"MMC" (space) message & send to 7575

رسول اللہﷺ سے ہمارے تعلق کے تقاضے …(3)

(4) تعظیم وتوقیر: انبیائے کرام علیہم السلام کی حیثیت نہ محض ''پیغام رساں‘‘ کی ہے اور نہ ایسے حاکم کی کہ جس کا حکم قانوناً تو نافذ ہو جائے اور اس کے قانونی اثرات بھی مرتب ہو جائیں‘ لیکن دل سے اس کی ذات یا اس کے احکام کی تکریم و تسلیم لازم نہ ہو۔ سورۃ النسآء:65 میں نہایت صراحت کے ساتھ بتایا کہ نبی اکرمﷺ کو آپس کے تنازعات میں حَکَم اور حاکم بھی ماننا ہے اور آپﷺ فریقین کا مؤقف سن کر ثبوت وشواہد کی روشنی میں جو فیصلہ صادر کریں اسے صرف ظاہراً اور قانوناً ہی نہیں‘ بلکہ دل وجان سے تسلیم کرنا ضروری ہے‘ ورنہ ایمان معتبر نہیں ہے۔ بعض حضرات نے یہ فرض کر لیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظمت و جلالت تب ہی متحقق ہو سکتی ہے جب اس کے مقابل انبیائے کرام علیہم السلام کو بے توقیر سمجھا جائے‘ الغرض نبی کی تعظیم فرضِ عین بلکہ تمام فرائض کی اصل ہے اور کسی نبی کی ادنیٰ توہین یا تکذیب بھی کفر ہے‘ جیسا کہ بعض حضرات نے لکھا: ''اور یہ یقین جان لینا چاہیے کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا‘ وہ اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی زیادہ ذلیل ہے‘‘ یا ''نماز میں نبی کا خیال آ جائے تو وہ گاؤ خر اور بیوی کے ساتھ مجامعت کے تصور سے بھی بدتر ہے‘‘۔ جبکہ اس کے برعکس امام غزالی نے لکھا ہے: ''التحیات پڑھتے ہوئے اپنے دل میں نبیﷺ کی ذاتِ پاک کو حاضر کرو اور کہو: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِی! اور یقین رکھو کہ رسول اللہﷺ تک تمہارا سلام پہنچتا ہے اور آپﷺ اس کا جواب بہتر کلمات سے دیتے ہیں‘‘ (احیاء علوم الدین، ج:1،ص: 169)۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں نبیﷺ پر سلام واقعۂ معراج کی حکایت کے طور پر نہیں بلکہ انشاء اور ارادے سے پڑھنا چاہیے۔ علامہ علی القاری اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے بھی اسی طرح لکھا ہے۔قرآنِ کریم میں نماز کے دوران بھی نبی کریمﷺ کے حکم کی تعمیل کرنا لازم و ضروری قرار دیاگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے بلانے پر حاضر ہو جاؤ‘ جب رسول تمہیں اس چیز کیلئے بلائیں جو تمہارے لیے (روحانی) حیات کا باعث ہو‘‘ (الانفال:24)۔ حدیث پاک میں ہے: ''حضرت ابوسعیدؓ بن مُعلّٰی بیان کرتے ہیں: میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا‘ رسول اللہﷺ نے مجھے بلایا تو میں نے جواب نہیں دیا اور نمازکے بعد آپﷺ کے پاس حاضر ہوکر عرض کی: یارسول اللہ! میں نماز پڑھ رہا تھا‘ آپﷺ نے فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا: ''اللہ اور اس کے رسول کے بلانے پر حاضر ہو جاؤ، (الانفال:24)‘‘ (بخاری:4474)۔
اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ کی حیاتِ ظاہری میں نماز چھوڑ کر آپﷺ کے بلانے پر حاضر ہونا ضروری تھا اور آپﷺ جو حکم فرمائیں‘ اس کو پورا کرنے پر وہ نماز ہی میں رہے گا‘ نماز فاسد نہیں ہو گی کیونکہ نمازی نے اس ہستی سے کلام کیا جن پر نماز میں سلام بھیجنا واجب ہے‘ اگر وہ کسی اور کو سلام کرتا تو نماز فاسد ہو جاتی۔ علاوہ ازیں اگر نبیﷺ کے حکم کی تعمیل میں کعبے سے سینہ پھرا ہے تو اس ہستی کی طرف پھرا ہے جو کعبے کا بھی کعبہ ہے اور اگر وہ چلا ہے تو بارگاہِ مصطفی کی طرف چلا ہے جو من جملہ عبادت ہے‘ سو اس لیے نماز فاسد نہیں ہو گی۔ جب نماز میں وضو ٹوٹ جائے تو (بنا کی نیت سے) پانی کی طرف جانے سے نماز نہیں ٹوٹتی حالانکہ کعبے سے سینہ بھی پھر جاتا ہے اور عملِ کثیر بھی ہوتا ہے مگر یہ عمل شریعت کی اتباع اور تقدیسِ عبادت کیلئے ہورہا ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ''نبیﷺ کے مرضِ وصال میں حضرت ابوبکر لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے‘ حتیٰ کہ جب پیر کا دن آیا اور صحابہ نماز میں صفیں باندھے ہوئے تھے تو نبیﷺ نے اپنے حجرۂ مبارکہ کا پردہ اٹھایا۔ آپﷺ کھڑے ہوئے ہماری طرف دیکھ رہے تھے اور آپ کا چہرۂ انور قرآن کے ورق کی طرح چمک رہا تھا۔ آپﷺ نے تبسم فرمایا‘ پس ہم نے خیال کیا کہ نبیﷺ کو دیکھنے کی خوشی کے باعث ہم فتنے میں پڑ جائیں گے تو حضرت ابوبکر نے صف سے ملنے کیلئے اپنے قدم پیچھے کیے اور گمان کیا کہ نبیﷺ نماز پڑھانے کیلئے تشریف لارہے ہیں۔ پھر نبیﷺ نے اشارہ کیا کہ تم اپنی نماز پوری کرو اور پردہ گرا دیا اور اسی دن آپﷺ کا وصال ہوا‘‘ (بخاری:680)۔ نماز کی معراج اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی پوری توجہ کو مبذول کرنا ہے لیکن صحابۂ کرام نے نماز کے اندر رہتے ہوئے بھی آپﷺ کے آداب کو ملحوظ رکھا اور حضرت ابوبکرصدیقؓ نبیﷺ کو امامت کی جگہ دینے کیلئے پیچھے ہٹنے لگے ۔ حضرت عروہؓ بن زبیر ایک طویل حدیث میں بیان کرتے ہیں: ''لوگو! میں قیصر وکسریٰ‘ نجاشی اور دیگر بادشاہوں کے درباروں میں گیا ہوں‘ اللہ کی قسم! میں نے کسی بادشاہ کے درباریوں کو بادشاہ کی ایسی تعظیم کرتے ہوئے نہیں دیکھا‘‘ (بخاری:2731)۔
اللہ تعالیٰ اور اسکے رسولﷺ پر کسی معاملے میں‘ خواہ وہ عبادت ہی کیوں نہ ہو‘ سبقت اختیار کرنے سے منع فرمایا: ''اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول پر سبقت نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو‘ بیشک اللہ بہت سننے والا‘ بے حد جاننے والا ہے‘‘ (الحجرات: 1)۔ نیز ادبِ بارگاہِ نبوی کی حد درجہ تاکید فرمائی: ''اے ایمان والو! نبی کی آواز پر اپنی آوازیں بلند نہ کرو اور نہ ان کے سامنے (بے تکلفی سے) بلند آواز سے بولو جیسے ایک دوسرے سے بلند آواز میں بات کرتے ہو‘ ایسا نہ ہو کہ (بے ادبی کے سبب) تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تمہیں پتا بھی نہ چلے‘‘ (الحجرات: 2)۔ (2): ''تم رسول اللہ کو بلانے کیلئے وہ انداز اختیار نہ کرو جو آپس میں ایک دوسرے کیساتھ کرتے ہو‘‘ (النور: 63)۔ اسی طرح الفتح: 8اور9 میں فرمایا: ''بیشک ہم نے آپ کو شاہد مبشِّر اور نذیر بناکر بھیجا تاکہ (اے لوگو!) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان کی تعظیم وتوقیر کرو اور صبح وشام اللہ کی پاکی بیان کرو‘‘۔ امام احمد رضا قادری لکھتے ہیں: ''مسلمانو! ذرا اس آیت کی ترتیب تو دیکھوکہ پہلے ایمان کا ذکر کیا اور آخر میں عبادتِ الٰہی کا بیان کیا اور درمیان میں اپنے حبیبِ مکرّمﷺ کی تعظیم وتوقیر کی تعلیم دی‘ اس لیے کہ ایمان کے بغیر تعظیم کسی کام کی نہیں۔ نیز جب تک نبیﷺ کی سچی تعظیم نہ ہو‘ ساری عمر عبادتِ الٰہی میں گزار دے‘ سب بیکار و مردود ہے۔ بہت سے جوگی اور راہب ترکِ دنیا کرتے ہیں‘ اپنے طور پر عبادتِ الٰہی میں عمر کاٹ دیتے ہیں بلکہ ان میں بہت وہ ہیں کہ لا الٰہ الا اللہ کا ذکر سیکھتے ہیں‘ مگر محمد رسول اللہ کی تعظیم نہیں تو کیا فائدہ‘ بارگاہِ الٰہی میں اصلاً قابلِ قبول نہیں ہے‘‘ (تمہید ایمان ،بتصرف)۔
رسول اللہﷺ کے فضائل بیان کرنا سنتِ الٰہیہ ہے اور خود آپﷺ کی سنّتِ مبارکہ بھی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ عظمتِ مصطفیﷺ کی سب سے مصدَّقہ اور ثقہ کتاب قرآنِ کریم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمۃ للعالمین‘ عزیز‘ رئوف‘ رحیم‘ شاہد‘ مبشِر (جنت کی بشارت دینے والا)‘نذیر(جہنم سے ڈرانے والا)‘ سراجٌ منیر (روشن کرنے والا آفتاب)‘ ''یَا اَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ‘ یَا اَیُّھَا الْمُدَّثِّر ( اے چادر لپیٹنے والے) اور ان جیسے عظیم القاب سے نوازا ہے‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو جس ادا میں دیکھا‘ اسی وصف کے ساتھ آپ کو مخاطَب فرمایا۔ اسی طرح قرآنِ کریم میں حضرت موسیٰ وعیسیٰ علیہما السلام کو ''عزت و وجاہت والا‘‘ قرار دیتے ہوئے فرمایا: ''اے ایمان والو! اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی‘ پس اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو (اُن لوگوں کے الزام) سے بری کردیا اور وہ اللہ کے نزدیک وجاہت والے تھے‘‘ (الاحزاب: 69)۔ (2) ''(یاد کیجیے!) جب فرشتوں نے کہا: اے مریم! بیشک اللہ تمہیں اپنی طرف سے (ایک خاص ) کلمے کی خوش خبری دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہے جو دنیا اور آخرت میں بڑا معزز ہے اور اللہ کے مقربین میں سے ہے‘‘ (آلِ عمران:45)۔ یہاں عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ''کلمہ‘‘ سے تعبیر فرمایا کیونکہ ان کی پیدائش عام سنّتِ الٰہی اور اسباب سے ماورا اللہ تعالیٰ کے کلمۂ ''کُن‘‘ یعنی امر سے ہوئی۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں