جون کے آخری ہفتے میں لاکھوں کی تعداد میں خوش قسمت اہلِ ایمان حج کا رُکنِ اعظم ''وقوفِ عرفہ‘‘ ادا کرنے کے لیے میدانِ عرفات میں جمع ہوں گے، سب کے سب اپنا قومی لباس اتار کر سنتِ ابراہیم و اسماعیل اور سید المرسلین سیدنا محمد رسول اللہ علیہم الصلوٰۃ ولسلام ادا کرتے ہوئے دو اَن سِلی چادروں پر مشتمل ایک ہی لباس میں ملبوس ہوں گے، سب اپنے قومی اور علاقائی امتیازات، وَضع قطع اور لباس کو ترک کرکے ایک ہی رنگ میں رنگے ہوں گے۔ سب کی زبان پر تلبِیہ کے یہ کلمات جاری ہوں گے: ترجمہ: ''میں حاضر ہوں، اے اللہ! میں تیرے حضور حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بے شک سب تعریفیں تجھی کو سزاوار ہیں اور ہر نعمت کا منبع تیری ہی ذاتِ عالی صفات ہے اور ملک و اقتدار کا مالکِ حقیقی تو ہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں‘‘۔
اگر واقعی حضوریِ بارگاہِ ربُّ العالمین کا تصور مومن کے دل و دماغ میں رَچ بس جائے تو اُس پر قیامت کے دن جیسا لرزہ طاری ہو جائے، ہیبت و جلالِ الٰہی سے اس کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات کا کامل مظہر بن جائے: (1) ''درحقیقت کامل مومن وہی لوگ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جاتے ہیں اور جب ان پر اُس کی آیات تلاوت کی جائیں، تو وہ ان کے ایمان کو تقویت عطا کرتی ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں‘‘ (انفال: 2)۔ (2) ''اللہ نے بہترین کلام کو نازل کیا، جس کے مضامین ایک جیسے ہیں، بار بار دہرائے جاتے ہیں، جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں (اسے سن کر) ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، پھر ان کے دل اور ان کے جسم اللہ کے ذکر کے لیے نرم ہو جاتے ہیں‘‘ (الزمر: 23)۔
پس ہر حاجی اپنے اندر جھانک کر اپنا جائزہ لے سکتا ہے کہ کیا یہ کیفیت اس پر طاری ہے اور وہ اس روحانی تجربے سے گزر رہا ہے۔ اگر وہ اس کیفیت میں سرشار نہیں ہے، تو اس کا حج حقیقت اور روحِ عبادت سے کوسوں دور ہے، اس نے صرف عبادت کی ظاہری صورت کو اپنایا ہے، اُس کا اندر اس کے نور سے خالی ہے۔ ایک عارف باللہ ولی اللہ تعالیٰ کی حضوری میں ڈوبے ہوئے ''لبّیک اللّٰھم لبّیک‘‘ کی صدائیں بلند کر رہے تھے کہ غیب سے ندا آئی: ''لَا لبّیک‘‘ (یعنی تیری حاضری قبول نہیں)، ایک نوجوان نے اس ندائے غیبی کو سنا تو کہا: ''بابا! جب آپ کی حاضری قبول ہی نہیں، تو میدانِ عرفات میں آپ کی آمد کا کیا فائدہ؟‘‘، بزرگ نے جواب دیا: ''یہ جواب تو میں چالیس سال سے سن رہا ہوں، لیکن کیا اللہ کی بارگاہ کے سوا کوئی اور بارگاہ ہے، جہاں میں رجوع کروں، ظاہر ہے کہ نہیں ہے، تو تا حیات مجھے تو یہیں حاضری دینی ہے‘‘، اس پر غیب سے نداآئی: ''اے میرے بندے! میں نے تیری آج کی اور گزشتہ تمام برسوں کی حاضریاں قبول کیں‘‘۔ یعنی جب یہ حقیقت بندے کے قلب و روح میں جذب ہو جائے کہ حقیقی مالک و مختار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، ساری نعمتوں اور تمام فیوض و برکات کا منبع اسی کی ذات ہے اس کے مقابل کسی کے لیے کوئی جائے امان نہیں ہے اور جب بندہ ہر حال میں اسی کی طرف رجوع کرے اور زندگی کے آخری سانس تک اسی کا ہوکر رہے، تو پھر وہ حج کی سعادات اور بندگی کی معراج کو پا لیتا ہے۔
ایسی کیفیت سے معمور حج کو ''حجِ مبرور‘‘ کہا جاتا ہے اور کامل اجر و ثواب کی ساری بشارتیں اسی کے لیے ہیں؛ چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (1) '' جس نے حج کیا، نہ کوئی بیہودہ بات کی اور نہ اللہ اور اس کے رسول کی حکم عدولی کی، تو وہ حج کے بعد گناہوں کی ہر میل سے پاک ہوکر اس حال میں لوٹے گا، جیسے اس دن پاک تھا، جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا‘‘ (صحیح بخاری: 1819)، (2) رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''یکے بعد دیگرے حج اور عمرہ ادا کیا کرو، کیونکہ یہ دونوں فَقر اورگناہوں کو اس طرح دور کر دیتے ہیں، جیسے بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کی میل کو دور کر دیتی ہے اور ''حجِ مقبول‘‘ کا ثواب جنت کے سوا کچھ نہیں‘‘ (سنن ترمذی: 810)۔ موجودہ دور میں ہجوم کی کثرت شدید مشقت کا باعث ہے، اس لیے اگر لوگ نفلی حج کم کریں تو فرض حج کرنے والوں کے لیے قدرے آسانی ہو سکتی ہے۔
اسلام میں حج نو ہجری کو فرض ہوا، مگر رسول اللہﷺ اُس سال بذاتِ خود حج پر تشریف نہیں لے گئے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ''امیرالحج‘‘ مقرر فرمایا، بعد میں ضروری اعلانات کے لیے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا نمائندۂ خاص بنا کر بھیجا۔ ان اعلانات کا ذکر سورۂ توبہ کی ابتدائی آیات میں موجود ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
''یہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے (عہد شکنی کرنے والے) اُن مشرکوں سے قطعِ تعلقی کا اعلان ہے، جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا، پس (اے مشرکو!) تم زمین میں چار ماہ تک (آزادانہ )چلو پھرو اور خوب جان لو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور یہ کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے سب لوگوں کے لیے حج اکبر کے دن اعلان ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول مشرکوں سے بیزار ہیں، پس (اے مشرکو!) اگر تم توبہ کر لو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر تم (قبولِ حق سے) منہ موڑو گے، تو جان لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو، (اور اے رسول!) کافروں کو درد ناک عذاب کی وعید سنا دیجیے، ماسوا ان مشرکوں کے جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا، پھر انہوں نے اس معاہدہ کو پورا کرنے میں تمہارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ ہی تمہارے خلاف کسی کی مدد کی، پس تم مقررہ مدت تک اُن سے کیے گئے معاہدے کی پاس داری کرو، یقینا اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کو پسند فرماتاہے، پس جب حرمت والے (چار) مہینے گزر جائیں تو تم ان مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو، ان کو گرفتار کرو اور ان کا محاصرہ کرو اور ان کی تاک میں ہر جگہ گھات لگا کر بیٹھو‘‘ (توبہ: 1 تا 5)۔ مزید اعلان ہوا: ''اے مومنو! تمام مشرک محض نجس ہیں، سو وہ اس سال کے بعد مسجدِ حرام کے قریب نہ آئیں‘‘ (توبہ: 28)۔
پھر دس ہجری کو رسول اللہﷺ بذاتِ خود حج کے لیے تشریف لائے اور یہ آپ کی ظاہری حیاتِ مبارَکہ کا ''حَجَّۃُ الْاِسْلَام‘‘ تھا، اسی میں آپﷺ نے جبلِ رحمت پر اپنی ناقۂ مبارَکہ ''قَصوا‘‘ پر سوار ہوکر وہ عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا، جو تاریخِ انسانی میں حقوقِ انسانی کا پہلا منشور ہے، اسے ''خطبۂ حَجۃ الوَداع‘‘ کہا جاتا ہے، اس کے موضوعات پر الگ سے گفتگو کی جائے گی۔
سورۂ توبہ میں ''حج اکبر‘‘ کا ذکر ہے۔ علامہ علی القاری حنفی لکھتے ہیں: ''حج اکبر کے بارے میں چار اقوال ہیں: ایک یہ کہ اس سے مراد ''یومِ عرفہ‘‘ ہے، دوسرا یہ کہ اس سے مراد ''یومِ نحر‘‘ ہے، تیسرا یہ کہ اس سے مراد ''طوافِ زیارت‘‘ کا دن ہے، چوتھا یہ کہ حج کے تمام ایام عظیم المرتبت ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ عمرے کے مقابلے میں ہر حج ''حجِ اکبر‘‘ ہے اور ایک قول یہ ہے: اگر حج جمعہ کے دن واقع ہو جائے، تو اسے ''حج اکبر‘‘ کہتے ہیں اور رسول اللہﷺ نے جب حج فرمایا تھا تو وہ جمعۃ المبارک کا دن تھا‘‘ (اَلْحَظُّ الْاَوْفَرُ فِی الْحَجِ الْاَکْبَر، ص: 481)۔
اگر حج جمعہ کے دن واقع ہوجائے تو اس پر ''حجِ اکبر‘‘ کا اطلاق کرنا متفق علیہ مسئلہ نہیں ہے، کیوں کہ اس کے بارے میں رسول اللہﷺ سے کوئی صریح حدیث ثابت نہیں ہے؛ تاہم اس کے بارے میں ایسے قرائن موجود ہیں کہ اس کی افضلیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ علامہ علی قاری نے اپنی کتاب ''اَلْحَظُّ الْاَوْفَرُ فِی الْحَجِ الْاَکْبَر‘‘ میں ''حجِ اکبر‘‘ کے بارے میں لکھا ہے: ''جب یومِ عرفہ جمعہ کے دن واقع ہو تو اس پر حجِ اکبر کا اطلاق زبان زدِ خلائق ہے اور خلقِ خدا کی زبانیں حق کا قلم ہوتی ہیں، پھر وہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث بیان کرتے ہیں: ''جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں، وہ اللہ کے نزدیک بھی حسَن ہے اور جس چیز کو مسلمان برا سمجھیں، وہ اللہ کے نزدیک بھی بُری ہے‘‘ (مسند احمد: 3600)۔ وہ مزید لکھتے ہیں: ''امام رَزین بن معاویہ نے ''تَجْرِیْدُ الصِّحَاح‘‘ میں حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ سے روایت کیا ہے: نبیﷺ نے فرمایا: ''افضل الایام یومِ عرفہ ہے اور جب یہ جمعہ کے دن واقع ہو تو دیگر ایام کے ستر حج کے برابر ہے‘‘۔ یہ اعتقادی مسئلہ نہیں ہے، اس کا تعلق فضائلِ اعمال سے ہے اور فضائلِ اعمال میں ضعیف حدیث بھی معتبر ہوتی ہے۔ جمعہ کے دن یومِ عرفہ واقع ہونے کی صورت میں بلاشبہ جمعہ کی برکات بھی قدرِ زائد کے طور پر شامل ہو جاتی ہیں، کیونکہ جمعۃ المبارک کے فضائل احادیثِ مبارَکہ میں بکثرت مذکور ہیں: رسول اللہﷺ نے اسے ''سید الایام، (مصنف ابن ابی شیبہ:5507)، ''اَفْضَلُ الْاَیَّام‘‘، (سنن ابودائود: 1047) اور''عِیْدُ الْمُؤمِنِیْن‘‘ (سنن ابن ماجہ: 1098) قرار دیا ہے۔
ہم دعویٰ تو کرتے ہیں کہ عبادتِ حج ''اسلامی مساوات‘‘ کا سب سے بڑا مظہر ہے، امیر و غریب، سفید فام و سیاہ فام، شرقی اور غربی سب برابر ہو جاتے ہیں، لیکن اب عملاً ایسا نہیں ہے۔ حج میں بھی طبقاتی تفاوت کے مظاہر موجود ہیں۔ حرمین طیبین کے اردگرد فائیو سٹار و سیون سٹار ہوٹلز ہیں، جن میں صرف اعلیٰ طبقات کے لوگ ہی قیام کر سکتے ہیں، متوسّط اور زیریں طبقات کے لیے حرمین طیبین سے دور رہائش گاہیں تعمیر کی گئی ہیں، اسی طرح منیٰ کے خیموں میں بھی سہولتوں اور جمرات کی قُرب کے اعتبار سے تفاوت موجود ہے، کیونکہ اب سعودی عرب میں حج کا وزارتِ مذہبی امور کے ساتھ ساتھ محکمۂ سیاحت سے بھی گہرا تعلق ہے۔ عہدِ رسالت کی بات اور ہے: ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! مناسب ہے کہ آپ کے لیے منیٰ میں ایک گھریا مُسَقَّف (Covered) جگہ بنا لی جائے تاکہ آپ پر سورج کی دھوپ نہ پڑے، آپﷺ نے فرمایا: نہیں! منیٰ اُس کی قیام گاہ ہے جو یہاں پہلے آئے‘‘ (سنن ابودائود:2019)، یعنی یہاں پیشگی الاٹمنٹ نہیں ہو گی، پہلے آئیے پہلے پائیے کا اصول لاگو ہو گا، مگر اب یہ خواب وخیال کی باتیں ہیں اورعملاً ایسا ممکن بھی نہیں ہے، کیونکہ کثیر المنزلہ عمارات کے بغیر تمام حجاج کے قیام کے انتظامات ہوہی نہیں سکتے،اس لیے حجاج کے قیام و طعام اور سفر کے لیے ضروری بندوبست کرنا وہاں کی حکومت کا دائرۂ اختیار ہے اور وہی اس کی مناسب منصوبہ بندی کر سکتی ہے۔ حجاجِ کرام کو چاہیے کہ نظم و ضبط اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کریں، غیر ضروری شکوہ و شکایات سے گریز کریں اور اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں بسر کریں۔