"MMC" (space) message & send to 7575

آئینی وقانونی تضادات و اِبہامات

دستور بنیادی قوانین کا ایسا مجموعہ ہے جو یہ طے کرتا ہے کہ کسی ملک کا نظامِ حکومت کیسے چلایا جائے گا، تقریباً تمام قوانین دفعہ وار مرتب ہوتے ہیں اور یہ قوانین ایک خاص دستاویز میں درج ہوتے ہیں، جسے دستور کہا جاتا ہے۔ دستور میں پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان اختیارات کی تقسیم ہوتی ہے، اُن کے فرائض اور دائرۂ اختیار کا تعیّن ہوتا ہے۔ دستور میں عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان تعلق کی نشاندہی ہوتی ہے، اس میں شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جاتی ہے اور ریاستی اداروں کی تشکیل کا طریقۂ کار وضع کیا جاتا ہے۔ قانون ساز ادارے کو Legislature اور قانون سازی کو Legislation کہا جاتا ہے، جبکہ دستور ساز ادارے کو Constituent Parliament کہاجاتا ہے۔ پاکستان میں قانون ساز ادارہ دو ایوانوں پر مشتمل ہے: قومی اسمبلی اور سینیٹ، ان دونوں کے مجموعے کو پارلیمنٹ کہا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ دستور میں حذف و اضافہ، ترمیم اور قانون سازی کا بھی اختیار رکھتی ہے۔ دستوری ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے، جبکہ قانون سازی کے لیے اسمبلی کے اجلاس میں موجود ارکان کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے، بشرطیکہ اجلاس کے لیے کورم مکمل ہو۔ Quorum سے مراد ارکانِ پارلیمنٹ کی وہ کم از کم تعداد ہے جو اجلاس کے انعقاد کے لیے درکار ہے۔ پاکستان میں پارلیمنٹ کا کورم کل تعداد کے پچیس فیصد پر مشتمل ہوتا ہے، اگر تعداد اس سے کم ہے اور نشاندہی پر پانچ منٹ تک گھنٹیاں بجانے کے باوجود تعداد پوری نہ ہو تو اجلاس ملتوی کر دیا جاتا ہے۔
دستور دراصل کسی ریاست، ملک اور قوم کا ایک اجماعی میثاق ہوتا ہے، جو سب کے اختیارات کا تعیّن کرتا ہے اور سب کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے، اگرچہ دستور بھی اپنی اصل ساخت میں ایک قانون ہی ہے، مگر دستور میں قانون سازی کا طریقۂ کار متعین ہوتا ہے اور تمام قوانینِ موضوعہ (Statutes) دستور کے تابع ہوتے ہیں۔ قانون ساز ادارے دستور کے تحت حاصل کردہ اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے قوانین بناتے ہیں، دستور کو فارسی میں ''آئین‘‘ کہتے ہیں۔
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 224 (1) میں ہے: ''قومی اسمبلی یا کسی صوبائی اسمبلی کی مدت کی تکمیل کے بعد ساٹھ دن کے اندر نئے انتخابات منعقد کرائے جائیں گے، ماسوا اس کے کہ کوئی اسمبلی اپنی مدت کی تکمیل سے پہلے تحلیل کر دی گئی ہو، نیز انتخاب کے انعقاد یعنی پولنگ والے دن کے بعد انتخابی نتائج کا اعلان چودہ دن کے اندر کر دیا جائے گا، (منتخب حکومت کے قیام تک) عبوری مدت کے لیے وفاق کی سطح پر صدر اور صوبوں کی سطح پر گورنر کی منظوری سے نگراں وزیر اعظم؍ وزیراعلیٰ اور کابینہ کا تقرر کیا جائے گا‘‘۔
دستور کے آرٹیکل 224 (2) میں ہے: ''جب قومی اسمبلی یا کسی صوبائی اسمبلی کواپنی مقررہ مدت کی تکمیل سے پہلے منتخب وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کی سفارش پر بالترتیب صدر یا گورنر تحلیل کر دیں تو اُس دن کے بعد نوّے دن کے اندر متعلقہ اسمبلی کے نئے انتخابات کرانے ہوں گے، انتخابی نتائج کا اعلان پولنگ کے دن کے بعد چودہ دن کے اندر کرنا ہوگا‘‘۔ پہلے انتخابات کی تاریخ کا اعلان صدر اور گورنر کو حاصل تھا، اب الیکشن قوانین میں ترمیم کے ذریعے یہ اختیار چیف الیکشن کمشنر کو تفویض کر دیا گیا ہے۔
مشترکہ مفادات کی کونسل نے 5 اگست 2023ء کو اپنے اجلاس میں اسی سال منعقدہ ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری دیدی تھی اور اُس کی تفصیلات شائع ہو چکی ہیں، اس کی رُو سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے: نئی مردم شماری کے مطابق صوبوں کے اندر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کی ازسرِ نو حد بندی کرے، نئی مردم شماری کے تحت صوبوں کے مابین آبادی کے تناسب میں کوئی معتَد بہ تبدیلی نہیں آئی، لہٰذا قومی اسمبلی میں صوبوں کی نشستیں حسبِ سابق رہیں گی، البتہ صوبوں کے اندر اضلاع میں تبدیلی آئی ہے، صوبوں کے اندر قومی اور صوبائی اسمبلی کی حد بندیاں از سرِ نو ہوں گی، اس کے لیے چار ماہ کا اضافی وقت درکار ہے۔ لہٰذا اس کی رُو سے قومی انتخابات کا انعقاد فروری کے وسط سے لے کر آخر تک کسی تاریخ کو ممکن ہے۔
اب یہ دو آئینی اور قانونی تقاضے آپس میں ٹکرا رہے ہیں، ایک نوّے دن کی مدت اور دوسرا تقریباً چھ ماہ کی مدت، اس وقت پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کا اصرار ہے کہ نوّے دن کے اندر انتخابات کرائے جائیں اور پی ڈی ایم کا اصرار ہے کہ اس کے لیے تقریباً چھ ماہ کی مدت درکار ہے۔ اب سوال یہ ہے: دستور کا آرٹیکل 51 (5) قرار دیتا ہے: ''جب آخری مردم شماری کے اعداد و شمار شائع ہو جائیں تو تمام صوبوں کے درمیان آبادی کی بنیاد پر قومی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم کی جائے گی اور اُسی کی بنیاد پر آئندہ انتخابات کا انعقاد ہوگا‘‘، الیکشن ایکٹ 2017کی دفعہ 17(2) میں قرار دیا گیا ہے: ''ہر نئی مردم شماری کے اعداد و شمار جب شائع ہو جائیں، تو الیکشن کمیشن حلقوں کی از سرِ نو حد بندی کرے گا‘‘۔
آیا آئین کا ایک آرٹیکل دوسرے آرٹیکل پر حاکم ہو سکتا ہے اور اس کے تقاضوں کو معطّل کر سکتا ہے، آئین میں ایسی کوئی رہنمائی موجود نہیں ہے، سو یہ ہمارے آئینی و قانونی نظام کے اِبہامات اور تضادات میں سے ایک ہے۔ صدر غلام اسحاق خان نے 1993ء میں جب نواز شریف کی حکومت کو معزول کیا تو مسلم لیگ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں چلی گئی، صدر صاحب پر طنز کیے گئے: انہیں Schizophrenia کی نفسیاتی بیماری ہے۔ ایک پٹیشنر دستور کے آرٹیکل نمبر 2 کا سہارا لے کر سپریم کورٹ میں گیا: قرآن وسنّت کی رُو سے غلام اسحاق خان صدارت کے اہل نہیں رہے، تو اُس وقت کے چیف جسٹس ڈاکٹرنسیم حسن شاہ نے ریمارکس دیے: آئین کی دفعات کو ایک دوسرے پرترجیح نہیں دی جا سکتی۔
ہماری نظر میں ایک فقہی مسئلے میں اس کی رہنمائی موجود ہے: کوئی عورت جب نکاح سے نکل جائے، تو اُس کی عدت کی چار صورتیں ہیں: (1) اگر اس کو حیض آتا ہے، تو عدتِ حیض کے تین دورانیے ہیں۔ (2) اگر اس کو حیض سرے سے نہیں آتا یا ضعیف العمر ہونے کی وجہ سے حیض کا سلسلہ بند ہو گیا ہے تو اُس کی عدت تین ماہ ہے۔ (3) اگر وہ حاملہ ہے تو اُس کی عدت وضعِ حمل ہے۔ (4) اگر اس کا شوہر وفات پا گیا ہے تو عدتِ وفات چار ماہ دس دن ہے۔ اب فرض کیجیے! ایک عورت حاملہ ہے اور اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے تو اُسے عدتِ وفات بھی گزارنی ہے، پس وضعِ حمل پر وہ عدت سے نکل آئے گی، وضعِ حمل عدتِ وفات سے پہلے بھی ممکن ہے اور عدتِ وفات کے بعد بھی ہو سکتا ہے، تو سوال یہ ہے: کس عدت پر عمل کیا جائے گا۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا قول ہے: ''اگر بالفرض شوہر کی وفات کے دس یا بیس دن یا ایک ماہ بعد بچہ پیدا ہو گیا، تو آیتِ قرآنی کی رُو سے وہ عورت عدت سے باہر آ جائے گی، اب اس پر عدتِ وفات مکمل کرنا ضروری نہیں ہے‘‘۔ اسی طرح اگر عدتِ وفات تک وضعِ حمل نہ ہو، بلکہ وفات کے پانچ چھ مہینے بعد وضعِ حمل ہو، تو عدتِ وفات کا اعتبار نہیں ہو گا، بلکہ وضعِ حمل کا اعتبار ہو گا۔ حضرت علیؓ کا قول ہے: وضعِ حمل اور وفات کی عدت میں سے جس کی مدت طویل ہو گی، اس پر عمل ہو گا۔ سو یہاں نئی حد بندیوں کی وجہ سے الیکشن کی مدت نوّے دن سے بڑھ رہی ہے، لہٰذا اُسی کے مطابق الیکشن کی تاریخ مقرر کی جائے گی، یعنی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کی حد بندی کے لیے چار ماہ درکار ہیں اور اس کے بعد قومی انتخابات کے لیے کم و بیش دو ماہ درکار ہیں اور یہ مدت فروری کے وسط یا اُس کے بعد پوری ہو گی۔
ایسا ہی اِبہام یا تضاد دستور میں قانون سازی کے حوالے سے ہے۔ دستور کا آرٹیکل (2A) قرار دیتا ہے: ''قراردادِ مقاصد دستور کا بنیادی اور مؤثر بہ عمل حصہ ہے‘ قراردادِ مقاصد میں کہا گیا ہے: کائنات کا اقتدارِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، وہی بلاشرکتِ غیرے حاکمِ مطلق ہے اور اس نے مقررہ حدود کے اندر یہ اختیار امانت کے طور پر اپنے بندوں کو تفویض کیا ہے‘‘، نیز کہا گیا ہے: ''دستور کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں‘‘۔ اگر پارلیمنٹ میں یہ بحث چل رہی ہو کہ کوئی قانون قرآن و سنّت کے مطابق ہے یا نہیں، تو قومی اسمبلی کے دس غیر مسلم ارکان کو مسلم ارکان کے برابر رائے دینے کا حق ہے، پس کسی وقت توازن اُن کے ہاتھ میں آ سکتا ہے، حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا: قانون کے قرآن و سنّت کے مطابق ہونے کے بارے میں ان کی رائے کا اعتبار نہ ہو، کیونکہ اُن کا قرآن و سنّت کی حقانیت پر ایمان ہی نہیں ہے، لیکن حقیقی صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔
اب سوال یہ ہے: جب پیپلز پارٹی نے مشترکہ مفادات کی کونسل میں 2023ء کی ڈیجیٹل مردم شماری کو تسلیم کر لیا ہے، تو اب اس کے تقاضوں پر عمل کرنے میں اُسے تردّد کیوں ہے؟ ایسا معلوم ہوتا ہے: مقتدر ہ کو آنے والے قومی انتخابات سے پہلے بعض معاملات کی تکمیل کے لیے وقت درکار تھا اور پیپلز پارٹی اُس سے انحراف نہیں کر سکتی تھی۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی گرفت صوبۂ سندھ پر مضبوط ہے، اکثریت حاصل کرنے میں صوبے کے اندر اُس کے لیے کوئی بڑا چیلنج نہیں ہے۔ لیکن شاید اُس کے ذہن میں کوئی ایسا اندیشہ موجود ہے کہ انتخابات کے انعقاد کی مدت بڑھ جانے کی صورت میں کہیں کوئی ایسی حکمتِ عملی ترتیب نہ دیدی جائے کہ صوبہ اس کی گرفت سے نکل جائے اور وہ اکثریت حاصل نہ کر پائے۔ پس ہماری دانست میں یہ اندیشہ ہائے دور دراز اس کے اضطراب کا اصل سبب ہیں، اگر اسے کہیں سے کوئی یقین دہانی مل جائے کہ صوبۂ سندھ پر اس کے اقتدارکا تسلسل رہے گا، تو شاید تین چار مہینے کا انتظار وہ بخوشی برداشت کر لے گی۔
دستوری اِبہامات میں سے ایک سپریم کورٹ کا تعبیر و تشریح کا اختیارہے۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 کے حوالے سے ایسا فیصلہ کیا جو دستور کو از سرِ نو لکھنے کے مترادف معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح پارلیمنٹ کے منظور کردہ ایکٹ کو کالعدم قرار دے کر یہ تاثر دیا ہے کہ اُس کی حیثیت پارلیمنٹ پر فائق ہے، حالانکہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ ہی کا تشکیل کردہ ایک ادارہ ہے، پارلیمنٹ نے ہی اُس کے اختیارات کا تعیّن کیا ہے، پس یہ بھی ایک تضاد ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں