بھارت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جی ڈی پی کے اعتبار سے اُس کی معیشت کا حُجم دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے جبکہ پاکستان بیالیسویں نمبر پر ہے۔ بھارت کی آبادی تقریباً ڈیڑھ ارب ہے‘ جو پاکستان کی آبادی کا چھ گنا ہے‘ اسی طرح بھارت کا رقبہ بھی پاکستان سے تقریباً چار گنا زائد ہے‘ اُس کی معیشت مستحکم ہے۔ چین دشمنی کی وجہ سے وہ امریکہ اور مغربی ممالک کا محبوب ہے‘ جمہوری تسلسل بھی ہے۔ اس لیے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی تکبر‘ نَخوت اور گھمنڈ میں مبتلا تھے۔ اُنکے میڈیا کے لوگوں کا حال اُس سے بھی دس درجے آگے تھا۔ اُن کے ٹی وی میزبان اور تبصرہ کار اپنی خیالی دنیا میں پاکستان کو فتح کر چکے تھے۔ فارسی کا مقولہ ہے: تدبیر کند بندہ‘ تقدیر زند خندہ‘ یعنی بندہ اپنی چالیں چلتا ہے اور اللہ کی تقدیر اُس کے بنے ہوئے تانے بانے کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے۔ بھارت نے پہلگام میں دہشت گردی کا واقعہ رونما ہونے کے دس منٹ کے اندر کسی تحقیق کے بغیر الزام پاکستان کے سر تھوپ دیا اور ایف آئی درج کرا دی۔ گویا خود ہی مدعی‘ خود ہی گواہ اور خود ہی مُنصف بن گئے اور سزا بھی خود ہی تجویز کر دی۔ شاعر نے کہا ہے:
وہی قاتل وہی شاہد وہی منصف ٹھہرے
اقربا میرے کریں قتل کا دعویٰ کس پر
وزیراعظم پاکستان نے فراخدلانہ پیشکش کی کہ غیر جانبدار ماہرین سے تحقیق کرا لی جائے‘ اُن کے سامنے شواہد پیش کیے جائیں اور ثابت کیا جائے کہ اس کا ذمہ دار پاکستان ہے‘ ہم پورا تعاون کریں گے۔ پاکستان بلوچستان اور پختونخوا میں خود بڑے پیمانے پر دہشتگردی کا شکار ہے اور دہشتگردی کے اس جال کے تانے بانے بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ سے ملتے ہیں‘ پاکستان کے پاس اس کے شواہد بھی موجود ہیں‘ کلبھوشن یادو پاکستان کی تحویل میں ہے اور اعترافِ جرم بھی کر چکا ہے۔ جعفر ایکسپریس سانحہ کے ذمہ دار بی ایل اے کے دہشتگردوں کے رابطے بھارتی میڈیا کیساتھ تھے‘ اس واقعے کے رونما ہوتے ہی بھارتی میڈیا فعال ہو گیا اور دہشتگردوں کے انٹرویو‘ اوردعوے نشر کرنا شروع کر دیے‘ اس سے بڑھ کر شہادت اور کیا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ کا بے حد وبے حساب شکر کہ جب پاک بھارت جنگ میں 10 مئی کو پاکستانی وقت کے مطابق شام ساڑھے پانچ بجے امریکہ کی ثالثی سے جنگ بندی ہوئی تو پاکستان برتر پوزیشن میں تھا اورنئی روایت قائم کر دی کہ پاکستان نے غلبے کی پوزیشن میں جنگ بندی قبول کی ہے۔ سی این این کے نمائندے نِک رابرٹسن نے کہا: ''پہلے بھارت جنگ بندی پر تیار نہیں تھا‘ اُس نے پاکستان پر حملہ کرنے میں پہل کی‘ لیکن جب پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے میزائلوں کی بارش برسا دی اور بیک وقت بھارت کے 26 دفاعی مراکزکو نشانہ بنایا تو یہ بھارت کیلئے ایک ڈرائونا خواب ثابت ہوا‘ اُس نے جنگ بندی کے لیے امریکہ سے رابطہ کیا اور امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور وزیر خارجہ ومشیرِ سلامتی مارکو روبیو نے ثالثی کی کوششیں شروع کیں‘ سعودی عرب کو بھی بیچ میں ڈالا اور آخرکار پاکستان کی بالادست پوزیشن کے ساتھ بھارت جنگ بندی پر مجبور ہوا۔ بھارتی سیکرٹری داخلہ وکرم مسری نے میڈیا پر آکر جنگ بندی کا اعلان کیا اور صحافیوں کے سوالوں کا جواب دینے سے گریز کیا۔ اس سے حقیقی صورتحال کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کل بھارتی رہنمائوں کے چہروں کے تاثرات اور بدن بولی اندر کی صورتِ حال کی عکاس تھی۔
پاکستان کی اس برتری نے مغرب کو بھی حیرت زدہ کر دیا ہے‘ خاص طور پر فرانس کی رافیل طیارہ ساز انڈسٹری ڈَسالٹ کی ساکھ کو بہت متاثر کیا‘ کیونکہ یہ جیٹ لڑاکا طیارہ دنیا کے کئی ملکوں کے پاس ہے‘ سٹاک مارکیٹ میں اُس کے حِصَص کے دام گر گئے اور J10-C ایئر کرافٹ بنانے والی چینی کمپنی ''چنگ ڈو ایئرکرافٹ کارپوریشن‘‘ کے حِصَص کی قیمت اٹھارہ فیصد بڑھ گئی۔ ابھی یہ تجزیہ باقی ہے کہ رافیل طیارے کم معیاری ثابت ہوئے یا بھارتی پائلٹ ناپختہ اور کم ہمت نکلے اور وہ قوتِ فیصلہ سے عاری تھے یا پاکستانی ہوا بازوں نے غیر معمولی جرأت‘ استقامت‘ حاضر دماغی اور بروقت اقدام کا ثبوت دیا۔
یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ چین کا سائبر اور الیکٹرانک معیار بہت اعلیٰ ہے‘ انہوں نے رافیل طیاروں کے سسٹم کو جام کر دیا۔ حقیقی صورتِ حال کیا بنی‘ شاید اس کی بابت ماہرین کی تجزیاتی رپورٹیں کچھ عرصے بعد منظرِ عام پر آئیں گی۔ اسی طرح پاکستانی میزائل الفتح‘ اس کے الیکٹرانک سسٹم اور ہدف کے تعاقب کی صلاحیت نے بھی سب کو حیران کر دیا‘ نیز بھارت نے اربوں ڈالر کا جو روسی ساختہ زمین سے فضا میں مار کرنے والا S-400 ایئر ڈیفنس سسٹم خریدا تھا‘ اُسے بھی ناکارہ بنا دیا۔ بلاشبہ یہ جنگی تاریخ کی غیر معمولی کامیابی ہے۔ ہماری بہادر برّی‘ فضائی اور بحری افواج پوری قوم کی مبارکباد کی مستحق ہیں۔ انہوں نے پوری دنیا میں پاکستان کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے اور دشمن پر دھاک بیٹھ گئی ہے۔ یہ رسول اللہﷺ کی اس دعا کا مظہر بنے: ''اے اللہ! دشمن کے دلوں میں ہمارے مجاہدین کا رعب بٹھا دے‘ اُن کے قدموں کو ڈگمگا دے‘ اے اللہ! دشمن کی چالوں میں اُن کی ہلاکت کے اسباب مقدر فرما‘ اے اللہ! ہم تجھے اُن کے مقابل کرتے ہیں اور اُن کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں‘‘۔
بھارتی افواج نے پاکستان کے خلاف اپنے فوجی آپریشن کا نام ''سندور‘‘ رکھا‘ یہ نسوانیت اور نزاکت کی علامت ہے‘ پس اُن کی کارکردگی بھی ایسی ہی رہی۔ اس کے برعکس پاکستانی مسلّح افواج نے بھارت کے خلاف اپنے فوجی آپریشن کا نام قرآنِ کریم کی آیۂ مبارکہ سے اکتسابِ فیض کرتے ہوئے ''بُنْیَانٌ مَّرْصُوْص‘‘رکھا‘ اس کے معنی ہیں: ''سیسہ پلائی ہوئی دیوار‘‘ اور الحمدللہ ! ہماری مسلّح افواج سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئیں۔ جب انہوں نے 10مئی کو نمازِ فجر کے وقت حملہ شروع کیا اور بیک وقت بھارت کے 26 دفاعی مراکز پر الفتح ایک اور دو میزائلوں کی بارش برسا دی‘ اس نے بھارت کے اوسان خطا کر دیے‘ کوئی مزاحمت کے آثار سامنے نہ آئے۔
رسول اللہﷺ کی سنّت بھی یہی ہے کہ آپﷺ رات کے پچھلے پہر یا علی الصباح دشمن پر حملہ کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو اُس کی راہ میں مجاہدین اس قدر پسند ہیں کہ اُن کی ادائوں کی قسم فرماتا ہے۔ سورۃ العادیات: 1 تا 5 میں ہے: ''(میدانِ جہاد میں مجاہدین کے) ہانپتے ہوئے تیزی سے دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم۔ جو پتھر پر اپنے سُموں کی رگڑ سے چنگاریاں اڑاتے ہیں۔ جو علی الصبح دشمن پر حملہ کرتے ہیں۔ پھر (اپنے قدموں سے) غبار اڑاتے ہیں۔ پھر وہ دشمن کی صفوں میں گھس جاتے ہیں‘‘۔ جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مجاہد کے گھوڑوں کی یہ شان ہے کہ خالقِ کائنات اُن کی مختلف صفات اور ادائوں کی قسم فرماتا ہے تو اُس کی بارگاہ میں خود مجاہد کا مقام کیا ہوگا۔
جنگ میں یقینا سپاہ لڑتے ہیں‘ لیکن وہ سپہ سالار اور جنرل جو جنگ کی حکمتِ عملی بناتے ہیں‘ اپنی سپاہ کو حوصلہ دیتے ہیں‘ اُن کے اندر قربانی کا جذبہ پیدا کرتے ہیں‘ اپنی ذات کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں‘ اُن کا بھی بڑا کردار ہوتا ہے‘ اس لیے فتح کا سہرا سپاہ کے ساتھ ساتھ سپہ سالار کے سر باندھا جاتا ہے۔ ماشاء اللہ! ہماری تینوں مسلّح افواج کے سپہ سالار؛ چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر‘ چیف آف ایئر سٹاف ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو اور چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل نوید اشرف نے دنیا سے اپنے آپ کو منوا لیا۔ ایئرفورس کے شاہینوں نے تو دشمن پر اپنی دھاک بٹھا دی۔ چیف آف آرمی سٹاف نے اعلیٰ قیادت‘ مضبوط اعصاب‘ قوتِ فیصلہ اور عزیمت واستقامت کا ثبوت دیا‘ ان سب نے اپنے آپ کو تاریخ میں امر کر دیا ہے اور بلاشبہ حکومتِ پاکستان نے بھی پہلی بار سفارتکاری کے میدان میں بھارت کو پیچھے چھوڑا اور اُسے عالمی برادری میں تنہا کر دیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اُس کا موقف معقولیت پر مبنی نہیں تھا۔