"MMC" (space) message & send to 7575

رسول اللہﷺ سے ہمارے تعلق کے تقاضے…(2)

(2) محبت: رسول اللہﷺ سے محبت ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ''تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا تاوقتیکہ میں اُس کے نزدیک اُس کے والد‘ اُس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہو جائوں‘‘ (بخاری: 15)۔ محبت کی دو قسمیں ہیں: (1) ایک طبعی‘ جیسے انسان اپنے ماں باپ‘ اولاد‘ مال ودولتِ دنیا الغرض درجہ بدرجہ تمام متعلقات سے محبت کرتا ہے‘ یہ انسان کی فطرت وجبلّت کا تقاضا ہے‘ یہ محبت غیر اختیاری ہوتی ہے اور اسی لیے انسان اس کا مکلّف نہیں ہے۔ (2) محبتِ عقلی‘ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کسی چیز سے عقلی ترجیحات کی بنیاد پر محبت کرے‘ انسان اس کا مکلّف ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرّمﷺ سے ایسی ہی محبت مطلوب ہے اور مومن پر واجب ہے۔ قرآنِ کریم نے رسول اللہﷺ سے محبت کے معیارات بتا دیے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''(اے رسولِ مکرّم!) کہہ دیجیے: اگر تمہارے باپ دادا‘ تمہارے بیٹے‘ تمہارے بھائی‘ تمہاری بیویاں (یا شوہر)‘ تمہارے رشتے دار‘ تمہارے کمائے ہوئے مال اور تمہاری تجارت جس کے خسارے کا تمہیں خدشہ لاحق رہتا ہے اور تمہارے پسندیدہ مکانات (ومحلّات‘ اگر یہ سب چیزیں مل کر بھی) تمہیں اللہ‘ اس کے رسول اور اُس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہوں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘ (التوبۃ: 24)۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں سے محبت کی مطلقاً نفی نہیں فرمائی‘ کیونکہ درجہ بدرجہ ان چیزوں کی محبت بھی انسان کی فطرت کا تقاضا ہے‘ بلکہ یہ فرمایا کہ تمہارا محبوب کوئی بھی ہو سکتا ہے‘ لیکن محبوب ترین صرف اللہ تعالیٰ‘ اس کے رسولِ مکرّمﷺ اور اس کی راہ میں جذبۂ جہاد ہونا چاہیے۔ اس کا امتحان تب ہوتا ہے کہ جب ان تمام چیزوں کی محبت مل کر بھی اللہ اور اس کے رسول کی محبت پر غالب آ جائے تو محبتِ رسول کا تقاضا پورا نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرّمﷺ کی محبت کا تقابلی معیار بھی قرآنِ کریم نے واضح الفاظ میں بتا دیا‘ ارشاد ہوا: '' جو اللہ اور قیامت کے دن پر (پختہ) ایمان رکھتے ہیں‘ آپ ان کو ایسا نہ پائیں گے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے بھی محبت کریں‘ خواہ وہ اُن کے باپ دادا یا بیٹے یا بھائی یا (قریبی) رشتے دار ہوں‘ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثَبت فرما دیا ہے اور اپنی طرف کی روح سے اُن کی مدد فرمائی اور وہ انہیں ایسے باغات میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں‘ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے‘ اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے‘ یہ اللہ کی جماعت ہے‘ سنو! اللہ کی جماعت ہی فلاح پانے والی ہے‘‘ (المجادلۃ: 22)۔ یہاں واضح طور پر بتا دیا کہ جس دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہے‘ اُس میں اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کی محبت کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی‘ کیونکہ یہ دونوں محبتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں اور اَضداد کبھی بھی ایک جگہ جمع نہیں ہوتے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کا مَدار ومعیار بھی اتباعِ رسول کو قرار دیتے ہوئے فرمایا: ''(اے رسولِ مکرّم!) کہہ دیجیے: اگر تم (اپنے دعوے کے مطابق) اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو‘ اللہ خود تمہیں اپنا محبوب بنا لے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف فرمائے گا اور اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے‘‘ (آل عمران: 31)۔
(3) اطاعت واتباع: رسول اللہﷺ کی محبت کا ایک لازمی تقاضا اطاعت واتباعِ رسول ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور (اُس کے) رسول کی اطاعت کرو اور اُن کی جو تم میں سے صاحبانِ اختیار ہیں‘ پس اگر کسی معاملے میں تمہارا صاحبانِ اقتدار واختیار سے جھگڑا ہو جائے تو اگر تم اللہ اور قیامت کے دن پر (سچا) ایمان رکھتے ہو تو (حتمی فیصلے کیلئے) اس معاملے کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو‘ یہی (شِعار) تمہارے لیے بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا ہے‘‘ (النسآء: 59)۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت غیر مشروط ہے‘ اگر کسی معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کا حکم آ جائے تو کسی چون وچِرا اور اعتراض کی گنجائش نہیں رہتی‘ بلکہ اسے دل وجان سے تسلیم کرنا لازم ہو جاتا ہے‘ جبکہ حاکمِ وقت کی اطاعت غیر مشروط نہیں ہے‘ یہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے تابع ہے۔ اگر حاکمِ وقت کا کوئی فیصلہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف صادر ہو تو اُسے ردّ کیا جا سکتا ہے‘ اسی کی بابت حدیثِ پاک میں فرمایا: ''(ایسے امر میں کسی بڑے سے بڑے صاحبِ اقتدار واختیار کی) اطاعت لازم نہیں ہے‘ جس میں خالق کی نافرمانی لازم آئے‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ: 33717)۔ اس کی مزید وضاحت اس حدیث میں ہے: ''حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے (کفار کے مقابلے کیلئے) ایک لشکر بھیجا اور اس پر ایک شخص کو امیر مقرر کیا‘ اس نے آگ جلائی اور مجاہدین سے کہا: اِس میں داخل ہو جائو‘ کچھ لوگوں نے اس میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تو بعض دوسرے لوگوں نے کہا: ہم نے (جہنم کی) آگ سے بچنے کیلئے ہی تو اسلام قبول کیا تھا‘ پھر اس واقعے کا ذکر رسول اللہﷺ سے ہوا تو جن لوگوں نے آگ میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تھا‘ آپﷺ نے اُن سے فرمایا: اگر تم (اُس وقت آگ میں) داخل ہو جاتے تو قیامت تک اسی آگ میں جلتے رہتے اور دوسروں کے بارے میں آپ نے اچھے کلمات کہے اور فرمایا: حاکمِ وقت کی اطاعت ایسے امر میں لازم نہیں ہے جس میں اللہ کی معصیت لازم آئے‘ حاکم کی اطاعت صرف نیک کاموں میں لازم ہے‘‘ (مسلم: 1840)۔ آج کل بھی ہماری پارلیمنٹ اور اعلیٰ عدلیہ کے بعض فیصلے شریعت کی صریح خلاف ورزی پر مبنی ہوتے ہیں‘ انہیں اس بارے میں اللہ کی گرفت سے ڈرنا چاہیے‘ کیونکہ: ''بے شک اللہ کی گرفت بہت سخت ہے‘‘ (البروج: 12)۔
قرآنِ کریم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو لازم وملزوم قرار دیتے ہوئے فرمایا: ''اور جس نے رسول کی اطاعت کی‘ (درحقیقت) اُس نے اللہ ہی کی اطاعت کی‘‘ (النسآء: 80)۔ نیز فرمایا: ''اور جو لوگ اللہ اور (اس کے) رسول کی اطاعت کریں گے‘ (اُن کا انجام) اُن لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے (اور وہ) انبیاء‘صدیقین‘ شہداء اور (عبادِ) صالحین ہیں اور وہ بہت ہی اچھے ساتھی ہیں‘‘ (النسآء: 69)۔ اس کی مزید وضاحت قرآنِ کریم کی ان آیاتِ مبارکہ میں ہے: ''اور ہم نے ہر رسول کو صرف اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور (اے رسولِ مکرّم!) اگر یہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے تو یہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو جاتے‘ پھر وہ اللہ سے مغفرت طلب کرتے اور رسول بھی اُن کیلئے استغفار کرتے تو یہ ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول فرمانے والا‘ بے حد رحم فرمانے والا پاتے‘ (اے رسولِ مکرّم!) آپ کے رب کی قسم !یہ لوگ (حقیقی) مؤمن نہیں ہو سکتے تاوقتیکہ یہ آپ کو اپنے باہمی جھگڑوں میں حاکم نہ مان لیں‘ پھر آپ جو بھی فیصلہ فرما لیں‘ اُس کی بابت اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور اُسے دل وجان سے تسلیم کر لیں‘‘ (النسآء: 64 تا 65)۔
حدیث پاک میں ہے: ''فرشتے نبیﷺ کے پاس حاضر ہوئے‘ ان میں سے بعض نے کہا: یہ سوئے ہوئے ہیں اور بعض نے کہا: (ان کی) آنکھیں سوئی ہوئی ہیں اور ان کا دل بیدار ہے۔ آگے چل کر فرشتوں نے کہا: سو جس نے محمد(ﷺ) کی اطاعت کی‘ اُس نے درحقیقت اللہ ہی کی اطاعت کی اور جس نے محمد(ﷺ) کی نافرمانی کی تو اُس نے درحقیقت اللہ ہی کی نافرمانی کی اور محمد(ﷺ) لوگوں کے درمیان (ایمان کی حقیقت جاننے کیلئے) حدِ فاصل ہیں‘‘ (بخاری:7281)۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی ایک روایت کے مطابق نبیﷺ نے خود بھی فرمایا: ''میری دونوں آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا‘‘ (ابودائود: 202)۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں