قانِط کے لیے ''ضالّ‘‘ کا لفظ آیا ہے‘ اس کے معنی ہیں: ''گمراہ، بھٹکا ہوا، بے راہ‘‘۔ یہ منطق کی اصطلاح میں ''کُلّی مُشکِّک‘‘ ہے ،یعنی مدح یا ذم کا ایسا وصف جو کسی میں کم ہے اور کسی میں زیادہ، عام مسلمان بھی راہِ راست سے بھٹک جائے تو اُسے ''ضالّ‘‘ کہتے ہیں اور ضلالت کا انتہائی درجہ کفر ہے لیکن '' یَائِس‘‘ کی بابت سورہ یوسف آیت 87 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''بے شک اللہ کی رحمت سے تو کافر ہی مایوس ہوتے ہیں‘‘، یعنی گمراہی کے انتہائی درجے (کفر) پر یاس کا اطلاق کیا گیا ہے۔
الغرض قرآنِ کریم میں جس ناامیدی کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے، اُس سے مراد بندۂ مومن کا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید ہو جانا، یہ حقیقتِ ایمان کی ضد ہے، اس لیے قرآنِ کریم نے اس سے منع فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں، بندۂ مومن کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ کبھی امتحان کے طور پر اور کبھی انعام کے طور پر آزمائشیں آتی رہتی ہیں۔ قرآنِ کریم میں ہے: ''پس جب انسان کو اُس کا رب آزمائے، پھر اُسے عزت و نعمت سے نوازے تو (وہ اِترا کر) کہتا ہے: میرے رب نے مجھے عزت بخشی، لیکن جب وہ اُسے (مصیبت میں مبتلا کر کے) آزمائے اور اُس پر روزی تنگ کر دے تو (مایوس ہو کر) کہتا ہے: میرے رب نے مجھے ذلیل کیا‘‘ (الفجر: 15 تا 16)۔ الغرض اللہ کی طرف سے نعمتیں ملنے پر اِترانا اور مصیبت آنے پر اُس سے شکوہ و شکایت کرنا مسلمان کا شیوہ نہیں ہے، مسلمان کو تو ہرحال میں تشکّر و امتنان کا پیکر ہونا چاہیے اور ''الحمد للہ علیٰ کلِّ حال‘‘ کا مظہر بننا چاہیے۔ البتہ ظاہری اسباب اور زمینی حالات کے پیشِ نظر وقتی طور پر مایوسی کا طاری ہو جانا انسانی فطرت کا تقاضا ہے، یہ ایمان کے منافی نہیں ہے، بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید قائم رہے۔ وہ آنِ واحد میں مافوقَ الاسباب حالات بدلنے پر قادر ہے، اُس کی نظرِ کرم متوجہ ہو جائے تو وہ عُسر کو یُسر، تنگی کو فراخی اور شکست کو فتح میں بدل دیتا ہے، ظاہری حالات سے تو بعض اوقات انبیائے کرام علیہم السلام مایوس ہوئے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''یہاں تک کہ جب رسول اپنی قوم کے ایمان لانے سے ناامید ہونے لگے اور لوگوں نے گمان کر لیا کہ انہیں عذاب کی جھوٹی وعید سنائی گئی تھی تو ان کے پاس ہماری مدد آ پہنچی، سو جسے ہم نے چاہا، وہ بچا لیا گیا اور مجرموں سے ہمارا عذاب ٹالا نہیں جاتا‘‘ (یوسف: 110)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انبیائے کرام نے کبھی نصرتِ الٰہی کی بشارت سنائی یا عذابِ الٰہی کی وعید سنائی اور اُس کی آمد میں اللہ کی حکمت سے تاخیر ہو گئی تو اُس عہد کے کفار نے انبیائے کرام پر طعن کیا اور اُس وعدۂ نصرت یا وعیدِ عذاب کو کِذب بیانی پر محمول کیا، لیکن پھر اللہ کی طرف سے جو ہونا تھا، وہ ہو کر رہا۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: دو چیزوں میں ہلاکت ہے: قنوط اور عُجب، یعنی قانِط انسان اعمال کے نفع سے مایوس ہو جاتا ہے اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ اعمالِ صالحہ کو ترک کر دیتا ہے اور عُجب میں مبتلا شخص یہ گمان کرتا ہے کہ وہ سعادت مند ہے، اپنے مقصد میں کامیاب ہے، لہٰذا اُسے عمل کی ضرورت نہیں ہے، اسی سبب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اپنی پاکیزگی نہ بیان کرو، اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون سب سے بڑا متقی ہے‘‘ (النجم: 32) (الزواجر عن اقتراف الکبائر، ج: 1، ص: 121 تا 122)۔ (2) ''حضرت ابن مسعودؓ نے کہا: کبیرہ گناہوں میں اللہ کے ساتھ اُس کے غیر کو شریک ٹھہرانا، اللہ کی رحمت سے ناامید ہونا اور اللہ کی گرفت سے بے خوف ہو جانا‘‘ (شرح اُصولِ اعتقادِ اھلِ السنۃ والجماعۃ، ص: 1922)۔
''حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں: نبیﷺ ایک قریب المرگ نوجوان کے پاس آئے، آپﷺ نے فرمایا: تم کیسا محسوس کرتے ہو، اُس نے عرض کیا: بخدا یا رسول اللہﷺ! میں اللہ کی رحمت پر یقین بھی رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں کا خوف بھی مجھے لاحق ہے، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس بندے کے دل میں یہ دونوں چیزیں جمع ہو جائیں، اللہ تعالیٰ اُسے وہ عطا فرماتا ہے جس کی اُسے امید ہے اور اُس چیز سے محفوظ فرماتا ہے جس کا اُسے خوف لاحق ہے‘‘ (ترمذی: 983)۔ کامل مومن وہ ہے جس کا اللہ کی رحمت پر یقین بھی اعلیٰ درجے پر ہو اور اُس کے حضور جوابدہی کا خوف بھی انتہائی درجے پر ہو؛ چنانچہ ایک موقع پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا: ''اگر آسمان سے ندا آئے: لوگو! ایک شخص کے سوا تم سب جنت میں داخل ہو گے، تو مجھے اندیشہ ہے: وہ ایک میں تو نہیں ہوں گا اور اگر یہ ندا آئے: لوگو! ایک شخص کے سوا تم سب جہنم میں داخل ہو گے تو مجھے یقین ہے کہ وہ ایک میں ہی ہوں گا‘‘ (حلیۃ الاولیاء، ج: 1، ص: 53)۔
''مستورِد القرشی نے حضرت عمرو بن عاصؓ کی موجودگی میں کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: قیامت سے پہلے رومیوں (مسیحیوں) کی کثرت ہو گی، اُن سے عمروؓ نے کہا: پتا ہے تم کیا کہہ رہے ہو؟ انہوں نے کہا: وہی کہہ رہا ہوں جو میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے۔ حضرت عمروؓ نے کہا: اگر تم ٹھیک کہتے ہو، تو اُن میں چار خصلتیں ہیں: وہ آزمائش کے وقت سب لوگوں سے زیادہ حلیم ہیں، مصیبت کے وقت بہت جلد اس کا تدارک کرتے ہیں، شکست کھانے کے بعد پلٹ کر دوبارہ حملہ کرتے ہیں، مسکینوں، یتیموں اور کمزوروں کے لیے بہتر ہیں۔ پھر آپ نے ان کی پانچویں خصلت یہ بیان فرمائی: بادشاہوں کے ظلم کے آگے سب سے زیادہ سدِّراہ بنتے ہیں‘‘ (مسلم: 2898)، چنانچہ حدیث پاک میں آیا: ''حکمت کی ہر بات مومن کی گم شدہ میراث ہے، سو وہ جہاں بھی اُسے پائے لے لے‘‘ (ترمذی: 2687)۔
اس سے معلوم ہوتا ہے: جس طرح اُخروی نجات کے لیے اللہ تعالیٰ کے نزدیک معیارات ہیں، ایمان و عمل کی کسوٹی ہے، اوامر و نواہی اور جزا و سزا کا نظام ہے، اسی طرح دنیا میں بھی عروج و زوال، ترقی و تنزّل اور فتح و شکست کے معیارات ہیں، ایسا نہیں ہے کہ کلمہ پڑھ لیا، اسلام میں داخل ہو گئے اور ایمان و عمل کی کسوٹی سے گزرے بغیر اللہ کے محبوب بن گئے۔ قانونِ الٰہی، مکافاتِ عمل اور عدل کے تقاضوں کو پسِ پشت ڈال کر یہ امید قائم کرنا کہ اللہ ہر صورت میں ہمیں غلبہ عطا فرمائے گا، درست نہیں ہے؛ چنانچہ غزوۂ احد میں مسلمانوں کو رسول اللہﷺ کی حربی حکمتِ عملی سے روگردانی کی وجہ سے بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور یہ بظاہر مایوسی کا سبب بن سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور نہ کمزوری دکھائو اور نہ غمگین ہو، اگر تم کامل مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے، اگر تمہیں (اُحد میں) تکلیف پہنچی ہے تو اُن لوگوں کو بھی (بدر میں) ایسی ہی تکلیف پہنچ چکی ہے اور ہم لوگوں کے درمیان ایام کو گردش دیتے رہتے ہیں تاکہ اللہ ایمان والوں کو ممتاز کر دے اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا مرتبہ دے اور اللہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا اور اس لیے بھی کہ اللہ مسلمانوں کو گناہوں سے پاک کر دے اور کافروں کو مٹا دے، کیا تم نے یہ گمان کر لیا ہے کہ تم یونہی جنت میں چلے جائو گے حالانکہ ابھی اللہ نے تم میں سے مجاہدوں اور صبر کرنے والوں کو (دوسروں سے) ممتاز نہیں کیا اور تم تو موت آنے سے پہلے موت کی تمنا کیا کرتے تھے، سو اب تم نے موت کو دیکھ لیا ہے اور وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے‘‘ (آل عمران: 139 تا 144)، نیز فرمایا: ''کیا لوگوں نے یہ گمان کر لیا ہے کہ ان کو محض یہ کہنے پر چھوڑ دیا جائے گا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کو آزمایا نہیں جائے گا، بے شک ہم نے ان سے پہلے لوگوں کو بھی آزمایا تھا، سو اللہ ان لوگوں کو ضرور ظاہر کرے گا جو سچے ہیں اور ان لوگوں کو (بھی) ضرور ظاہر کرے گا جو جھوٹے ہیں اورجو لوگ برے کام کرتے رہتے ہیں، کیا انہوں نے یہ گمان کر لیا ہے کہ وہ ہم سے بچ کر نکل جائیں گے، وہ کیسا برا فیصلہ کرتے ہیں‘‘ (العنکبوت: 2 تا 4)۔
قیصر کے دربار میں جب رسول اللہﷺ کا نمائندہ پہنچا، تو اُس نے رسول اللہﷺ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے قریش کے تجارتی قافلے کے سربراہ ابوسفیان کو دربار میں بلایا اور اس سے پوچھا: ''تمہاری کبھی اُن سے جنگ بھی ہوئی ہے، ابوسفیان نے کہا: ہاں !، اُس نے پوچھا: اس جنگ کا کیا نتیجہ نکلا، ابوسفیان نے کہا: جنگ میں کبھی ہمارا پلڑا بھاری ہو جاتا اور کبھی اُن کا‘‘ (بخاری: 7)، لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ نے اسلام کو مکمل غلبہ عطا فرمایا اور فتحِ مُبین عطا کی۔ الغرض جب قومیں جفاکش، اولوالعزم اور حوصلہ مند ہوتی ہیں، قوتِ ایمانی اور جذبۂ ایثار سے معمور ہوتی ہیں تو ایک وقت آتا ہے کہ پانسہ اُن کے حق میں پلٹ جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا ہے:
رہزنِ ہمّت ہُوا، ذوقِ تن آسانی ترا
بحر تھا صحرا میں تُو، گلشن میں مثلِ جُو ہوا
''یعنی تن آسانی نے مسلمانوں سے ہمت اور حوصلے کو چھین لیا، کبھی تو وہ صحرا میں بحرِ بے کراں کی مانند تھے اور اب حال یہ ہے کہ گلشن میں ایک سمٹی ہوئی ندی بن چکے ہیں‘‘۔ وہ کہتے ہیں:
آشنا اپنی حقیقت سے ہو، اے دہقاں ذرا
دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تُو
آہ، کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تُو، رہرو بھی تُو، رہبر بھی تُو، منزل بھی تُو
کانپتا ہے دل ترا، اندیشۂ طوفاں سے کیا
ناخدا تُو، بحر تُو، کشتی بھی تُو، ساحل بھی تُو
ان اشعار میں علامہ اقبال دہقاں کو ایک استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں: ''اگر مردِ مومن اپنی حقیقت سے آگاہ ہو جائے، تو پھر اُسے سمجھ میں آ جائے گا کہ اگر وہ ہمت کرے تو بہت کچھ کر سکتا ہے، اپنی کھوئی ہوئی متاعِ افتخار کو دوبارہ حاصل کر سکتا ہے، بشرطیکہ وہ اس حقیقت کو سمجھ لے:
نہ تُو زمیں کے لیے ہے، نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے، تُو نہیں جہاں کے لیے
سو اگر پوری قوم، سول اور ملٹری ایڈمنسٹریشن یکسو ہو جائیں، کمر کس لیں، ہمت سے کام لیں، اپنی کمزوریوں پر قابو پائیں، ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کریں تو ہم موجودہ پستی سے نکل سکتے ہیں۔ قوموں کی زندگی میں عروج و زوال کے ادوار آتے رہتے ہیں؛ البتہ تمام تر جُہود و مساعی کے بعد بھروسا صرف اللہ کی تائید و نصرت پر ہونا چاہیے، اِترانا نہیں چاہیے، ناکامیوں کو اپنی طرف اور کامیابیوں کو اللہ تعالیٰ کی نصرت پر محمول کرنا چاہیے۔ (جاری)