ابھی کہانی ختم نہیں ہوئی۔ سچ کہوں تو ابھی اختتام کا آغاز ہی نہیں ہوا۔ ہاں شاید یہ اختتام ہے شروعات کا (The End of the beginning)‘ برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل کے 1942ء میں خطاب سے اقتباس
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جاری تھا۔ مہمانوں کی گیلری غیر ملکی سفارت کاروں اور مندوبین سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر کے دوران جذبات سے رندھی ہوئی آواز میں کہا ''وہ میراخون مانگتے ہیں کیونکہ میں ہی پاکستان میں استحکام اور یکجہتی کی علامت ہوں، وہ مجھے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کے الفاظ ہیں جنہوں نے 28 اپریل 1977ء کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنے مخالفین کو منہ توڑ جواب دیا۔ ان کے سیاسی اور غیر سیاسی مخالفین کہ رہے تھے ''پارٹی اِز اوور‘‘ مگر تالیوں کی گونج اور نعروں کے شور میں منتخب وزیر اعظم نے اپنی بات سمیٹتے ہوئے کہا ''حضرات! پارٹی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اور وہ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک اس عظیم قوم کے لئے میرا مشن پائے تکمیل کو نہیں پہنچ جاتا‘‘۔ بھٹو بے مثال مقرر تھے اور مجمع کو اپنی لذتِ تقریر کے سحر میں جکڑ لیا کرتے تھے۔ انہوں نے یہ جملہ کہنے کے بعد کچھ توقف کیا، ایک طائرانہ سی نظر ارکان پارلیمنٹ اور مہمانوں کی گیلری پر ڈالی، یکایک اپنی آواز بلند کی اور چنگھاڑتے ہوئے کہا ''میں خود تو ایک عاجز اور بے بس انسان ہوں لیکن یہ کرسی جس پر میں بیٹھا ہوا ہوں، بہت طاقتور ہے۔ مجھے آسانی سے کوئی اس کرسی سے اٹھا نہیں سکتا‘‘۔ جب اپوزیشن سے مذاکرات کا سلسلہ عروج پر تھا تو بھٹو غیر ملکی دورے پر روانہ ہو گئے اور جب واپس آئے تو پانی سر سے گزر چکا تھا۔ 4 جولائی 1977ء کو ضیاء الحق نے بھٹو کا تختہ الٹ دیا۔ عدلیہ نے تاریخ میں امر ہونے کی چاہ میں بھٹو کو پھانسی دے دی اور اس تاریخی فیصلے کی پاداش میں آج تک اسے شرمندگی و خجالت کا سامنا ہے۔ نواز شریف بھٹو جیسے شعلہ بیاں خطیب تو نہیں اور نہ ہی انہوں نے اپنے مخالفین کو پیغام دینے کے لئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا فورم منتخب کیا، البتہ جے آئی ٹی کے روبرو پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کم و بیش وہی بات کی جو بھٹو نے کہی تھی ''عوام کے فیصلے کو روند کر مخصوص ایجنڈے والی فیکٹریاں بند نہ کی گئیں تو ملکی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔ وہ زمانے گئے جب سب کچھ پردوں کے پیچھے چھپا رہتا تھا، اب کٹھ پتلیوں کے کھیل نہیں کھیلے جا سکتے۔ اب ہم تاریخ کا پہیہ پیچھے کی طرف نہیں مڑنے دیں گے۔ سب سے بڑی جے آئی ٹی اور عوام کی عدالت لگنے والی ہے‘‘۔ جس طرح بھٹو کے خلاف تحریک دھاندلی کے الزامات سے شروع ہوئی اور پھر اس نے نظام مصطفیﷺ تحریک کی شکل اختیار کر لی، اسی طرح نواز شریف کا گھیرائو بھی انتخابی دھاندلی کو بنیاد بناتے ہوئے کیا گیا لیکن جب یہ وار کارگر ثابت نہ ہوا، وہ اس محاصرے سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے تو اب احتساب کا تیر بہدف نسخہ آزمایا جا رہا ہے۔ بھٹو انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں غیر ملکی دورے پر چلے گئے تو نواز شریف بھی حسب روایت آخری عشرہ اور عید گزارنے کے لئے ملک سے باہر تشریف لے گئے ہیں۔ محض واقعات ہی نہیں الفاظ میں بھی بہت مطابقت و مشابہت ہے تو کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی اور انجام بھی ایک جیسا ہو گا؟ کیا تاریخ کا پہیہ ایک مرتبہ پھر پیچھے کی طرف مُڑ جائے گا یا پھر نواز شریف کی بات درست ثابت ہو گی؟ یہ ہے وہ سوال جو ان دنوں ہر محفل میں زیر بحث ہے۔
خدا جانے اس ملک پر کسی آسیب کا سایہ ہے یا پھر کسی بھوت پریت کا اثر، کوئی بھی منتخب وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر پاتا۔ لیاقت علی خان شہید ہوئے، خواجہ ناظم الدین کو برطرف کیا گیا، محمد علی بوگرا کی زبردستی چھٹی کروا دی گئی، چوہدری محمد علی سے استعفیٰ لے لیا گیا، حسین شہید سہروردی کو مکھن میں سے بال کی طرح نکال کر پھینک دیا گیا۔ فیروز خان نون کو گھر بھیج دیا گیا، بھٹو کو پھانسی دے دی گئی، جونیجو جیسا مرنجاں مرنج وزیر اعظم ہضم نہیں ہوا، بے نظیر اور نواز شریف اپنی مدت پوری نہیں کر پائے اور دوسری ٹرم ختم ہونے سے پہلے نواز شریف کو جلا وطن کر دیا گیا۔ ظفراللہ جمالی جیسا عاجز شخص برداشت نہیں ہوا، یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کی کند چھری سے ذبح کر دیا گیا، اور اب ایک مرتبہ پھر قربانی سے پہلے قربانی کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ویسے یہ بھوت ہے بہت سیانا۔ صرف سیاستدانوں کے گرد منڈلاتا ہے اور انہیں ہی روز و شب ڈراتا اور بھگاتا ہے۔ بالعموم آسیب نامعلوم اور انجان ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں کسی کو کچھ خبر نہیں ہوتی مگر اس آسیب سے تو ہماری پرانی شناسائی ہے۔ یہ آسیب جو کبھی مخصوص لباس میں دکھائی دیتا ہے تو کبھی سیاہ جبہ پہنے نمودار ہوتا ہے، ایک مرتبہ پھر آدم بو آدم بو پکارتا پھرتا ہے مگر اس کے خد و خال ابھی مبہم سے ہیں۔ فی الوقت صرف ہم اتنا جانتے ہیں کہ اس بار نازل ہونے والا آسیب اپنا نام ''احتساب‘‘ بتاتا ہے اور ایک مرتبہ پھر منتخب وزیر اعظم کو ہڑپ کرنے کے درپے ہے۔ کیا یہ آسیب اپنے مقصد میں کامیاب ہو گا یا پھر کسی چلہ کشی اور تپسیا کے نتیجے میں دم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہو جائے گا؟ تجزیہ نگاری میں استاد کا درجہ رکھنے والے سہیل وڑائچ کا خیال ہے کہ ردِ بلا کی سب کاوشیں بے سود ثابت ہوئیں۔ ''پارٹی اِز اوور‘‘ کی آواز لگ چکی اور اب نواز شریف کی کہانی ختم ہونے کو ہے۔
بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ ہدایت کار سکرپٹ رائٹرکے لکھے مکالموں کے عین مطابق کہانی کو آگے بڑھا رہا ہے اور ''دا اینڈ‘‘ ہونے کو ہے مگر میرا خیال ہے ابھی ''بہت ہیں پستیاں حائل میری تحقیر کرنے تک‘‘۔ کہانی کی اٹھان یہ تقاضا کرتی ہے کہ ''احتساب‘‘ نامی آسیب نے ولن کو ہڑپ کر لیا تو اسے ''ہیرو‘‘ کو بھی نگلنا پڑے گا۔ یعنی اگر نواز شریف فارغ ہوئے تو عمران خان بھی نااہل قرار پائیں گے۔ اگر مسلم لیگ (ن) کے دیو کی جان نواز شریف نام کے طوطے میں ہے تو تحریک انصاف بھی عمران خان نامی گھنٹہ گھر کے گرد گھومتے ہوئے ہی زندہ رہ سکتی ہے۔ چنانچہ اسکرپٹ یہ ہے کہ توازن برقرار رکھنے کے لئے احتساب کا آسیب یکے بعد دیگرے ان دونوں کو لے کر چھو منتر ہو جائے تاکہ نواز شریف کی جگہ شہباز شریف لے سکیں اور عمران خان کو مکھن میں سے بال کی طرح نکال پھینکنے کے بعد تحریک انصاف کی زمامِ کار جہانگیر ترین کے ہاتھ میں دے دی جائے۔ موقع کی مناسبت سے یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ احتساب کے آسیب کے ذریعے مزید دہشت پھیلانی ہے یا پھر انتخابات کے نتیجے میں معلق (ہنگ) پارلیمنٹ تشکیل دے کر لولی لنگڑی جمہوریت کا پتلی تماشا جاری رکھنا ہے۔ یہ تو ہے وہ اسکرپٹ جس کے مطابق کہانی ختم ہوتی نظر آ رہی ہے مگر میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ پارٹی تو ابھی شروع ہوئی ہے۔ چرچل کے الفاظ مستعار لوں تو ''پکچر ابھی باقی ہے‘‘ سچ یہ ہے کہ نہ تو یہ انجام ہے اور نہ ہی انجام کا آغاز۔ یہ تو اختتام کی بھیانک شروعات ہیں۔ اگر سنگین نتائج اور تباہ کن مضمرات کو نظر انداز کرتے ہوئے کوئی ''تاریخی‘‘ فیصلہ دے بھی دیا گیا تو اصل فیصلہ عوام کی عدالت ہی کرے گی۔