تمہیدی نوٹ: سپریم کورٹ میں ایک فوجداری اپیل: 1054-L02023 دائر ہوئی‘ سپریم کورٹ کے اُس بنچ کی سربراہی چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ کر رہے تھے۔ سپریم کورٹ نے 6 فروری 2024ء کوجو فیصلہ صادر کیا‘ اُس سے ملک کے دینی طبقات میں اضطراب پیدا ہو۔ آخرکار سپریم کورٹ نے اس پر نظرِ ثانی پٹیشن کی سماعت کی اور چند اداروں سے اس کی بابت رائے طلب کی۔ راقم الحروف (مفتی منیب الرحمن) اور مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے عدالتی حکمنامے پر تحریری شکل میں اپنا مؤقف پیش کیا‘ اس پر دونوں کے دستخط ثبت ہیں اور بعد میں جامعہ سلفیہ فیصل آباد اور قرآن اکیڈمی کے دارالافتاء نے اسی موقف کی تائید کی۔
29 مئی 2024ء کو سپریم کورٹ میں نظرِ ثانی پٹیشن پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے دریافت کیا: مفتی منیب الرحمن (دارالعلوم جامعہ نعیمیہ کراچی) کا کوئی نمائندہ ہے‘ علامہ صاحبزادہ سید حبیب الحق شاہ نے کہا: ''میں اُن کا نمائندہ ہوں‘‘ چنانچہ چیف جسٹس کے حکم پر علامہ صاحبزادہ سید حبیب الحق شاہ صاحب نے یہ مؤقف سپریم کورٹ میں لفظ بہ لفظ سنایا اور تمام مکاتبِ فکر نے اسکی تائید کی۔ نیز انہوں نے چیف جسٹس صاحب کے ایک دو مزید استفسارات کے بھی جوابات دیے۔ ہم عوام اور اہلِ علم کی آگہی کیلئے یہ موقف سطورِ ذیل میں درج کر رہے ہیں:
سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجداری پٹیشن نمبر 1054-L02023 کے 6 فروری 2024ء کے عدالتی حکم نامے پر نظر ثانی کی استدعا نمبر 2024/2 کے بارے میں اسلامی احکام اور آئین کی روشنی میں عدالت کی معاونت کی غرض سے ہم سے اپنی تحریری رائے طلب کی ہے‘ اس سلسلے میں ہم عدالت کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ مقدمات دائر کرنے اور ان کا فیصلہ کرنے میں جذباتیت کے بجائے حقائق کو مدنظر رکھنا چاہیے‘ اس معاملے میں قرآن کریم کی واضح ہدایت یہ ہے: ''اے ایمان والو! اللہ کیلئے (حق پر) مضبوطی کیساتھ قائم رہنے والے ہو جائو‘ اس حال میں کہ تم انصاف کیساتھ گواہی دینے والے ہو‘ کسی قوم کی عداوت تمہیں بے انصافی پر نہ ابھارے‘ تم عدل کرتے رہو‘ یہی شعار تقویٰ کے زیادہ قریب ہے‘ بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کی خوب خبر رکھنے والا ہے‘‘ (المائدہ: 8)۔ لیکن جو آیات کریمہ زیرِ نظر ثانی فیصلے میں پیراگراف نمبر 6 سے 10 تک ذکر کی گئی ہیں‘ ہماری رائے میں ان میں سے کسی بھی آیت کا اس مقدمے کیساتھ دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان آیاتِ مبارکہ کی مختصر تشریح سے انکا اس مقدمے سے غیر متعلق ہونا بخوبی واضح ہو جائے گا:
پہلی آیت البقرہ: 256 کے کلماتِ مبارکہ یہ ہیں: ''دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘ ہدایت کا راستہ گمراہی سے ممتاز ہو کر واضح ہو چکا‘ اس کے بعد جو شخص طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آئے گا‘ اس نے ایک مضبوط کنڈا تھام لیا‘ جس کے ٹوٹنے کاکوئی امکان نہیں ہے اور اللہ خوب سُننے والا‘ سب کچھ جاننے والا ہے‘‘۔ اس آیت کریمہ میں یہ اصول بتایا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا‘ نیز جبراً اسلام قبول کرنا شرعاً معتبر نہیں ہے۔ زبردستی کے اس مفہوم کو یونس: 99 میں مزید واضح فرما دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''تو کیا تم لوگوں پر زبردستی کرو گے تاکہ وہ سب مومن بن جائیں‘‘۔ اس آیت نے واضح فرما دیا کہ سورۂ بقرہ میں جس زبردستی کا ذکر فرمایا گیا ہے‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ نیز سورۂ بقرہ کی اس آیۂ مبارکہ کے شانِ نزول میں مفسرین نے جو واقعات بیان کیے ہیں‘ ان سب میں یہی صورت مشترک ہے کہ کسی شخص پر زبردستی کر کے اسے مسلمان بنانے کی کوشش کی گئی تھی‘ اس کی تردید کیلئے یہ آیہ مبارکہ نازل ہوئی‘ (تفسیر ابن کثیر‘ ج: 1‘ ص: 310 تا 311)۔
اب سوال یہ ہے: زیر نظر مقدمے کا ان آیتوں سے کوئی تعلق بنتا ہے‘ کیا یہاں کسی قادیانی کو زبردستی مسلمان بنانے کی کوئی کوشش ہوئی تھی‘ ظاہر ہے: ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ ایک ملزَم جو شریعت‘ آئین اور قانون کی رُو سے مسلمہ طور پر غیر مسلم اور قادیانی ہے‘ اس پر الزام یہ تھا کہ وہ قرآن کی ایک تفسیر‘ جو مسلمانوں کے مسلمہ مفہوم اور قانون کے خلاف ہے‘ پڑھا رہا تھا ‘ پس یہاں کوئی یہ نہیں کہتا کہ اس پر اسلام قبول کرنے کیلئے کوئی زبردستی کی جا رہی تھی۔ لہٰذا اس مقدمے کے فیصلے میں اس آیہ مبارکہ کا حوالہ دینے کا کوئی جواز نہیں بنتا‘ سوائے اسکے کہ کسی کی رائے یہ ہو: قادیانیوں کو آئین میں جو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے یا تعزیرات پاکستان میں قادیانیوں کے اپنے مذہب کو اسلام کا نام دینے یا اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے پر جو سزائیں مقرر کی گئی ہیں‘ وہ اس آیۂ مبارکہ کے خلاف ہیں۔ پس عام لوگوں نے اسکا یہی تاثر لیا جو بڑے پیمانے پر اہلِ علم اور دیندار عوام کے ذہنوں میں اضطراب اور خلفشار کا باعث بنا۔ اس شبہے کو مزید تقویت اس بات سے بھی ملی کہ زیر نظر ریویو پٹیشن میں جن اداروں کو عدالت کی معاونت کیلئے نوٹس جاری کیے گئے ہیں‘ ان میں ایک ادارہ وہ بھی ہے جسکے بانی کا ایک طے شدہ موقف ہے اور اسکی بابت ان کے آرٹیکل قومی اخبارات میں بھی چھپ چکے ہیں: (الف) وہ آئین کے پیش لفظ‘ آرٹیکل 2 اور 2A کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں‘ ان میں اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب اور قراردادِ مقاصد کو آئین کا مؤثر بہ عمل حصہ قرار دیا گیا ہے‘ جبکہ موصوف کے نزدیک ریاست سیکولر ہوتی ہے‘ (ب) دستور کے آرٹیکل 260 کی ذیلی دفعات 3A اور 3B کو بھی وہ غیر ضروری قرار دیتے ہیں‘ ان میں مسلم اور غیرمسلم کی تعریفات مذکور ہیں‘ (ج) وہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 295 اور 298 کو بھی قطعاً درست نہیں سمجھتے‘ کیونکہ ان میں توہینِ مذہب کو جرم قرار دیا گیا ہے‘ جبکہ اُن کے نزدیک یہ جرم نہیں ہے۔
پس اگر یہ شبہہ صحیح ہے تو یہ بات انتہائی قابلِ اعتراض ہے‘ کیونکہ اعلیٰ عدالتوں کے قابلِ احترام جج صاحبان نے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے اور وہ اسے نظامِ آئین وقانون اور نظامِ عدل میں نافذ کرنے کے پابند ہیں۔ یہ مسئلہ اُن کیلئے اختیاری نہیں ہے‘ نیز وہ اپنی صوابدید پر آئین وقانون کی رُو سے ان دستوری وقانونی دفعات کے خلاف فیصلہ دینے کے مُجاز ہی نہیں ہیں‘ نہ وہ فوجداری اختیارِ سَماعت میں کسی قانون کو تبدیل کرنے کے مُجاز ہیں۔خلاصہ کلام یہ کہ اس آ یت کا نہ تو زیرِ نظر مقدمے سے کوئی تعلق ہے اور نہ اسکی آڑ میں ایسی باتوں کو چھیڑنے کا کوئی جواز ہے‘ جو آئین و قانون اور سپریم کورٹ نے پہلے سے طے کی ہوئی ہیں۔ دوسری آیۂ مبارکہ جس کا فیصلے میں حوالہ دیا گیا ہے‘ وہ الرعد: 40 ہے‘ اس میں ارشاد ہوا: ''(اے نبی!) آپ کے ذمے تو صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینے کی ذمے داری ہماری ہے‘‘۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کو یہ تسلی دی ہے کہ تبلیغ کا حق ادا کرنے کے باوجود اگر بدقسمتی سے کفار کُفر پر برقرار رہتے ہیں اور ایمان قبول نہیں کرتے تو اے رسولِ مکرم! آپ اس کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہیں‘ اُن کے کفر پر برقرار رہنے کے سبب آپ سے کوئی جواب طلبی نہیں ہو گی۔ الغرض کافروں کے کفر پر برقرار رہنے کے سبب آپ سے آخرت میں کوئی حساب نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے قانونِ عدل کے تحت ان سے خود نمٹے گا۔ پس یہ آیت اس معنی پر صریح ہے اور اسکی کوئی اور قابلِ قبول تاویل و توجیہ نہیں کی جا سکتی‘ اسی سبب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''(ان کافروں سے) حساب لینے کی ذمے داری ہماری ہے‘‘ اس تشریح سے واضح ہوا کہ اس آیۂ مبارکہ کا بھی اس مقدمے سے دور کا کوئی تعلق نہیں بنتا‘ ورنہ تعزیراتِ پاکستان میں جتنے جرائم اور انکی سزائیں درج ہیں‘ اس اصول کے تحت کوئی کہہ سکتا ہے: حکومت کا کام صرف یہ تبلیغ کرنا ہے کہ چوری ڈاکا وغیرہ گناہ ہیں اور اللہ تعالیٰ خود اُن سے حساب لے لے گا‘ بندے کے کسی جرم پر سزا دینا حکومت یا عدالت کا کام نہیں ہے‘ کیا یہ استدلال کسی بھی درجے میں قابل قبول ہو سکتا ہے۔ (جاری)