں اپنی اپنی کمین گاہیں اور نیٹ ورک بنا لیے۔ جنابِ عمران خان کی ساری توجہ ترجمانوں کے اجلاس پر رہتی، مخالفین کی توہین اور تحقیر اُن کا مَن پسند مشغلہ تھا، امورِ ریاست پر اُن کی توجہ نہ تھی، پشاور اور لاہور کو بھی بنی گالا سے بیٹھ کر کنٹرول کرتے تھے، اس لیے بیورو کریسی بھی اعتماد سے محروم ہو گئی اور جم کر کام نہ کر سکی۔ آئے دن چیف سیکرٹری، آئی جی و پولیس کے دیگر اعلیٰ افسران اور ڈی ایم جی افسران کے تبادلوں کا سلسلہ جاری رہا، کسی کو خبر نہ تھی کہ وہ اپنے منصِب پر کتنے دن رہے گا۔ نیز اداروں کو مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا تو اعلیٰ سرکاری ملازمین عملاً ''قلم چھوڑ ہڑتال‘‘ پر رہے۔ وہ فائلوں پر دستخط کرنے سے کتراتے تھے کہ کہیں کل گردن نہ پھنس جائے۔ خان صاحب اس امر کے مدّعی بن کر آئے تھے کہ اختیارات و وسائل کو نچلی سطح پر منتقل کیا جائے گا، لیکن اُن کے دور میں ایسا نہ ہو سکا، بلکہ اُن کے مزاج میں ارتکازِ اختیارات انتہائی حد تک تھا، وفاقی کابینہ کے بے اختیار ہونے کا عالَم یہ تھا کہ پوری کابینہ نے یہ جانے بغیر کہ بند لفافے میں کیا ہے، اُس کی توثیق کر دی۔ کہا جاتا ہے کہ اس بند لفافے میں برطانیہ کے حکومت پاکستان کو تفویض کردہ 19 کروڑ پائونڈ (موجودہ شرح سے بیالیس ارب پچھتر کروڑ روپے) کی رقم کی دستاویز تھی، یہ رقم براہِ راست قومی خزانے میں جمع کرنے کے بجائے سپریم کورٹ میں ایک پراپرٹی ٹائیکون کے ذمے واجب الادا 460 ارب کے کھاتے میں جمع کرا دی گئی۔
افغانوں کے اندر جِرگے کی روایت بڑی مستحکم ہے، یہی وجہ ہے کہ دوحہ میں طالبان کے ساتھ طویل مذاکرات کے نتیجے میں امریکہ کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہ کر سکا، بلکہ طالبان قیادت نے اپنی شرائط کو زیادہ منوایا، حالانکہ امریکی یونیورسٹیوں میں ''ڈپلومیٹک ڈائیلاگ یعنی سیاسی مکالمے‘‘ کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے، ورکشاپس منعقد ہوتی ہیں، ڈپلومہ اور پوسٹ گریجویٹ سطح تک کے کورس پڑھائے جاتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ ایک بار مذاکرات پیپلز پارٹی اور اے این پی کے دور میں مالاکنڈ سوات آپریشن سے پہلے ہوئے اور اُس کے نتیجے میں ''نظامِ عدل ریگولیشن‘‘ نافذ ہوا مگر بے اثر رہا۔ پھر نواز شریف کے دور میں ایک بار پھر مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا اور اُس میں مولانا سمیع الحق، پروفیسر ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ کو شامل کیا گیا، یہ حضرات حکومت کو ایک طرف کرکے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئے اور بالآخر یہ مذاکرات بھی ناکامی پر منتج ہوئے۔ پھر جنرل فیض حمید کے دور میں ایک بار پھر کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات ہوئے، کچھ علماء کو بھی کابل بھیجا گیا، لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔
ان مذاکراتی سلسلوں کی ناکامی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے سے پہلے کوئی اصول طے نہیں کیے گئے کہ ان کی حدود و قیود کیا ہوں گی۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے بنیادی اصول و ضوابط طے ہوں، ہماری نظر میں وہ یہ ہو سکتے ہیں: ''ٹی ٹی پی قیادت پاکستانی سرحدوں کی حرمت کو تسلیم کرے گی، پاکستان کے نظامِ آئین و قانون کے تابع رہ کر مذاکرات ہوں گے، ریاست و حکومت کی بالادستی کو تسلیم کرنا ہو گا، جرائم کے مرتکبین کو پاکستان کے نظامِ عدل کے تحت قانونی عمل سے گزرنا ہو گا اور پابندِ آئین و قانون گروہوں کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو پاکستان میں مذہبی و سیاسی تنظیموں اور افراد کو حاصل ہیں‘‘۔ ماضی کے جن فوجی آپریشنوں کا ہم نے ذکر کیا ہے، سیاسی حکومتوں نے خواستہ و ناخواستہ اُن کی ذمہ داری قبول کی ہے، سامنے آکر اُن کا دفاع کیا ہے، اُس کے نتائج کا بھی سامنا کیا ہے، جانی اور مالی نقصانات بھی برداشت کیے ہیں، لیکن ایک المیہ یہ ہے کہ 2013ء سے خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہے، لیکن وہ اس کی اُونر شِپ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور وہ وفاق سے ہٹ کر بھی اپنی سطح پر مذاکرات کا تاثر دے رہے ہیں، یہ درست نہیں ہے، کیونکہ جس مسئلے میں دو مُلک شامل ہوں، اُس میں معاملات کو طے کرنا وفاق کا دائرۂ اختیار ہوتا ہے اور صوبائی حکومت کو اس کا مُمِدّومعاون بننا چاہیے۔
افغانستان کی طالبان حکومت کو ضامن کا کردار ادا کرنا ہو گا، دونوں ممالک اپنی سرزمین کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور نہ ایک دوسرے کے مجرموں کو خفیہ ٹھکانے یا پناہ گاہیں دیں گے، نیز تحویلِ مجرمین کا بھی معاہدہ ہونا چاہیے۔ کسی کو پسند ہو یا ناپسند، زمینی اور تاریخی حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی معیشت اور تجارت پاکستان سے جڑی ہوئی ہے، پاکستان ہی سے قانونی یا غیر قانونی راستوں سے افغانستان کو مال جاتا بھی ہے اور آتا بھی ہے؛ پس یہ طے کیا جائے کہ بیرونی درآمد شدہ مال کی افغانستان میں ترسیل بیرونی زرِمبادلہ کے ساتھ ہو گی، کیونکہ اس زرِمبادلہ کا بوجھ پاکستانی معیشت پر پڑتا ہے، لیکن جو اشیا دونوں ممالک کے اندر پیدا ہوتی ہیں یا جو مصنوعات تیار ہوتی ہیں، اُن کی باہمی تجارت مقامی کرنسی یا بارٹر سسٹم، یعنی سامان کے بدلے سامان کی صورت میں بھی کی جا سکتی ہے، اس سے دونوں ممالک کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی اور پاکستانی صنعت کو افغانستان کی مارکیٹ اور خام مال بھی دستیاب ہو گا۔
پاکستان کا دوسرا اہم مسئلہ معیشت کا ہے، اس کے لیے ایک طویل المدت میثاقِ معیشت ہونا چاہیے، جس کی ذمہ داری تمام سیاسی جماعتیں لیں اور اس کے تسلسل کی ضمانت دیں، نیز داخلی اور بیرونی سرمایہ کاری کے لیے سیاسی استحکام بے حد ضروری ہے۔ عمران خان مقتدرہ کو دہائی دے رہے ہیں کہ وہ دخل اندازی کرے، یہ سیاست دانوں کی ناکامی اور نااہلی کا ثبوت ہے، یہ کام سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کو خود کرنا چاہیے۔ جب پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں اور سیاست دان اپنا کام خود نہ کریں اور ہمیشہ مقتدرہ کی نگاہِ کرم کے منتظر رہیں، تو پھرمقتدرہ کی مداخلت ناگزیر ہوجاتی ہے۔ ہماری قومی معیشت جس زبوں حالی کا شکار ہے، اُس کی ذمہ داری صرف موجودہ وفاقی حکومت پر ڈالنا درست نہیں ہے، یہ ایک تسلسل ہے اور اس کی ذمہ داری پی ٹی آئی کی حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے، بلکہ اُن پر زیادہ عائد ہوتی ہے، کیونکہ ساڑھے تین سال سے زائد عرصہ وفاقی سطح پر وہ حکومت میں رہے ہیں۔ نیز اگرچہ خان صاحب فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ تاثردے رہے ہیں کہ انتخابات ہی تمام مسائل کا حل ہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ انہوں نے آج تک معاشی بحالی اور ارتقاکے لیے کوئی قابلِ عمل منصوبہ پیش نہیں کیا، 2013ء سے پہلے کے اُن کے سارے دعوے خام ثابت ہوئے، وہ ریت کے ذرّوں کی مانند اڑ گئے، وہ مفروضوں اورخواہشات و توقعات پر مبنی تھے، حقیقت پر مبنی نہیں تھے۔ لیکن صوبے میں تقریباً سوا نو سال اور وفاق میں پونے چار سال حکومت کرنے کے بعد انہیں حقائق کا ادراک ہونا چاہیے اورحقیقت پسند بننا چاہیے۔