"MMC" (space) message & send to 7575

جَرگہ

ج کے زبر کے ساتھ یہ لفظ ''جَرگہ‘‘ ہے اور لغت کے مطابق یہ اصلاً فارسی لفظ ہے۔ اس کے معنی ہیں: ''آدمیوں کا مجمع‘ گروہ‘ جماعت‘ پنچایت اور معاشرے‘ قبیلے یا برادری کے بزرگوں کی وہ جماعت جو مقدمات کا فیصلہ کرتی ہے‘‘۔ اس عنوان کا انتخاب ہم نے اس لیے کیا ہے کہ ہمارے ہاں میڈیا اندھے کی لاٹھی کی طرح یک رُخا ہو جاتا ہے اور کسی فرد یا چیز یا نظریے یا روایت پر چاند ماری شروع کر دیتا ہے۔ جَرگے کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا‘ حالانکہ اصول یہ ہے کہ ہر چیز کی خیر‘ خیر ہے اور شر‘ شر ہے۔ مطلقاً کسی چیز کو خیر قرار دے سکتے ہیں اور نہ شر‘ یہ اُس کے مظہر اور نوعیت پر منحصر ہے۔ ورنہ کون سا ظلم ہے جو ہماری عدالتوں میں نہیں ہوتا‘ ملک کو جمہوریت کی پٹڑی سے اتارنے والوں کو سندِ توثیق دینے والی یہ معزز عدالتیں اور عالی مرتبت جج صاحبان ہی تھے۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان‘ جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکمرانی کو ان عالی مرتبت عدالتوں ہی نے نہ صرف سندِ توثیق دی بلکہ انہیں آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دیا۔ تو کیا پورا میڈیا اور پوری قوم لَٹھ لے کر عدالتوں کے پیچھے پڑ گئی اور عدالتوں کو تالے لگ گئے۔ اگر صرف گزشتہ پچیس سال کی اعلیٰ عدالتوں کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو اُبکائی آنے لگتی ہے۔
قرآنِ کریم میں بھی جَرگے یا ثالثی کا تصور موجود ہے۔ باری تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان اختلاف کا اندیشہ ہے تو ایک ثالث مرد کے خاندان سے اور ایک عورت کے خاندان سے مقرر کرو‘ اگر اُن کاصلح کا ارادہ ہوگا تو اللہ تعالیٰ اُن کے درمیان موافقت پیدا فرمادے گا‘ بیشک اللہ خوب جاننے والا بہت باخبر ہے‘‘ (النسآء: 35)۔ غزوۂ بنو قریظہ کے موقع پر رسول اللہﷺ نے حضرت سعدؓ بن مُعاذ کو ''حَکَم (ثالث)‘‘ مقرر کیا تھا کہ یہودِ بنی قریظہ کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے اور آپﷺ نے اُن کے فیصلے کو نافذ فرمایا تھا۔ بعض روایات کی رُو سے بنو قریظہ نے خود اپنے ماضی کے حلیف حضرت سعدؓ کا نام تجویز کیا تھا۔ ہجرت کے بعد رسول اللہﷺ نے اہلِ مدینہ کے ساتھ ایک میثاق کیا تھا‘ اُسے سیرت کی کتابوں میں ''میثاقِ مدینہ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور جدید دور میں اُسے مدنی ریاست کا پہلا دستور بھی قرار دیا جاتا ہے۔ رسول اللہﷺ کے پاس اُس وقت حاکمانہ اختیارات نہیں تھے‘ مگر آپﷺ نے مہاجرین‘ انصارِ مدینہ اور یہود کے قبائلی سرداروں کو جمع کر کے یہ میثاق ترتیب دیا اور اس میں آپ کو ایک طرح سے ''حاکمِ مدینہ‘‘ تسلیم کر لیا گیا تھا۔ یہ بھی پنچایت یا جَرگے کی ایک صورت تھی۔ جرگے یا پنچایت کو شریعت میں ''تحکیم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ تحکیم کے معنی ہیں: ''حَکَم یا ثالث بنانا‘‘۔ یہ شرعی عدالت یا قضا کا متبادل نہیں ہے‘ مگر اسے رضاکارانہ مصالَحت اور فیصلہ سازی کا جائز ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ ابودائود (ح: 4376) میں ہے: ''حدود کی بابت آپس میں درگزر کر دیا کرو‘ البتہ حدود کا جو مقدمہ مجھ تک (ریاست تک) پہنچے گا تو پھر حدِ الٰہی کا نافذ کرنا واجب ہو جاتا ہے‘‘۔ ثالثی کی شرائط درجِ ذیل ہیں: (الف) حَکَم یا ثالث مقرر کرنے میں فریقین کی رضاکارانہ رضامندی ضروری ہے۔ (ب) اگر تنازع دو مسلمانوں میں ہے تو ثالث کا مسلمان‘ عاقل وبالغ‘ معاملہ فہم‘ عادل ودیانتدار اور فقہی معاملات میں فقیہ ہونا ضروری ہے‘ نیز فسق وفجور کا مرتکب نہ ہو۔ (ج) جس معاملے میں تحکیم کی جا رہی ہے‘ وہ شرعی طور پر قابلِ تصرّف اور قابلِ مصالحت ہو‘ مثلاً: مالی معاملات‘ خاندانی جھگڑے‘ تجارتی تنازعات وغیرہ۔ (د) حدود وقصاص میں تحکیم جائز نہیں ہے کیونکہ یہ ریاست اور قاضی کی ذمہ داری ہے‘ البتہ قتلِ عَمد کی صورت میں اگر مقتول کے ورثا اور قاتل کے درمیان دیت (خوں بہا) پر مصالَحت کی صورت ہو تو اس میں بھی جَرگہ یا ثالثی کی گنجائش ہے‘ لیکن اگر اس ثالثی کو فریقین کی رضامندی کے بغیر قبیلے‘ برادری یا معاشرتی وسماجی روایات کے دبائو سے نافذ کیا جائے تو ایسی ثالثی شرعاً معتبر نہیں ہے۔ (ہ) اگر ثالث کا فیصلہ خلافِ شرع ہوگا تو وہ باطل ہوگا۔
ہمارے ضابطۂ فوجداری اور ضابطۂ دیوانی‘ قانونِ شہادت‘ وکالت کے ادارے اور عدالتی تاریخ بتاتی ہے کہ ہمارا نظامِ عدل انتہائی فرسودہ اور ازکارِ رفتہ ہے۔ ایسی کئی مثالیں ریکارڈ پر موجود ہیں کہ سزا یافتہ شخص وفات پا گیا ہے یا اُسے سزائے موت دے دی گئی اور بعد میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ وہ بے قصور تھا‘ نیز اگر کئی برسوں کی قیدِ بامشقت کے بعد سپریم کورٹ ملزَم کو بے قصور قرار دیدے تو سوال یہ ہے کہ ایک بے قصور شخص نے جو پانچ دس یا پندرہ سال جیل میں گزارے‘ اُس کی تلافی کیسے ہو گی۔ اس لیے مغرب میں بھی دیوانی مقدمات بالخصوص مالی معاملات میں ثالثی کو پسند کیا جاتا ہے اور جج اسے ترجیح دیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ رسمی عدالت سے ہٹ کر ہوتا ہے۔ اس نظام کو ADR یعنی ''عدالت کا متبادل ثالثی نظام‘‘ کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی سپریم کورٹ کے جج صاحبان بھی بعض اوقات ترغیب دیتے ہیں کہ عدالت سے باہر مصالحتی نظام کی گنجائش نکالی جائے۔ ذیل میں ہم جَرگے کے نظام اور مغربی ممالک کے متبادل عدالتی نظام کا جائزہ پیش کرتے ہیں:
ہماری جَرگے کی روایت قبیلے اور برادری کے نظام پر ہے۔ کراچی میں بعض برادریوں کا اپنا پنچایتی نظام موجود ہے۔ مغرب میں ثالثی کو عدالتی نظام کی توثیق بھی حاصل ہے اور ایک طرح سے یہ تسلیم شدہ متبادل عدالتی نظام ہے۔ فرق یہ ہے کہ مغرب میں فریقین کی رضا مندی اور قانون کے دائرے میں یہ کام ہوتا ہے‘ جبکہ ہمارے ہاں عرف‘ روایت اور قرآن وسنت پر اس کا مدار ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں زمین کی حد بندی کا تنازع بھی بعض اوقات جَرگے سے حل ہو جاتا ہے اور اس بارے میں قبیلے اور برادری کے بزرگوں کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے۔ ہمارے جرگے کے نظام میں عائلی امور اور قتلِ عمد کی دِیت (خوں بہا) کے مسائل بھی حل ہو جاتے ہیں‘ جبکہ مغرب میں خاندانی‘ تجارتی‘ شہری معاملات اور بعض جرائم بھی اس کے دائرۂ کار میں آتے ہیں۔ امریکہ میں بھی عوامی عدالت (Jury) کو باقاعدہ عدالتی نظام کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔کراچی میں میرے پاس ایک بڑے کاروباری خاندان کے کاروبار کی وراثتی تقسیم کا مسئلہ آیا‘ میں نے انہیں مشورہ دیا :آپ اپنی کاروباری انجمن میں یہ مسئلہ لے جائیں‘ وہ لے گئے اور انہوں نے اَحسن طریقے سے حل کر دیا‘ کیونکہ وہ اُس کاروبار کی باریکیوں کو خوب جانتے تھے۔ اس سے عدالتوں کا بوجھ کم ہوتا ہے اور لوگوں کے لیے انصاف حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے‘ جبکہ عدالتوں میں مقدمات بعض اوقات نسلوں تک جاری رہتے ہیں اور آخرِ کار کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
لہٰذا ہمیں جَرگہ‘ پنچایت اور برادری کی انجمن ایسے اداروں کی نفی کرنے کے بجائے اسے باقاعدہ شکل دینی چاہیے۔ اس صورت میں لوگوں کو جرگے کے ذمہ داروں کے نام معلوم ہوں گے‘ یہ سوال پیدا نہیں ہو گا کہ کس نے فیصلہ کیا‘ کن اصولوں کے تحت کیا اور کس نے اُسے نافذ کیا۔ قانون کو ہاتھ میں لینے کا اختیار کسی کے پاس نہیں‘ لیکن دیہی اور قبائلی معاشرے میں آپ جرگے یا پنچایت یا ثالثی کو مکمل طور پر ردّ نہیں کر سکتے۔ جدید دنیا کی طرح صحیح حکمتِ عملی اُسے ضابطے میں لانا ہے۔ یہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے کہ کسی ثقہ عالم اور ماہرِ قانون کو جرگہ میں بطورِ رکن شامل کیا جائے تاکہ جہاں شریعت وقانون سے تجاوز یا حکم عدولی ہو تو وہ اُس کی نشاندہی کر سکیں۔ البتہ وَنی‘ کاروکاری‘ غیرت کے نام پر قتل‘ وراثت کی تقسیم سے بچنے کے لیے قرآن سے شادی ایسی روایات کو نہ صرف خلافِ قانون اور خلافِ شرع قرار دینا چاہیے‘ بلکہ اسے تعزیری جرم قرار دینا چاہیے۔ قتلِ عمد اور زنا بالجبر کے متعدد واقعات میں بااثر لوگوں کو عدالتوں کے ذریعے چھٹکارا مل جاتا ہے‘ چند دن تک یہ خبریں میڈیا کی زینت بنتی ہیں‘ میڈیا کو جب کوئی تازہ خبر ملتی ہے تو ماضی کو بھلا کر اُس کی تشہیر کر کے اپنی ریٹنگ بڑھانے میں لگ جاتے ہیں اور پچھلی خبر تاریخ کے ملبے تلے دفن ہو جاتی ہے۔ الغرض ظالمانہ سرداری نظام کی آڑ میں جرگے اور ثالثی کی روایت کو مطعون کرنا درست نہیں ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں