''معذرت‘‘ عربی لفظ ہے‘ اس کے معنی ہیں: ''الزام سے بری ہونا‘ عذر قبول کرنا‘‘۔ اعتذار کے معنی ہیں: ''عذر بیان کرنا‘‘۔ پس معذرت و اعتذار کے مرادی معنی ہیں: ''اپنی کسی غلطی یا کوتاہی کا عذر یا جواز پیش کرنا‘‘۔
غزوۂ تبوک کو ''جیشُ العسرۃ‘‘ بھی کہا جاتا ہے‘ یعنی ایسا لشکر جو نہایت عُسرت اور تنگی کے زمانے میں ترتیب دیا گیا تھا۔ اس کا پس منظر یہ ہے: ''خبر آئی کہ قیصر نے مدینۂ منورہ پر حملہ کرنے کیلئے ایک بہت بڑا لشکر ترتیب دیا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے جنگی حکمتِ عملی کے تحت آگے بڑھ کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور صحابۂ کرام سے دفاعی مقاصد کیلئے صدقات کی اپیل کی۔ قرآنِ کریم میں ہے: ''اور ان میں سے بعض (منافقین) وہ ہیں جنہوں نے اللہ سے یہ عہد کیا تھا کہ اگر اس نے ہمیں اپنے فضل سے مال عطا کیا تو ہم ضرور بالضرور صدقہ کریں گے اور ہم ضرور نیکوکاروں میں سے ہو جائیں گے۔ پھر جب اللہ نے اپنے فضل سے انہیں عطا کیا تو انہوں نے اس میں بخل کیا اور منہ پھیر کر پلٹ گئے (التوبہ:75-76)‘‘۔ نہ صرف یہ کہ خود اللہ کی راہ میں دینے سے پھر گئے بلکہ دینے والوں پر طعن کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''وہ (منافقین) جو صدقات کے معاملے میں اُن (صحابہ) مسلمانوں پر طعن کرتے ہیں جو خوشدلی سے دیتے ہیں اور جنکے پاس اپنی محنت مزدوری کے سوا دینے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے تو وہ ان کا (بھی) مذاق اڑاتے ہیں‘ اللہ انہیں ان کے مذاق اڑانے کی سزا دے گا اور ان کیلئے دردناک عذاب ہے (التوبہ:79)‘‘۔
الغرض منافقین خوشدلی سے وافر مال دینے والوں پر یہ طعن کرتے تھے کہ یہ اپنی شان دکھاتے ہیں اور یومیہ مزدوری سے ایک دو کلو کھجوریں بچاکر دینے والوں پر یہ طعن کرتے تھے کہ بھلا! اس سے کون سا پہاڑ سر کر لیں گے۔ یعنی انہیں صحابۂ کرام کی ہر ادا پر اعتراض تھا۔ صحابۂ کرام میں سے بعض ضُعف کی بنا پر‘ بعض بیماری کے سبب اور بعض زادِ راہ نہ ہونے کے سبب جہاد میں شامل ہونے سے رہ گئے۔ ان کی تسکینِ خاطر کیلئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''ضعیفوں‘ بیماروں اور اُن لوگوں پر بھی طعن کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے جو خرچ کرنے کیلئے مال نہیں پاتے جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کیلئے مخلص ہوں(التوبہ:91)‘‘۔ اسی طرح فرمایا: ''اور ان لوگوں پر بھی طعن کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے جو آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ اُن کیلئے سواری کا بندوبست کریں‘ آپ اُن سے فرماتے ہیں: میرے پاس تمہارے لیے سواری کے وسائل نہیں ہیں‘ وہ اس حال میں واپس لوٹتے ہیں کہ (جہاد میں شریک نہ ہونے کے) غم میں اُن کی آنکھیں اشکبار ہیں کہ وہ (جہاد میں) جانے کی استطاعت نہیں رکھتے(التوبہ:92)‘‘۔ مزید فرمایا: ''مواخذہ تو صرف اُن لوگوں پر ہے جو مالدار ہونے کے باوجود آپ سے (جہاد میں شریک نہ ہونے کی) رخصت مانگتے ہیں‘ انہوں نے اس بات کو پسند کیا کہ وہ (جہاد سے) پیچھے رہ جانے والی عورتوں کے ساتھ (گھروں میں) رہیں اور اللہ نے (اس کے وبال میں) ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے‘ پس وہ کچھ نہیں جانتے(التوبہ:93)‘‘۔
الغرض یہاں منافقین کی عیاری اور مکاری کا ذکر ہے کہ وہ کوئی رکاوٹ نہ ہونے کے باوجود جہاد میں شریک نہ ہونے کیلئے جھوٹے حیلے بہانے تراش رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو غزوۂ تبوک میں سرخرو فرمایا اور کفار کو مسلمانوں کے مقابل آنے کی ہمت نہ ہوئی۔ جب مسلمان سرخرو ہوکر واپس مدینۂ منورہ آرہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ مکرم ﷺ کو اُن منافقین کی باطنی کیفیات کے بارے میں پیشگی آگاہ فرما دیا تھا‘ چنانچہ فرمایا: ''(مسلمانو!) جب تم پلٹ کر اُن (منافقوں) کے پاس جاؤ گے تو وہ (جہاد میں شریک نہ ہونے کی بابت) تمہارے سامنے حیلے بہانے پیش کریں گے‘ (اے رسولِ مکرّم!) کہہ دیجیے: تم بہانہ بازی نہ کرو‘ ہم ہرگز تمہاری بہانہ بازیوں پر یقین نہیں کریں گے۔ اللہ نے ہمیں تمہارے احوال بتا دیے ہیں۔ آئندہ اللہ اور اس کے رسول تمہارے طرزِ عمل کو دیکھیں گے پھر تمہیں ہر پوشیدہ اور ظاہر کے جاننے والے کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا‘ وہ تمہیں تمہارے اُن اعمال کی خبر دے گا جو تم کیا کرتے تھے(التوبہ:94)‘‘۔
اس سیاق و سباق کا مقصد یہ ہے کہ آج کل سیاستدانوں سمیت لوگوں نے یہ وتیرہ اپنا رکھا ہے کہ دوسروں کی توہین کرتے ہیں‘ تحقیر کرتے ہیں اور ایسے الفاظ میں کرتے ہیں جن کا معنی و مفہوم عیاں ہے۔ اس میں کسی تاویل و توجیہ کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ پہلے تو توہین کرکے اس کا لطف اٹھاتے ہیں پھر جب ردِّعمل منفی آتا ہے تو اپنی غلطی پر نادم و شرمسار ہونے کے بجائے ایک بار پھر مکرو فریب سے کام لیتے ہوئے کہتے ہیں: ''میرا تو کسی کی توہین کا ارادہ نہیں تھا لیکن اگر میری کسی بات سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معذرت چاہتا ہوں‘‘۔ معافی اگر مگر اور چنیں و چناں سے نہیں مانگی جاتی‘ معافی تو اپنی غلطی تسلیم کرکے اور اس پر نادم ہوکر غیرمشروط طور پر مانگی جاتی ہے۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: ''بندہ جب اپنے گناہ کا اعتراف کرلے اور پھر توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اسکی توبہ قبول فرماتا ہے (بخاری:2661)‘‘۔ حدیث پاک میں ہے: ''حضرت معاذ بن جبلؓ نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں‘ (اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں اہلِ ایمان کو''تَوْبَۃُ النَّصُوح‘‘کا حکم فرماتا ہے) یہ ''تَوْبَۃُ النَّصُوح‘‘کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: گناہگار (مومن) اپنے کیے گناہ پر نادم ہو پھر اللہ تعالیٰ کے حضور معافی مانگے (اور یہ معافی اتنی سچی اور پکی ہو کہ) پھر گناہ کی طرف ہرگز نہ پلٹے‘ جیسے( جانور کے تھن سے) نکلا ہوا دودھ واپس تھن میں نہیں جاتا (العظمۃ لابی الشیخ الاصبہانی ،ج:4،ص: 1175)‘‘
اگر کوئی ایسی سچی معافی مانگے تو رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: ''جس نے (اپنے کسی قصور پر) اپنے بھائی سے معافی مانگی اور اس نے قبول نہ کی تو وہ (قیامت کے دن) میرے حوض پر نہیں آئے گا، (المعجم الاوسط: 6295)‘‘۔اللہ تعالیٰ نے توبہ اور معافی کی قبولیت کا یہی ضابطہ قرآنِ کریم میں بیان فرمایا ہے: ''صرف اُن لوگوں کی توبہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمۂ کرم پر لیا ہے جو نادانی میں گناہ کر بیٹھتے ہیں‘ پھر جلد ہی (احساس ہونے پر) توبہ کر لیتے ہیں‘ یہی وہ لوگ ہیں جن کی توبہ اللہ قبول فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا اور خوب حکمت والا ہے (النسآء:17)‘‘۔ نیز فرمایا: ''اور اُن لوگوں کی توبہ قبول کرنا (اللہ نے اپنے ذمۂ کرم پر نہیں لیا) جو گناہ کرتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت سر پر آکھڑی ہوتی ہے تو پھر کہتا ہے: اب میں توبہ کرتا ہوں اور ان کی توبہ قبول کرنا بھی (اللہ نے اپنے ذمۂ کرم پر نہیں لیا) جن کی موت کفر پر واقع ہوتی ہے‘ ان کیلئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے(النسآء:18)‘‘۔
یہ سطور ہم نے اسلئے لکھی ہیں کہ ہمارے سیاستدانوں نے ہرچیز کو بازیچۂ اطفال سمجھ رکھا ہے۔ ہمارے نمائندہ ایوانوں میں بھی اخلاقیات کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور یہ کارروائی بعض اوقات براہِ راست نشر ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنی گالیوں اور شرافت سے گرے ہوئے لب ولہجے کیلئے بھی غیرپارلیمانی کی الگ اصطلاح وضع کر رکھی ہے۔ اس سے نئی نسل کے اخلاق کو بگاڑ دیا گیا ہے اور وہ دشنام کو بھی اپنے محبوب قائد کی عقیدت کا ذریعہ اور کمال سمجھتے ہیں‘ بھگت کبیر نے کہا تھا:
رنگی کو نارنگی کہیں‘ بنے دودھ کو کھویا؍چلتی کو یہ گاڑی کہیں‘ دیکھ کبیرا رویا
مفہوم: شاعر تضاد کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مالٹا رنگین ہوتا ہے‘ اس کے نام سے ایک رنگ‘ Orange Colour منسوب ہے لیکن اردو میں اُسے''نارنگی (یعنی بے رنگ ہونا)‘‘ کہتے ہیں۔ اسی طرح دودھ ابال کر جما دیا جائے تو اسکا جوہر حاصل ہو جاتا ہے‘ اسے اردو میں ''کھویا(ضائع ہونا)‘‘ کہتے ہیں حالانکہ وہ تو پایا ہوا ہوتا ہے۔ اسی طرح گاڑی رواں دواں رہنے والی مشین ہے‘ اُسے اردو والے ''گاڑی‘‘ کہتے ہیں جس کے معنی ہیں: ''کسی چیز کو زمین میں گاڑ دینا‘‘۔