رسول اللہﷺ کے عہدِ مبارک میں 27 غَزَوات اور سَرَایا ہوئے، ان میں سے شوال المکرم میں دو بڑے غزوات ہوئے۔ 03ھ میں غزوۂ اُحُد اور 08ھ میں غزوۂ حُنَین واقع ہوا۔ ان دونوں غزوات سے پہلے 02ھ میں غزوۂ بَدَ رُ الکُبریٰ اور 08ھ میں فتح مکہ کی صورت میں مسلمانوں کو مشرکینِ مکہ کے خلاف تاریخی فتوحات حاصل ہوئیں۔ لیکن اس کے باوجود غزوۂ بدر اور فتحِ مکہ کی تاریخی فتوحات کے بعد مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان بالترتیب غزوۂ اُحُد اور غزوۂ حُنَین میں اٹھانا پڑا۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ وہ دور ایمانی اور روحانی قوت اور دینی جذبے کے اعتبار سے مثالی تھا، کیونکہ سید المرسلین رحمۃ للعالمین سیدنا محمد رسول اللہﷺ بنفسِ نفیس اپنی حیاتِ ظاہری کے ساتھ تشریف فرما تھے اور انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد انسانی تاریخ کی سب سے پاکیزہ، وفا شِعار، جاں نِثار اور پیکرِ اخلاص و رضا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت آپﷺ کی رفاقت میں موجود تھی، ان سے بہتر انسانی نفوس کی جمعیت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ براہِ راست رسالت مآبﷺ کے تربیت یافتہ تھے۔
مقامِ غور ہے کہ مسلمانوں کو سید المرسلینﷺ کی موجودگی میں اتنے بڑے نقصان سے کیوں دوچار ہونا پڑا۔ صحابۂ کرام کا اخلاص و رضا ہر قسم کے شک وشبہے سے بالاتر ہے، لیکن اخلاصِ نیت کے باجود ان سے اجتہادی خطائیں ہوئیں، جن کا خمیازہ بھاری نقصان اور عارضی ہزیمت کی صورت میں اٹھانا پڑا۔ ہمیں اپنی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے ان واقعات سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
غزوۂ اُحُد کے موقع پر رسول اللہﷺ کی مبارَ ک رائے یہ تھی کہ شہر کے اندر رہتے ہوئے مدینہ منورہ کا دفاع کیا جائے، کیونکہ مدینۂ منورہ کی تین اطراف کھجوروں کے باغات کا قدرتی دفاعی حصار تھا، لیکن پُرجوش نوجوان صحابۂ کرام کی ایک جماعت نے اصرار کیا کہ ہمیں باہر میدان میں نکل کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہیے، ان کے سامنے بدر کی تاریخی فتح کا ایمان افروز منظر تھا، جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت کاغلبہ تھا۔ رسول اللہﷺ نے جب اپنے آپ کو مُسَلّح کر لیا، یعنی زرہ پوش ہو گئے، سرِ مبارک پر عمامہ پہن لیا اور تلوار اور تیر کمان سے لیس ہوکر سَکَبْ نامی گھوڑے پر سوار ہو گئے، تو ان صحابۂ کرام کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! جیسے آپ کی مرضی ہو کیجئے، مگر رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کا نبی جب جہاد کے لیے تیار ہو کر اسلحہ بند ہو جاتا ہے، تو پھر وہ اسلحہ نہیں اتارتا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور (ملّی) کاموں میں ان (صحابہ) سے مشورہ کیجیے اور جب آپ (کسی بات کا) عزم کر لیں تو اللہ پر توکل کریں، بے شک اللہ توکل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘ (آل عمران: 159)۔
اس واقعہ سے امت کو دو سبق ملتے ہیں: ایک یہ کہ حاملِ وحی کے سامنے اپنی رائے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے اور دوسرا یہ کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے تمام پہلوؤں پر غور کرو، لیکن جب ایک بار فیصلہ ہو جائے تو پھر اللہ پر توکل کرکے اس پر ثابت قدم رہو، ارادے میں تزلزل اور بے یقینی سے ہمتیں پست ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ راستے میں سے رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی اپنے تین سو ساتھیوں کے ہمراہ واپس چلا گیا۔ اس موقع پر بعض صحابہ نے مشورہ دیا کہ یہود کے کئی قبائل جو ہمارے حلیف ہیں، ان سے مدد طلب کی جائے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہمیں اس کی حاجت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اے ایمان والو! غیروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ، وہ تمہاری بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، انہیں تو وہی چیز پسند ہے، جس سے تمہیں تکلیف پہنچے، اُن کی دشمنی تو اُن کی باتوں سے ظاہر ہوچکی ہے اور جو (نفرت) انہوں نے اپنے دلوں میں چھپا رکھی ہے، وہ اس سے بھی بہت زیادہ ہے‘‘ (آل عمران: 119)۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی بھی مشکل مرحلے میں مشتبہ اور مشکوک لوگوں کو نہ تو ہم راز بنانا چاہیے اور نہ ان پر بھروسا کرناچاہیے، مسلمانوں کا اصل سرمایہ ہمیشہ مخلصین کی جماعت رہی ہے، آج امت کے زوال کا سبب یہی ہے کہ اپنوں کے بارے میں بے اعتمادی کا شکار ہیں اور ملت کفر و باطل کو اپنا حلیف بنائے ہوئے ہیں اور اپنے اقتدار کی بقا و دوام کے لیے اغیار پر اعتماد کرتے ہیں اور ان کی سرپرستی اور اشیرباد کے خواہاں ہوتے ہیں، تمام اسلامی ممالک اسی عہدِ زوال سے گزر رہے ہیں۔
جب اسلامی لشکر اُحُد کے مقام پر صف آرا ہوا تو رسول اللہﷺ نے وادی ''عَیْنَیْن‘‘ (اسے آج کل جبلِ رُماۃ کہتے ہیں) میں حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں پچاس تیر اندازوں کا ایک دستہ مقرر کیا اور ان کو ہدایت جاری کرتے ہوئے فرمایا: ''تم لوگ ہمارے لشکر کی عقَبی جانب کی حفاظت کرنا اور کسی بھی صورت میں اپنے مورچے کو خالی نہ کرنا، یہاں تک کہ اگر (خدانخواستہ) تم دیکھو کہ ہمیں قتل کیا جا رہا ہے، تب بھی ہماری مدد کے لیے اپنے مورچے کو نہ چھوڑنا اور اگر تم دیکھو کہ ہم فتح یاب ہوگئے ہیں اور مالِ غنیمت جمع کر رہے ہیں، تو پھر بھی تم اپنی جگہ سے نہ ہلنا، یعنی ہر صورت میں ہماری عقبی جانب کی حفاظت کرنا‘‘۔ جنگی حکمت عملی کے اعتبار سے مجاہد دستوں کی اس خاص مقام پر تعیناتی اور فتح ہو یا شکست‘ ہر صورت میں اپنی پوزیشن کو نہ چھوڑنے کی تاکید وہدایت، رسول اللہﷺ کی حربی مہارت کا واضح ثبوت تھا۔
ابتدا میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور مجاہدین مالِ غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے۔ اس منظر کو دیکھ کر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں متعین مجاہدین کے دستے میں اختلافِ رائے ہو گیا، کچھ لوگوں نے کہا کہ فتح مل گئی ہے، مالِ غنیمت سمیٹا جا رہا ہے، ہمیں بھی آگے بڑھ کر مالِ غنیمت سمیٹنے میں شریک ہو جانا چاہیے، اب یہاں مورچہ بند رہنے کی ضرورت نہیں رہی؛ چنانچہ دس تیر اندازوں کی سوا باقی سب مورچہ چھوڑ کر مالِ غنیمت جمع کرنے کے لیے میدان میں کود پڑے۔
جب خالد بن ولید نے (جو اُس وقت تک لشکرِ کفار میں تھے) دیکھا کہ عَینَین کی پہاڑی تیر اندازوں سے تقریباً خالی ہو چکی ہے، تو وہ اور عِکرمہ بن ابوجہل گُھڑ سواروں کے ہمراہ جبل اُحُد کا چکر کاٹ کر آئے۔ حضرت عبداللہ بن جبیرؓ اور ان کے چند ساتھی جو اپنی پوزیشن پر قائم تھے، مزاحمت کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ قرآن مجید نے اِس منظر کو یوں بیان کیا: ''اور بے شک اللہ نے تم سے کیا ہوا وعدہ سچا کر دیا، جب تم (ابتدا میں) اُس کے اِذن سے اُن (کافروں) کو قتل کر رہے تھے، حتیٰ کہ جب تم نے بزدلی دکھائی اور (اللہ کے رسول کا) حکم ماننے میں اختلاف کیا اور اپنی پسندیدہ چیزوں (مالِ غنیمت) کو دیکھنے کے بعد تم نے (ظاہراً اللہ کے رسول کی) نافرمانی کی، تم میں سے بعض دنیا کا اور بعض آخرت کا ارادہ کر رہے تھے، پھر اللہ نے تم کو اُن سے پھیر لیا تاکہ وہ تمہیں آزمائش میں ڈالے اور بے شک اس نے تم کو معاف کر دیا اور اللہ ایمان والوں پر بہت فضل فرمانے والا ہے‘‘ (آل عمران: 152)۔
وہ مجاہدین جنہوں نے رسول اللہﷺ کی تاکید کے باوجود عینَین کی پہاڑی کو چھوڑ دیا تھا، اُن کی نیت صحیح تھی، رسول اللہﷺ کی نافرمانی کا ارادہ ہرگز نہیں تھا، لیکن ان سے اجتہادی خطا ہوئی اور انہوں نے یہ سمجھا کہ کفار پر فتح پانے کے بعد اب مورچے میں ڈٹے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے رسول اللہﷺ کے فرمان کو اپنی اس اِجتہادی خَطا کی بنا پر نظر انداز کردیا، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو بے انتہا نقصان اٹھانا پڑا، اس سے معلوم ہوا کہ صاحبِ وحی کے صریح فرمان کے مقابل اجتہاد کی گنجائش نہیں ہے۔
رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی کو خود بھی تکلیف اٹھانا پڑی، آپﷺ کے سامنے کے دندانِ مبارک شہید ہوئے، آپﷺ کے رخسارِ مبارک پر زخم آئے، آپﷺ کے عزیز ترین چچا سیّد الشُّہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ صرف شہید ہوئے بلکہ اُن کے اعضاء مبارکہ کا مُثلہ کیا گیا، یعنی اُن کی آنکھیں، ناک اور کان کاٹ دیے گئے۔ اس غزوہ میں 70 جلیل القدر صحابۂ کرام شہید ہوئے۔ اِسی انتشار اور عارضی ہزیمت کے دوران سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی شہادت کی خبر پھیل گئی، جس سے مسلمان مُضْطرِب ہو گئے، ایک مایوسی کی کیفیت طاری ہو گئی، مجاہدین کے قدم وقتی طور پر ڈگمگا گئے، بالآخر کافی نقصان اٹھانے کے بعد وہ دوبارہ سنبھلے۔ اللہ تعالیٰ نے اِسی موقع پر فرمایا: ''اور محمدﷺ (اللہ کے) رسول ہی تو ہیں، اُن سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں، تو اگر وہ وفات پا جائیں یا (بفرضِ محال) شہید کر دیے جائیں، تو کیا تم اُلٹے پاؤں (کفرکی جانب)پلٹ جاؤ گے؟‘‘ (آل عمران:144)۔ جب رسول اللہﷺ کے حیاتِ ظاہری کے اعتبار سے پردہ فرمانے کے بعد مسلمان ہل کر رہ گئے، ان کے ذہن اس بات کے لیے قطعاً تیار نہیں تھے کہ رسول اللہﷺ پر وفات بھی طاری ہو سکتی ہے، تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسی آیتِ مبارکہ کی تلاوت کر کے انہیں درپیش صورتِ حال کو قبول کرنے پر ذہنی طور پر آمادہ کیا۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی تسلی کے لیے مزید فرمایا: ''اور نہ کمزوری دکھائو اور نہ غمگین ہو جائو اور اگر تم (درحقیقت) مومن ہو تو (انجامِ کار) تم ہی سربلند رہو گے، اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچی ہے، تو تمہارے مخالفین بھی (بدر میں) ایسی ہی تکلیف اٹھا چکے ہیں اور ہم لوگوں کے درمیان ایام کوگردش دیتے رہتے ہیں‘‘ (آل عمران: 138 تا 139)، یعنی ان امور میں اللہ تعالیٰ کی ایک سنت ہے، جس کے تحت عروج و زوال اور فتح و شکست کے ادوار بدلتے رہتے ہیں۔
نبی کریمﷺ نے میدانِ جنگ میں ایک ایمان افروز اور مفصل خطبہ بھی ارشاد فرمایا جس میں جہاد پر ابھارنے کے ساتھ ساتھ شرعی احکام بھی بیان فرمائے۔ آپﷺ نے فرمایا: ''اے لوگو! میں تمہیں اس چیز کی وصیت کرتا ہوں، جس کا اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی کتاب میں حکم فرمایا ہے، یعنی اوامر پر عمل اور محرمات سے اجتناب۔ آج تم اجر اور ثواب کے مقام پر کھڑے ہو، سو جس نے اس مقام کو یاد رکھا، پھر اس نے اپنے نفس کو صبر، یقین، جَہدِ مسلسل اور خوش دلی سے معرکۂ حق و باطل پر آمادہ کر لیا، وہ سرخرو ہو گیا، کیونکہ دشمن سے جہاد ایک ناخوش گوار عمل ہے، بہت کم ہیں جو اس میں نتائج کی پروا کیے بغیر ڈٹ جاتے ہیں‘‘۔