انصاف کو اپنی آنکھوں پر بندھی پٹی اتارنی چاہئے تاکہ برے اور بدقسمت میں فرق کیا جا سکے ۔امریکی قانون دان اور مصنف رابرٹ گرین انگرسول۔
آپ نے انصاف کی دیوی کا مجسمہ تو دیکھا ہو گا جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے اور ہاتھ میں ترازو لٹک رہا ہوتا ہے۔یہ مجسمہ دراصل اس فلسفے کا عکاس ہے کہ انصاف اندھا ہوتا ہے اورمدعی یا ملزم کی حیثیت یا مرتبے کو خاطر میں نہیں لاتا۔جج نکولس مارشل کہتا ہے کہ انصاف اگرچہ اندھا ہوتا ہے مگر یہ اندھیرے میں دیکھ سکتا ہے۔میری رائے مگر یہ ہے کہ انصاف کی آنکھوں پر بیشک پٹی بندھی ہوتی ہے لیکن تفتیش کار اور جج اندھے نہیں ہوتے اور بُرے کے بجائے ہمیشہ بدقسمت کو ہی نشان عبرت بنایا جاتا ہے۔انیسویں صدی کے عظیم امریکی قانون دان اور دانشور رابرٹ گرین انگر سول کی نصیحت کو باقی دنیا میں چاہے سنجیدگی سے نہ لیا گیا ہومگر پاکستان میں اس پر بڑی حد تک عمل کرتے ہوئے انصاف کی دیوی نے اپنی آنکھوں پر بندھی پٹی بہت پہلے ہی اتار پھینکی تھی۔وطن عزیز میںقانون کی عملداری بھی ہے اور کڑے احتساب کی روایت بھی مگر بندگان ِخاکی جو درحقیقت افلاکی و لولاکی مزاج کے حامل ہیں ،انہیں استثنیٰ حاصل ہے ۔اب دیکھیں ناں یہ انہونی نہیں تو اور کیا ہے کہ اکبر بگٹی قتل کیس میں کمانڈو جرنیل ایک دن بھی پیش نہیں ہوامگر اسے عدالت نے باعزت بری کر دیا۔غازی عبدالرشید قتل اور لال مسجد کیس میں انسداد دہشتگردی کی عدالت گزشتہ دو سال سے سمن پہ سمن جاری کیئے جا رہی ہے اور اس کے جواب میں جنرل صاحب رقص کی ویڈیوز جاری کرتے چلے جاتے ہیں۔یہ بات بھی کسی معجزے سے کم نہیں کہ غداری کے مقدمہ میں ریلیف دینے کے لیئے کمر درد کا سرٹیفکیٹ انہیں ایک ایسے ادارے سے ملا جو امراض قلب کے لیئے مخصوص ہے۔لیکن سچ پوچھیں تو ان سب باتوں کے باوجود مجھے پرویز مشرف بہت بھلاآدمی معلوم ہوتاہے ۔یہ اس کی مہربانی اور شفقت نہیں تو اور کیا ہے کہ اس نے کمر درد کا بہانہ کرکے انصاف کی دیوی کو رسوا ہونے سے بچا رکھا ہے ورنہ وہ یہ تکلف کیے بغیر بھی ٹھینگا دکھا دیتا تو کوئی اس کا کیا بگاڑ لیتا۔
بزرگ بتاتے ہیں کہ یحییٰ خان آخری وقت تک خم ٹھونک کرمیدان میں کھڑے رہے اور ببانگ دہل کہتے رہے کہ کسی میں ہمت ہے تو میرا کورٹ مارشل کرکے دکھائے ۔جنرل حمید گل ،حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔جب بھی آئی جے آئی بنانے کی بات ہوتی تو سینے پر ہاتھ مار کر چیلنج کرتے ،میں نے کچھ غلط کیا ہے تو مقدمہ چلائو مجھ پر،ٹرائل کیوں نہیں کرتے میرا؟جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کی نہ تو کمر میں درد ہے اور نہ ہی یہ لوگ ملک چھوڑ کر گئے ہیں،دونوںنے اصغر خان کیس میںبھی تسلیم کیا اور اپنے انٹرویوز میں بھی اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے من چاہے نتائج حاصل کرنے کے لئے سیاستدانوں میں پیسے تقسیم کیے ،کیا انصاف کے علمبردارانہیں کٹہرے میں کھڑا کرنے کی جرات کر سکتے ہیں؟چند برس ہوتے ہیں ،میں جنرل اسلم بیگ کا انٹرویو کر رہا تھا۔میں نے ان سے پوچھا ، اس الزام میں
کتنی حقیقت ہے کہ ضیاء الحق کی موت کے بعد سپریم کورٹ جونیجو کی حکومت بحال کرنے لگی تھی مگر آپ کی ڈکٹیشن پر ایسا ممکن نہ ہو سکا؟میرا خیال تھا کہ وہ کچھ لگی لپٹی رکھیں گے اور ملفوف جواب دیں گے مگر انہوں نے برملا کہا کہ ہاں میں نے سپریم کورٹ کو پیغام بھیجا کہ میں نے انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا اور اس وعدے پر عملدرآمد کرانا بھی میری ذمہ داری تھی۔نہال ہاشمی نے تو محض بڑھک ماری ،کیا اس شخص کے خلاف کوئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنائی جا سکتی ہے جس نے سپریم کورٹ کے ججوں کو عملاًدھمکا کر فیصلہ تبدیل کروایا؟
اب ذرا تصویر کو ایک اورزاوئیے سے نئی عینک لگا کر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔چشم بد دور،ملک میں عدل جہانگیری کی یاد تازہ کی جا رہی ہے ،انصاف کا بول بالا ہو رہا ہے ۔انصاف کی دیوی نے اپنی آنکھوں پر پھر سے پٹی باندھ لی ہے۔بلا تخصیص
سب کا کڑا احتساب ہو رہا ہے۔ایوب خان اور یحییٰ خان کی قبر کا ٹرائل ہو چکا ۔جس طرح لاطینی امریکہ کے ملک چلی میں عدلیہ نے ڈکٹیٹروں کا ساتھ دینے پر معافی مانگی ،اسی طرح عدلیہ نے ماضی کے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے یہ طے کر لیا ہے کہ اب کسی سے ڈکٹیشن لیکر فیصلے نہیں کیئے جائیں گے۔گوروں نے جیسے کرام ویل کی ہڈیاں نکال کر اس کا ٹرائل کیا تھا ،ویسے ہی ہم ضیا الحق کے خلاف مقدمہ چلا چکے۔رومانیہ نے اپنے ڈکٹیٹر چائو شسکو کا مختصر ٹرائل کرنے کے بعد اسے فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے بھون ڈالا تھا تو ہم نے بھی پرویز مشرف پر آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ چلا نے کے بعد سزا دیکر نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔معروف کلب سکینڈل تو یاد ہے ناں،جس میں 10ارب روپے کی کرپشن کی گئی اس میں کچھ ''خاکی فطرت‘‘ لوگ ملوث پائے گئے تھے مگر کوئی لحاظ کیئے بغیر ان کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی رقم نکلوا لی گئی۔این آئی سی ایل سے 4ارب روپے کی دیہاڑی لگانے والوں سے بھی مال مسروقہ برآمد ہو چکا۔اور ہائوسنگ سوسائٹی کے نام پر 17ارب روپے کاکھانچہ ،یہ تو کل کی بات ہے۔سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بھائی امجد کیانی اور کامران کیانی ملوث پائے گئے مگر کوئی رعایت دیئے بغیر انہیں گرفتار کیا گیا ۔نہ صرف 17ارب روپے قومی خزانے میں جمع ہو چکے ہیں بلکہ انتہائی بااثر ملزم جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ایک صاحب جن کے نام سے پہلے (ج) آتا ہے ان کا نام بھی پانامہ لیکس میں سامنے آیا تھا،انہیں پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی سے روک دیا گیا ہے اوروہ بھی آجکل جے آئی ٹی کے سامنے پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ایک اور صاحب جو عدلیہ کا افتخار کہلائے ،انہیں بھی تفتیش کے عمل سے گزرنا پڑرہا ہے کیونکہ ان کے فرزند ارجمند نے باپ کے منصب کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے دولت کمائی۔اب آپ ہی بتائیں یہ انقلاب برپا ہونے کے بعد جے آئی ٹی وزیر اعظم کو تفتیش کے لیئے طلب کیوں نہ کرے؟اور اس کی کیا مجال کہ وہ پیش ہونے سے انکار کرے؟
ترقی یافتہ ممالک کے بارے میں سنا کرتے تھے کہ وہاں ادارے بہت مضبوط اور مستحکم ہیں۔اسرائیلی وزیر عظم نیتن یاہو سے ان کے ادارے کرپشن کے الزامات پر پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو سے بے ضابطگیوں پر جواب طلبی کیا جا رہی ہے،ماضی میں برطانیہ کے کئی وزرائے اعظم کو شامل تفتیش ہونا پڑا۔ہمارے ہاں وزرائے اعظم کے سپریم کورٹ پیش ہونے کی مثالیں تو موجود ہیں مگر یہ پہلا موقع ہے کہ کسی تفتیشی ادارے یا جے آئی ٹی کے طلب کرنے پر وزیراعظم پیش ہونگے ۔قبلہ اعتزاز احسن فرماتے ہیں کہ نوازشریف ڈرامہ کرنے کے لیئے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونگے۔ تکلف برطرف ،کیا ہی اچھا ہو اگر ایسا ڈرامہ باقی لوگ بھی کر دکھائیں۔واقعی ہمارے ملک میں تاریخ رقم ہو رہی ہے لیکن میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ نوازشریف کے نام سے پہلے بھی ''ج‘‘ یا ''ج‘‘(ر) ہوتا تو کیا تب بھی انہیں طلب کیا جاتا اور کیا ایسی صورت میں بھی وہ پیش ہونے کا تردد کرتے ؟