"BGC" (space) message & send to 7575

ہرکولیس اورٹارزن سٹائل انداز حکومت

پاناما کا دیپک راگ رفتہ رفتہ زہر قاتل بن کر سماعتوں میں گھلتا جا رہا ہے۔ راگ درباری سے ہمیں کوئی سروکار نہیں، تو سوچا کیوں نہ ان جھمیلوں سے ہٹ کر آج ایک ایسا راگ جھنجھوٹی چھیڑا جاوے جس سے سب کی آشنائی ہو۔ جمہوریت کے تان سینوں اور سیاست کے سمراٹوں کی انتخابی بانسری سے کوئی اور سُر برآمد نہ ہو رہا ہو تو ان کی تان اس راگ مالکونس پر ہی ٹوٹتی ہے کہ ہم اقتدار میں آخر تھانہ کلچر تبدیل کر دیں گے۔ آپ کسی بھی سیاسی جماعت کا انتخابی منشور اٹھا کر دیکھ لیں یا پھر کونسلر سے لے کر وزرائے اعلیٰ تک کسی بھی درجے کے سیاسی رہنمائوں کے بیانات جمع کر لیں، تھانہ کلچر تبدیل کرنے کی راگنی جابجا سننے کو ملے گی۔ سادہ لوح عوام اس راگ پر سر دھنتے اور خواب بنتے ہیں کہ بس اب انگریز کا بنایا ہوا یہ کلچر ختم ہو جائے گی‘ جس کی بنیاد لاٹھی گولی کی سرکار کے ظالمانہ اصول پر استوار کی گئی ہے‘ لیکن عوامی خدمت کا دم بھرنے والوںکے اس نعرے کا اصل مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ہم اقتدار میں آ کر پرانے افسروں کو کھڈے لائن لگائیں گے اور اپنے چہیتوں کے کندھوں پر ترقی و تقرری کے تمغے سجائیں گے۔ تصنع، بناوٹ اور لیپاپوتی پر مائل سیاست گروں نے کبھی ماڈل پولیس سٹیشن کا جھانسہ دے کر ہتھیلی پر سرسوں جمائی، کبھی پولیس آرڈر میں ترمیم کا ٹوپی ڈرامہ کیا تو کبھی فرنٹ ڈیسک آفسز بنانے کی نوٹنکیوں کا کریڈٹ لیا۔ عوام کو قابو میں رکھنے کے قائل نمائندوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ہر تھانے دار سمیت تمام پولیس آفیسرز ان کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی ہوں تاکہ وہ جب چاہیں لوگوں کو بکری یا بھینس چوری کے جعلی مقدمے میں پھنسا دیں۔ اسی طرح صوبائی حکمران کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ کسی ایسے طابع دار اور فرماں بردار پولیس افسر کو چن کر آئی جی پی لگایا جائے جو چپ چاپ کونے میں بیٹھ کر دہی کھاتا رہے اور محض انہی احکامات کی تعمیل کرے جو اسے نوازنے والوں کی طرف سے موصول ہوں۔ ایک سابق آئی جی تو اس معیار پر کچھ اس طرح سے پورا اترے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کی چاکری قائم و دائم ہے اور ان کی ''گرانقدر خدمات‘‘ جن سے عوام بڑی حد تک لاعلم ہیں، کے اعتراف کے طور پر ان کی خدمت تاحال کی جا رہی ہے۔ ان کا اکلوتا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پولیس کلچر تبدیل کرنے کے بجائے پولیس کی وردی بدل دی اور اب نہ صرف وزیر اعلیٰ کے مشیر کی حیثیت سے محکمے میں بے جا مداخلت کا سبب بن رہے ہیں بلکہ 'انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند‘ کے مصداق یہ فرمائش بھی کر چکے ہیں کہ انہیں تمغہ شجاعت سے نوازا جائے۔
اہل سیاست کے دہرے معیارات اور طرفہ تماشا ملاحظہ فرمائیں کہ سندھ میں شعیب سڈل یا اے ڈی خواجہ جیسے فرض شناس افسر کو آئی جی پولیس کے طور پر دیکھنے کی خواہش رکھنے والے اپنے صوبے میں ایسے افسروں سے ''بیزار‘‘ ہی رہتے ہیں اور انہیں کسی اپنے مطلب کے بندے کی تلاش رہتی ہے۔ ایسا کوئی بندہ دستیاب نہیں تو کیپٹن (ر) عثمان خٹک کو قائم مقام آئی جی پنجاب تعینات کیا گیا ہے۔ ان کی تقرری 90 دن کے لئے کرتے وقت یہ کہا گیا تھا کہ عبوری تعیناتی کی، کی مدت ختم ہوتے ہی مستقل آئی جی کی پوسٹنگ کر دی جائے گی۔ یہ مدت 12 جولائی 2017ء کو ختم ہو رہی ہے مگر تاحال نئے آئی جی کی تعیناتی کا مرحلۂ شوق طے نہیں ہو سکا۔
