اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''بے شک لوگوں کے لیے اللہ کی عبادت کے واسطے جو پہلا گھر بنایا گیا، وہی ہے جو مکہ میں ہے، برکت والا اور تمام جہانوں کے لیے ذریعہ ہدایت ہے، اس میں واضح نشانیاں ہیں، مقامِ ابراہیم ہے اور جو شخص اس میں داخل ہوا، وہ بے خوف ہو گیا، بیت اللہ کا حج کرنا ان لوگوں پر اللہ کا حق ہے جو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں اور جس نے کفر کیا تو بے شک اللہ سارے جہانوں سے بے نیاز ہے‘‘ (آل عمران: 96 تا 97)۔ اس مرکزِ عبادت کو ''بیت اللہ‘‘ اور'' کعبۃ اللہ‘‘ کہتے ہیں۔ ''بیت اللہ‘‘ نہ مسجود ہے، نہ معبود، مسجود و معبود اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات ہے اور وہ زمان و مکان کی تحدیدات سے ماورا ہے، بیت اللہ کی عمارت پتھروں کی بنی ہوئی ہے، یہ ہمارے لیے جہتِ عبادت ہے تاکہ مسلمانوں کے درمیان ایک مرکزیت قائم ہو۔ حکم ہوا: ''بے شک ہم آپ کے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم آپ کو ضرور اس قبلے کی جانب پھیر دیں گے جو آپ کو پسند ہے، پس آپ اپنا چہرہ مسجدِ حرام کی طرف پھیر لیں اور (مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو (نماز کے وقت) اپنا چہرہ اُسی کی طرف پھیر لیا کرو‘‘ (البقرہ: 144)۔ بیت کی اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت اُس کے مَجد و شرف کو ظاہر کرنے کے لیے ہے، جیسے معجزے کے طور پر حضرت صالح علیہ السلام کے لیے جو دس ماہ کی گابھن اونٹنی چٹان سے پیدا کی گئی تھی، اسے قرآن کریم نے ''نَاقَۃُ اللّٰہ‘‘ کہا ہے۔ اسی معنی میں حدیث پاک میں مساجد کو ''بیوت اللہ‘‘ کہا گیا ہے۔ ''نبی کریمﷺ نے فرمایا: جو قوم اللہ کے گھروں میں سے کسی ایک گھر میں جمع ہوتی ہے، پھر وہ دین سیکھتے اور سکھاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر طمانیت نازل فرماتا ہے، انہیں اپنی رحمت میں ڈھانپ لیتا ہے، ملائکہ انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کی مجلس میں ان کا ذکر فرماتا ہے‘‘ (ابودائود: 1455)۔ بیت اللہ کو ابتدا میں ملائکہ نے تعمیر کیا، پھر جب طویل مدت گزرنے کے بعد بیت اللہ کی عمارت منہدم ہوتی رہی تو اُسے ازسرِ نو تعمیر کیا جاتا رہا۔
علامہ احمد قسطلانی تعمیرِ بیت اللہ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''بیت اللہ کو پہلی بار فرشتوں نے بنایا، دوسری مرتبہ حضرت آدم علیہ السلام، تیسری بار حضرت شیث بن آدم، چوتھی بار حضرت ابراہیم علیہ السلام، پانچویں بار قوم عمالقہ، چھٹی بار بنی جُرہم، ساتویں بار رسول اللہﷺ کے جدِّ اعلیٰ حضرت قُصَیِّ بِن کِلَاب، آٹھویں بار قریش اور نویں بار حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کی منشا پوری کرنے کے لیے کعبۃ اللہ کو منہدم کر کے دوبارہ بِنائے ابراہیمی پر بنایا، اس میں دخول اور خروج کے لیے دو دروازے رکھے اور حطیم کو کعبہ میں داخل کیا، یہی بنائے ابراہیم تھی، کیونکہ قریش وسائل کی کمی کی وجہ سے اس کو بنائے ابراہیم پر نہیں بنا سکے تھے، جبکہ آپﷺ کی خواہش تھی کہ کعبۃ اللہ کو بنائے ابراہیم پر بنا دیا جائے، لیکن فتنے کے اندیشے کے سبب آپﷺ نے ایسا نہیں کیا، پھر دسویں بار عبدالملک بن مروان کے حکم سے حجاج بن یوسف نے اس کو پھر منہدم کر کے بنائے قریش کے مطابق بنا دیا‘‘ (اِرْشَادُ السَّارِیْ، ج: 3، ص: 143 تا 144)، اس سے معلوم ہوا کہ مختلف ادوار میں حادثاتِ زمانہ کے نتیجے میں بیت اللہ کی عمارت منہدم ہوتی رہی یا اُسے نقصان پہنچتا رہا ہے، اسی سبب اُسے بار بار تعمیر کیا جاتا رہا۔
اعلانِ نبوت سے پہلے قریش نے سیلاب کے سبب کعبۃ اللہ کے منہدم ہونے کے بعد از سرِ نو اس کی تعمیر کی، رسول اللہﷺ کی عمرِ مبارک اُس وقت پینتیس برس تھی، آپﷺ نے بھی تعمیرِ کعبہ میں حصہ لیا، پھر جب حجرِ اسود کو اپنے مقام پر نصب کرنے کا وقت آیا تو قریش کے سرداروں میں جھگڑا ہونے لگا، وہ کسی ایک کو یہ اعزاز دینے پر آمادہ نہ ہوئے، چنانچہ آپﷺکو حَکَم بنایا گیا، آپﷺ نے ایک چادر بچھائی، اُس پر حجرِ اسود کو رکھا اور قریش کے تمام قبیلوں کے سرداروں سے فرمایا: اس کا ایک ایک کونا پکڑ کر اسے اٹھائیں اور جب وہ اپنے مقام تک بلند ہو گیا تو آپﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے اُسے اٹھا کر اس کے مقام پر نصب فرما دیا اور اس طرح آپﷺ کی قائدانہ بصیرت سے یہ مسئلہ حل ہوا۔ قریش نے یہ طے کیا تھا کہ بیت اللہ کی تعمیر پر صرف حلال مال لگایا جائے اور حلال مال اس قدر جمع نہ ہو سکا تھا کہ اصل بنائے ابراہیمی پر اس کی تعمیر مکمل کی جاتی، تو انہوں نے شمال کی جانب کم و بیش تین میٹر کا حصہ موجودہ عمارت سے باہر رکھا، اسی کو ''حطیمِ کعبہ‘‘ کہا جاتا ہے، اس میں نماز پڑھنا ایسا ہی ہے جیسے بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنا۔ رسول اللہﷺ کی خواہش تھی کہ کعبۃ اللہ کی دوبارہ تعمیر بنائے ابراہیمی پر ہو، لیکن آپﷺ نے حکمتِ دین کے تحت وسائل ہونے کے باوجود اپنی خواہش پر عمل نہیں فرمایا۔ حدیث پاک میں ہے: ''رسول اللہﷺنے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا: عائشہ! اگر تمہاری قوم کا زمانۂ شرک تازہ تازہ نہ ہوتا تو میں کعبۃ اللہ کو منہدم کرکے زمین سے ملا دیتا اور پھر (تعمیرِ نو کے بعد) اس کے دو دروازے بناتا: ایک شرقی جانب اور ایک غربی جانب اور اس میں حِجر (حطیم) کی جانب تقریباً تین گز کا اضافہ کرتا، کیونکہ قریش نے جب کعبہ بنایا تو عمارت کے احاطے میں کچھ کمی کر دی تھی‘‘ (مسلم: 401)۔
الغرض رسول اللہﷺ کی خواہش تھی اور اُس وقت آپﷺ کو وسائل بھی میسر تھے، لیکن آپﷺ نے دینی حکمت کے تحت اپنی خواہش پر عمل نہ کیا کہ کہیں بیت اللہ کی عمارت پر کدال اور ہتھوڑے چلاتے ہوئے لوگوں کی عقیدت کو ٹھیس نہ پہنچے، کیونکہ وہ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے اور ان کے ذہنوں میں بیت اللہ کی تقدیس کا ایک تصور تھا۔ پھر جب حجاز میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی خلافت قائم ہوئی تو انہوں نے رسول اللہﷺ کی خواہش کی تکمیل کی خاطر بیت اللہ کو منہدم کرکے از سرِ نو بنائے ابراہیمی پر تعمیر کیا۔ پھر اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے زمانے میں حجاج بن یوسف کے ذریعے کعبۃ اللہ کی عمارت کو شہید کر کے دوبارہ بنائے قریش پر تعمیر کیا گیا۔ پھر عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالکؒ سے رائے لی: کیا میں بیت اللہ کو ایک بار پھر منہدم کر کے بنائے ابراہیمی پر تعمیر کرا دوں تو امام مالکؒ نے فرمایا: ''میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ کعبۃ اللہ کو اسی طرح رہنے دیں، بار بار منہدم کرنے سے اس کی ہیبت اور جلال میں کمی آئے گی‘‘ (تفسیر قرطبی، ج: 2، ص: 124)۔ امام مالکؒ کی رائے بصیرت اور دور اندیشی پر مبنی تھی، کیونکہ اگر ایک بار اس کا دروازہ کھول دیا جاتا تو پھر ہر آنے والا حکمران یہ چاہتا کہ وہ اپنے دور میں نئی شان کے ساتھ بیت اللہ کی تعمیر کرے تاکہ یہ عمارت اس کی طرف منسوب ہو، اس طرح ممکن ہے کہ بیت اللہ کی عمارت سونے اور چاندی کی اینٹوں کی بن جاتی، لیکن یہ بازیچہ اطفال بن کر رہ جاتا اور اس کی جلالت و حرمت میں کمی آتی۔ پس امام مالکؒ کا امت پر احسان ہے کہ انہوں نے اپنی دینی بصیرت سے آنے والے زمانوں میں ممکنہ طور پر رونما ہونے والے فتنوں کو روک دیا، اللہ تعالیٰ اُن کی تربت پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔
سورہ دخان کی آیت 37 میں ''قومِ تُبَّع‘‘ کا ذکر ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ''تُبَّع‘‘ یمن کے بادشاہوں کا لقب تھا، اسی لیے تُبَّع حِمیَری کہا جاتا ہے، جیسا کہ روم کے بادشاہوں کا لقب قیصر، فارس کے بادشاہوں کا کِسریٰ، حبشہ کے بادشاہوں کا نجاشی، قبطیوں کے بادشاہوں کا فرعون، ترکوں کے بادشاہوں کا خاقان، مصر کے بادشاہوں کا عزیز تھا اور مسلمان حکمرانوں کا لقب امیر المومنین یا خلیفہ تھا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ایک معیّن شخص کا نام ہے اور یہی قول زیادہ درست ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: تُبَّع کو برا نہ کہو، کیونکہ وہ اسلام قبول کر چکا تھا‘‘ (مسند احمد: 22880)۔ بعض روایات میں ہے: ''تُبَّع‘‘ کعبۃ اللہ کو ڈھانے کے ارادے سے آیا تھا، اُسے ایک لاعلاج بیماری لاحق ہو گئی، اُسے ایک دانا شخص نے بتایا کہ برے ارادے کو دل سے نکال دو، تمہیں شفا مل جائے گی اور ایسا ہی ہوا، پھر اُسے نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بابت معلوم ہوا تو وہ اسلام لے آیا، اس نے آپﷺکے لیے مدینہ طیبہ میں ایک دو منزلہ گھر بنایا اور آپﷺکے نام حسبِ ذیل مکتوب لکھا: ''حمد و صلوٰۃ کے بعد! میں آپ اور آپ پر اتاری گئی کتاب پر ایمان لایا، میں آپ کے دین اور سنّت پر ہوں، میں آپ کے ربّ اور ہر چیز کے ربّ پر ایمان لایا، آپ اپنے ربّ کی طرف سے جو احکام لے کر آئے، میں اُن سب پر ایمان لایا، اگر میں نے آپ کا زمانہ پایا تو بہت اچھا ہو گا اور اگر میں نے آپ کا زمانہ نہ پایا تو آپ میری شفاعت فرمانا اور قیامت کے دن مجھے بھول نہ جانا، کیونکہ میں آپ کی امت کے اوّلین میں سے ہوں۔ آپ کی آمد سے پہلے میں نے آپ کی بیعت کی، میں آپ اور آپ کے والد ابراہیم علیہ السلام کی ملّت پر ہوں‘‘ اور پھر اس نے خط کے آخر میں مہر لگائی، اس مہر پر یہ نقش تھا: ''اول و آخر حکم اللہ کے لیے ہے‘‘ اور خط کا عنوان یہ لکھا: ''اللہ کے نبی، اس کے رسول، خاتم النبیین رسولِ ربّ العالمین محمد بن عبداللہ کے نام تُبَّعِ اول کی جانب سے‘‘ (تفسیر قرطبی، جز: 16، ص: 146)۔
امام ابن عساکر لکھتے ہیں: ''پھر تُبَّع مدینہ منورہ گیا اور وہاں سے ہندوستان کے کسی شہر میں چلا گیا اور وہیں فوت ہو گیا۔ تُبَّع کی وفات کے ٹھیک ایک ہزار سال بعد ہمارے نبی سیدنا محمدﷺ کی ولادت ہوئی، جن اہل مدینہ نے ہجرت کے وقت نبیﷺ کی نصرت کی تھی، وہ سب ان علماء کی اولاد میں سے تھے جو مدینہ منورہ میں تُبَّع کے بنائے ہوئے گھروں میں رہتے تھے، جب رسول اللہﷺ مدینہ پہنچے تو وہ لوگ آپ کی اونٹنی کے گرد آکر اکٹھے ہو گئے اور ہر ایک آپﷺ کو اپنے گھر لے جانے پر اصرار کرنے لگا۔ آپﷺنے فرمایا: ''اس اونٹنی کو چھوڑ دو، یہ اللہ سبحانہٗ کے حکم کی پابند ہے‘‘ حتیٰ کہ وہ اونٹنی حضرت ابوایوب انصاریؓ (ان کا نام خالد بن زید تھا) کے گھر کے سامنے آ کر بیٹھ گئی اور نبیﷺ نے ان کے گھر پر قیام فرمایا۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ اُس عالِم کی اولاد سے تھے جس نے خیر خواہی کے جذبہ سے تُبَّع کو نصیحت کی تھی اور اس کو کعبہ منہدم کرنے کے ارادہ سے باز رکھا تھا۔ رسول اللہﷺ حضرت ایوبؓ کے جس گھر میں ٹھہرے تھے، یہ تُبَّع ہی کا بنایا ہوا تھا‘‘ (تاریخ دمشق الکبیر، ج: 11، ص: 67 تا 77، خلاصہ)۔
یہ وہی تُبَّع ہے جس نے سب سے پہلے بیت اللہ کو غلاف چڑھایا اور اہل مکہ کو کعبہ کی حفاظت کرنے کا حکم دیا۔ ایک روایت میں ہے: ''حضرت اسماعیل علیہ السلام نے سب سے پہلے کعبہ کو غلاف چڑھایا۔ ایک روایت کی رُو سے سب سے پہلے آپﷺ کے جدِّ اعلیٰ عدنان بن اُد نے چڑھایا، وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب۔