اَنا کے معنی ہیں: ''خود کو عقلِ کُل سمجھنا، اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھنا، اپنی ذات کا اسیر ہونا، اسی کو خود بینی،خود رائی، خود ستائی، خود نِگری، خود نمائی اور کِبر و استکبار کہا جاتا ہے‘‘۔ اس میں مبتلا ہو کر انسان خود کو معیارِ حق سمجھنے لگتا ہے، آنکھوں پر غیر مَرئی (Unseen) پردہ پڑ جاتا ہے اور حقائق سے انکار یا چشم پوشی شِعار بن جاتا ہے۔ یہ نفسانی وصف قبولِ حق اور اصلاحِ نفس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ابلیس کوجب حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم ہوا، تو اسی خصلت نے اُسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے راندۂ درگاہ کیا۔ قرآنِ کریم میں ہے: ''اس وقت کو یاد کیجیے: جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا: میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں، پس جب اس کی تخلیق مکمل کر لوں اور اپنی طرف سے اُس میں (خاص) روح پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدے میں گر جانا، پس ابلیس کے سوا تمام فرشتوں نے سجدہ کیا، ابلیس نے تکبر کیا اور وہ (علمِ الٰہی میں) کافروں میں سے ہی تھا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ آدم جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا، ابلیس! تجھے اُس کو سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا، کیا تو نے (اب) تکبر کیا یا تو پہلے ہی تکبر کرنے والوں میں سے تھا، کہنے لگا: میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے بنایا ہے، فرمایا: جنت سے نکل جا، بے شک تو دھتکارا ہوا ہے اور تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت ہے‘‘ (ص: 71 تا 78)۔ الغرض ابلیس نے فرمانِ باری تعالیٰ کو ردّ کرنے کے لیے عقلی استدلال کا سہارا لیا اور یہ نہ جانا کہ کمال کسی چیز کی ذات میں نہیں ہوتا، کمال تو فیضانِ باری تعالیٰ سے نصیب ہوتا ہے، وہ چاہے تو ذرّے کو آفتاب اور قطرے کو سمندر بنا دے، آدم کو مسجودِ ملائک بنا دے اور آگ سے تخلیق کردہ ابلیس کو راندۂ درگاہ کر دے۔
علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں: ''ابلیس کی موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو ابلیس نے کہا: موسیٰ! آپ کو اللہ تعالیٰ نے رسالت کے لیے چنا ہے اور اپنی ذات سے ہم کلامی کا شرف عطا کیا ہے، میں بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہوں، میں نے اُس کی نافرمانی کی ہے اور اب میں توبہ کرنا چاہتا ہوں، آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں میری سفارش کیجیے کہ وہ میری توبہ قبول فرمائے‘‘، موسیٰ علیہ السلام نے اُس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو جواب آیا: موسیٰ! میں نے تیری حاجت پوری کر دی، پھر موسیٰ علیہ السلام ابلیس سے ملے اور کہا: تجھے حکم دیا گیا ہے کہ آدم علیہ السلام کی قبر کوسجدہ کر لو، تمہاری توبہ قبول ہو جائے گی، اس نے پھر تکبر کیا اور غضب ناک ہو کر کہا: جس کے آگے میں نے ظاہری حیات میں سجدہ نہ کیا تو کیا میں بعد از وفات اس کو سجدہ کر لوں‘‘ (تلبیس ابلیس، ص: 29)۔
انگریزی میں اَنا کو ''Ego‘‘، اَنانیت کو ''Egoism‘‘ اور اَنا پرست کو ''Egocentric‘‘ کہتے ہیں۔ اناپرستی کی نفسیاتی بیماری قبولِ حق اور اصلاحِ نفس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ قرآنِ کریم نے ابلیس سمیت جن سرکشوں کا ذکر فرمایا ہے، وہ اناپرستی ہی میں مبتلا تھے۔ ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے باوجود حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کا جواز یہ پیش کیا: ''تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے بنایا ہے‘‘، یعنی اُس کی نظر صرف اپنے جوہرِ تخلیق ''آگ‘‘ پر مرکوز رہی، اُس نے اللہ تعالیٰ کی حکمت کو نظر انداز کر دیا اور کہا: ''میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے بنایا ہے‘‘، اُس نے یہ نہ سوچا کہ کمال نہ ''شعلۂ نار‘‘ میں ہے اور نہ ''ذرّۂ خاک‘‘ میں ہے، اللہ کی ذات چاہے تو خاک کے پتلے آدم علیہ السلام کو زیورِ علم و ہدایت سے آراستہ کر کے مسجودِ ملائک بنا دے۔ شیخ سعدی نے کہا ہے:
تکبر عزازیل را خوار کرد
بزندانِ لعنت گرفتار کرد
ترجمہ: ''تکبر نے شیطان کو رُسوا کر دیا اور وہ ہمیشہ کے لیے لعنت و ملامت کا نشانہ بنا‘‘۔ اسی اَنا نے فرعون کو خدائی کا دعویٰ کرنے پر ابھارا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ''اس نے لوگوں کو جمع کر کے خطاب کیا اور کہا: میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں‘‘ (النازعات: 23 تا 24)۔ ایسا ہی خدائی کا دعویٰ نمرود نے بھی کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ''(اے رسولِ مکرّم!) کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم کے ساتھ اس کے رب کے بارے میں اس بات پر جھگڑا کیا کہ (ابراہیم نے کہا:) اُسے بادشاہت اللہ نے دی ہے‘‘ (البقرہ: 258)۔ الغرض وہ بادشاہت کو اللہ کی عطا سمجھ کر اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے اس گھمنڈ میں مبتلا ہو گیا کہ یہ اس کا ذاتی کمال ہے اور وہ اپنی ذاتی خوبیوں کی بنا پر اس کا استحقاق رکھتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت میں یہی شِعار قارون کا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اُسے بے پناہ دولت سے نوازا تھا۔ اس کا بیان قرآن کریم میں ہے: ''بے شک قارون موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں سے تھا، پھر اُس نے بنی اسرائیل پر سرکشی کی، جبکہ ہم نے اُسے اتنے خزانے دیے جن کی چابیوں کو اٹھانا بھی ایک طاقتور جماعت کے لیے مشکل تھا، جب اُس سے اس کی قوم نے کہا: اترائو نہیں، بے شک اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘ (القصص: 76) ''اس نے کہا: یہ مال تو مجھے صرف اُس علم کی بنیاد پر دیا گیا ہے جو میرے پاس ہے‘‘ (القصص:78)۔ غور کیجیے! نمرود نے دولت کی برتری پر ناز کیا اور دولت عطا کرنے والے ربِّ کریم کے احسان کو فراموش کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی جبلّت کی اس کمزوری اور اَنا پرستی کا ذکر قرآنِ کریم میں بیان فرمایا ہے۔ ارشاد ہوا: ''لیکن جب انسان کو اس کا رب عزت اور نعمت دے کر آزمائے تو وہ کہتا ہے: میرے رب نے مجھے عزت دی، لیکن جب اللہ تعالیٰ اُسے آزمائش میں ڈالتا ہے اور اس پر اس کا رزق تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے: میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا‘‘ (الفجر: 15 تا 16)۔
قرآنِ کریم نے کفار کا شِعار یہ بتایا: اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے اعزاز و اکرام اور نعمتوں کی فراوانی کو وہ اپنا ذاتی کمال اور استحقاق سمجھتے ہیں اور اگر ان پر آزمائش آ جائے تو اللہ تعالیٰ سے شکوہ کُناں ہو جاتے ہیں، لیکن قدرت نے یہ بتایا کہ راحتیں اور مال و دولت کی فراوانی کبھی انعام کے طور پر اور کبھی امتحان کے طور پر ہوتی ہے، اسی طرح مصیبتوں کے نزول پر بھی اگرانسان صبر کرے، اللہ تعالیٰ سے شکوہ و شکایت نہ کرے تو یہ اس کے لیے انعام اور بلندیِ درجات کا باعث بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور اگر ان کو کچھ اچھائی پہنچے تو کہتے ہیں: یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر ان کو کچھ برائی پہنچے تو (اے رسولِ مکرم!) یہ کہتے ہیں: یہ آپ کی طرف سے ہے۔ آپ کہیے: ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے، تو ان لوگوں کو کیا ہوا کہ یہ کوئی بات سمجھ نہیں پاتے،(اے مخاطَب!) تم کو جو اچھائی پہنچتی ہے، سو وہ اللہ کی طرف سے ہے اور تم کو جو برائی پہنچتی ہے وہ تمہاری ذات کی وجہ سے ہے اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ (بطورِ) گواہ کافی ہے‘‘ (النسآء: 78 تا 79)۔
گوتم بدھ سے کسی نے کہا: ''مجھے خوشی چاہیے‘‘ وہ بولے: ''تمہارے فقرے میں دو لفظ اضافی ہیں: ''مجھے‘‘ اور ''چاہیے‘‘، یعنی ''انا‘‘ اور ''خواہش‘‘ ان دونوں کو نکال دو، بس ''خوشی‘‘ رہ جائے گی۔ ہماری فہم کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے: ''اگر انسان اپنی انا کا اسیر نہ ہو اور خواہشات کا بندہ نہ بن جائے، تو اس کی زندگی راحت اور سکون سے گزرے گی‘‘۔ علماء نے کہا ہے: ''جس نے اپنی خوبیوں اور خامیوں کو پہچان لیا، اس کو مدح و ستائش سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا‘‘ (معجم ابن المقری: 406)۔ امام احمد رضا قادری نے کہا:
نہ مرا نوش زتحسیں،نہ مرا نیش زطَعن
نہ مرا گوش بمدحے، نہ مرا ہوشِ ذمے
منم وکُنجِ خمولے کہ نہ گنجد دروے
جز مَن و چند کتاب و دوات و قلمے
ترجمہ: ''نہ کسی کی تحسین سے میرا نفس عُجب میں مبتلا ہوتا ہے اور نہ کسی کے طعن سے مجھے تکلیف ہوتی ہے، نہ میں کسی کی مدح و ستائش پر کان دھرتا ہوں اور نہ مجھے کسی کی مذمت پر غور کرنے کی فرصت ہے، بس! میں ہوں اور گمنامی کا ایک گوشۂ عافیت ہے کہ اس میں میرے اور چند کتابوں اورقلم دوات کے سوا کسی اور کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے‘‘۔ عبداللہ بن خُبَیق نے کہا: آدمی تین قسم کے ہیں: ایک وہ جو نیکی کرتا ہے اور اُس پر اللہ سے ثواب کی امید رکھتا ہے، دوسرا وہ جو گناہ کرتا ہے اور پھر توبہ کر لیتا ہے اور توبہ کے سبب اللہ سے مغفرت کی امید رکھتا ہے، تیسرا وہ ہے جو مہا جھوٹا ہے، وہ گناہوں میں حد سے گزر جاتا ہے اور (خوش فہمی میں آکر) کہتا ہے: میں اب بھی اللہ سے مغفرت کی امید رکھتا ہوں اور جو اپنے گناہوں کا احساس کر لے تو اس کا خوف اُس کی امید پر غالب رہتا ہے‘‘ (شعب الایمان، ج: 2، ص: 324)۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں نے (رات کو) رسول اللہﷺ کو بستر پر نہ پایا تو میں آپﷺ کو تلاش کرنے نکلی، (اندھیرے میں) میرا ہاتھ آپﷺ کے پائوں کے تلووں پر پڑا، آپﷺ مسجد میں حالتِ سجدہ میں (تعلیمِ امت کے لیے) یہ دعا فرما رہے تھے: ''اے اللہ! میں تیری ناراضی سے بچ کر تیری رضا کی پناہ میں آتا ہوں، میں تیری عقوبت سے بچ کر تیرے عفو کی پناہ میں آتا ہوں اور میں تیرے عتاب سے بچ کر تیری رحمت کی پناہ میں آتا ہوں، (اے اللہ!) میں تیری ثنا کا احاطہ نہیں کر سکتا، تیری کمالِ ثنا وہی ہے جو تو نے خود اپنی ذات کی فرمائی‘‘ (مسلم: 486)۔
''ایک شخص نے نبی کریمﷺ کی خدمت میں عرض کی: ایک شخص چاہتا ہے کہ اس کا لباس اچھا ہو، اس کے جوتے اچھے ہوں، کیا یہ بھی تکبر ہے، آپﷺنے فرمایا: (ایسا نہیں ہے) اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے، تکبرتو لوگوں کو حقیر جاننے اور حق کے انکارکا نام ہے‘‘ (صحیح مسلم :91)، (2) ''متکبرین قیامت کے دن (بشری شکل میں) چیونٹیوں کی مانند اٹھائے جائیں گے، اُن پر ہر طرف سے ذلّت چھائی ہو گی، انہیں بولس نامی جہنم میں لے جایا جائے گا، اُن پر آگ کے ایسے شعلے بلند ہوں گے جو خود آگ کو بھی جلاکر رکھ دیں، انہیں جہنمیوں کے زخموں کی پیپ اور پسینہ پلایا جائے گا‘‘ (ترمذی: 2492)۔