اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''(اے رسولِ مکرّم!) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے فقط رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘ (الانبیاء: 107)۔ امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں: ''رحمت کے معنی ہیں: (کسی مصیبت زدہ کو تکلیف میں دیکھ کر) دل میں ایسی نرمی پیدا ہونا جو مصیبت زدہ پر احسان کا تقاضا کرے (اور وہ اس کی تکلیف کا ازالہ کرے)، جب اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے لفظِ رحمت استعمال ہو تو وہ دل کی نرمی کے تصور سے خالی ہوتی ہے، (کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کیفیات سے پاک ہے، پس اس سے دل کی نرمی پر مرتّب ہونے والا نتیجہ یعنی مصیبت زدہ پر فضل و احسان فرمانا اور اس کے دکھوں کا ازالہ کرنا مراد ہے) جیسے کہا جاتا ہے: ''اللہ فلاں پر رحم فرمائے، یعنی اس کی مصیبتوں اور پریشانیوں کو ختم فرمائے‘‘، حدیث مبارک میں ہے: ''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبیﷺ نے فرمایا: رَحِم، رحمن سے (ملی ہوئی) شاخ ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جو تجھ سے جڑا رہے گا، میں اُسے اپنی ذات سے وابستہ رکھوں گا اور جو تجھ سے قطعِ تعلق کریگا، میں بھی اُس سے قطعِ تعلق کروں گا‘‘ (بخاری: 5988)۔
امام ترمذی روایت کرتے ہیں: ''ابوسلمہ کہتے ہیں : ابوالرّداد بیمار ہو گئے، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ان کی عیادت کو گئے، ابوالرّدّاد نے کہا: میرے علم کے مطابق ابو محمد (عبدالرحمن بن عوفؓ) لوگوں میں سب سے اچھے اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔ عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: میں اللہ ہوں، میں رحمن ہوں، میں نے رحم (یعنی رشتے ناتے) کو پیدا کیا ہے اور اسکا نام اپنے نام سے مشتق کر کے رکھا ہے، اس لیے جو اسے جوڑے گا میں اسے (اپنی رحمت سے) جوڑے رکھوں گا اور جو اس سے قطع تعلق کریگا، میں بھی (اپنی رحمت سے) اس کا تعلق توڑ دوں گا‘‘ (ترمذی: 1907)۔
ماں کے بطن میں جس مقام پر ''جَنِین (ماں کے پیٹ میں بچہ)‘‘ قرار پاتا ہے، اُسے ''رَحِمْ‘‘ کہتے ہیں اور ظاہر ہے: استقرارِ حمل سے وضع حمل تک ماں کو جو تکلیف اٹھانا پڑتی ہے، اُس پر ابھارنے والا جذبۂ رحمت ہی ہے جو ماں کے دل میں بچے کے لیے ہوتا ہے اور پھر ماں کی نسبت سے جتنے رشتے بنتے ہیں، اُن سب کو ''ذَوِی الْاَرْحَام‘‘ کہتے ہیں۔ چنانچہ حدیث قدسی میں ہے: ''حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک اللہ نے جس دن رحمت کو پیدا کیا، اس کے سو حصے کیے، اُن میں سے ننانوے حصے اپنے پاس رکھے اور صرف ایک حصہ اپنی ساری مخلوق کے لیے بھیج دیا، اگر کافر کو رحمت کے بارے میں وہ سب تفصیل معلوم ہوتی جو اللہ کے نزدیک ہے تو وہ جنّت سے کبھی مایوس نہ ہوتا اور اگر مؤمن کو عذاب کی وہ سب حقیقتیں معلوم ہوتیں جو اللہ کے نزدیک ہیں تو وہ کبھی اپنے آپ کو جہنم سے محفوظ نہ سمجھتا‘‘ (بخاری: 6469)۔ اس حدیثِ پاک کا ظاہری مفہوم یہ ہے: اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کا ایک فیصد ساری مخلوق (انسانوں، جِنّات، حیوانات، وحوش و طیور، الغرض سب مائوں ) کے لیے رکھا اور بقیہ ننانوے فیصد اپنے پاس رکھا۔ اس سے کوئی یہ مفہوم نہ لے کہ اللہ تعالیٰ کی اپنے لیے مختص رحمت اور مخلوق میں تقسیم کی ہوئی رحمت میں ننانوے اور ایک کا تناسب ہے، یہ دراصل محض سمجھانے کے لیے ہے، ورنہ ساری مخلوق کو مل کر بھی اللہ تعالیٰ کے کسی وصف سے کوئی نسبت نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اوصافِ کریمہ لامتناہی ہیں، جبکہ مخلوق کے مجموعی اوصاف بھی متناہی اور محدود ہوتے ہیں اور لامحدود اور محدود میں کوئی نسبت نہیں ہوتی۔
صدر الافاضل علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ تعالیٰ ''حاشیۃ خزائن العرفان علی کنز الایمان‘‘ میں الانبیاء: 107 کے تحت لکھتے ہیں: ''حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا: حضورﷺ کا رحمت ہونا عام ہے، ایمان والے کے لیے بھی اور اس کے لیے بھی جو ایمان نہ لایا، مومن کے لیے تو آپ دنیا و آخرت دونوں میں رحمت ہیں اور جو ایمان نہ لایا، اس کے لیے آپ دنیا میں رحمت ہیں کہ آپ کی بدولت منکرین کو مہلت ملی اور عذاب میں تاخیر ہوئی، زمین میں دھنسائے جانے، صورتیں بگاڑے جانے اور جڑ سے اکھیڑ ڈالنے یعنی صفحۂ ہستی سے نام و نشان مٹائے جانے والے عذاب اٹھا دیے گئے، تفسیر روح البیان میں اس آیت کی تفسیر میں اکابر کا یہ قول نقل کیا ہے : آیت کے معنی یہ ہیں: ہم نے آپ کو صرف اور صرف رحمت مُطلَقہ، تامّہ، کاملہ، عامّہ، شاملہ، جامعہ، محیطہ بر جمیع مقیّدات، رحمتِ غیبیہ، شہادتِ علمیہ و عینیہ، وجودیہ و شہودیہ، سابقہ و لاحقہ وغیرہا، الغرض تمام جہانوں کے لیے عالم ارواح ہوں یا عالم اجسام، ذوی العقول ہوں یا غیر ذوی العقول، سب کے لیے رحمت بنا کر بھیجا اور جو تمام عالَمین کے لیے رحمت ہو، لازم ہے کہ وہ تمام جہان سے افضل ہو‘‘۔
علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ''ہمارے نزدیک اس آیتِ کریمہ کا مصداق رسول اللہﷺ ہی کی ذاتِ گرامی ہے، اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو سراپا اور مجسّم رحمت بنا کر بھیجا ہے اور یہ لکھنا صحیح نہیں ہے: ''اے محمد! ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ در اصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے‘‘، اس آیت کا یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے اور تواتر و اجماعِ امّت سے نبیﷺ کو جو رحمۃ للعالمین کا مصداق قرار دیا گیا ہے، اس کے خلاف ہے۔ اسی طرح مفسرین کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ سیدنا محمدﷺ ہر عالَم کے لیے رحمت ہیں، خواہ فرشتوں کا عالَم ہو، جِنّات کا عالَم ہو، انسانوں کا عالَم ہو اور خواہ انسانوں میں سے کافر ہوں یا مسلمان، اولیاء ہوں یا انبیاء علیہم السلام، آپﷺ سب کے لیے رحمت ہیں اور خواہ حیوانوں کا عالَم ہو یا نباتات و جمادات کا عالَم ہو، آپ ہر ہر عالَم کے لیے رحمت ہیں۔ اس لیے یہ لکھنا بھی صحیح نہیں ہے: ''آپ صرف لوگوں کے لیے رحمت ہیں‘‘ اور نہ یہ ترجمہ و تفسیر صحیح ہے: ''آپ صرف مکلَّفین کے لیے رحمت ہیں‘‘، مُکلَّف ہو یا غیر مُکَلَّف، انسان ہو، جنّ ہو یا فرشتہ ہو، حیوان ہو یا شجر وحجر ہو، آپﷺ سب کے لیے رحمت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو ''رَبُّ الْعَالَمِیْن‘‘ فرمایا اور اپنے حبیبِ مکرّمﷺ کو ''رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن‘‘ فرمایا۔ پس جس جس چیز کے لیے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ہے، اُس اُس چیز کے لیے آپﷺ رحمت ہیں، وجود عَینِ جود ہے اور ہر چیز کو وجود آپ کے واسطے سے ملا ہے اور آپ ہر چیز کو تقسیم کرنے والے ہیں۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم صرف اس لیے نہیں تھی کہ آپ کے فرزندِ ارجمند کا نام قاسم تھا، بلکہ اس لیے بھی کہ قاسم کا معنی ہے: سب سے زیادہ تقسیم کرنے والے اور ابتدائے آفرینشِ عالَم سے لے کر قیامت تک جس کو جو بھی نعمت ملتی ہے، وہ آپ کی تقسیم سے ملتی ہے، تمام دینی و دنیاوی امور میں آپ ابتدائے آفرینشِ عالَم سے تقسیم کرنے والے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا ہے:
ہو نہ یہ پھُول، تو بُلبل کا ترنُّم بھی نہ ہو
چمنِ دہر میں، کلیوں کا تبسّم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو، تو پھر مے بھی نہ ہو، خُم بھی نہ ہو
بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو
خیمہ اَفلاک کا، اِستادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپِش آمادہ، اسی نام سے ہے
(تبیان القرآن، ج: 7، ص: 685)
امام احمد رضا قادری رحمہ اللہ تعالیٰ نے رسالت مآبﷺ کے عشق و محبت میں ڈوب کر اپنی عقیدت کو ان اشعار میں منظوم کیا ہے (اشعار میں نہایت دقیق اصطلاحات و کلمات استعمال ہوئے ہیں، ہم نے اُن میں سے قدرے آسان اشعار کا انتخاب کیا ہے): ''زمین و زماں تمہارے لیے، مکین و مکاں تمہارے لیے ٭چُنین و چُناں تمہارے لیے، بنے دو جہاں، تمہارے لیے ٭دَہن میں زَباں تمہارے لیے، بدن میں ہے جاں تمہارے لیے ٭ہم آئے یہاں تمہارے لیے، اٹھیں بھی وہاں تمہارے لیے ٭اِصالتِ کُل، اِمامتِ کُل، سِیادتِ کُل، اِمارتِ کُل ٭حکومتِ کُل، ولایتِ کُل، خدا کے یہاں تمہارے لیے ٭تمہاری چمک، تمہاری دَمک، تمہاری جھلک، تمہاری مَہک ٭زمین و فلک، سِماک و سَمک، میں سکہ نشاں تمہارے لیے ٭وہ کنزِ نِہاں، یہ نورِ فِشاں، وہ کُن سے عَیاں، یہ بزمِ فَکاں ٭یہ ہر تن و جاں، یہ باغِ جِناں، یہ سارا سماں تمہارے لیے ٭یہ شمس و قمر، یہ شام و سَحر، یہ برگ و شجر، یہ باغ و ثمر ٭یہ تیغ و سِپر، یہ تاج و کمر، یہ حکمِ رواں تمہارے لیے ٭یہ فیض دیے، وہ جود کیے، کہ نام لیے، زمانہ جیے ٭جہاں نے لیے، تمہارے دیے، یہ اَکرَمیاں تمہارے لیے ٭سَحابِ کرم روانہ کیے، کہ آبِ نِعَم زمانہ پیے ٭جو رکھتے تھے ہم، وہ چاک سیے، یہ سترِ بَداں تمہارے لیے ٭خلیل و نَجی، مسیح و صَفی، سبھی سے کہی، کہیں بھی بنی؟ ٭یہ بے خبری، کہ خَلق پھری، کہاں سے کہاں تمہارے لیے ٭اشارے سے چاند چیر دیا، چھپے ہوئے خور کو پھیر دیا ٭گئے ہوئے دن کو عصر کیا، یہ تاب و تواں تمہارے لیے ٭صبا وہ چلے کہ باغ پھلے، وہ پھول کھلے کہ دن ہوں بھلے٭ لِوا کہ تلے، ثنا میں کھلے، رضا کی زباں تمہارے لیے‘‘۔
الفاظ کے معانی: چُنین و چُناں: ایسا ویسا یعنی ہر چیز ٭اِصالتِ کُل: سب کی اصل ٭سِماک: بلندی، چاند کی چودھویں منزل، سَمک: مچھلی، یعنی آسمان کی بلندیوں سے لے کر سمندر کی تہہ تک ٭ کُن فَکاں: یعنی جس چیز کی بابت امرِ الٰہی ہوا، وہ وجود میں آ گئی، اس سے مراد عالم اِمکان ہے ٭جِناں: جنت ٭ اَکرَمیاں: بہت زیادہ کرم فرمائیاں ٭سَحاب: بادل ٭نِعَم: نعمت کی جمع ٭سترِ بَداں: گناہگاروں کی پردہ پوشی ٭نجی: حضرت نوح علیہ السلام کا لقب ٭صفی: حضرت آدم علیہ السلام کا لقب ٭خور: سورج ٭لِوا: جھنڈا۔
''حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ سے عرض کیا گیا: یا رسول اللہﷺ! مشرکوں پر عذاب کی دعا کیجیے، آپﷺنے فرمایا: مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا، مجھے صرف رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘ (مسلم: 2599)۔
تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پا گئے
عقل، غیاب و جستجو، عشق، حضور و اضطراب
شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقرِ جنید و بایزید، تیرا جمالِ بے نقاب
وہ دانائے سبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا
نگاہِ عشق و مستی میں، وہی اول، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ
(جاری )