گزشتہ چند سال کے دوران کئی ایسے تجربات کئے گئے جو بظاہر مثبت اور تعمیری دکھائی دیتے ہیں، مثال کے طور پر پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کے ذریعے پنجاب کے مختلف شہروں میں جدید ترین کیمرے نصب کئے جا رہے ہیں جن سے چوبیس گھنٹے نگرانی کی جا سکتی ہے۔ پیرو اور ڈولفن فورس تشکیل دی گئی ہے اور اب احتجاجی مظاہرین سے نمٹنے کے لئے انسداد بلوہ فورس(اے آر پی یو) قائم کی گئی ہے۔ ترکی سے متاثر ہو کر شروع کئے گئے اس منصوبے کے تحت ابتدائی طور پر 40 اہلکاروں کو ٹریننگ کے لئے ترکی بھیجا گیا اور پھر ترک پولیس افسروں کی خدمات حاصل کرکے 200 خواتین اہلکاروں سمیت تقریباً 1700 اہلکاروں کو مظاہرین سے نمٹنے کی تربیت دی گئی اور انہیں عالمی معیار کی سہولیات اور وسائل بھی مہیا کئے جا رہے ہیں۔ چونکہ ہمارے ہاں سڑکیں بلاک کرنے اور ہر مسئلے کو احتجاج سے حل کرنے کا رجحان وبائی مرض کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور کچھ معلوم نہیں پڑتا کہ کب کون سی شاہراہ بلوائیوں کے کنٹرول میں ہو، اس لئے جلوسوں اور مظاہروں سے پیشہ ورانہ مہارت سے نمٹنے کے لیئے خصوصی یونٹ کی تشکیل قابل تعریف اقدام ہے بشرطیکہ اسے سیاسی اغراض و مقاصد کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔
سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر محولا بالا اقدامات نمائشی اور سطحی نوعیت کے نہیں تو پھر ان کے باوجود پولیس اور تھانہ کلچر تبدیل کیوں نہیں ہو رہا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ تھانہ کلچر تبدیل کرنے کے علمبردار ہی اس کلچر کے سب سے بڑے ٹھیکے دار ہیں؟ سچ یہی ہے کہ سیاست گروں کی روزی روٹی ہی اس پٹوار خانے، تھانے اور کچہری سے وابستہ ہے۔ اسی تھانہ کلچر کی بدولت حلقہ جاتی سیاست کی نکیل ان کے ہاتھ میں رہتی ہے۔ اسی کورٹ کچہری اور پٹوار خانے کے دم قدم سے ان وڈیروں کے ڈیرے آباد اور ان کی رونقیںقائم و دائم ہیں۔ تھانہ کلچر تبدیل نہ ہونے کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ ٹارزن اور ہرکولیس سٹائل اندازِ حکومت بھی ہے۔ کیا کبھی آپ نے سنا کہ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ نے حوالات میں شہری پر تشدد کا نوٹس لیتے ہوئے پورے تھانے کو معطل کر دیا ہے؟ کبھی کوئی ایسی خبر نظروں سے گزری کہ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے یا لندن کے میئر محمد صادق نے عوامی شکایات پر 2 پٹواریوں اور ایک تحصیلدار کو معطل کر دیا ہے؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کے خادم اعلیٰ نے کسی ہسپتال یا سستے بازار کا اچانک دورہ کیا ہو اور مہنگے داموں اشیا کی فروخت کا نوٹس لیا ہو؟ کیا استنبول میں یہ ممکن ہے کہ پولیس کے فیلڈ افسروں کی تعیناتی محکمے کے سربراہ کے بجائے کسی اور کا استحقاق ہو؟ مگر ہمارے ہاں اسی انداز سے کام ہوتا ہے۔ اگر پنجاب کی بات کریں تو چونکہ خادم اعلیٰ پر خدمت کا جنون سوار ہے اور وہ ماسوائے اپنے کسی اور کو خدمت کا موقع دینے پر یقین نہیں رکھتے اس لئے وہ آئی جی پی ہی نہیں ڈی پی اوز اور آر پی اوز کے اختیارات بھی خود مستعار لے لیتے ہیں، نہ صرف ڈی پی اوز کی تقرری ان کی پسند نہ پسند کی بنیاد پر ہوتی ہے بلکہ معطلیوں کا فریضہ بھی وہ بذات خود ہی سرانجام دیتے ہیں۔ چونکہ ان دنوں ''عشق ممنوع‘‘ ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور ہر معاملے میں ترک ماڈل کی پیروی کی جا رہی ہے تو کیوں نہ ترک صدر طیب اردوان سے ہی پوچھ لیں کہ ان کے ہاں تھانہ کلچر کیسا ہے اور کیا وہاں بھی یہی ہرکولیس اور ٹارزن والا اندازِ حکومت رائج ہے؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں