"BGC" (space) message & send to 7575

تزویراتی گہرائی کی پتلون

ایک ہی دشمن سے بار بار نہ لڑو، ورنہ وہ تم سے فنِ سپاہ گری سیکھ لے گا۔ (نپولین بونا پارٹ)
اگر آپ سول ملٹری تنائو کے پیش نظر ابھی تک سانس روکے اور دم سادھے کسی تماشے کے منتظر ہیں تو مزید وقت ضائع نہ کریں کیونکہ فریقین بادل نخواستہ ہی سہی مگر بدستور پُرانی تنخواہ پر کام کرنے کو تیار ہیں۔ ہاں البتہ ساس بہو کی اس لڑائی کے باعث ہم کسی اور محاذ آرائی کے قابل نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے بعد اب افغانستان بھی ہمیں آنکھیں دکھانے لگا ہے اور المیہ یہ ہے کہ تزویراتی گہرائی کی فلم بہت بری طرح فلاپ ہونے کے بعد کوئی نیا ''جگاڑ‘‘ بھی سجھائی نہیں دے رہا۔ ہمارے ہاں جنرل (ر) اسلم بیگ سمیت کئی عسکری دانشور تزویراتی گہرائی کی ڈاکٹرائن متعارف کروانے کا کریڈٹ لیتے رہے ہیں‘ مگر انہیں معلوم نہیں کہ یہ ڈاکٹرائن تو اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ قیام پاکستان کے بعد جب ملک شدید اقتصادی بحران کا شکار تھا، حکومت کے پاس تنخواہیں دینے کے لیے پیسے نہیں تھے، بچی کھچی فوج تو تھی مگر دفاعی ساز و سامان نہ ہونے کے برابر تھا، تب چند شہ دماغوں نے یہ حکمت عملی مرتب کی کہ سوویت یونین کا کارڈ استعمال کرتے ہوئے امریکہ کو اشتراکیت کے خطرے سے ڈرایا جائے تو خطیر مالی امداد وصول کی جا سکتی ہے۔ قائد اعظم کو اعتماد میں لیا گیا تو انہوں نے اس کی فوری منظوری دیتے ہوئے اپنے معتمد خاص میر لائق علی کو امریکہ روانہ کر دیا جنہوں نے امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر ایم اے ایچ اصفہانی کے ساتھ 17 اکتوبر 1947ء کو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں کے ساتھ پہلی باضابطہ ملاقات کی اور اس خواہش کا اظہار کیا
کہ نوزائیدہ مملکت کو اپنا دفاع مضبوط بنانے اور معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے 2 ارب ڈالر کا قرضہ دیا جائے اور فوجی امداد بھی دی جائے۔ اس ملاقات کے دوران امریکی حکام کو قائل کرنے کے لیے سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ پاکستان کی شمالی سرحد سے سوویت یونین کی جارحیت کا خطرہ مسلسل سروں پر منڈلا رہا ہے۔ مسلمان کسی صورت کیمونزم کے ساتھ نہیں چل سکتے اور ان حالات میں بھارت کے دفاع کی ذمہ داری بھی پاکستان کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔ اس تاویل پر یقینا امریکی حکام بھی عش عش کر اٹھے ہوں گے۔ بہرحال پاکستانی وفد نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ شمالی سرحد سے پاکستان کی سلامتی کو کوئی بیرونی خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں بھارت کا دفاع بھی تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔ چند روز بعد امریکی حکام نے دوسری ملاقات کے دوران نہایت روکھے انداز میں کورا جواب دے دیا۔ گورنر جنرل پاکستان کے خصوصی ایلچی میر لائق علی نے جب یہ صورتحال دیکھی تو پینترا بدل کر فوراً مہاجرین کے لیے رضائیاں مانگ لیں۔ کہاں 2 ارب ڈالر اور کہاں مہاجرین کے لیے رضائیاں مگر امریکی حکام نے یہ خیرات دینے سے بھی معذرت کر لی۔
قائد اعظم نے دوسری کوشش کے طور پر سر فیروز خان نون کو مسلم ممالک کے دورے پر روانہ کیا جنہوں نے ترکی جا کر انقرہ میں قائم امریکی سفارتخانے سے رابطہ کیا اور ایک مرتبہ پھر اقتصادی و عسکری امداد کی درخواست کی۔ اس موقع پر فیروز خان نون نے دوبارہ روس والی کہانی دہراتے ہوئے بتایا کہ مسلمان اشتراکیت کے سخت خلاف ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ نہ تو ماسکو میں کوئی پاکستانی سفیر ہے اور نہ ہی کراچی میں کوئی روسی سفارتخانہ جبکہ اس کے برعکس دہلی میں بھی روسی سفیر موجود ہے اور ماسکو میں بھی نہرو نے اپنی بہن کو سفیر بنا کربھیجا ہوا ہے۔خود قائد اعظم نے امریکی سفیر پائول ایچ النگ سے ملاقات کے دوران تزویراتی گہرائی کا فلسفہ سمجھانے کی کوشش کی اور یہ دعویٰ کیا کہ قلات اور گلگت میں روسی ایجنٹ موجود ہیں۔ لیکن امریکہ تزویراتی گہرائی کا یہ منجن خریدنے پر آمادہ نہ ہوا۔ یہاں تک کہ
قائد اعظم رُخصت ہو گئے۔ ان کے بعد لیاقت علی خان نے اس مشن کو جاری رکھا۔ اسی اثنا میں امریکی صدر ہیری ٹرومین نے بھارتی وزیر اعظم نہرو کو امریکہ کا دورہ کرنے کی دعوت دی تو پاکستانی حکام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ فوری طور پر روسی حکام سے ساز باز کرکے سرکاری دورے کی دعوت حاصل کی گئی اور لیاقت علی خان نے ماسکو جانے کا اعلان کر دیا۔ امریکی حکام جو پہلے بات سننے کے روادار نہ تھے اس اعلان کے بعد پاکستان کی طرف مائل ہوئے اور کچھ پس و پیش کے بعد پاکستانی وزیر اعظم کو دورہ امریکہ کی باضابطہ دعوت موصول ہونے پر ماسکو جانے کا منصوبہ ملتوی کر دیا گیا۔ بس اس کے بعد افغانستان ہماری دفاعی حکمت عملی کی شطرنج کا سب سے اہم مہرہ بن گیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے اگر اس بساط کو نئے سرے سے بچھایا تو جنرل ضیاالحق نے شطرنج کے اس کھیل کو نئی جہت بخشی اور تب سے اب تک ہم اپنی مداخلت کا یہی جواز پیش کرتے آئے ہیں کہ مشرقی اور شمالی سرحد پر بیک وقت محاذ آرائی ملکی مفاد میں نہیں اس لیے افغانستان میں کوئی متحارب حکومت گوارہ نہیں کی جا سکتی۔ لیکن ہر طرح کی پیش بندی اور بھرپور حکمت عملی کے باوجود آج دونوں طرف سے ہمیں بدترین اشتعال انگیزی کا سامنا ہے۔ کبھی مشرقی سرحد پر بھارت کی طرف سے بلا اشتعال فائرنگ ہوتی ہے تو کبھی شمال مغربی سرحد پر افغان فورسز کی طرف سے جارحیت کی جاتی ہے۔ اگر ڈان لیکس سے فرصت ملے تو کبھی اس سوال پر بھی غور کر لیا جائے کہ ہماری افغان پالیسی ''بلنڈرز‘‘ سے بھرپور کیوں ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟
اس پریشان کُن صورتحال کے برعکس اگر تزویراتی گہرائی کی تصوراتی دنیا میں رہنے والے عسکری ماہرین سے بات کی جائے تو انہیں اب بھی سب ہرا ہرا ہی دکھائی دیتا ہے۔ وہ بتائیں گے کہ ہر طرف ہمارے مہرے بساط پر چھائے ہوئے ہیں اور بہت جلد ہم یہ بازی جیتنے والے ہیں۔ مثال کے طور پر کابل میں حکمت یار کی واپسی اور راولپنڈی میں لیاقت علی عرف احسان اللہ احسان کا لوٹ آنا، حافظ سعید نظر بند ہیں تو کیا ہوا، ہمارے پاس اور بھی اثاثے موجود ہیں۔ جب لیاقت علی جیسے ان دفاعی اثاثوں اور مہروں کا ذکر آتا ہے تو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کا واقعہ یاد آتا ہے۔ راولپنڈی کے لیاقت باغ کے جلسے کی پہلی صف میں بیٹھا قاتل سید اکبر جس نے لیاقت علی خان پر گولی چلائی، وہ تھا تو افغان شہری مگر ہمارے اداروں کا ہی ایک مہرہ تھا۔ اسے خفیہ خدمات کے عوض حکومت کی طرف سے 155 ڈالر ماہانہ جبکہ اس کے بھائی کو 224 ڈالر ماہانہ وظیفہ ملا کرتا تھا۔ اس پر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے سرخی جمائی:
‘‘Pakistan assassin on regime,s payroll''
نپولین نے تو ایک دشمن کے ساتھ بار بار لڑنے سے منع کیا تھا مگر ہم تو اب تک اپنی پراکسی جنگوں میں ہتھیار بھی ایک ہی نوعیت کے استعمال کرتے آئے ہیں اس لیے تمام حربے ناکام ہو رہے ہیں‘ لیکن کیا کریں اب تو تزویراتی گہرائی کی پتلون میں آگ لگ چکی ہے۔ اسے اتار پھینکیں تو ننگے ہوتے ہیں اور پہنے رکھیں تو جل بھن جاتے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں