برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو اور روئے زمین پر جہاں جہاں اس خطے کے لوگ گئے ہیں‘ گزشتہ ڈیڑھ سو سال میں مذہبی شعبے میں جن شخصیات نے سب سے زیادہ مسلمانوں کو متاثر کیا، اُن میں امام احمد رضا قادری محدث بریلی رحمہ اللہ تعالیٰ کا نام سب سے نمایاں ہے۔ آپ کی ولادت 10 شوال المکرم 1272 ہجری کو بریلی کے ایک ممتاز علمی خانوادے میں ہوئی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ ذہانت اور قوتِ حافظہ سے نوازا تھا۔ جن حضرات نے فتاویٰ رضویہ کا مطالعہ کیا ہے، وہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اُن کا راہوارِ قلم علم کے جس میدان میں بھی رواں ہوتا ہے، اس کی تمام جہات کا احاطہ کر لیتا ہے اور جس بحرِ علم میں غوّاصی کرتا ہے، اُس کی تہوں سے علمی جواہر پارے کشید کر کے لاتا ہے۔ جدید ترتیب و تبویب کے مطابق فتاویٰ رضویہ اشاریہ سمیت تینتیس ضخیم مجلّدات پر مشتمل ہے اور بلاخوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ اردو زبان میں کسی فقیہ اور عالم کا اتنا وقیع، مدلّل و مفصَّل فقہی وعلمی سرمایہ موجود نہیں ہے۔ فتاویٰ رضویہ کے اندر جہاں جہاں قرآنِ کریم سے استدلال کیا ہے، انہیں علامہ حافظ محمد عبدالستار سعیدی نے ''فوائد تفسیریہ و علومِ قرآنیہ‘‘ کے نام سے تین مجلّدات میں مرتّب کیا ہے، اسی طرح جن احادیث سے استدلال کیا ہے، انہیں مفتی محمد حنیف رضوی نے ''جامع الاحادیث‘‘ کے عنوان سے دس ضخیم مجلّدات میں فقہی ابواب کی ترتیب سے مرتّب کیا ہے۔
اصلاً فتاویٰ رضویہ جہازی سائز کی بارہ ضخیم مجلدات پر مشتمل تھا، اس میں قرآن کریم، احادیثِ نبویہ، فقہی حوالہ جات اور امامِ اہلسنت کی بعض اپنی عربی عبارات بھی تھیں۔ یہ کتاب پرانے طرز پر تھی، اس میں ابواب اور پیرا بندی کا اہتمام نہیں تھا، فقہائے قدیم اور اُن کی کتب کی عبارات تھیں، لیکن جدید دور کے تقاضوں کے مطابق باقاعدہ حوالہ جات نہیں تھے۔ علامہ مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی نے اس علمی کام کا بیڑا اٹھایا، براہِ راست اپنی نگرانی میں اپنے تربیت یافتہ مفتیانِ کرام کی ایک جماعت بنائی اور اس کتاب کو جدید انداز میں مرتّب کر کے عربی اور فارسی عبارات کا ترجمہ بھی کیا، پیرا بندی کی، ہر جلد میں جن رسائل کو شامل کیا گیا ہے، اُس کی فہرست بھی دی، اس مشن میں اُن کے خصوصی معاون شیخ الحدیث علامہ حافظ محمد عبدالستار سعیدی تھے۔ ایک ایک حوالہ تلاش کرنا جان جوکھوں کا کام تھا، بڑی ریاضت سے یہ علمی کام انجام دیا گیا اور اب جدید شکل میں یہ علمی اثاثہ استفادے کے لیے مفتیانِ عظام، علمائے کرام اور اہلِ علم کے لیے دستیاب ہے۔
آج کل علمی کتب کا بہت بڑا ذخیرہ نیٹ پر موجود ہے اور انٹرنیٹ کا استعمال جاننے والے اہلِ علم بآسانی کلک کر کے حوالہ نکال لاتے ہیں، اُس زمانے میں اتنی کتب بآسانی دستیاب تھیں اور نہ حوالے نکالنا آسان تھا، بلکہ یہ جان جوکھوں کا کام تھا، اس کے لیے پِتّہ مارنا پڑتا تھا۔ آج کل نیٹ سے استفادہ کرنے والے محققین کی علمی کاوشیں بھی مسلّم اور قابلِ قدر ہیں، لیکن یہ ہمارے اَسلاف کی کاوشوں اور ذہنی و فکری مَشقت کا عُشرِ عشیر بھی نہیں ہے۔ آج کل مختلف عنوانات سے احادیثِ مبارکہ کے مجموعے مُدَوَّن ہو رہے ہیں، یہ مساعی قابلِ قدر ہیں، لیکن یہ تمام کاوشیں مل کر بھی اُن محدّثین کی خدمات کے ہم پلہ نہیں ہو سکتیں، جنہوں نے ایک ایک حدیث جمع کرنے کے لیے قرونِ اولیٰ میں اونٹوں اور خچروں پر ریگستانوں اور بیابانوں سے گزرتے ہوئے سینکڑوں میل کا سفر کیا، اُن اسفار کی مشقت کا بھی آج کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ وہ عظیم ہستیاں پوری امت کی محسن ہیں اور ختم المرسلین سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی شانِ اعجاز کا مظہر ہیں، ورنہ سند اور متن کے ساتھ لفظ بہ لفظ سینکڑوں، ہزاروں احادیث کا یاد کرنا آج کے دور میں ناقابلِ تصور ہے۔ سنن ترمذی: 2682 میں درج حدیث کا ابتدائیہ پڑھ لیجیے، آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی۔
اصطلاحِ محدّثین میں ''حافظ الحدیث‘‘ اُسے کہا جاتا ہے، جسے ایک لاکھ احادیث مع سند و متن یاد ہوں۔ آج کل تو دس بیس تربیت یافتہ سکالرز کا ایک گروہ نیٹ پر بٹھا دیا جاتا ہے اور مجموعۂ احادیث مرتّب ہو جاتا ہے۔ یہ کاوشیں بھی قابلِ تحسین ہیں، لیکن:
چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک
کہ ادراک است،عَجز از درکِ ادراک
کس پانی سے وضو ہو سکتا ہے؟ امام اہلسنت نے اس پرکئی صفحات پر تفصیلی بحث کی ہے۔ سابق فقہائے کرام کے حوالے سے تین سو سات اقسام کے پانیوں کا ذکر کیا اور پھر اپنی تحقیق کے مطابق تینتالیس اقسام کے پانیوں کا اضافہ کیا۔ اس مقام پر لکھتے ہیں: ''یہ وہ خوبصورت تحقیق ہے جو صحاح کی تمام نصوص اور فقہی متون کی جملہ عبارات پر محیط ہے اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے تمام ممکنہ فروع کے صحیح حکم کے لیے کافی و شافی ہے، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج: 3، ص: 214، موضحاً)۔ اتنی تفصیل قدیم وجدید کتبِ فقہ و فتاویٰ میں کہیں بھی دستیاب نہیں ہے۔ پانی کی عدم دستیابی یا اُس کے حصول کی استطاعت نہ ہونے یا کسی ایسی بیماری کے سبب جس میں پانی کا استعمال بیماری میں اضافے یا ہلاکت کا باعث بن سکتا ہو، شریعت نے مٹی سے تیمم کی اجازت دی ہے۔ اس کے لیے قرآنِ کریم میں ''صَعِیدِ طَیّب‘‘ (پاک مٹی) کے کلمات آئے ہیں، یعنی جس چیز سے تیمم کیا جائے، وہ مٹی کی اصل یا اجزائے ارضی سے ہو اور پاک ہو، جنہیں ہم معدنیات بھی کہتے ہیں۔ اس کی بابت آپ نے ''المَطَرُ الصَّعِیْد عَلیٰ نَبْتِ جِنس الصَعِید‘‘ کے عنوان سے ایک رسالہ لکھا ہے اور تفصیلی بحث کے بعد لکھتے ہیں: ''یہ تین سو گیارہ چیزوں کا بیان ہے، ایک سو اکیاسی سے تیمم جائز، جن میں سے 74 منصوص (یعنی جو پہلے سے کتبِ فقہ میں درج ہیں) اور 107 زیاداتِ فقیر اور 130 سے ناجائز، جن میں 58 منصوص (یعنی جو پہلے سے کتبِ فقہ میں درج ہیں) اور 72 زیاداتِ فقیر۔ ایسا جامع بیان اس تحریر کے غیر میں نہ ملے گا، بلکہ زیادات در کنار، اتنے منصوصات کا استخراج بھی سہل نہ ہو سکے گا‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج: 3، ص: 658)۔ اجزائے ارضی و معدنیات کی بابت اتنی جامع تحقیق کسی بھی ماہرِ ارضیات (Geologist) کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ کاش! وہ اسے پڑھیں اور ہمارے دینی اکابر کی علمی عظمت کا اعتراف کریں۔
امامِ اہلسنت کا ایک عظیم کارنامہ ''کنز الایمان‘‘ کے عنوان سے ترجمۂ قرآن ہے۔ عربی میں ایک لفظ کئی معانی کے لیے آتا ہے اور ایک معنی کے لیے کئی الفاظ آتے ہیں۔ اس جامعیت میں دنیا کی کوئی زبان عربی کے مقابل نہیں ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ اور انبیائے کرام علیہم السلام کے حوالے سے آیاتِ بینات نازل ہوئی ہیں۔ امامِ اہلسنّت سے پہلے اردو زبان میں کافی تراجم موجود تھے، لیکن آپ کا ترجمۂ قرآن انفرادیت کا حامل ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس کے بعد دیگر مکاتبِ فکر کے علماء کے جو تراجم آئے ہیں، انہوں نے مخصوص مقامات کے حوالے سے اپنے اکابر کے تراجم سے انحراف کرتے ہوئے امامِ اہلسنت کے ترجمے یا اس کے قریب تر مفہوم پر مشتمل ترجمے کی طرف رجوع کیا۔ دراصل امامِ اہلسنت نے ترجمہ کرتے وقت ناموسِ باری تعالیٰ اور ناموسِ انبیائے کرام علیہم السلام کا پاس رکھا اور ترجمے میں ایسا اسلوب اختیار کیا کہ متنِ قرآن کے قریب رہتے ہوئے قرآن کی ترجمانی ہو جائے۔ اس کی ایک مثال درج ذیل ہے: (1) سورۂ یوسف: 110 کا مختلف مترجمین نے یہ ترجمہ کیا ہے: (الف): ''یہاں تک کہ جب ناامید ہونے لگے رسول اور خیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا، پہنچی ان کو ہماری مدد‘‘ (ب): ''یہاں تک کہ پیغمبر اس بات سے مایوس ہو گئے اور ان پیغمبروں کو گمانِ غالب ہو گیا کہ ہمارے فہم نے غلطی کی‘‘ (ج): ''یہاں تک کہ جب پیغمبر ناامید ہو گئے اور انہوں نے خیال کیا کہ (اپنی نصرت کے بارے میں) جو بات انہوں نے کہی تھی، (اس میں) وہ سچے نہ نکلے، تو ان کے پاس ہماری مدد آ پہنچی ‘‘ (د): ''(پہلے بھی مہلتیں دی جا چکی ہیں) یہاں تک کہ پیمبر مایوس ہی ہو گئے ہیں اور گمان کرنے لگے کہ ان سے غلطی ہوئی (کہ اتنے میں) انہیں ہماری مدد آ پہنچی‘‘۔
ان تراجم میں مندرجہ ذیل باتیں شانِ رسالت کے منافی ہیں: ''نبی کا مطلقاً ناامید ہونا، ان کا یہ خیال کرنا کہ العیاذ باللہ! ان سے جھوٹ کہا گیا تھا، نبی کا یہ گمان کرنا کہ ہمارے فہم نے غلطی کی اور اُن کا یہ گمان کرنا کہ وہ نصرتِ الٰہی کے نزول کے وعدہ کے بارے میں سچے نہیں تھے، نبی کا یہ گمان کرنا کہ اُن سے غلطی ہوئی ہے۔
نبی تو امت کو امید دلانے کے لیے تشریف لائے، وہ خود کیسے اللہ کی نصرت سے ناامید ہو سکتے ہیں، نصرت کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ نے کیا تھا، نبی کیسے یہ خیال کر سکتا ہے کہ اُن سے جھوٹ کہا گیا تھا۔ ابلاغِ دین میں نبی کا فہم، اُن کا نُطق اور اُن کا فعل معصوم ہوتا ہے، پس وہ کیسے گمان کر سکتے ہیں: ''ہمارے فہم نے غلطی کی یا اُن سے وعدۂ الٰہی کو سمجھنے میں غلطی ہوئی‘‘۔ اس نظریے کے تحت تو نبی کی عصمت اور وحی کی حقانیت مشتبہ قرار پائے گی، حاشا وکلّا! ایسا نہیں ہو سکتا؛ چنانچہ امامِ اہلسنت نے ترجمہ کیا: ''یہاں تک کہ جب رسولوں کو ظاہری اسباب کی امید نہ رہی اور لوگ سمجھے کہ رسولوں نے ان سے غلط کہا تھا، اس وقت ہماری مدد آئی تو جسے ہم نے چاہا بچا لیا گیا اور ہمارا عذاب مجرم لوگوں سے پھیرا نہیں جاتا‘‘۔ اس میں اللہ کی نصرت سے ناامیدی نہیں ہے بلکہ اسبابِ ظاہری کی بابت ناامیدی کا اظہار ہے اور اس میں کوئی شرعی خرابی لازم نہیں آتی۔ اسی طرح یہ گمان کرنا کہ اُن سے جھوٹ کہا گیا تھا، اس کی نسبت ان انبیائے کرام کی اُمّت یا مخاطَبین کی طرف ہے، نبی کی طرف نہیں ہے، وہ لوگ گمراہ تھے اوراپنے عقیدے میں ایسا ہی سمجھتے تھے۔ علامہ غلام رسول سعیدی نے یہ ترجمہ کیا ہے: ''یہاں تک کہ جب رسول لوگوں کے ایمان لانے سے مایوس ہو گئے اور لوگوں نے یہ گمان کر لیا کہ ان کو ایمان نہ لانے پر جھوٹی دھمکیاں دی گئی تھیں تو اُن رسولوں کے پاس ہماری مدد آ گئی اور جس کو ہم نے چاہا عذاب سے بچا لیا، کیونکہ ہمارا عذاب مجرموں سے لوٹایا نہیں جاتا‘‘۔ اس ترجمے میں بھی عیاں ہے: نبی اللہ کی نصرت سے مایوس نہیں ہوئے، بلکہ اپنے عہد کے لوگوں کے ایمان لانے سے مایوس ہوئے اور (نصرتِ الٰہی کی وعید کی بابت) یہ گمان کہ ایمان نہ لانے پر انہیں جھوٹی دھمکیاں دی گئی تھیں، اس قول کی نسبت نبی کی طرف نہیں ہے، بلکہ اُس عہد کے بدنصیب اور شقی القلب کفارکی طرف ہے۔ مثالیں تو بے شمار ہیں، آپ نمونے کے طور پر الانبیاء: 87 کے تراجم کا تقابل کریں تو آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی۔