بائیسویں پارے کے شروع میں ازواجِ مطہراتؓ سے کہا گیا کہ آپ لوگوں کا مقام امتیازی ہے۔ سو‘ تقویٰ اختیار کرو‘ غیر محرم مردوں کے ساتھ نرم لہجے میں بات نہ کرو اور ضرورت کے مطابق بات کرو‘ اپنے گھروں پر رہو اور زمانۂ جاہلیت کی طرح زیب و زینت کی نمائش نہ کرو‘ نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کرو اور اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی اطاعت پر کاربند رہو اور جو ایسا کریں گی تو اُن کو دُہرا اجر ملے گا اور اُن کیلئے آخرت میں عزت کی روزی کا اہتمام ہے۔ اسی مقام پر اہلِ بیتِ رسول کیلئے نوید ہے کہ اللہ اُن سے ناپاکی کو دور کرنا چاہتا ہے اور اُنہیں خوب پاکیزہ رکھنا چاہتا ہے۔ مفسرین کے مطابق؛ اس آیتِ تطہیر کا مصداق سیدہ فاطمہؓ، حضرت علی اور حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ ساتھ اُمہات المومنین رضی اللہ عنہن بھی ہیں‘ کیونکہ قرآنِ مجید میں حضرت ابراہیم وموسیٰ علیہم السلام کے واقعات میں ''اہلِ بیت‘‘ کا بیوی پر بھی اطلاق کیا گیا ہے۔ آیت 46 میں سیدنا محمد رسولﷺ کے ایک عظیم ترین اعزاز کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں آخری نبی و رسول بنایا اور ''خاتم النبیین‘‘ ہونا آپﷺ کے مقامِ فضیلت میں بیان ہوا۔ آیت 44 میں رسول کریمﷺ کی امتیازی صفات کا ذکر ہے کہ آپ کو شاہد‘ مبشر (رحمتِ الٰہی کی بشارت دینے والا)‘ نذیر (اللہ کے عذاب سے ڈرانے والا)‘ اِذنِ الٰہی سے دعوتِ حق دینے والا اور ''سراج منیر‘‘ (روشن کرنے والا آفتاب) بنا کر بھیجا گیا ہے۔
آیت 53 سے آدابِ بارگاہِ نبوت بیان ہوئے کہ اجازت کے بغیر نبی کے گھر میں داخل نہ ہو‘ دعوتِ طعام ہو تو کھانا کھا کر منتشر ہو جاؤ‘ نبی کی بیویوں سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو‘ نبی کی بیویوں سے آپﷺ کی رحلت کے بعد دائمی طور پر مسلمانوں کا نکاح ممنوع ہے اور اپنے کسی بھی عمل سے اللہ کے رسولﷺ کو کوئی ایذا نہ پہنچاؤ۔ آیت 56 شانِ رسالت میں عظیم ترین آیت ہے‘ فرمایا: ''بے شک اللہ اور اُس کے فرشتے نبی پر درود پڑھتے ہیں‘ اے اہلِ ایمان! تم بھی اُن پر درود پڑھو اور کثرت سے سلام بھیجو‘‘۔ مفسرین نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ''صلوٰۃ علی الرسول‘‘ کے کئی معنی بتائے ہیں‘ لیکن جو معنی آپ کے شایانِ شان ہے‘ وہ ہے: ''عظمت عطا کرنا‘‘۔ آیت57 میں بتایا کہ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کو ایذا پہنچانے والوں پر دنیا اور آخرت میں لعنت ہے۔ اور اللہ نے اُن کیلئے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے۔ آیت 59 میں مومنات خواتین کیلئے پردے کا حکم ہے‘ یعنی ایسی چادر اوڑھنا‘ جس سے کامل ستر حاصل ہو جائے۔
سورۂ سبا
اس سورۂ مبارکہ میں دشمنانِ رسول کیلئے عبرتناک عذاب کی وعید ہے۔ آیت 10سے حضرت داؤد علیہ السلام کے معجزات کا ذکر ہے کہ اُنہیں اللہ نے فضیلت دی‘ پہاڑ اور پرندے اُن کے ساتھ تسبیح کرتے تھے‘ لوہا اُن کے لیے نرم کر دیا گیا تھا اور وہ زِرہیں بناتے اور باندھنے کیلئے اُن میں کڑیاں ڈالتے۔ اسی طرح سلیمان علیہ السلام کے معجزات کا ذکر ہے کہ ہوا اُن کے تخت کو تیز رفتاری سے اڑا کر لے جاتی‘ اُن کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ جاری کر دیا‘ اللہ کے اِذن سے جنات اُن کے اَحکام کو بجالانے کے پابند تھے‘ سلیمان علیہ السلام کے حکم سے جنات بڑے بڑے قلعے اور ٹاور‘ مجسمے اور حوضوں کے برابر ٹب اور چولہوں پر جمی ہوئی دیگیں بناتے تھے‘ ان تمام نعمتوں کا ذکر فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آلِ داؤد! شکرکرو اور میرے بہت کم بندے شکر گزار ہیں۔ دریں اثنا جِنّات سلیمان علیہ السلام کے حکم سے تعمیرات میں مصروف تھے‘ تووہ ایک بِلّوریں (Crystal) کیبن میں تشریف فرما ہوئے اور اس دوران قضائے الٰہی سے اُن کی وفات ہو گئی مگر جِنّات کو اُن کی وفات کا تب پتا چلا جب دیمک نے اُن کے عصا کو‘ جس سے وہ ٹیک لگائے ہوئے تھے‘ اندر سے چاٹ لیا اور پھر وہ زمین پر گر گئے۔ اُس وقت جِنّات کفِ افسوس ملنے لگے کہ اگر ہمیں غیب کا علم ہوتا تو اتنے طویل عرصے تک ہم ذلت آمیز مزدوری میں مصروف نہ رہے ہوتے‘ شاید یہی وہ ''ہیکلِ سلیمانی‘‘ ہے ‘جس کے آثار کی تلاش میں اور دوبارہ تعمیر کے لیے یہود وقتاً فوقتاً بیت المقدس کی عمارت کو گرانے کی مذموم کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ موت انبیاء کرام کے اَجسام پر کوئی طبعی اثرات مرتب نہیں کرتی اور یہی وجہ ہے کہ جِنّات کو اُن کی موت کا پتا نہ چل سکا۔
سورۂ فاطر
اِس سورۂ مبارکہ کی ابتدا میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے دو‘ دو، تین‘ تین اور چار‘ چار پروں والے فرشتے پیدا کیے‘ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے‘ وہ کسی پر اپنی رحمت کے فیضان کو کھول دے‘ توکسی کی مجال نہیں کہ اسے روک دے اور جس کیلئے وہ روک دے توکسی کی مجال نہیں کہ وہ فیضانِ رحمت عام کر دے۔ رسول کریمﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: آپ غمگین نہ ہوں‘ آپ سے پہلے رسولوں کو بھی جھٹلایا گیا۔ آیت 9 سے ایک بار پھر اللہ کی قدرت کے تحت بارش کے نظام کا ذکر ہے‘ انسان کو اُس کے جوہرِ تخلیق کی طرف متوجہ کیا گیا ہے تا کہ سرکشی کا شکار نہ ہو اور یہ کہ وہ مادہ کے پیٹ میں حمل کو بھی جانتاہے اور یہ کہ کسی کی عمر میں درازی یا کمی ہوتی ہے‘ تووہ اللہ کی کتاب وتقدیر میں پہلے سے لکھی ہوتی ہے۔ آیت 12 سے فرمایا کہ میٹھے اور کھارے پانی کے سمندر برابر نہیں ہوتے‘ لیکن سب سمندروں سے تمہیں مچھلی کا تازہ گوشت ملتا ہے اور تم اُن سے پہننے کے زیور نکالتے ہو اور کشتیاں پانی کو چیرتی ہوئی چلی جاتی ہیں‘ نظامِ لیل ونہار اور شمس و قمر اُسی کے حکم کے تابع ہے۔ آیت 18میں بتایا کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا‘ یعنی ہرایک کو اپنے اپنے عمل کا جواب دینا ہو گا، جو تزکیہ اور تقویٰ اختیار کرے گا‘ اُس کا فائدہ اُسی کو پہنچے گا۔ اندھا اور بینا‘ ظلمت و نور‘ سایہ اور دھوپ اور زندہ و مردہ لوگ برابر نہیں ہو سکتے‘ یہاں کُفار اور منکرین کو اندھے‘ ظلمت‘ دھوپ اور مردے سے تشبیہ دی اور اہلِ ایمان کو بینا‘ نور‘ سایہ اور زندوں سے تشبیہ دی۔ اللہ تعالیٰ نے اِن آیات میں یہ بھی بتایاکہ حُجتِ الٰہیہ قائم کرنے کیلئے ہرقوم کی طرف نذیر‘ یعنی روشن دلائل اور الہامی کتابیں دے کر نبی اور رسول بھیجے گئے لیکن ہر دور میں پیغامِ حق کو جھٹلانے والے موجود رہے۔ آیت 28 میں بتایاکہ علمائے ربانیین کے دلوں میں اللہ کی خشیت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو برگزیدہ و چنیدہ اور نیکی کے کاموں میں سبقت کرنے والے فرما کر جنت کی اُن نعمتوں کا ذکرکیا جو اُن عبادِ صالحین کیلئے تیار ہیں۔ آیت41 سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کو اپنے مرکز سے ہٹنے نہیں دیتا اور اگر وہ اپنے مرکز سے ہٹ جائیں تو اللہ کے سوا کوئی اُن کو اپنی جگہ قائم نہیں کر سکتا۔ آیت 45 میں فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان کی گرفت فرماتا توروئے زمین پر کسی جاندار کو (زندہ) نہ چھوڑتا‘ لیکن وہ ایک وقت مقررہ تک انہیں ڈھیل دے رہا ہے؛ پس جب ان کا وقت آ جائے گا تو اللہ اپنے بندوں کو خوب دیکھ لے گا‘‘۔
سورہ یٰسٓ
اس سورۂ مبارکہ کے شروع میں فرمایا کہ نزولِ قرآن کا مقصد غافل لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانا ہے اور اُن پر حق کی حجت کو قائم کرنا ہے ‘ لیکن کچھ سرکش لوگ ایسے ہیں کہ جن پر دعوتِ حق اثر انداز نہیں ہوتی۔ دعوتِ حق اُنہی پر اثر اندازہوتی ہے‘ جو نصیحت کو قبول کریں اور جن کے دلوں میں اللہ کا خوف ہو۔ اگلی آیات میں اس امر کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دعوتِ حق کیلئے اپنے نبی ایک بستی (انطاکیہ) کی طرف بھیجے‘ بستی والوں نے اُن کی تکذیب کی اوراُن سے بدفالی لی اور اُنہیں سنگسار کرنے اور دردناک عذاب دینے کی دھمکی دی‘ انبیاء کرام نے اُن پر حُجّت الٰہیہ کو قائم کیا اور شہر کے آخری کنارے سے ایک شخص دوڑتاہوا آیا اور کہاکہ ان کی پیروی کرو‘یہ تم سے کسی اجرو انعام کے طلبگار نہیں ہیں۔