"MMC" (space) message & send to 7575

توفیقِ باری تعالیٰ

ہم ہمیشہ اپنے خیر کے کاموں کیلئے اللہ تعالیٰ سے توفیق طلب کرتے ہیں۔ توفیق کے معنی ہیں: ''کسی مقصدِ خیر کیلئے قدرت کی طرف سے اسباب کو سازگار بنا دینا‘ موافق بنا دینا‘ رکاوٹوں کو رفع اور دفع کرنا‘‘۔ حالیہ پاک بھارت جنگ میں اللہ تعالیٰ کی توفیقات وعنایات شامل رہیں اور پاکستان کو ہرلحاظ سے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن پر برتری نصیب ہوئی۔ یہ ایسی واضح برتری تھی کہ بھارت کے تمام تر مکر وفریب‘ جھوٹ اور غلط خبروں پر مشتمل پروپیگنڈا کے باوجود دنیا نے پاکستان کی واضح برتری کو تسلیم کیا‘ خاص طور پر پاکستانی فضائیہ کی برتری بہت واضح اور نمایاں رہی۔ دنیا ابھی تک اس کے حقائق کو جاننے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس جنگ کے بارے میں بھارت کے دعووں کو دنیا نے تسلیم نہیں کیا اور جنگ کا غبار تھم جانے کے بعد خود بھارت کے اہلِ فکر ونظر اپنی حکومت سے سوال کر رہے ہیں‘ حقائق بتانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ناکامی کے اسباب دریافت کر رہے ہیں‘ مگر بھارتی حکومت کے پاس کوئی اطمینان بخش جواب نہیں ہے۔
ہماری 78 سالہ تاریخ میں پہلی بار سفارتی میدان میں بھی پاکستان کو واضح برتری نصیب ہوئی۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ پاکستان کا مؤقف حق پر مبنی تھا اور دوسرا یہ ہے کہ پاکستان کے دعوے حقیقت پر مبنی یا حقیقت سے قریب تر تھے۔ اس لیے 67 رکنی بھارتی سفارتی وفد کے مقابلے میں امریکہ‘ برطانیہ اور یورپی یونین میں پاکستان کو زیادہ پذیرائی ملی۔ بھارت کی کوشش تھی کہ پاکستان پر ریاستی دہشت گردی کا الزام لگایا جائے اور اس سلسلے میں امریکہ اور مغربی دنیا اس کی ہمنوا ہو‘ مگر اس میں بھی اُسے شدید ناکامی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔
11 جون 2025ء کو مسلّح افواج سے متعلق امریکی سینیٹ کی کمیٹی میں بیان دیتے ہوئے امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل ایرک کوریلا نے کہا: ''پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم اور قابلِ اعتماد شراکت دار ہے‘ پاکستان کا انسدادِ دہشت گردی میں مثبت اور فعال کردار عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا: ''پاکستان کے قریبی انٹیلی جنس تعاون کی بدولت داعش خراسان کے کئی دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا اور پانچ انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا ہے‘‘۔ نیزکابل میں ایبے گیٹ بم دھماکے کے منصوبہ ساز شریف اللہ عرف جعفر کی گرفتاری اور امریکہ کو سپردگی کا بھی انہوں نے حوالہ دیا۔ واضح رہے کہ صدرِ امریکہ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے سو دن مکمل ہونے پر کانگرس سے خطاب میں پاکستان کا اس حوالے سے شکریہ بھی ادا کیا تھا اور پاکستان کو عظیم قوم قرار دیا تھا۔ جنرل کوریلا نے کہا: ''پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے سب سے پہلے مجھے فون کیا اور کہا: صدرِ امریکہ اور وزیر خارجہ کو بتا دیں‘ میں شریف اللہ کو امریکہ کے حوالے کرنے کیلئے تیار ہوں‘‘۔ جنرل کوریلاسے سینیٹ کی کمیٹی میں سوال ہوا: ''پاکستان سے قربت کا بھارت سے تعلقات پر اثر تو نہیں پڑے گا؟‘‘ انہوں نے کہا: ''ہرگز نہیں! ہم اپنے قومی اور ملکی مفاد میں دونوں سے بہتر تعلقات رکھ سکتے ہیں‘ یعنی پاکستان کی قیمت پر بھارت سے تعلقات استوار رکھنا ہماری مجبوری نہیں ہے‘ ہماری اپنی ترجیحات ہیں‘‘۔
پاک بھارت جنگ بندی کے حوالے سے صدرِ امریکہ متعدد مرتبہ اس کا کریڈٹ لے چکے ہیں اور پاکستان کی تعریف بھی کرتے رہے ہیں‘ جبکہ بھارت جنگ بندی میں امریکہ کے کردار کی پہلے تو نفی کرتا رہا اور پھر وزیرِ خارجہ نے اعتراف کیا مگر یہ تسلیم کرنے میں انہیں عار محسوس ہو رہی ہے کہ بھارت نے جنگ بندی کیلئے امریکہ سے رابطہ کیا تھا۔ اسی طرح 11 جون 2025ء کو امریکی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے پریس بریفنگ کے دوران پاک بھارت کشیدگی اور جنگ بندی کے حوالے سے بات کی‘ انہوں نے کہا: ''یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان اور بھارت جنگ بندی کو برقرار رکھنے کیلئے سنجیدہ اور پُرعزم ہیں‘ انہوں نے صدر ٹرمپ کے اس عزم کو دہرایا کہ وہ پاک بھارت تنازعات خاص طور پر مسئلۂ کشمیر کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے خواہشمند ہیں اور انہیں یقین ہے کہ صدر ٹرمپ دونوں ممالک کے دیرینہ اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرسکتے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا: ''امریکہ دونوں ممالک کے ساتھ رابطے میں ہے اور خطے میں امن واستحکام کیلئے ذمہ دارانہ اقدامات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے‘‘۔ اُن سے سوال ہوا: ''صدر ٹرمپ کے ذہن میں اس قضیے کے حل کا فارمولا کیا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: ''میں یہ تو نہیں جان سکی کہ صدر ٹرمپ کے ذہن میں اس حوالے سے کیا فارمولا زیرِ غور ہے‘ لیکن یہ مجھے معلوم ہے کہ صدر کو دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کے حل اور امن کے قیام میں بے حد دلچسپی ہے اور وہ یہ کارنامہ انجام دے سکتے ہیں‘‘۔ اس طرح کے بیانات سے مودی کے دل پر براہِ راست چوٹ لگتی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ از سرِ نو زندہ ہوگیا ہے اور امریکہ پاکستان اور بھارت کو برابر کی سطح پر دیکھ رہا ہے۔ اسے انگریزی میں Blessing in disguise اور فارسی میں ''عدوّ شرّے بر انگیزد کہ خیر ما دراں باشد‘‘ کہتے ہیں‘ یعنی دشمن نقصان پہنچانے کیلئے کوئی چال چلتا ہے اور اللہ تعالیٰ اُس سے خیر برآمد فرما دیتا ہے‘ اسی کو ''توفیقاتِ بے غایات‘‘ کہتے ہیں۔
یہ سب جو سطورِ بالا میں بیان ہوا‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسباب کو سازگار بنانے کا نتیجہ ہے‘ کیونکہ وہی دلوں کو پھیرنے والا ہے‘ اسی لیے رسول اللہﷺ کی دعائے مبارک ہے: ''اے اللہ! میں تیری رحمت پر یقین رکھتا ہوں‘ تو مجھے پلک جھپکنے کے برابر بھی میرے نفس کے سپرد نہ فرما‘ میرے تمام کاموں کو درست فرما دے‘ تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں‘‘ (سنن ابودائود: 5090)۔ فرعون اور اس کی قوم سے مکالمہ کرتے ہوئے قرآنِ کریم نے موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے احوال کے بیان کے تسلسل میں اسی مفہوم پر مشتمل قومِ فرعون کے ایک مردِ مومن کا قول نقل کیا ہے: ''اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں‘ بے شک اللہ بندوں (کے احوال)کو خوب دیکھنے والا ہے‘‘ (المومن: 44)۔
امریکی صدر ٹرمپ اور اُن کے دوست اور معاون ایلون مَسک میں گاڑھی چھنتی تھی‘ ایلون مسک نے صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم میں بھاری مالی مدد کی تھی‘ انتخاب جیتنے کے بعد ٹرمپ نے ایلون مسک کو وائٹ ہائوس میں''حکومتی حسنِ کارکردگی کا محکمہ‘‘ (Department of Govt. Efficiency) کا شریک سربراہ مقرر کیا تھا‘ یہ وائٹ ہائوس میں باقاعدہ محکمہ تو نہیں ہے‘ بلکہ ایک عارضی مشاورتی گروپ ہے اور اس کا مقصد حکومتی اخراجات کم کرنا‘ ضوابطِ کار کو آسان بنانا اور وفاقی ایجنسی کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے۔ مسک اس ادارے کو ویوک راما سوامی کے ساتھ مل کر چلا رہے تھے۔ لیکن ان کی دوستی کو کسی کی نظر لگ گئی اور اچانک ان میں دوریاں پیدا ہو گئیں‘ ٹرمپ نے مسک کو برطرف کر دیا اور مسک نے ٹرمپ کے خلاف اپنے ایکس اکائونٹ پر انتہائی خطرناک پوسٹیں لگا دیں‘ ٹرمپ نے بھی جواب میں انتہائی سخت پوسٹیں لگائیں‘ اُسے دیوانہ قرار دیا اور اس کے صنعتی اداروں کو دیے گئے حکومت کے ٹھیکے منسوخ کرنے کی دھمکی دی۔ ٹرمپ کو اقتدار اور دولت کا خمار چڑھا ہوا تھا اور مسک کو دولت کا خمار چڑھا ہوا تھا‘ لیکن جلد ہی دونوں کا خمار اتر گیا اور بانس سے اتر آئے۔ مسک نے اپنے کیے پر ندامت کا اظہار کیا اور ٹرمپ نے اسے قبول کر لیا‘ یعنی ان دونوں کو حقیقت کی طرف آنے میں دیر نہیں لگی اور دونوں کا مفاد اسی میں تھا۔ ہمارے ایک مقبول رہنما کیلئے ایک مثال موجود ہے کہ اگر کوئی پالیسی یا حکمتِ عملی کارگر ثابت نہ ہو تو اس سے چمٹے رہنے سے بدرجہا بہتر ہے کہ متبادل اچھے نتائج کی حامل حکمتِ عملی اختیار کی جائے‘ اسی کو وہ ''یوٹرن‘‘ کہا کرتے تھے۔ ٹرمپ سے ایک بار انہیں سیکھنے کی ضرورت ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں