"MMC" (space) message & send to 7575

ٹرمپ امن منصوبے پر ہمارا تبصرہ

ٹرمپ کا پیش کردہ منصوبہ صرف اسرائیل کے مقاصد کو پورا کرتا ہے اور فریقِ ثانی حماس کو نظر انداز کر دیا گیا ہے‘ بلکہ ایک مجرم کے طور پر لیا ہے۔ اصولی طور پر اس منصوبے کو حتمی شکل دینے سے پہلے حماس کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے تھا‘ لیکن اُسے تنبیہات کے ساتھ قبول کرنے کیلئے چار دن کا وقت دیا گیا ہے اور اس کے بعد سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی ہے۔ اس منصوبے میں ایک خود مختار آزاد فلسطینی ریاست کا کوئی تصور شامل ہے اور نہ اس کی تکمیل کیلئے کوئی کم ازکم یا زیادہ سے زیادہ مدت کا تعیّن کیا گیا ہے‘ جبکہ اسرائیل کی عیاری‘ مکاری اور فریب دہی سے سب واقف ہیں۔ اس کے برعکس آٹھ مسلم ممالک کے تیار کردہ امن منصوبے میں خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام شامل تھا‘ ٹرمپ نے اسے مکمل طور پر نظر انداز کردیا ہے۔ دنیا میں ایک بھی ایسی آزاد ریاست نہیں ہے‘ جسے اسلحے سے پاک قرار دیا گیا ہو کہ وہ اپنی سلامتی کا تحفظ کر سکے اور نہ کسی جارح‘ غاصب اور حملہ آور قوت سے اپنا دفاع کر سکے۔ اگر 1967ء کی سرحدوں پر اسرائیل کو واپس جانے پر مجبور کیا جاتا‘ قبلۂ اول اور بیت المقدس (یروشلم) پر فلسطینی ریاست کا دائرۂ اختیار واقتدار ہوتا تو شایدکسی درجے میں یہ منصوبہ قبول کیا جا سکتا تھا‘ اگرچہ مثالیت پسند لوگ تو دو ریاستی حل کی بات سننے کیلئے تیار بھی نہیں ہیں‘ لیکن عملیت پسند لوگ شاید اسے قبول کر لیتے‘ کیونکہ مزید بے قصور انسانی جانوں کو تلف ہونے سے بچانا بھی ضروری ہے۔
ایک فلسطینی رہنما مصطفی برغوثی نے امریکی ٹیلی ویژن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے: ''غزہ کو بین الاقوامی فورس کے سپرد کرنا نو آبادیاتی منصوبہ ہے‘ فلسطینی ریاست اور قبضے کے خاتمے کا ذکر تک نہیں کیا گیا‘ اسرائیل سُست رو انخلا سے فائدہ اٹھا کر کسی بہانے سے دوبارہ جنگ چھیڑ سکتا ہے‘ فلسطینی فریق کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ممکنہ طور پر سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو عبوری فلسطینی مقتدرہ کا سربراہ مقرر کرنے کی بابت انہوں نے کہا: ٹونی بلیئر کا کردار ناقابل قبول ہے‘ عراق جنگ میں اُس کی جھوٹی کہانیاں اور مکاریاں اب بھی سب کو یاد ہیں‘ امریکی صدر کا مکمل جھکاؤ اسرائیل کی طرف ہے‘ فلسطینی عوام کو آزادانہ جمہوری انتخابات کا حق دیا جائے‘ اسرائیل کا غزہ میں نسلی خاتمے کا منصوبہ ناکام ہو چکا ہے‘‘۔
حماس کی قیادت اورغزہ کے فلسطینیوں نے جو قربانیاں دی ہیں اور ان پر جو وحشیانہ مظالم ڈھائے گئے ہیں‘ اس کی مثال ماضی قریب کی انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ستّر ہزار افراد جامِ شہادت نوش کرچکے‘ لاکھوں زخمی ہیں‘ سارا شہری ڈھانچہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اور ڈھائی ملین سے زیادہ لوگوں کی زندگی بھر کی کمائی خس وخاشاک میں تبدیل ہو چکی ہے‘ کسی کو خبر نہیں کہ جب اس ملبے کو اٹھایا جائے گا تو اس کے نیچے سے اور کتنی لاشیں برآمد ہوں گی۔ غزہ تنازع کے براہِ راست فریق اسرائیل اور حماس ہیں‘ مگر اس سارے منصوبے میں ٹرمپ نے اسرائیل کو تو آن بورڈ لیا ہے‘ مگر حماس کو سائیڈ لائن پر رکھا ہے‘ اتنی بڑی قربانیوں کے بعد لوگ سوال تو کریں گے کہ حماس کے ہاتھ کیا آیا اور خونِ شہیداں کس کے سر رہا۔ فیض احمد فیض نے کہا تھا: کہیں نہیں ہے‘ کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ؍ نہ دست وناخنِ قاتل‘ نہ آستیں پہ نشاں ٭نہ سرخیِ لبِ خنجر‘ نہ رنگِ نوکِ سِناں؍ نہ خاک پر کوئی دھبا‘ نہ بام پر کوئی داغ ٭کہیں نہیں ہے‘ کہیں بھی نہیں‘ لہو کا سراغ؍ نہ صَرفِ خدمتِ شاہاں‘ کہ خوں بہا دیتے؍ نہ دیں کی نذر‘ کہ بیعانۂ جزا دیتے ٭نہ رزم گاہ میں برسا‘ کہ معتبر ہوتا؍ کسی عَلَم پہ رقم ہو کے مشتہر ہوتا ٭پکارتا رہا بے آسرا‘ یتیم لہو؍ کسی کو بہرِ سماعت‘ نہ وقت تھا نہ دماغ ٭نہ مُدّعی‘ نہ شہادت‘ حساب پاک ہوا؍ یہ خونِ خاک نشیناں تھا‘ رزقِ خاک ہوا
فیض احمد فیض نے تو اپنے تخیُّل سے بات کی تھی‘ مگر غزہ کے فلسطینیوں کا خون تو رزم گاہ میں برسا ہے‘ علَم پہ بھی رقم ہوا‘ نوکِ سِناں پر بھی نظر آ رہا ہے‘ اُس کا سراغ بھی دستیاب ہے‘ قاتل کے دست وناخن اور آستیں تو کیا‘ سرزمینِ غزہ کا ذرہ ذرہ مظلوم فلسطینیوں کے خون سے رنگین ہے‘ یہ ایسا خون ہے کہ جس کے درد اور کرب کو مذہب اور رنگ ونسل کی تمیز سے بالاتر ہوکر پوری انسانیت نے محسوس کیا ہے‘ امریکہ اور یورپ سمیت دنیا بھر میں جلوس نکلے‘ احتجاج ہوئے‘ قراردادیں پاس ہوئیں‘ الغرض مطالبات کی ایک طویل فہرست ہے۔ امریکہ اور اہلِ مغرب نے اسرائیل کو اسلحہ بھی دیا‘ وسائل بھی دیے‘ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ امریکہ نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں بارہا غزہ کی جنگ بندی کی قراردادوں پر خطِ تنسیخ پھیر دیا‘ اگر اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک اعداد وشمار کو جمع کیا جائے تو امریکہ کا ویٹو سو تک پہنچ سکتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اسرائیلی وزیراعظم کی نہ صرف حمایت کرتے رہے‘ بلکہ ان کو شَہ دیتے رہے‘ نہ اُن کے ظلم کو ظلم کہا‘ نہ اُن کے جبر کو جبر کہا۔ نیتن یاہو کی حمایت میں ٹرمپ ساری دنیا کے مقابل آ کھڑا ہوا۔
سب سے اہم بات یہ کہ کوئی بھی معاہدۂ صلح وامن یکطرفہ اور ایک فریق کی حمایت پر نہیں ہوتا۔ دوسرے فریق کو بھی سنا جاتا ہے‘ اُن کے حقوق کے تحفظ کی بھی ضمانت دی جاتی ہے۔ ایسا تو صرف آمروں کے حکم نامے میں ہوتا ہے۔ حماس کوئی درانداز گروہ نہیں ہے‘ جسے انگریزی میں Infiltrator اور ہندی میں آتنک وادی کہا جاتا ہے۔ فلسطین ہزارہا سال سے اُن کا وطن ہے‘ وہ اپنے حقِ وطن اور مادرِ وطن کیلئے لڑ رہے ہیں۔ اُن کے اس حق کو انسانی حقوق کی ہر دستاویز تسلیم کرتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ امریکہ اور اہلِ مغرب میں کسی کے دل میں حماس اور اس کی قربانیوں کیلئے رحم کے جذبات نہیں ہیں‘ بلکہ وہ انہیں دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔ اصل ظلم یہی ہے۔ جب منصفوں کی آنکھوں پر نفرت کے پردے پڑ جائیں‘ اُن کے ذہنوں میں عصبیت کے زہریلے جراثیم جڑ پکڑ چکے ہوں تو اُن سے عدل کی توقع عبث ہے۔ ٹرمپ کے منصوبے میں حقیقی انصاف کی کوئی رمق نظر نہیں آتی‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں حماس نے جمہوری انداز میں غزہ کے انتخابات میں تاریخی فتح حاصل کی تھی اور اُن کو وہاں کے عوام کی بھرپور حمایت حاصل تھی‘ لہٰذا وہ ایک جمہوری قوت ہیں۔
اس منصوبے میں جس '' Board of Peace‘‘ یعنی بین الاقوامی مجلسِ امن تجویز کی گئی ہے‘ اس کی سربراہی فلسطینیوں کو دینے کے بجائے سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو دی جا رہی ہے‘ حالانکہ اسرائیل کا ناسور برطانیہ ہی کا تخلیق کردہ ہے۔ ٹونی بلیئر کو اس خطے سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ اس کے مسائل اور مشکلات کو وہی جان سکتے ہیں جو اس سرزمین پر رہتے ہیں۔ نیز صدر ٹرمپ نے اپنے آپ کو اس کا سربراہ بھی قرار دیا ہے اور فلسطینیوں سے ان کی نفرت اور اسرائیل سے محبت سب پر عیاں ہے۔ مزید یہ کہ جب عرب اور مسلم ممالک پر مشتمل بین الاقوامی فورس وہاں متعین کر دی جائے گی تو امن کا قیام اُن کی ذمہ داری ہو گی۔ اسرائیلی افواج کے فوری اِنخلا کی ضمانت دی جانی چاہیے تھی‘ جبکہ نہ صرف یہ کہ فوری اِنخلا کی ضمانت نہیں دی گئی‘ بلکہ اس کے اِنخلا کیلئے کسی مدت کا تعین بھی نہیں کیا گیا۔ اسرائیلی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی معاہدے کا پابند نہیں سمجھتے۔ اسی طرح مغربی کنارے پراسرائیلی نوآبادیات اور تجاوزات کا خاتمہ بھی معاہدے کا حصہ ہونا چاہیے تھا۔ ہونا یہ چاہیے کہ حماس کے مجاہدین کو فلسطین کی دفاعی فوج میں تبدیل کیا جائے تاکہ وہ اپنے وطن کے دفاع اور تحفظ وسلامتی کیلئے مثبت کردار ادا کر سکیں۔ ٹرمپ کے منصوبے سے عیاں ہوتا ہے کہ غزہ کو دنیا بھر کے سرمایہ داروں‘ عیش وعشرت کے دلدادہ لوگوں اور سیاحوں کیلئے ایک عالمی مرکز بنانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ تعمیرِ نَو کے بعد اگر ایک کمرے پر مشتمل فلیٹ بھی کروڑوں ریال یا درہم کا ہوا تو اسے مصیبت زدہ فلسطینی کیسے خرید سکیں گے‘ انہیں پھر دربدر کی ٹھوکریں کھانی ہوں گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں