اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اور جب قرآن پڑھا جائے تو اُسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘ (الاعراف: 204)۔ اس کے تحت فقہائے کرام نے لکھا ہے: ''قرآنِ مجید کا سننا مطلقاً واجب ہے‘‘۔ اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ''نماز اور خارجِ نماز دونوں حالتوں میں (قرآنِ مجید سننا واجب ہے)‘ یہ آیت اگرچہ نماز کے متعلق وارد ہوئی ہے جیسا کہ اس سے پہلے بیان ہوا‘ لیکن اعتبار خصوصیتِ سبب کا نہیں‘ عمومِ الفاظ کا ہوتا ہے اور یہ حکم اُس وقت ہے جب کوئی عذر نہ ہو‘ جیسا کہ ''قُنیہ‘‘ میں مذکور ہے: ''بچہ گھر میں قرآن مجید پڑھ رہا ہے اور گھر والے کام کاج میں مصروف ہیں‘ تو وہ تلاوتِ قرآن نہ سننے میں معذور ہیں‘ بشرطیکہ انہوں نے اس کے پڑھنے سے پہلے کام شروع کیا ہو‘ ورنہ وہ معذور نہیں ہوں گے‘‘۔ اسی طرح فقہ (کی کتاب) پڑھنے والے کے پاس قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے کا حکم ہے (کہ فقہ کی کتاب پڑھنا تلاوت نہ سننے کے لیے عذر ہے) اور ''فتح القدیر‘‘ میں ''خلاصۃ الفتاویٰ‘‘ کے حوالے سے منقول ہے: ''ایک شخص فقہی مسائل لکھ رہا ہے اور اس کے پاس کوئی شخص (بلند آواز سے) قرآنِ کریم کی تلاوت کرتا ہے اور اس کیلئے (اپنی علمی مصروفیت کے سبب) توجہ کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کا سننا عملاً دشوار ہے‘ تو اس کا گناہ تلاوت کرنے والے پر ہو گا۔ اسی طرح لوگ سوئے ہوئے ہیں اور ایک شخص چھت پر بیٹھ کر تلاوت کرتا ہے‘ تو (لوگوں کے نہ سننے کا) گناہ تلاوت کرنے والے پر ہو گا‘ کیونکہ لوگوں کی تلاوتِ قرآن کی طرف توجہ نہ کرنے کا سبب وہی شخص بن رہا ہے یا اس لیے کہ وہ انہیں جگاکر اذیت دے رہا ہے‘ یہ مسئلہ قابلِ توجہ ہے‘‘۔
وہ مزید لکھتے ہیں: ''قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے والے پر اس کا احترام واجب ہے‘ اس طور پر کہ وہ بازاروں میں (بلند آواز سے) قرآن مجید نہ پڑھے اور ان مقامات پر بھی قرآن کریم نہ پڑھے جہاں لوگ اپنے کاموں میں مشغول ہوں‘ کیونکہ جب کوئی شخص ان مقامات پر قرآن کی (بلند آواز سے) تلاوت کرے گا‘ تو قرآنِ مجید کے احترام کو ضائع کرنے کا گناہ اسی پر ہو گا‘ نہ کہ اُن لوگوں پر جو اپنے کام کاج میں مصروف ہیں‘ (عام لوگوں سے) حرج کو دور کرنے کے لیے (مسئلے کی بہترین توجیہ یہی ہے)‘‘ (ردّالمحتار علی الدرالمختار‘ ج: 2، ص: 237 تا 238)۔ اسی طرح اگر کہیں ایصالِ ثواب کیلئے اجتماعی قرآن خوانی ہو رہی ہے تو سب تلاوت کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ اتنی آواز سے پڑھیں کہ خود سن سکیں‘ برابر والوں کو نہ سنائیں تاکہ اُن پر سماع واجب نہ ہو‘ تاہم اگر کوئی یہ کہے: ''میں دل میں پڑھتا ہوں‘‘ تو یہ تلاوت نہیں ہے‘ کیونکہ تلاوت تلفظ کے ساتھ پڑھنے کا نام ہے۔
جمعہ کے خطابات میں خطبائے کرام زیادہ زور عقائد پر یا اپنے مسلکی امتیازات وتخصُّصات پر دیتے ہیں‘ کیونکہ اس کی پذیرائی کیلئے سامعینِ کرام کا ایک حلقہ ہمیشہ موجود ہوتا ہے‘ یہ درست ہے‘ لیکن میری خطبائے کرام سے اپیل ہے: وہ اپنے خطابات کے اختتام پر پانچ سات منٹ کیلئے ضروری مسائل بھی بیان کیا کریں‘ کیونکہ لوگوں کو روزمرّہ زندگی میں مسائل کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کام تکرار کے ساتھ کیا کریں۔ آخر قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں اکثر احکام مثلاً: ''عقائد‘ عبادات‘ معاملات‘ اخلاقیات وآداب وغیرہ‘‘ کو بار بار بیان کیا گیا ہے۔ اس کی حکمت یہی ہے کہ اگر ایک دو بار سننے پر کسی کا ذہن متوجہ نہ ہو یا وہ اس پر عمل پیرا نہ ہو تو بار بار ان کو متوجہ کیا جائے‘ کوئی نہ کوئی ساعت ایسی موافقت کی آ جائے گی کہ بات مخاطَب کے دل میں اتر جائے۔ خطاب کا مقصد چھا جانا اور سامعین پر علمی جلالت کا سکہ بٹھانا نہیں ہونا چاہیے۔ فارسی میں کہتے ہیں: ''ازدل خیزد‘ بردِل ریزد‘‘۔ علامہ اقبال نے کہا ہے: ''دل سے جو بات نکلتی ہے‘ اثر رکھتی ہے ؍ پَر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے‘‘ یعنی وہ سیدھی جا کر مخاطَب کے دل میں جاگزیں ہوتی ہے۔ جگر مراد آبادی نے کہا ہے:
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ ؍ جو دلوں کو فتح کر لے‘ وہی فاتح زمانہ
اہلِ نظر نے کہا ہے: ''مخاطَب پر اثر انداز ہونے کے دو طریقے ہیں: ایک یہ کہ متکلم کے اندازِ بیاں‘ طرزِ تکلُّم‘ چہرے مہرے کے تاثرات اور رویے میں اتنا اخلاص ہو کہ مخاطَب کے دل میں اُس کی قبولیت کے لیے گنجائش پیدا ہو۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ استدلال اتنا معقول‘ مدلّل اور مؤثر ہو کہ بات مخاطَب کے ذہن نشین ہو جائے‘ یعنی یا تو دل کے ذریعے دماغ کی تسخیر ہو اور یا دماغ کے ذریعے کسی کے دل میں جگہ بنا لی جائے۔ قرآنِ کریم نے اسی شعار کو دعوت بالحکمۃ‘ موعظۂ حسنہ اور جِدالِ اَحسن سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہ اس لیے کہ لوگوں کی ذہنی اور علمی سطح مختلف ہوتی ہے۔ حدیث مبارک میں ہے: ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے (دین کا) علم اس لیے حاصل کیا کہ علماء پر اپنے تفاخر (اور برتری) کا اظہار کرے یا بیوقوف لوگوں سے کج بحثی کرے یا لوگوں کے رُخِ عقیدت کو اپنی جانب پھیر دے تو یہ علم اُسے جہنم میں داخل کرے گا‘ (ترمذی: 2654)۔ ہمارے ہاں مستحبات پر زیادہ زور دیا جاتا ہے‘ حالانکہ زیادہ زور فرائض‘ واجبات اور سنتوں پر دیا جانا چاہیے‘ رسول اللہﷺ کا شعار یہی بتاتا ہے۔ اعلانِ نبوت سے پہلے سیلاب کے سبب بیت اللہ کی عمارت منہدم ہو گئی تو قریش نے اس کی تعمیرِ نو کا منصوبہ بنایا اور یہ فیصلہ کیا کہ اس پر صرف حلال مال صرف کیا جائے گا۔ پس حلال جمع شدہ مال اتنا نہ تھا کہ بیت اللہ کی پوری حدود کو تعمیرِ نو میں شامل کیا جا سکے‘ لہٰذا انہوں نے عمارت کی حدود کو چھوٹا کیا اور حطیم کے حصے کو باہر رکھ کربقیہ حصے پر عمارت مکمل کی۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ پورے حجاز پر اسلامی حکومت قائم ہو گئی‘ مالی وسائل بھی دستیاب تھے‘ رسول اللہ ﷺ کی خواہش بھی تھی کہ کاش! بیت اللہ کی دوبارہ بِنائے ابراہیمی پر تعمیر ہو جائے‘ لیکن آپﷺ نے دین کی عظیم تر حکمت کے تحت اپنی اس چاہت اور پسند پر عمل نہ کیاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب بیت اللہ کی عمارت کو شہید کرنے کے لیے کُدال اور ہتھوڑے چلائے جائیں تو لوگوں کا ایمان متزلزل ہو جائے‘ کیونکہ بیت اللہ کی تقدیس لوگوں کے ذہنوں میں تھی‘ چنانچہ آپﷺ نے اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ''(عائشہ!) اگر تمہاری قوم نے کفر کو نیا نیا ترک نہ کیا ہوتا تو میں بیت اللہ کی عمارت کو منہدم کر دیتا اور اُسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قائم کی ہوئی بنیادوں پر از سرِ نو تعمیر کرتا‘ کیونکہ جب قریش نے بیت اللہ کو بنایا تو (حلال وسائل کی کمی کے سبب) اس کو چھوٹا کر دیا تھا اور میں اُس کی پچھلی جانب بھی ایک دروازہ بناتا‘‘ (مسلم:3182)۔
امام احمد رضا قادری رحمہ اللہ تعالیٰ نے لکھا: ''دین کے بہترین مفاد اور بالاترحکمت کے پیشِ نظر مستحبات کو بھی ترک کیا جا سکتا ہے۔ آپ لکھتے ہیں: ''پس ان امور میں ضابطۂ کُلیہ‘ جسے لازماً یاد رکھنا چاہیے‘ یہ ہے کہ فرائض پر عمل کرنے اور حرام امور کے ترک کرنے کو لوگوں کی خوشنودی پر مقدم رکھے اور ان امور میں مطلقاً کسی کی پروا نہ کرے اور مستحب کو ادا کرنے اور خلافِ اَولیٰ کام چھوڑنے پر مخلوق کی دلداری اور جذبات کی رعایت کو اہم جانے تاکہ فتنہ ونفرت اور ایذا ووحشت کا سبب نہ بنے۔ اسی طرح جو عادات ورسوم لوگوں میں جاری ہوں اور شریعتِ مطہرہ میں اُن کی حرمت ثابت نہ ہو‘ اُن میں اپنی بڑائی اور پاکبازی کے اظہار کیلئے لوگوں کی مخالفت نہ کرے‘ کیونکہ یہ سب امور لوگوں کے دلوں کو جوڑنے‘ دین کی طرف مائل کرنے اور شارع علیہ السلام کی منشا کے بھی خلاف ہیں۔ ہاں! اس بات کو توجہ سے سنیں‘ کیونکہ یہ وہ خوبصورت نکتہ‘ گراں قدر حکمت‘ کوچۂ سلامت اور جادۂ کرامت ہے‘ جس سے بہت سے خشک مزاج زاہد غافل رہتے ہیں اور وہ اپنے گمان میں محتاط ودیندار بنتے ہیں‘‘ (فتاویٰ رضویہ‘ ج: 4، ص: 528)۔ امامِ اہلسنّت کی عبارت نہایت دقیق ہے‘ ہم نے قارئین کی تفہیم کیلئے آسان الفاظ میں اس کا خلاصہ پیش کیا ہے۔