"MMC" (space) message & send to 7575

موسمی تغیّرات کے اثرات …(حصہ اول)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز بنائی تو کیا وہ ایمان نہیں لاتے‘‘ (الانبیاء: 30)‘ (2) ''اور وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا‘ پھر اُس کے نسبی اور سسرالی رشتے بنائے اور آپ کا رب بڑی قدرت والا ہے‘‘ (الفرقان: 54)۔ اس سے معلوم ہوا کہ حیوانات‘ نباتات حتیٰ کہ زمین کی حیات کا مدار بھی پانی پر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور اُس کی نشانیوں میں سے یہ ہے: تم دیکھتے ہو کہ زمین بے جان پڑی ہے‘ پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ تروتازہ ہو کر لہلہاتی ہے اور ابھرتی ہے‘ بیشک جس نے اس بے جان زمین کو زندہ کیا ہے‘ وہی (قیامت کے دن) مردہ انسانوں کو بھی زندہ کرنے والا ہے‘ بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘ (حم السجدہ: 39)‘ (2) ''وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا‘ پھر ہم نے اس سے ہر قسم کی نباتات اگائی اور ہم نے اس سے سبزکونپل نکالی جس سے ہم ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے دانے نکالتے ہیں اور کھجور کے شگوفوں سے بھاری گچھے پیدا کیے جو جھکے جا رہے ہیں‘ انگور‘ زیتون اور انار کے باغات اگائے‘ جن کے پھل ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں اور مختلف بھی‘ یہ درخت جب پھل دیں تو اس کے پھلوں کو اور ان کا پکنا دیکھو‘ بیشک ضرور اس میں ایمان والوں کیلئے نشانیاں ہیں‘‘ (الانعام: 99)۔
پس اسی سبب جب سائنسدان کسی نئے سیارے کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ان کی جستجو کا پہلا ہدف یہ ہوتا ہے کہ وہاں پانی ہے یا نہیں‘ کیونکہ اگر پانی ہے تو وہاں حیات متصور ہو سکتی ہے اور اگر پانی نہیں ہے تو اس سیّارے پر حیات متصور نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس نعمت کو فراوانی کے ساتھ عطا فرمایا ہے اور اپنی مخلوق کو پانی مہیا کرنے کے لیے بہترین انتظام فرمایا ہے‘ سمندروں کی صورت میں پانی کے وافر ذخائر عطا کیے‘ دریائوں اور نہروں کی صورت میں میٹھے پانی کا بندوبست فرمایا‘ زیر زمین پانی کی ایک بڑی مقدار رکھ دی اور اس کو نکالنے کے لیے اپنے بندوں کی رہنمائی کی‘ کنوئوں کی صورت میں وہ اس نعمت سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ان سب ذرائع میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے بارش کا نظام بنایا‘ گویا بارش اس نعمت کی فراہمی کا سب سے بہترین ذریعہ ہے‘ جس کا مشاہدہ ہم اپنی زندگی میں کرتے ہیں‘ بارش ایک مربوط نظام ہے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ہے۔ سورج کی گرمی سے پانی بخارات میں تبدیل ہوکر بادل بن جاتے ہیں‘ پھر یہ بادل ہوائوں کے دوش پر سفر کرکے حسب ضرورت برس جاتے ہیں‘ اس سے انسانوں اور دیگر مخلوقات کی پانی کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''(بھلا بتائو تو سہی) آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمان سے پانی کس نے اتارا!‘ پس ہم نے اس سے بارونق باغات اگائے! تم میں یہ طاقت نہ تھی کہ تم ان (باغات) کے درخت اگاتے‘ کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود ہے‘ (نہیں) بلکہ وہ لوگ راہ راست سے تجاوز کر رہے ہیں‘‘ (النمل: 60)‘ (2) ''وہی ہے جو لوگوں کے مایوس ہونے کے بعد بارش نازل فرماتا ہے اور اپنی رحمت پھیلاتا ہے اور وہی کارساز ہر تعریف کے لائق ہے‘‘ (الشوریٰ: 28)‘ (3) ''بھلا بتائو کہ جس پانی کو تم پیتے ہو‘ کیا تم نے اس کو بادلوں سے اتارا ہے یا ہم اتارنے والے ہیں‘ اگر ہم چاہیں‘ تو اس (پانی کو) سخت کڑوا بنا دیں‘ تو پھر تم کیوں شکر ادا نہیں کرتے‘‘ (الواقعۃ: 68 تا 70)۔ بارش کے نظام کی بابت بھی قرآنِ کریم نے تفصیلات بیان کی ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور وہی ہے جو بارانِ رحمت سے پہلے خوشخبری دینے والی ہوائوں کو بھیجتا ہے‘ یہاں تک کہ جب وہ پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھا لیتی ہیں تو ہم اُنہیں کسی مردہ زمین کی طرف چلا دیتے ہیں اور وہاں اُن کے ذریعے بارش برسا دیتے ہیں‘ پھر اس سے ہر طرح کے پھل پیدا کرتے ہیں‘ اسی طرح ہم (آخرت میں) مردوں کو (زندہ کر کے) اٹھائیں گے‘ شاید کہ تم نصیحت حاصل کرو‘ جو زمین اچھی ہوتی ہے وہ اپنے پروردگار کے حکم سے خوب پیداوار نکالتی ہے اور جو زمین ناقص ہوتی ہے‘ اس کی پیداوار بھی ناقص ہوتی ہے‘ ہم اسی طرح شکرگزار بندوں کے لیے اپنی نشانیاں بار بار ظاہرکرتے ہیں‘‘ (الاعراف: 57 تا 58)۔
غور کا مقام ہے کہ انسان سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی اپنی طاقت سے چند گیلن پانی فضا میں معلق نہیں رکھ سکتا‘ ہمیں چند سو گیلن پانی بھی بلندی پر درکار ہو تو اس کے لیے بالائی ٹینک بنانا پڑتے ہیں‘ جن کو ستونوں کے سہارے ہم بلندی پر ٹھہراتے ہیں۔ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بے پایاں قدرت کا مظہر ہے کہ وہ کسی سہارے کے بغیر بادلوں کے پہاڑوں کی صورت میں ہزاروں لاکھوں ٹن گیلن پانی فضا میں معلّق فرما دیتا ہے۔ پھر جدھر اُس کا حکم ہوتا ہے‘ ہوائیں اُن بادلوں کو دھکا دے کر لے جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے‘ اُن بادلوں کو برسا دیتا ہے۔ پانی سے جل تھل لدے ہوئے بادلوں کو قرآنِ کریم نے 'سَحابِ ثِقال (بھاری بادلوں)‘ سے تعبیر فرمایا ہے اور اللہ جہاں برسانا چاہتا ہے‘ وہ ہوائیں اُن بادلوں کو پوری قوت سے چلا کر وہاں لے جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور ہم نے بادلوں کا بوجھ اٹھانے والی ہوائیں بھیجیں‘ پھر ہم نے آسمان سے بارش برسائی‘ سو ہم نے تمہیں وہ پانی پلایا‘ حالانکہ تم اس پانی کا ذخیرہ کرنے والے نہ تھے‘‘ (الحجر: 22)۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فضائوں میں ان بادلوں کے اندر لاکھوں ٹن پانی ہماری قدرت سے جمع ہوتا ہے اور معلّق رہتا ہے‘ وہ تہہ درتہہ پہاڑوں کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ یہ سب کچھ کائنات میں کارفرما اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام کے تحت عمل میں آتا ہے‘ ان کو کہاں سے اٹھانا ہے‘ کہاں لے جانا ہے اور کہاں برسانا ہے‘ یہ سب فیصلے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہوتے ہیں اور وہ اپنی حکمتوں کو بہتر جاننے والا ہے۔ عربی شاعر نے کہا ہے‘ ترجمہ: ''اور جب تم پر بارش برسائی جاتی ہے تو یہ (ہمیشہ) اس سبب سے نہیں ہوتا کہ تو خشک سالی کا شکار ہے‘ کبھی بارش سرسبز وشاداب زمین پر اور کبھی سمندروں پر بھی برس جاتی ہے‘‘۔ اس میں انسان کی منصوبہ بندی کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ محکمۂ موسمیات بعض اوقات پیشگوئی کرتا ہے کہ تند وتیز ہوائیں بحیرۂ عرب میں سمندر کی موجوں کو اتنی رفتار سے اٹھائے چل رہی ہیں اور وہ اتنے گھنٹوں کے بعد فلاں ملک کے ساحل سے جا ٹکرائیں گی۔ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ راستے میں ہوائوں کا رُخ بدل جاتا ہے اور سمندری موجیں کسی اور جانب مڑ جاتی ہیں یا سمندر میں تحلیل ہو جاتی ہیں۔ موسمیات والے ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنے مشاہدات پر مبنی رپورٹیں دیتے ہیں‘ لیکن نظامِ قدرت پر اُن کا کنٹرول نہیں ہوتا‘ جیسے گاڑی میں جو شخص ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہے‘ یہ اُس کے اختیار میں ہوتا ہے کہ گاڑی کو آگے لے جائے‘ پیچھے لے جائے‘ دائیں موڑے‘ بائیں موڑے یا روک دے‘ سو اس نظام کی ڈرائیونگ سیٹ اللہ تعالیٰ کے دستِ قدرت میں ہے۔
اقوام متحدہ کے موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کی ایک پورٹ کے مطابق تین بڑی گرین ہاؤس گیسیں زمین کی ماحولیاتی سطح کو گرم کر رہی ہے۔ ان میں کاربن ڈائی آکسائیڈ‘ میتھین اور نائٹروس آکسائیڈ شامل ہیں‘ ان کی فضا میں مقداربہت زیادہ ہو گئی ہے۔ 40 سال پہلے ماحول میں ایسی گیسوں کی مقدار جانچنے کے باقاعدہ عمل کی شروعات کے بعد میتھین کے ارتکاز میں سال بہ سال ہونے والا اضافہ اب بلند ترین سطح پر ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں اضافہ بھی گزشتہ دہائی میں ہونے والے اوسط سالانہ اضافے سے کہیں زیادہ ہے اور اس میں یہ اضافہ مسلسل جاری ہے۔ 1990ء اور 2021ء کے درمیان ہمارے موسم پر فضا میں طویل عرصہ سے موجود رہنے والی گرین ہاؤس گیسوں سے جنم لینے والی گرمی کا اثر 50 فیصد بڑھ گیا ہے‘ اس کا سب سے بڑا سبب کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ ہے۔ جب تک گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج جاری ہے‘ اس وقت تک عالمی درجۂ حرارت میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں