"MMC" (space) message & send to 7575

میلاد النبیﷺ

عربی میں ''مَوْلِد‘‘ اور ''میلاد‘‘ کے بالترتیب معنی ہیں: ''پیدائش کی جگہ اور پیدائش کا وقت‘‘۔ الغرض ''مَولِد اور مِیلاد‘‘ ظرف کے صیغے ہیں‘ اگر ظرفِ مکان مراد لیں تو اسکے معنی ہوں گے: ''جائے ولادت‘‘ اور اگر ظرفِ زمان مراد لیں تو اسکے معنی ہوں گے: ''میلاد کا دن، وقت اور تاریخ‘‘۔ اہلسنّت وجماعت کے نزدیک میلاد النبی کے معنی ہیں: ''رسول اللہﷺ کی ولادتِ باسعادت کی خوشی منانا اور اس پر اپنی ایمانی‘ قلبی اور روحانی مَسرّت کا اظہار کرنا‘‘۔ اظہارِ مَسرّت کسی نعمت پر کیا جاتا ہے اور ہمارے نزدیک کائنات کی سب سے بڑی نعمت ذاتِ پاکِ مصطفیﷺ اور آپکی بعثتِ مبارکہ ہے۔ خوشی کے موقع کو خود قرآنِ کریم میں بھی لفظِ ''عید‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''(اُس وقت کو یاد کیجیے) جب حواریوں نے کہا: اے عیسیٰ بن مریم! کیا آپ کا رب ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل کر سکتا ہے‘ (عیسیٰ نے )کہا: اگر تم مومن ہو تو اللہ سے ڈرو‘ انہوں نے کہا: ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہم اس خوانِ (نعمت) سے کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہو جائیں اور ہمیں یقین ہو جائے کہ آپ نے ہم سے سچ کہا تھا اور ہم اس پر گواہ ہو جائیں‘ عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی: اے اللہ! ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے (کھانے کا سجا ہوا) خوان نازل فرما تاکہ (وہ دن) ہمارے اگلوں اور پچھلوں کیلئے عید اور تیری طرف سے نشانی ہو جائے اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو سب سے بہتر رزق عطا فرمانے والا ہے‘ اللہ نے فرمایا: میں تم پر یقینا اس خوان کو نازل فرمانے والا ہوں‘ پھر اسکے بعد تم میں سے جو کفر کرے گا تو میں اُسے ایسا عذاب دوں گا جو تمام جہانوں میں سے کسی کو بھی نہ دوں گا‘‘ (المائدہ: 112 تا 115)۔اس آیۂ مبارکہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مَسرّت وشادمانی کے کسی لمحے یا دن یا وقت کو ''عید‘‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ آج بھی سعودی عرب میں سعودی ریاست کے قیام کے دن کو ''عید الوَطَنی‘‘ کہا جاتا ہے۔ پس ہمارے نزدیک کائنات کا سب سے بڑا لمحۂ مَسَرّت وہ ہے جب سیدنا محمد رسول اللہﷺ اس کائنات میں تشریف لائے اور آپﷺ کی بعثتِ مبارکہ کو خود رب تبارک وتعالیٰ نے اپنے امتنان واحسان سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا: ''بے شک اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان فرمایا‘ جب اُس نے انہی میں سے ایک عظیم رسول بھیجا جو اُن پر اُس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور اُن کے(گناہ آلودہ دلوں) کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے‘ بے شک وہ اس سے پہلے ضرور کھلی گمراہی میں تھے‘‘ (آل عمران: 164)۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے البقرہ: 129 میں دعائے ابراہیمی کے طور پر اور الجمعہ: 2 میں اپنی قدرت کی شان کے طور پر بیان فرمایا ہے۔ اس لیے اہلسنّت آپﷺ کی ولادتِ باسعادت کے دن کو ''عید میلاد النبی‘‘ کے عنوان سے مناتے ہیں۔ اُس دن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور امتنان واحسان کا شکر بجا لاتے ہیں‘ رسول اللہﷺ کے فضائل اور سیرت بیان کرتے ہیں اور آپﷺ پر کثرت سے درود وسلام بھیجتے ہیں۔
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ میلاد منانے کا شِعار مسیحیت سے آیا ہے‘ یہ اسلام کا شعار نہیں ہے۔ یہ منطق ہماری سمجھ سے بالاتر ہے‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی ولادتِ باسعادت کے بارے میں خود قرآنِ کریم میں بیان فرمایا: ''اور اُن (یحییٰ) پر سلام ہو‘جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن اُنکی وفات ہوگی اورجس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے‘‘ (مریم: 15) اورعیسیٰؑ نے خود اپنے بارے میں فرمایا: ''اور مجھ پر سلام ہو جس دن میں پیدا کیا گیا اور جس دن میری وفات ہو گی اور جس دن میں (دوبارہ) زندہ اٹھایا جائوں گا‘‘ (مریم: 33)۔ اس آیت کے تحت علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں: ''سلام کا معنی ہے: نعمتیں سلامت رہیں اور آفات وبلیّات سے امان حاصل ہو‘ گویا حضرت عیسیٰ نے یہ دعا کی کہ جو سلامتی اور امان حضرت یحییٰ پر نازل کی گئی ہے‘ وہی امان اور سلامتی مجھ پر نازل کی جائے۔ یومِ ولادت‘ یومِ وفات اور یومِ بعثت‘ ان تین دنوں میں انسان اللہ کی سلامتی کا بہت زیادہ محتاج ہوتا ہے‘ اس لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خصوصیت کیساتھ ان تینوں ایام کیلئے سلامتی کے حصول کی دعا کی‘‘۔
حدیثِ مبارک میں ہے: ''حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: جب رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے‘ آپ نے دیکھا: یہود یومِ عاشوراء (دس محرم الحرام) کا روزہ رکھتے ہیں‘ یہود سے اس کا سبب دریافت کیا گیا‘ انہوں نے کہا: یہ وہ (مبارک) دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ عطا فرمایا تھا‘ پس ہم اس دن کی تعظیم کے طور پر روزہ رکھتے ہیں۔ نبیﷺ نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام سے ہماری (روحانی) قربت تمہاری بہ نسبت زیادہ ہے‘ تو آپﷺ نے اُس دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا‘‘ (مسلم:1130‘ بخاری: 2004)۔ پس اگر فرعونیوں کے مقابل موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے یومِ نَجات کی تعظیم اور تشکّر کے طور پر اُس دن کا روزہ رکھنا مستحب اور پسندیدہ ہے تو یومِ ولادتِ باسعادت مصطفیﷺ کی تعظیم وتشکّر بدرجہا زیادہ پسندیدہ ہو گا‘ نیز اس سے وہ شرعی عید مراد نہیں ہے کہ جس میں روزہ رکھنا مکروہ ہے۔ ہمارے نزدیک ہر مومن کی ولادت اللہ کی نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے اپنی انواعِ مخلوقات میں سے اشرف المخلوقات انسانوں میں پیدا کیا‘ پھر اُسے نعمتِ ایمان سے نوازا اور خاتَمُ النّبیینﷺ کا امتی ہونے کا شرف عطا کیا۔ کسی کا اپنی ولادت کا تشکّر بجا لانا بھی شرعاً جائز ہے اور اس میں شریعت کی رُو سے کوئی ممانعت نہیں ہے‘ بس اسے لازم نہ سمجھا جائے۔ البتہ ان مقدس تقریبات کو بدعات و خرافات اور منکَرات سے پاک رکھا جائے۔ بعض مقامات پر مرد وزن کے اختلاط اور دھمال ڈالنے کے مظاہر نظر آتے ہیں یا منوں کے حساب سے بڑے بڑے کیک بناکر کاٹے اور لٹائے جاتے ہیں‘ یہ سب درست نہیں ہے اور علمائے کرام کو انکے خلاف آواز اٹھانا چاہیے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ میلاد النبیﷺ کے جلوس کے دوران نماز کا اہتمام نہیں کیا جاتا اور بعض اوقات نمازیں قضا ہو جاتی ہیں‘ یہ نہ یومِ میلاد النبیﷺ کی تعظیم وتکریم ہے اور نہ آپﷺ سے محبت کا شِعار ہے۔ اسی طرح بعض جگہ کئی گاڑیوں پر لائوڈ سپیکر نصب ہوتے ہیں اور ہر طرف سے صلوٰۃ وسلام اور نعت خوانی کے نام پر بے ہنگم شوروغوغا ہوتا ہے‘ ہونا یہ چاہیے کہ جو گاڑی جلوس کی قیادت کر رہی ہے‘ صرف اُسی پر درود وسلام اور نعت پڑھی جائے اور علمائے کرام کے خطابات ہوں اور باقی سب لوگ یکسو ہوکر ادب واحترام اور توجہ سے سنیں۔ لگے کہ ماحول رسول اللہﷺ کی محبت سے معمور ہے۔ ہمیں سیرت النبیﷺ کے عنوان سے بھی کوئی اختلاف نہیں‘ محافلِ میلاد النبیﷺ میں خاتمُ النّبیینﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور آپﷺ کی تعلیماتِ مبارکہ کا بھی بیان کیا جائے‘ لوگوں کو اصلاحِ عقائد واعمال کی تعلیم وترغیب دی جائے تو یہ بھی اَحسن طریقہ ہے۔ ہمارے نزدیک رسول اللہﷺ کا اپنا تشکّر ولادت منانا بھی حدیث سے ثابت ہے: ''(رسول اللہﷺ ہر پیر کے دن روزہ رکھا کرتے تھے)‘ آپﷺ سے اس کا سبب پوچھا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: اس دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن میری نبوت کا اعلان ہوا یا مجھ پر نزولِ وحی کا آغاز ہوا‘‘ (مسلم: 2745)۔ اہلحدیث عالِم علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں: ''رسول اللہﷺ کے پیرکا روزہ رکھنے سے علماء کی ایک جماعت نے آپﷺ کی ولادت کی خوشی یعنی مجلسِ میلاد کرنے کا جواز ثابت کیا ہے‘ حق یہ ہے کہ اگر اس مجلس میں آپ کی ولادت کے مقاصد اور دنیا کی رہنمائی کیلئے آپکی ضرورت اور امورِ رسالت کی حقیقت کو بالکل صحیح طریقہ پر اس لیے بیان کیا جائے کہ لوگوں میں اس حقیقت کا چرچا ہو اور سننے والے یہ ارادہ کرکے سُنیں کہ ہم کو اپنی زندگیاں اُسوۂ رسول کے مطابق گزارنا ہیں اور ایسی مجالس میں کوئی بدعت نہ ہو‘ تو مبارک ہیں ایسی مجلسیں اور حق کے طالب ہیں ان میں حصہ لینے والے‘ بہرحال یہ ضرور ہے کہ یہ مجلسیں عہدِ صحابہ میں نہ تھیں‘‘ (لغات الحدیث‘ جلد: 3‘ ص: 119)۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں