(5) مفتی محمد تقی عثمانی اور مولانا محمد حنیف جالندھری نے بتایا: وہ ایک ہفتے تک اسلام آباد میں مقیم رہے‘چیف آف آرمی سٹاف‘ ڈی جی آئی ایس آئی‘ ڈی جی سی سے اُن کی ملاقاتیں ہوئیں‘ سب امور پر اتفاق ہو گیا‘ مگر پی ڈی ایم حکومت کے آخری دن اچانک پارلیمنٹ سے چوبیس گمنام یونیورسٹیوں کے چارٹر تو منظور کر لیے گئے‘ لیکن اتفاقِ رائے کے باوجود مدارس کی رجسٹریشن کا بل آخری مرحلے میں روک دیا گیا حالانکہ اس امر پر اتفاق ہو گیا تھا: مدارس کو آزادی ہے: وہ سوسائٹیز ایکٹ کی دفعہ21 کے تحت رجسٹریشن کرائیں یا وزارتِ تعلیم کے تحت کرائیں۔ (6) ہماری معلومات کے مطابق ایف اے ٹی ایف کی شرط یہ ہے: ''مالی معاملات شفاف ہوں‘ اندرون وبیرونِ ملک سے آنے والی رقوم دہشتگردی اور منی لانڈرنگ کیلئے استعمال نہ ہوں‘‘۔ منی لانڈرنگ سے مراد رقوم کی غیر قانونی ترسیل ہے مگر یہ تب ہو سکتا ہے جب بینک اکائونٹس کی سہولت ہو‘ رقوم بینک میں جمع ہوں اور نکالی جائیں۔ یوں ہر چیز ریکارڈ پر ہو گی اور پورا نظام شفاف ہو گا لیکن جب بینک اکائونٹس کا راستہ ہی بند کر دیں گے تو شفافیت کہاں سے آئے گی۔ میں نے سٹیٹ بینک کے گورنر اور ڈپٹی گورنر سے ملاقات کی اور انہیں یہ مسئلہ بتایا: انہوں نے اتفاق کیا کہ شفافیت تو بینک اکائونٹ سے آئے گی۔ الغرض بینک اکائونٹس بند کر کے شفافیت کے امکانات کو ختم کیا جا رہا ہے‘ نہیں معلوم یہ دانش کہاں سے آئی ہے۔
(7) حکومت چاہتی ہے: کاروباری معیشت کو دستاویزی بنایا جائے‘ لین دین کے تمام معاملات شفاف ہوں‘ فروخت کنندہ وخریدار اور قیمت کا پتا ہو تاکہ اُس کیلئے ٹیکس وصول کرنا آسان ہو جائے‘ لیکن کاروباری لوگ اس راہ میں مزاحم ہیں۔ اس کے برعکس دینی مدار س وجامعات بینک میں اکائونٹ کھولنا چاہتے ہیں‘ تو خود حکومت اس کی راہ میں مزاحم ہے اور زمین کی تہہ سے شفافیت برآمد کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ شاعر نے کہا ہے:
درمیانِ قَعرِ دریا تختہ بندم کردہ ای؍ باز می گوئی کہ دامن تر مکُن‘ ہشیار باش
ترجمہ: ''مجھے دریا کے وسط میں ایک تختے پر بٹھا دیا ہے اور پھر کہتے ہو: ہشیار رہو! دامن پر پانی کی کوئی چھینٹ نہ پڑے‘‘۔ یہاں بھی مسئلہ یہی ہے: بینک میں اکائونٹ نہیں کھل سکتا‘ لیکن نظام شفاف ہونا چاہیے۔ مدارس آمادہ ہیں‘ مگر شفافیت کی دعویدار حکومت راستے مسدود کر رہی ہے۔ یہ تضاد سمجھ سے بالاتر ہے ۔ (8) ڈاکٹر غلام قمر نے فرمایا ہے: ''1860ء کا سوسائٹیز ایکٹ تو انگریز نے اپنے فائدے کیلئے بنایا تھا‘‘ کوئی مردِ دانا ڈاکٹر صاحب کو بتائے: آپ کے تمام فوجداری اور دیوانی قوانین اور اُن کے ضوابط انگریزوں سے ہی ورثے میں ملے ہیں‘ ان سب کو دریا بُرد کیوں نہیں کر دیتے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا: قانون کس نے بنایا ہے‘ یہ دیکھا جاتا ہے: قانون درست ہے یا نہیں ہے۔ اسی ایکٹ کے تحت ہمارے ملک میں لاکھوں ادارے قائم ہیں اور وہ سب قانونی شمار ہوتے ہیں‘ ان کو ''غیر قانونی‘‘ کہنے والے ڈاکٹر صاحب پہلے شخص ہیں۔ حضرت علی المرتضیٰؓ کا قول ہے: ''یہ مت دیکھو کہ کس نے کہا‘ یہ دیکھو کہ کیا کہا ہے‘‘ یعنی قائل کو نہیں‘ قول کو دیکھو اور اس کا درجہ متعین کرو۔ ڈاکٹر غلام قمر صاحب کے بیان کردہ فلسفے کے مطابق تو سوسائٹیز ایکٹ کو قانون کی کتاب سے حذف کر دینا چاہیے۔
(9) الحمدللہ علیٰ احسانہٖ! آج بھی دینی مدارس کی اسّی فیصد تعداد اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کی پانچ تنظیمات میں سے کسی ایک کے ساتھ وابستہ ہے‘ وہ ان کی قیادت پر اعتماد کرتے ہیں اور قیادت کی ذمہ داری ہے کہ اُن کی حریتِ فکر وعمل کا تحفظ کریں۔ ہم فیٹف کے کارپردازوں کے ساتھ بھی بات کرنے کیلئے تیار ہیں‘ وہ آئیں‘ ہمارے اداروں کو دیکھیں‘ ہرچیز شفاف اور کھلی کتاب کی طرح ہے۔ (10) ہماری پریس کانفرنس کے بعد وائس آف امریکہ نے بھی پروگرام کیا‘ ایسے لوگ اکثر زمینی حقائق سے نابلد رہتے اور مفروضوں پر بات کرتے ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر عامر طاسین کے حوالے سے نیکٹا کا حوالہ دیا۔ نیکٹا کے ساتھ ہم نے میٹنگ کی تھی۔ اس وقت کے نیکٹا کے سربراہ کے ساتھ مل کر ہم نے خود ڈیٹا فارم مرتب کیا اور دینی مدارس کی پانچوں تنظیمات سے اس کی منظوری لی‘ لیکن پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ ہم بیسویں صدی کے آخری عشرے سے مذاکرات کے ہر سلسلے کا حصہ رہے ہیں‘ پوری تاریخ ہمیں ازبر ہے‘ افسرانِ والا شان تو بدلتے رہتے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:
حقیقتِ اَبدی ہے مقامِ شبیّری؍ بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی
مسئلے کا حل یہ ہے: فیصلے کا اختیار رکھنے والی شخصیات ہمارے ساتھ بیٹھیں‘ ہماری گزارشات سنیں‘ مسئلے کا حل نکل آئے گا‘ لیکن اُن کے دامِ تزویر میں نہ آئیں‘ جن کا اصل مشن اپنی کرسی بچانا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف تو ہم سے سو فیصد اتفاق کر چکے تھے‘ لیکن حقیقی فیصلے کا اختیار انہیں حاصل نہیں ۔ شاعرہ نے کہا ہے: ''بات تو سچ ہے‘ مگر بات ہے رسوائی کی‘‘۔ بصد ادب ان کا اختیار انگریزی کہاوت کے مطابق اس شوہر جیسا ہے‘ جس نے کہا تھا: میں اس گھر کا مالک ہوں اور یہ بات میں اپنی بیوی کی اجازت سے کہہ رہا ہوں۔
واضح رہے: اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم اور صحت کے محکموں کو مشترکہ فہرست سے نکال کر صوبوں کو منتقل کر دیا گیا ہے۔ ہر صوبے کا اپنا ٹیکسٹ بک بورڈ ہے‘ یہاں تک کہ پنجاب اور سندھ کے اپنے اپنے ہائر ایجوکمیشن ہیں‘ پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی طرح پرائیویٹ تعلیمی بورڈ بھی ہیں۔ وفاق کے تحت تو صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سکول‘ کالج آتے ہیں، ان کیلئے ایک ڈائریکٹوریٹ کافی ہے۔ وفاقی وزارتِ تعلیم اور اسکے تحت نوکر شاہی کا ایک بڑا سلسلہ قومی خزانے اور ملکی معیشت پر بوجھ ہے‘ کیونکہ یونیورسٹیاں خودمختار ہیں‘ ان کے اپنے سنڈیکیٹ ہیں‘ ہائر ایجوکیشن کمیشن بھی خود مختار ہے۔ پس وفاقی وزارتِ تعلیم کے تحت قائم مذہبی تعلیم کا بورڈ پورے ملک کا احاطہ کیسے کر سکتا ہے‘ جبکہ صوبائی نظم ونسق اُس کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے‘ یہ بات بااختیار لوگوں کو کیسے سمجھائی جائے۔
2005ء میں اتفاقِ رائے سے منظور کردہ سوسائٹیز ایکٹ 1860ء میں مدارس کی رجسٹریشن کیلئے جو سیکشن 21 کا اضافہ کیا گیا تھا‘ اُس میں دینی مدارس وجامعات یہ اقرار نامہ دینے کے پابند تھے: ''مدارس میں عسکریت‘ انتہا پسندی اور مذہبی منافرت کی تعلیم نہیں دی جائے گی‘ البتہ تقابلِ مسالک وادیان کی نظریاتی تعلیم اس سے مستثنیٰ ہے‘ کیونکہ یہ تعلیم یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں بھی دی جاتی ہے‘‘۔ دینی مدارس کا نصاب پونے تین سو سال سے چلا آ رہا ہے‘ جہادِ افغانستان اور اس کے بعد جو عسکریت اور انتہا پسندی کا رجحان پیدا ہوا‘ اس کا اس نصاب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اِکّا دُکّا انتہا پسندی کے واقعات یونیورسٹیوں میں بھی رونما ہو جاتے ہیں‘ مثلاً: کراچی یونیورسٹی میں چینی پروفیسر کا قتل یا اسلام آباد کی سرکاری یونیورسٹیوں میں قوم پرست طلبہ کا تصادم وغیرہ‘ اس کا مدارس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نیز مدارس کا ماحول ایک عرصے سے پُرسکون ہے‘ جبکہ سیاسی جماعتوں کا تصادم اور اس کے نتیجے میں اخلاقی زوال آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے سیاسی نفرتوں کو گھر گھر پہنچا دیا گیا ہے‘ خاندان سیاسی وابستگی کی بنیاد پر تقسیم اور افتراق کا شکار ہیں۔ ایسے میں مذہب ہی ایسی قوت ہے‘ جو لوگوں کو ایک لڑی میں پرو سکتی ہے‘ لہٰذا مذہبی تعلیم کا فروغ ہماری قومی اور ملّی وحدت کو قائم رکھنے کیلئے بے حد ضروری ہے۔ جب پرویز مشرف کے زمانے میں روزانہ کی بنیاد پر خودکش حملے ہو رہے تھے تو اُس وقت یہ راقم الحروف عاجز بندہ ہی تھا جس نے میڈیا کے سامنے آکر خودکش حملوں کے حرام ہونے کا فتویٰ ساٹھ سرکردہ علما کی تصدیق وتائید کے ساتھ جاری کیا۔ بعض علماء نے نتائج بھی بھگتے‘ لیکن ہمارے نظامِ حکومت وریاست میں وفا اور قدردانی کی قدریں ناپید ہیں۔ جب ذرا سکون ملتا ہے تو مدارس کی فکر لاحق ہو جاتی ہے ۔ اس مضمون میں درج حقائق پر پانچوں تنظیمات کے قائدین کا اتفاق ہے۔