"MMC" (space) message & send to 7575

Technicalities

Technic کا اردو ترجمہ ''فن‘‘ اور Technicality کا ترجمہ عربی لغت میں ''فنّیہ‘‘ہے‘ یعنی کسی معاملے کی فنّی جہتوں کا سہارا لے کر ٹال مٹول اور تاخیری حربوں سے کام لینا۔ آج کل حالات کے جبر یا خان صاحب کی اپنی ترجیحات کی بنا پر پی ٹی آئی میں وکلا کا نفوذ زیادہ ہو گیا ہے اور عملاً زمامِ کار اُن کے ہاتھ آ گئی ہے۔ وکلا صاحبان خان صاحب کے مقدمات کو میرٹ پر لڑنے کے بجائے قدم قدم پر قانونی موشگافیوں‘ قانونی ضوابط کی پیچیدگیوں اور فنّی امور کا سہارا لے کر تاخیری حربے استعمال کرتے رہے۔ ماتحت عدالت کی کارروائی کو موقوف کرنے کے لیے ہائیکورٹ جاتے رہے۔ اگر ایک ہائیکورٹ میں کام بنتا نظر نہ آیا تو دوسری ہائیکورٹ کا رخ کر لیا‘ پھر سپریم کورٹ جا پہنچے۔ سابق کارروائی کالعدم قرار دے دی اور دوبارہ صفرسے کام شروع کرا دیا۔ یہ حربے ایک حد تک تو کام آتے ہیں لیکن فارسی میں کہتے ہیں ''تابہ کے‘‘ یعنی یہ حیلہ گری کب تک چلے گی۔ بلّے کے انتخابی نشان کے حوالے سے آخر معاملہ سپریم کورٹ تک جا پہنچا اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی لارجر بنچ نے خالص فنی بنیادوں پر کیس کا فیصلہ کیا۔ قانونی مہارت بھی کام نہ آئی اور انتخابی نشان بھی ہاتھ سے گیا۔
ہمارے ملک میں ٹرائل یعنی مقدمہ چلانے کا آخری فورم سیشن کورٹ ہے‘ مدّعی اور مدّعیٰ علیہ کے بیانات‘ شہادتیں‘ ثبوت وشواہد اور مقدمے کے تمام متعلقہ امور ٹرائل کورٹ ہی میں طے ہوتے ہیں‘ فردِ جرم بھی وہیں پر عائد کی جاتی ہے‘ برّیت یا سزا کا اعلان بھی وہیں ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ‘ اپیلٹ کورٹس ہیں‘ یعنی اگر ماتحت عدالتوں کے فیصلوں میں کوئی نقص ہے‘ جھول ہے‘ تسامح ہے‘ کسی فریق کی جانب جھکائو ہے یا کسی فریق کے ساتھ تنائو ہے‘ دعویٰ اور شہادتوں میں مطابقت نہیں وغیرہ‘ تو اپیلٹ کورٹ میں ان کی نشاندہی کی جاتی ہے‘ اگر عدالتِ عالیہ یا عدالتِ عظمیٰ مطمئن ہو جائیں تو ملزَم کو ریلیف مل جاتا ہے‘ سزا کالعدم ہو جاتی ہے یا اُس میں تخفیف کر دی جاتی ہے وغیرہ۔ لیکن فیصلوں میں یہ نقائص تب سامنے آتے ہیں جب مُدَّعی اور مدّعیٰ علیہ کے وکلا سنجیدگی سے مقدمہ لڑیں‘ شہادتوں کی چھان پھٹک کریں‘ جرح کے ذریعے اُن میں تضادات کی نشاندہی کریں‘ تو یہ محنت اگر ٹرائل کورٹ میں کام نہ آئے اور کسی کا گمان یہ ہو کہ ٹرائل کورٹ دبائو میں فیصلے کر رہی ہے تو اپیلٹ کورٹ میں جاکر ریلیف مل جاتا ہے۔ لیکن اگر وکلا نے سنجیدگی سے مقدمہ لڑا ہی نہ ہو‘ اپنی پیشہ ورانہ مہارت کو صرف تاخیری حربوں کیلئے استعمال کیا ہو‘ محض تاخیر کیلئے آئے دن وکلا تبدیل کیے جاتے ہوں‘ تو پھر وہی ہوتا ہے جس کا مشاہدہ ہم کر رہے ہیں۔ اگر وکلا ہائی پروفائل شخصیات کی وکالت کو اپنی تشہیر اور الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں جگہ پانے کیلئے استعمال کر رہے ہوں‘ تو یہ پیشہ ورانہ دیانت کے منافی ہے۔ خان صاحب کے مقدمات میں پراسیکیوشن کے وکلا نے دفاع کے وکلا کے مقابلے میں اپنا مقدمہ زیادہ دلجمعی اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ لڑا اور انہوں نے ان مقدمات کو اپنی تشہیر اور قبولِ عام ہونے کیلئے استعمال نہیں کیا۔ ماضی قریب میں خواجہ حارث احمد نے یکے بعد دیگرے نواز شریف اور خان صاحب کے مقدمات لڑے‘ لیکن وہ اپنی تمام پیشہ ورانہ مہارت کو عدالت کے سامنے اپنے مؤکِّل کا مقدمہ لڑنے کیلئے بروئے کار لاتے رہے‘ میڈیا کے سامنے کبھی نہیں آئے اور نہ ٹیلی ویژن چینلوں پر میڈیا ٹاک کا حصہ بنے۔
تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے! جج محمد بشیر نے جناب نواز شریف کو نیب کے کیس میں سزا سنائی‘ حالانکہ اُسے انہوں نے ہی 2015ء میں تین سال کی توسیع دی تھی‘اس کے بعد صدرِ مملکت ممنون حسین نے 2018ء میں تین سال کی توسیع دی‘ پھر خان صاحب نے اُسے 2021ء میں مزید تین سال کی توسیع دی جو مارچ 2024ء تک مؤثر ہے اور پھر اُنہوں نے ہی بانی چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کو نیب کے مقدمے میں چودہ‘ چودہ سال قید اور ایک ارب ستاون کروڑ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ احسان فراموش لوگوں کے بارے میں کسی دانا کا مشہور قول ہے: ''جس پر احسان کرو‘ اُس کے شر سے بچو‘‘۔ نواز شریف کو سزا کے اعلان کے بعد خان صاحب کے ایک غالی محبّ یوٹیوبر نے جج محمد بشیر کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا تھا: ''سپریم کورٹ کے 5 ججز‘ 6 جے آئی ٹی اراکین اور جج محمد بشیر تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے‘‘ (6 جولائی 2018ء)۔ اس پر رضوان رضی صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے ٹویٹ کیا: ''خان صاحب کو موصوف نے مروا دیا‘ اگر یہ جج بشیر کو تاریخ میں مر جانے دیتے تو آج جج بشیر سزا نہ سنا سکتا‘‘ (31 جنوری 2023ء)۔ ولی دکنی نے کہا تھا:
پہلے جو 'آپ‘ کہہ کر بلاتے تھے اب وہ 'تُو‘ کہتے ہیں
وقت کے ساتھ ''خطابات‘‘ بدل جاتے ہیں
پہلے تھے 'میخانہ‘ میں‘ اب ہیں 'مسجد‘ میں ولی
عمر کے ساتھ 'مقامات‘ بدل جاتے ہیں
خان صاحب کے دفاع کے وکلا اپنی حکمتِ عملی کو صحیح ثابت کرنے کیلئے کہہ سکتے ہیں: ''ہم ٹرائل کورٹ میں جتنا بھی زور لگاتے‘ فیصلہ تو یہی آنا تھا‘ کیونکہ فیصلے دبائو میں کیے جا رہے ہیں ‘‘ جواباً گزارش ہے: ''اگر آپ کا بیان درست بھی ہو‘ تب بھی سنجیدگی اور یکسوئی کے ساتھ پوری پیشہ ورانہ مہارت کو کام میں لاتے ہوئے مقدمہ لڑا جاتا تو غیر جانبدار لوگوں کیلئے تجزیہ کرنا آسان ہوتا اور ہائیکورٹ و سپریم کورٹ میں اپیل کے مرحلے پر وہ حقائق دفاع کے وکلا اپنے مؤکِّل کے حق میں استعمال کر سکتے تھے‘ مگر اس کا موقع انہوں نے گنوا دیا۔ اب اگر ہائیکورٹ دوبارہ ٹرائل کیلئے ان مقدمات کو واپس ٹرائل کورٹ میں بھیجتی ہے‘ تو خواہ مخواہ ایک نئی مشقت سے گزرنا پڑے گا اور جو کچھ اب حاصل ہو گا‘ پہلے بھی حاصل کیا جا سکتا تھا‘‘۔
کورٹ رپورٹرزکو مقدمے کی سماعت کے موقع پر خان صاحب سے گفتگو کا موقع مل جاتا ہے‘ بعض رپورٹرز نے خان صاحب کا یہ قول نقل کیا ہے: ''ہم 'Truth & Reconciliation Commission‘ کیلئے تیار ہیں‘‘۔ جنوبی افریقہ میں نسل پرست حکومت نے سیاہ فام باشندوں پر بڑے مظالم ڈھائے تھے‘ آزادی کی تحریک کے قائد نیلسن منڈیلا نے 26 سال اذیتناک جیل گزاری‘ لیکن آزادی کے بعد جب وہ برسرِ اقتدار آئے‘ تو بجائے اس کے کہ زمانۂ جاہلیت کی طرح ''انتقام در انتقام‘‘ کا سلسلہ نسلوں تک جاری رہتا‘ ماضی کے مظالم کا انتقام لینے کے بجائے انہوں نے ''کمیشن برائے صداقت و مفاہمت‘‘ قائم کیا کہ ہر ایک اس کمیشن کے سامنے اپنے مظالم کا اعتراف کرے‘ اُسے معاف کر دیا جائے گا تاکہ آئندہ قومی مفاہمت کے ساتھ حکومت کے معاملات کو چلایا جا سکے۔ یہ ایک دانش مندانہ‘ آبرو مندانہ اور فراست پر مبنی فیصلہ تھا۔ ہمارے ہاں بھی قومی سیاست کو انتقام در انتقام کی آگ میں جھونکنے کے بجائے اس طرح کا کوئی راستہ نکالا جائے تو شاید مستقبل میں اس کے بہتر نتائج برآمد ہوں‘ ورنہ سیاستدان باری باری استعمال ہوتے رہیں گے‘ احتساب کے نام پر انتقام کا نشانہ بنیں گے اور قومی سیاست میں ٹھہرائو نہیں آئے گا‘ ملک ترقی نہیں کرے گا اور ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے سب اس کا دَوش اپنے مخالفین کو دیتے رہیں گے اور قوم نتائج بھگتتی رہے گی۔ پس لازم ہے کہ یہ سلسلہ ختم ہو اور قوم سیاسی بلوغت کے مرحلے میں داخل ہو‘ مناسب ہے: ''سب اپنی غلطیاں تسلیم کریں اور قومی سیاست اور معیشت کو اس منجدھار سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر ڈالیں‘‘۔ ہمیں یقین ہے :پاکستان میں اتنا جوہرِ قابل موجود ہے کہ اگر سب کی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے تو کوئی بعید نہیں کہ ہم اقوامِ عالَم کے مقابل اپنا کھویا ہوا باعزت مقام دوبارہ حاصل کر سکیں اور قرض مانگنے کے بجائے پسماندہ اقوام کو قرض دینے کے قابل ہو جائیں‘ مگر: ایں سعادت بزور بازو نیست ؍ تانہ بخشد خدائے بخشندہ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں