اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا فیصلہ فرما دیں تو کسی مسلمان مرد اور عورت کا یہ حق نہیں بنتا کہ ان کا اس کام میں کوئی اختیار باقی رہے اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہوا‘‘ (الاحزاب: 36)۔ مولانا امین احسن اصلاحی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ''ظاہر ہے کہ جب رسول‘ خدا کی حاکمیتِ قانونی وتشریعی کا مظہر ہے تو کسی مسلمان مرد اور مسلمان عورت کیلئے اس امر کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ وہ رسول کی عدالت کو چھوڑ کر اپنے کسی معاملے کو فیصلے کیلئے طاغوت کی عدالت میں لے جائے۔ جو شخص ایسا کرتا ہے وہ اپنی جان پر بہت بڑا ظلم ڈھاتا ہے‘ اس لیے کہ فی الحقیقت یہ چیز خدا کی حاکمیت کا انکار اور بالواسطہ شرک اور کفر کا ارتکاب ہے‘‘ (تدبر قرآن‘ ج: 2‘ ص: 329)۔ پس چونکہ رسول اللہﷺ کی حیثیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے شارعِ مُجاز کی ہے‘ اس لیے آج کل کی عدالتوں کے قاضیوں کو آپﷺ کی ذاتِ عالی صفات پر قیاس نہیں کیا جا سکتا‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو اس امر کا مکلف بنایا تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علمِ وحی کی روشنی میں فیصلے کریں۔ قرآنِ کریم میں ہے: ''(اے رسولِ مکرم!) بیشک ہم نے آپ کی طرف حق کیساتھ کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ لوگوں کے درمیان اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم کی روشنی میں فیصلہ کریں اور آپ بددیانت لوگوں کے طرفدار نہ بنیں‘‘ (النسآء: 105)۔
اس آیت کے شانِ نزول میں علامہ جار اللہ زمخشری لکھتے ہیں: ''طُعمہ بن اُبیرق کا تعلق قبیلۂ بنی ظُفر سے تھا‘ اس نے اپنے پڑوسی قتادہ بن نعمان کی زرہ چوری کی جو آٹے کی ایک بوری میں تھی۔ راستے میں اُس بوری کے ایک شگاف سے آٹا گرتا رہا‘ اُس نے جا کر یہ بوری ایک یہودی زید بن سمین کے ہاں چھپا کر رکھ دی‘ گرے ہوئے آٹے سے کھوج لگاتے ہوئے وہ لوگ طُعمہ کے گھر پہنچے تو زرہ نہ پائی‘ اُس نے قسم کھائی کہ میں نے زِرہ نہیں لی اور مجھے اس کا علم بھی نہیں ہے۔ انہوں نے اُسے چھوڑ دیا اور گرے ہوئے آٹے سے کھوج لگاتے ہوئے اُس یہودی زید بن سمین کے گھر پہنچے اور اُسے پکڑ لیا‘ اُس نے کہا: یہ بوری طُعمہ نے لا کر میرے گھر میں رکھی ہے اور دوسرے یہودیوں نے بھی اس کی گواہی دی۔ بنی ظُفر نے کہا: ہمارے ساتھ رسول اللہﷺ کے پاس چلو‘ بنی ظُفر نے رسول اللہﷺ سے کہا: آپ اس الزام سے ہمیں بچائیں‘ اگر آپ نے یہ نہ کیا تو ہم رسوا ہو جائیں گے اور یہودی بری ہو جائے گا۔ پس اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو حقیقتِ حال سے مطلع فرمایا اور حکم دیا: آپ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علمِ وحی کی روشنی میں فیصلہ کریں اور اس بارے میں اپنے پرائے میں کوئی تمیز روا نہ رکھیں‘‘ (الکشاف‘ ج: 1‘ ص: 562)۔
الغرض ثابت ہوا کہ کسی قاضی یا جج کو رسول اللہﷺ پر قیاس کیا جا سکتا ہے‘ نہ اُسے یہ تقدیس حاصل ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے بذریعہ وحی رہنمائی ملتی ہے‘ اس لیے اس فرق کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہیے۔ علامہ ا بن قدامہ لکھتے ہیں: ''فریقِ مقدمہ اگر ہیر پھیر کرے تو قاضی کو اختیار ہے کہ اُسے جھڑکے اور اُس پر عتاب کرے‘ اگر اس کیلئے تعزیر یا قید مناسب سمجھتا ہے تو اسے تعزیر دے اور اگر فریقِ مقدمہ یہ کہے: ''آپ نے ناحق فیصلہ کیا ہے یا یہ کہ آپ نے رشوت لی ہے‘‘ تو قاضی اُس کی تادیب بھی کر سکتا ہے اور اسے معاف بھی کر سکتا ہے اور اگر مُدّعی اپنی بات قسم سے شروع کرے تو اُس کی بات کاٹ دے اور کہے: قسم ''مُدّعیٰ علیہ‘‘ پر ہے‘ اگر وہ پھر ایسا کرے تو اُسے جھڑک دے اور اگر وہ پھر اس کا اعادہ کرے تو مناسب سمجھتا ہے تو اُسے تعزیر دے‘ الغرض بے ادبی کی جو بھی صورت ہو‘ اُس کے مطابق رویہ اپنائے‘ وہ سزا بھی دے سکتا ہے اور معاف بھی کر سکتا ہے‘‘ (المغنی لابن قدامہ‘ ج: 10‘ ص: 39)۔
ہمارے ہاں المیہ یہ ہے: اعلیٰ عدالتوں کے چیف جسٹس صاحبان اور سپریم جوڈیشل کونسل نے ججوں کی تقرری پر اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ پارلیمنٹ کی ایک علامتی کمیٹی بنا رکھی ہے‘ لیکن ان میں سرتابی کی مجال نہیں ہے‘ وہ سب سرنگوں ہو کر توثیق کر دیتے ہیں۔ ایک موقع پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا: ''ہمارے بھیجے ہوئے ناموں کی توثیق کرو‘ ورنہ ہم وزیراعلیٰ اور کابینہ کو طلب کریں گے‘‘۔
امام احمد رضا قادری لکھتے ہیں: ''قاضی کو مُدّعی کی رضامندی کے بغیر قسط بندی کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے اور نہ قاضی کی قسط بندی کا شرعاً کوئی اعتبار ہے‘ بلکہ یہ ایک لغو اور ناقابلِ توجہ بات ہے۔ قاضی کا فرض ہے کہ جب اُس کے نزدیک دعویٰ ثابت ہو جائے تو فوراً اُس کے مطابق حکم دے‘ اگر تاخیر کرے گا‘ فاسق‘ معزول اور مستحق تعزیر ہو گا۔ قاضی کیلئے شرائط پائے جانے کے بعد ان صورتوں کے سوا فیصلہ کرنے میں تاخیر جائز نہیں ہے: (1) یہ کہ قرابت داروںمیں صلح کی امید ہو‘ (2) مُدّعی مہلت دینے کیلئے تیار ہو‘ '' الاشباہ‘‘ میں ہے: ''جب قاضی کے ہاں دعویٰ ثابت ہو جائے تو وہ حقیقت کے برعکس اپنی طرف سے کسی بات کا اضافہ نہ کرے‘‘۔ ''غمز العیون‘‘ میں ہے: ''قاضی پر لازم ہے کہ دعویٰ پر گواہی مل جانے پر فوراً اس کے مطابق فیصلہ کرے‘ اگر تاخیر کرے گا تو گنہگار ہوگا اور معزولی اور تعزیر کا مستحق ہو گا جیسا کہ ''جامع الفصولین‘‘ میں ہے‘‘ (فتاویٰ رضویہ‘ج: 18‘ ص: 470 تا 471‘ خلاصہ)۔
اس سے معلوم ہوا: قاضی اپنے کردار سے گنہگار بھی ہو سکتا ہے‘ اُسے معزول بھی کیا جا سکتا ہے اور تعزیر بھی دی جا سکتی ہے۔
علامہ نظام الدین لکھتے ہیں: ''اگر قاضی جان بوجھ کر ظالمانہ فیصلہ کرے اور اس بات کا اقرار بھی کرے تو مذکورہ تمام صورتوں میں غلطی کا ارتکاب کرنے اور مال کو ہلاک کرنے کے سبب اس پر تاوان لازم ہے اور ایک سنگین جرم کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے قاضی کو سزا بھی دی جائے گی اور اس کو منصب سے معزول بھی کر دیا جائے گا‘‘ (فتاویٰ عالمگیری‘ ج: 3‘ ص: 342)۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اوراُن کی جو تم میں سے صاحبانِ اختیار ہیں‘‘ (النسآء: 59)۔ اولوالامر کی تفسیر میں کئی اقوال ہیں‘ بعض مفسرین نے اس سے خلفاء‘ سلاطین اور قُضاۃ مراد لیے ہیں‘ اس کی تفسیر میں علامہ آلوسی حنفی فرماتے ہیں: ''بے شک اہلِ قضا کی اطاعت لوگوں پر اُسی وقت واجب ہے جب وہ حق پر قائم رہیں‘ پس اگر وہ شریعت کی مخالفت کریں تو ان کی اطاعت کرنا واجب نہیں ہے‘ چنانچہ کئی ائمہ حدیث نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے‘ حدیثِ پاک میں ہے: ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی بشر کی اطاعت جائز نہیں ہے‘‘۔ آپﷺ نے مجاہدین کا ایک دستہ روانہ کیا‘ اُن پر ایک انصاری صحابی کو امیر مقرر کرکے اُنہیں حکم دیا کہ وہ اُس کی بات سنیں اور اطاعت کریں۔ پھر وہ امیر کسی بات پر ساتھیوں سے ناراض ہو گیا اور اس نے حکم دیا: لکڑیاں جمع کرو‘ جب لوگوں نے لکڑیاں جمع کر لیں تو کہا: خوب آگ جلائو‘ پھر کہا: کیا تم لوگوں کو رسول اللہﷺ نے میری بات سننے اور میری اطاعت کا حکم نہیں دیا تھا‘ لوگوں نے کہا: یقینا دیا تھا‘ تو اس نے کہا: تم لوگ آگ میں داخل ہو جائو‘ لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے‘ پھر انہوں نے کہا: ہم تو جہنم کی آگ سے بچنے کیلئے رسول اللہﷺ کی پناہ میں آئے ہیں‘ یہ بات سن کر اس امیر کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور آگ بجھا دی گئی‘ پھر جب لوگ واپسی پر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ کے سامنے سارا ماجرا بیان کیا‘ تو آپﷺ نے فرمایا: اگر تم لوگ آگ میں داخل ہو جاتے تو اس سے نہ نکل پاتے‘ بیشک (امیر کی) اطاعت صرف اُسی بات میں ہے جو شریعت کے موافق ہو‘‘ (ابن ماجہ: 2863‘ روح المعانی: ج: 3‘ ص: 63)‘‘۔ (جاری)