حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبۃ اللہ کو اللہ تعالیٰ کی توحید و عبادت، رُشد و ہدایت اور دینِ فطرت کا مرکز و منبع بنایا تھا، لیکن اُن کی آنے والی ناخلَف نسلوں نے اپنے جدِّ امجد کی تعلیمات کو فراموش کرکے خانہ خدا کو کفر و شرک اور بُت پرستی کا مرکز بنا کر رکھ دیا تھا۔ اُنہوں نے بیت اللہ میں جا بجا سینکڑوں بُت نصب کر کے اُن کی عبادت شروع کر دی تھی۔ حضرت ابراہیم نے اپنی ذُرّیّت کو بیت اللہ کے پڑوس میں نماز کے اہتمام و قیام کی غرض سے آباد کیا تھا۔ قرآنِ کریم میں ہے: ''اور یاد کرو! جب ابراہیم نے دعا کی: اے پروردگار! اس شہر کو پُرامن بنا دے، مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے محفوظ رکھ، اے پروردگار! اِنہوں نے بہتوں کو گمراہ کر رکھا ہے، سو جو میری پیروی کرے وہ مجھ سے ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تُو بہت بخشنے والارحم فرمانے والا ہے۔ اے پروردگار! میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو تیرے محترم گھر کے پاس ایک بے آب و گیاہ سرزمین میں ٹھیرایا ہے، اے پروردگار! تاکہ وہ نماز کا اہتمام کریں، پس تو لوگوں کے دلوں کو اِن کی طرف مائل فرما اور ان کو پھلوں سے روزی عطا فرماتا کہ یہ تیرے شکر گزار ہوں‘‘ (ابراہیم: 35 تا 37)۔ لیکن اُنہوں نے جس طرح بیت اللہ کو توحید کا مرکز بنانے کے بجائے بُت خانہ بنا کر رکھ دیا، اسی طرح انہوں نے نماز کی شکل نہ صرف بگاڑ دی، بلکہ اسے کھیل تماشے میں تبدیل کر دیا اوراس کی صورت کو مسخ کر دیا، وہ بیت اللہ میں سیٹیاں اور تالیاں بجاتے، بھنگڑے اور دھمال ڈالتے اور اِن لغویات اور بیہودہ حرکتوں کو نماز قرار دیتے تھے۔ قرآنِ کریم میں ہے: ''اور بیت اللہ کے سامنے ان کی نماز سیٹی بجانے اور تالی پیٹنے کے سوا کچھ نہ تھی‘‘ (الانفال: 35)۔
اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر حضراتِ ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام کو تاکید فرمائی تھی کہ وہ بیت اللہ شریف کو ظاہری و باطنی ہر طرح کی گندگیوں اور نجاستوں سے پاک صاف رکھیں۔ ارشاد فرمایا: ''اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل کو تاکید فرمائی کہ میرا گھر طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے خوب پاک صاف رکھو‘‘ (البقرۃ: 125)۔ لیکن مشرکینِ قریش‘ جو حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی وراثت کا دم بھرتے اور اپنے آپ کو بیت اللہ کا وارث سمجھتے تھے‘ اس وراثت کا حق ادا کرنے کے بجائے اُلٹا اسے پامال کرنے لگے، بتوں کی پرستش، عبادات کی بے حرمتی کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے بیت اللہ شریف کو غلاظتوں اور نجاستوں سے آلود کرنا شروع کر دیا، وہ اپنے جانوروں کو بیت اللہ شریف میں ذبح کرتے، اُن کا خون بیت اللہ شریف کی دیواروں پر اُچھالتے، ملتے اور لتھیڑتے اور گوشت کا ڈھیر بیت اللہ کے دروازے پر ڈھیر کر دیتے، اُن کا خیال یہ تھا کہ ہم جب قربانیاں دیتے ہیں تو ان قربانیوں کا خون اور ان کا گوشت اللہ کے حضور پیش کرنا ضروری ہے اور اسی کے نتیجے میں ہماری قربانی قبول ہوتی ہے اور اس کا اجر و ثواب ملتا ہے، اس جاہلی نظریے کی تردید کرتے ہو ئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون بلکہ اس کو صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘ (الحج: 37)۔
نیز اُنہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقرر کردہ حج کے طریقوں میں تحریفات اور پے درپے مختلف تبدیلیوں کے ذریعے اُس کی ہیئت و شکل کو بھی بگاڑ کر رکھ دیا تھا اور حج جیسی روح پرور عبادت کو کھیل تماشوں، میلے ٹھیلوں اور بے بنیاد رسوم و رواج کی شکل دے کر اس کی رُوحانیت و مقصدیت کو فنا کر دیا تھا۔ چنانچہ حج کے ایام میں جزیرۂ عرب سے لوگ یہاں اکٹھے ہوتے، اُن میں بڑے بڑے شعرا بھی ہوتے تھے اور قد آور خطبا بھی، وہ لوگ بھی ہوتے تھے جنہیں اپنی جسمانی قوت پر ناز ہوتا تھا اور وہ بھی جو انواع و اقسام کا مالِ تجارت لے کر یہاں آئے ہوئے ہوتے تھے، ان میں سے ہر گروہ اپنے اپنے ذوق کی تسکین اور تفریحِ طبع کے لیے مصروفیات پیدا کر لیتا تھا، شعر و شاعری اور مُفاخَرت کی بڑی بڑی مجلسیں منعقد ہوتیں، خاص کر قیام منیٰ کے ایام تو انہی چیزوں کے لیے خاص ہو کر رہ گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی بیان کرنے کے بجائے شعرا اور خطبا کھل کر قبائلی فخر و مباہات کا اظہار کرتے اور اپنے قبیلوں اور آباء و اجداد کے کارنامے نظم و نثرمیں بیان کرتے۔
زبان دانی اور طلاقتِ لسانی کے معرکے برپا ہوتے اور اپنے اپنے جوہر دکھائے جاتے۔ جسمانی توانائی کے حامل لوگ کشتی اور اس طرح کے دوسرے فنون کا اظہار کرتے، بڑے بڑے دنگل ہوتے، بڑے بڑے پہلوانوں کا ایک دوسرے سے سامنا ہوتا، جو ان معرکوں میں سرخرو ٹھہرتا پورے عرب میں اس کی شہرت پھیل جاتی۔ پھر انہی لوگوں میں سے طبقہ امرا سے تعلق رکھنے والے اپنے مال تجارت سے بازاروں کی صورت پیدا کر دیتے اور ایک سے ایک بڑھ کر کاروباری منڈیاں وجود میں آ جاتیں۔ ہر سال یہ ہنگامے، یہ رنگا رنگی، یہ مصروفیات اور یہ تفریحِ طبع کا سامان اُن کی زندگی کا ایک جزو لاینفک بن چکا تھا اور اس کے اپنے فوائد بھی تھے۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ حج جس مقصد کے لیے فرض کیا گیا تھا اور بیت اللہ سے جو پیغام دیا جا رہا تھا، احرام، تلبیہ اور قربانیاں جس کی یاد کے لیے کی جا رہی تھیں، وہ تو سب کچھ اس ہنگامے کی نذر ہو گیا۔ ایک دوسرے پر فوقیت لے جانے کی کوشش کرتے اور اپنے مدِّمقابل کی ہجو میں زورِ بیان صرف کرتے، مختلف سرداروں کی طرف سے اپنی فیاضی اور سخاوت کے اظہار کے لیے کئی کئی اُونٹ ذبح کیے جاتے۔ اسلام کے ظہور کے بعد اس قبائلی مسابقت اور باہمی محاذ آرائی کی فضا کو ختم کر دیا گیا اور اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔ چنانچہ قرآنِ کریم نے ان لغویات کی بھی اصلاح کی اور ان کی جگہ اس سے زیادہ اہتمام اور اس سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ ذکر الٰہی میں مشغول رہنے کی ہدایت کی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''پس تم اللہ تعالیٰ کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم (زمانۂ جاہلیت میں) اپنے آباء و اجداد کو یاد کرتے ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ اللہ کو یاد کرو‘‘ (البقرہ: 200)۔ نبیﷺ نے فرمایا: ''تمہارا عہدِ جاہلیت کا تفاخر اور اپنے آباء و اجداد کی نسبت سے احساسِ برتری کو میں اپنے پائوں تلے روند رہا ہوں‘‘ (صحیح مسلم: 1218)۔
عرب جاہلیت کے دور میں حج کرنے والوں میں سے بیشتر افراد بیت اللہ کا طواف برہنہ حالت میں کرتے تھے، عورتیں ایک معمولی سی لنگوٹی باندھتی تھیں، جبکہ مرد بالکل برہنہ ہوتے تھے اور ان کی دلیل وہی ہوتی تھی جو آج کل مغرب زَدہ آوارہ مزاج پیش کرتے ہیں کہ ہم دنیا میں چونکہ برہنہ آئے ہیں، اس لیے ہماری نیچرل کیفیت وہی ہے اور ہم اسی کیفیت میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونا پسند کرتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: زمانہ جاہلیت میں عرب برہنہ ہو کر بیت اللہ کے طواف کو افضل سمجھتے تھے، وہ کہتے تھے کہ جن کپڑوں میں ہم گناہ کرتے ہیں اُن میں ہم بیت اللہ کا طواف نہیں کریں گے، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ''اے لوگو! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباس پہنا کرو‘‘ (الاعراف: 31)، لیکن نبی کریمﷺ نے اس پر پابندی لگا دی، چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: ''مجھے حضرت ابوبکرؓ نے حج کے موقع پر دس ذی الحجہ کے دن اعلان کرنے والوں کے ساتھ بھیجا، ہم منیٰ میں یہ اعلان کر رہے تھے کہ اِس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا اور کوئی شخص برہنہ حالت میں بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا، پھر رسول اللہﷺ نے حضرت علیؓ کو حضرت ابوبکرؓ کے پیچھے برأت کے اعلان کے ساتھ بھیجا، پس ہمارے ساتھ حضرت علیؓ نے اہلِ منیٰ میں یوم النحر کے دن اعلان کیا کہ اب اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کر سکے گا اور بیت اللہ کا برہنہ ہو کر کوئی طواف نہیں کرے گا‘‘ (صحیح بخاری: 369)، چنانچہ جہاں کافروں اور مشرکوں کو حج بیت اللہ کے لیے حرم کعبہ میں آنے سے روک دیا گیا، وہیں برہنہ حالت میں بیت اللہ شریف کے طواف پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔
حج کا ایک مقصد تمام انسانوں میں مساوات قائم کرنا تھا، اس لیے تمام عرب بلکہ تمام دنیا کو اس کی دعوتِ عام دی گئی اور سب کو وضع و لباس میں متحد کر دیا گیا، لیکن قریش کے غرور و فضیلت نے اپنے لیے بعض خاص امتیازات قائم کر لیے تھے جو اُصولِ مساوات کے بالکل منافی تھے، چنانچہ وہ اپنے آپ کو حُمس کہاکرتے تھے۔ اس کا لفظی ترجمہ اگرچہ بہادر ہے، لیکن اگر آج کے دور میں اس کا ترجمہ ''وی آئی پی یا اَشرافیہ‘‘ کر لیا جائے تو زیادہ بہتر طور پر اس کا مفہوم سمجھ میں آ سکتا ہے۔ اَحْمَسْ اُس شخص کو کہا جاتا ہے جو اپنے دین کے معاملے میں بہت متصلّب و متشدّد ہو اور کسی معاملے میں شدت اختیار کرنے کو ''حَمَاسَہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ قریش اور وہ قبائل جن میں قریش نے اپنی عورتوں کو بیاہا ہوا تھا اور جو اُن کے حلیف و مددگارتھے، مثلاً: بنی ثقیف، بنی لیث، بنی بکر، بنی کنانہ، بنی جدیلہ، بنی خزاعہ، بنی عامر وغیرہ، اِنہیں الْحُمْس کہاجاتاتھا۔ ان لوگوں کو الْحُمْس اس لیے کہا جاتا تھا کہ اُنہوں نے اپنے اوپر کچھ بے جا پابندیاں عائد کر رکھی تھیں اور اُنہیں دینی شعائر کادرجہ دے رکھا تھا؛ چنانچہ یہ لوگ احرام باندھنے کے بعد اپنے لیے گوشت،گھی اور پنیر کو حرام سمجھتے تھے،جب تک احرام میں ہوتے تو صرف چمڑے کے بنے خیمے میں داخل ہوتے تھے اور اُون سے بنے خیموں میں داخل ہونے کو حرام سمجھتے تھے اور احرام باندھنے کے بعد اپنے گھروں میں دروازوں سے داخل ہونے کے بجائے دیوار پھلانگ کر آتے تھے اور حرم کے باہر سے حج یا عمرہ کرنے والے اپنے ساتھ جو غلہ واناج لاتے اور جو کپڑے پہن کر آتے تو اُنہیں نہ تو اُس غلے اور اناج کو استعمال کرنے کی اجازت ہوتی تھی اور نہ اُن کپڑوں میں بیت اللہ شریف کے طواف کی اجازت ہوتی تھی۔ انہوں نے یہ پابندی عائد کر رکھی تھی کہ سب سے پہلا طواف حُمْس کے دیے ہوئے کپڑوں میں ہی کیا جائے گا اور اگر یہ کپڑے دینے سے انکار کر دیتے تو اُنہیں برہنہ طواف کرنا پڑتا تھا۔ اِسی طرح قریش کے لوگ حج کے دوران دیگر حجاج کی طرح عرفات میں وقوف کرنے کے بجائے مُزدَلِفہ میں وقوف کرتے تھے، کیونکہ عرفات حدودِ حرم سے باہر ہے جبکہ مزدلفہ حدودِ حرم میں ہے اور یہ لوگ اپنے آپ کو قَطِیْنُ اللّٰہ یعنی حرم خداوندی کے رہائشی اور مجاور کہتے تھے اور حدودِ حرم سے باہر نکلنے کو اپنے لیے ناجائز سمجھتے تھے۔ چنانچہ باقی تمام لوگ تو عرفات جاتے اور وہاں وقوف کرتے جبکہ یہ مزدلفہ سے ہی واپس آ جاتے تھے، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ''پھر تم وہیں (عرفات) سے واپس آئو جہاں سے تمام لوگ واپس آتے ہیں‘‘ (البقرۃ: 191)، یعنی تم کوئی انوکھے اور لاڈلے نہیں ہو کہ باقی تمام لوگ عرفات میں وقوف کریں اور تم مزدلفہ میں رہو، باقی لوگوں کی طرح تمہارا وقوف بھی عرفات میں ہونا چاہیے، پھر وقوفِ عرفہ کے بعد تم مُزدلفہ آئو۔