"MMC" (space) message & send to 7575

فلسطین کا مسئلہ اصول کا ہے!

سب سے پہلے ہم انٹرنیٹ سے حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں ''ابراہیمی معاہدے‘‘ کے خدوخال بیان کر رہے ہیں: معاہدۂ ابراہیمی (Abraham Accord) ایک تاریخی سفارتی معاہدہ ہے جو 2020ء میں اسرائیل اور کئی عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے کیا گیا۔ اسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں ترتیب دیا گیا اور اس کا نام ابراہیم علیہ السلام کے نام پر رکھا گیا‘ جو اسلام‘ یہودیت اور مسیحیت سب کیلئے مرکزِ عقیدت ہیں۔ یہ معاہدہ شرقِ اوسط میں امن‘ تعاون اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کیلئے قائم کیا گیا تھا‘ اس معاہدے کی تفصیلات یہ ہیں:15 ستمبر 2020ء کو واشنگٹن ڈی سی میں متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے پر دستخط کیے۔ دوسرے مرحلے پر سوڈان اور مراکش نے بالترتیب اکتوبر اور دسمبر 2020ء میں اس معاہدے پر دستخط کیے‘ تاہم سوڈان کا معاہدہ 2024ء تک مکمل طور پر نافذ نہیں ہو سکا۔ یہ معاہدہ ٹرمپ انتظامیہ کی سرپرستی میں ہوا‘ اس میں صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کُشنر نے اہم کردار ادا کیا۔ معاہدے کے اہم نکات حسب ذیل ہیں:
(1) معاہدے کے تحت متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل میں اپنے سفارتخانے قائم کرنے اور سفارتی تبادلے شروع کرنے پر اتفاق کیا۔ (2) تجارت‘ سیاحت‘ صحت‘ ٹیکنالوجی‘ توانائی‘ دفاع اور ثقافتی شعبوں میں تبادلے اور تعاون کو فروغ دینے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اس کی رُو سے مسلمانوں کو یروشلم میں واقع اسلام کے تیسرے مقدس مقام مسجدِ اقصیٰ کے دورے اور پُرامن عبادت کی اجازت دینے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ چونکہ اس معاہدے میں فلسطین‘ اسرائیل تنازع کے حل کے بارے میں کوئی ٹھوس پیشرفت یا لائحہ عمل شامل نہیں ہے‘ اسی وجہ سے عرب دنیا میں اس کو عام پذیرائی نہیں ملی۔ اس میں شرقِ اوسط میں امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے‘ خاص طور پر بین المذاہب مکالمے اور تعاون کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اس کا ایک مقصد ''مری تعمیر میں مُضمَر ہے ایک صورت خرابی کی‘‘ کے مصداق ایران کے اثر ورسوخ کو کم کرنے کیلئے اسرائیل اور سُنی عرب ممالک کے درمیان تعاون کا قیام ہے۔معاہدہ کرانے والوں کے دعوے کے مطابق خطے میں تقریباً 40 لاکھ نئی ملازمتوں اور ایک کھرب ڈالر کی اقتصادی سرگرمیوں کی توقع قائم کی گئی ہے۔ اس معاہدے کے بعد متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین براہِ راست پروازیں شروع ہوئیں اور ویزے کی شرط ختم کر دی گئی۔ 2023ء میں تقریباً تین ارب ڈالر کی سالانہ تجارت ہوئی۔ دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والے ممالک کی فہرست سے سوڈان کو نکالا گیا اورایک ارب ڈالر سے زائد قرض کی سہولت فراہم کی گئی۔ مراکش نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے اور بدلے میں امریکہ نے مغربی صحارا پر مراکش کے دعوے کو تسلیم کیا۔ جولائی 2025ء میں یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ ٹرمپ انتظامیہ اپنے موجودہ دور میں اس معاہدے میں شام‘ لبنان اور سعودی عرب کو شامل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اعتماد سازی کے اقدام کے طور پر شام کی نئی حکومت پر سے امریکی پابندیوں کو اٹھا لیا گیا ہے۔ متحدہ عرب امارات‘ بحرین اور دیگر دستخط کنندہ ممالک نے معاہدے کو خطے کے استحکام اور اقتصادی ترقی کیلئے اہم قرار دیا ہے۔ تاہم عالمِ عرب میں عوامی سطح پر اس معاہدے کو پذیرائی نہیں ملی کیونکہ اس میں تنازعِ فلسطین کا حل شامل نہیں ہے۔ فلسطینیوں نے اسے ''غداری‘‘ اور''فلسطینی حقوق سے دستبرداری‘‘ کے مماثل قرار دیا ہے۔
سعودی عرب نے معاہدے کی حمایت کی ہے‘ لیکن ابھی تک اس میں باضابطہ طور پر شامل نہیں ہوا۔ 2023ء کے حماس حملوں کے بعد سعودی عرب نے فلسطینی ریاست کے قیام کو تعلقات معمول پر لانے کیلئے بنیادی شرط قرار دیا ہے۔ ایران نے معاہدے کو ردّ کرتے ہوئے اسے خطے میں اپنے اثر ورسوخ کو محدود کرنے کیلئے ایک چال قرار دیا ہے۔ پاکستان نے معاہدۂ ابراہیمی پر سرکاری طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا‘ لیکن ایکس پر موجود کچھ پوسٹوں سے پتا چلتا ہے کہ پاکستانی عوام اور مذہبی سیاسی رہنما اسے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں اور اسی بنا پر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ الغرض معاہدۂ ابراہیمی شرقِ اوسط کی جغرافیائی سیاست میں ایک اہم موڑ ہے۔ اس نے اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی راہ ہموار کی‘ تاہم فلسطینی تنازع کے حل کے بغیر اس کی کامیابی کا امکان کم ہے۔ معاہدے نے محدود دائرے میں اقتصادی اور سفارتی مواقع پیدا کیے ہیں لیکن خطے میں دیرپا امن کیلئے فلسطینی مسئلے کا حل ناگزیر ہے۔
ہمارے ہاں اس کے بارے میں دو رائے ہیں: (1) لبرل حکومت وسیاسی جماعتوں اور لبرل دانشوروں کی رائے یہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کا پاکستان سے زمینی فاصلہ کم وبیش ڈھائی ہزار کلومیٹر ہے۔ اس کا براہِ راست زمینی اور لسانی وتہذیبی تعلق خلیجِ عرب‘ عرب لیگ اور شرقِ اوسط سے ہے۔ پاکستان سے براہِ راست اسکا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ فلسطین سمیت عرب ممالک‘ شرقِ اوسط کے ممالک حتیٰ کہ ایران نے بھی کشمیر کے بارے میں دوٹوک انداز میں بھارت کے مقابلے میں کبھی پاکستان کی حمایت نہیں کی‘ الغرض یہ طبقہ اس نظریے کا حامل ہے: ''کس کس کو یاد کیجیے‘ کس کس کو روئیے؍ آرام بڑی چیز ہے‘ منہ ڈھک کے سوئیے‘‘۔(2) دوسرا مؤقف دینی طبقات‘ مذہبی سیاسی جماعتوں اور دین کے حامی واسلام پسند اہلِ دانش وفکر اور عوام کی اکثریت کا ہے کہ ہم عالمی اخوتِ اسلامی کے علمبردار ہیں اور اخوتِ اسلامی کا رشتہ سرحدوں میں محصور نہیں ہوتا‘ اس لیے ہم اس شعر کا مصداق ہیں: ''خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ؍ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘‘۔ رسول اللہﷺ کا بھی فرمان ہے: ''مسلمان مسلمان کا بھائی ہے‘ نہ خود اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ دشمن کے مقابل اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے اور جو کوئی (مشکل وقت میں) اپنے (دینی) بھائی کی حاجت روائی کرے گا‘ اللہ تعالیٰ (اُس کی مشکل کے وقت) اُس کی حاجت روائی فرمائے گا اور جو اپنے مسلمان بھائی سے کسی تکلیف کو دور کرے گا‘ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کی مصیبتوں میں سے کسی (بڑی) مصیبت کو رفع فرمائے ۔
یہ مسئلہ نظریاتی ہے‘ اصول پسندی کا مسئلہ ہے۔ فلسطین‘ فلسطینیوں کا ہے۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا اصولی مؤقف یہی تھا کہ اسرائیلی غاصب ہیں‘ درانداز ہیں اورامریکہ سمیت پورا مغرب اسرائیل کا پشتیبان ہے۔ اُن کے نزدیک فلسطینیوں کا حقِ وطن ہے‘ نہ انسانی حقوق ہیں اور نہ وہ کسی رحم کے قابل ہیں۔ ٹرمپ نے تو انہیں برملا جلاوطن کرنے کی بات کی ہے۔ برطانیہ‘ فرانس وغیرہ تو دو ریاستی حل کی بات کرتے ہیں لیکن امریکہ اس کیلئے بھی تیار نہیں۔ ریاست کی تو اپنی حدود ہوتی ہیں‘ سرحدیں ہوتی ہیں‘ اس کا اپنا پاسپورٹ ہوتا ہے‘ اپنے وطن کا دفاع اُس کا حق ہوتا ہے جبکہ حالیہ نیتن یاہو ٹرمپ ملاقات میں ٹرمپ نے کہا: فلسطینیوں کو اپنی سلامتی اور دفاع کا حق حاصل نہیں ہوگا بلکہ یہ اسرائیل کے زیرِ انتظام ہوں گے اور سلامتی کا پورا نظام اسرائیل کے ہاتھ میں ہوگا۔ دنیا میں ایسی کوئی ریاست موجود نہیں ہے جو اپنی سلامتی کے بارے میں خودمختار نہ ہو۔
یہ سطور ہم نے مسئلے کی نوعیت کو سمجھنے اور مکمل آگہی کیلئے لکھی ہیں تاکہ قارئینِ کرام کو اصل مسئلہ سمجھ میں آئے۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمان بھی ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں۔ اگر ہم فلسطینیوں کے بارے میں اصولی مؤقف سے دستبردار ہوں گے تو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے مستقل حل کے بارے میں بھی ہمارا مؤقف کمزور پڑے گا۔ اس لیے حُسن تدبیر وتدبّر کی ضرورت ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کو اپنے اندر ضم کر چکا ہے اور آزاد کشمیر پر بھی اپنا دعویٰ جتا رہا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں