خاکروب ماں اور خاکروب باپ کا بیٹا ذیشان لبھا مسیح مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہو کر جوڈیشل مجسٹریٹ بن گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جو نظام ہمارے ہاں جاری و ساری ہے اور جس پر ہمیں فخر ہے‘ اس کے علاوہ بھی ایک نظام ہے جو ہماری نظروں سے اوجھل ہے‘ تاہم اس کا چلانے والا کبھی کبھی‘ کہیں کہیں‘ اس کی ایک آدھ جھلک دکھاتا ہے تاکہ ہمیں یہ احساس ہو سکے کہ ہمارا نظر آنے والا ظاہری نظام کتنا بودا‘ کھوکھلا‘ مضحکہ خیز اور بے بنیاد ہے! ذیشان لبھا مسیح نے جس گھر میں آنکھ کھولی اس میں کوئی پورچ‘ لائونج اور ڈرائنگ روم نہیں تھا۔ وہ اونچی پشت والی کرسی پر بیٹھ کر بیضوی شکل والے ڈائننگ ٹیبل پر کھانا بھی نہیں کھاتا تھا۔ اس کی ماں زمین پر بیٹھ کر کھانا پکاتی اور وہ پاس ہی زمین پر یا پیڑھی پر بیٹھ کر دال سے یا چٹنی سے یا پیاز سے روٹی کھا لیتا۔ اسے ناشتے میں پھلوں کا رس‘ آملیٹ‘ ٹوسٹ اور مارملیڈ کبھی نہیں ملا۔ اس کی سالگرہ کے دن اس کا گھر ریموٹ کنٹرول کھلونوں سے بھرا‘ نہ پارٹیاں ہوئیں۔ وہ کبھی اپنے باپ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر لبرٹی مارکیٹ آئس کریم کھانے نہ گیا۔ اوکاڑہ کی گلیوں میں‘ جہاں اس کی ماں جھاڑو دیتی تھی اور جہاں تحصیل کونسل میں اس کا باپ صفائی کا کام کرتا تھا‘ جب وہ اپنے ہم جولیوں سے کھیلتا تو اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ میکڈانلڈ کی ایپل پائی کیا ہوتی ہے اور کے ایف سی کا زِنگر برگر کیسا ہوتا ہے۔ اسے کھانے کے لیے کبھی ٹوٹی فروٹی ملی نہ چاکلیٹ‘ نہ اس کے پاس چین کی بنی ہوئی چمکدار‘ جُھکے ہوئے ہینڈل والی‘ سائیکل تھی۔ اس نے کبھی پِنک پینتھر کے کارٹون دیکھے‘ نہ آئی پیڈ یا لیپ ٹاپ پر کبھی کوئی فلم دیکھی۔ پھر جب وہ پڑھنے کی عمر کو پہنچا تو ایف ٹین اسلام آباد کے‘ گلبرگ لاہور کے‘ حیات آباد پشاور کے اور ڈیفنس کراچی کے بچے یہ جان کر حیران ہوں گے کہ یہ بچہ پریپ میں داخل ہوا نہ نرسری میں‘ وہاں انگلش گرامر سکول تھا‘ نہ کوئی اور ایسا تعلیمی ادارہ جس کی فیس ہزاروں میں ہو‘ وہاں تو بس چھوٹا سا سکول تھا جس کی لائبریری تھی‘ نہ لیبارٹری‘ نہ ہال۔ وہاں تو میز کرسیاں بھی نہیں تھیں۔ وہاں تو ٹاٹ بھی نہ تھے۔ ہر بچہ اپنے بیٹھنے کے لیے پلاسٹک کی خالی بوری یا کھاد والا خالی تھیلا لاتا اور اُس پر بیٹھتا۔ ذیشان نے جاگر پہنے نہ ٹی شرٹیں۔ اسے ڈرائیور گاڑی پر سکول چھوڑنے جاتا‘ نہ اس کے پاس کبابوں اور کیک سے بھرا ہوا لنچ بکس ہوتا‘ نہ کبھی سکول والے اسے تفریحی یا تعلیمی دورے پر لے کر گئے۔ ان چیزوں کا ذیشان لبھا مسیح کو تو کیا اس کے ماں باپ اور اساتذہ کو بھی معلوم نہ تھا۔ وہ واپس آ کر اپنے ڈیڑھ مرلے کے گھر کے صحن میں‘ اَلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتا اور سکول کا کام کرنے لگ جاتا۔ باپ تحصیل کونسل اوکاڑہ میں جھاڑو دیتا رہا۔ ماں اوکاڑہ کی گلیاں صاف کرتی رہی۔ دھول گلیوں کی بھی اُڑتی رہی اور وقت کی بھی۔ ذیشان مسیح آگے بڑھتا گیا۔ ایک ایک انچ۔ ایک ایک قدم۔ پھر وہ وقت آیا کہ اس نے پنجاب پبلک سروس کمیشن کے مقابلے کے امتحان میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ اب وہ امتحان کی تیاری کے لیے ہر روز صبح ساہی وال جاتا۔ دن بھر وہاں پڑھتا۔ واپس آ کر رات گئے تک ٹیوشن پڑھاتا۔ تھوڑا سا وقت بان کی چارپائی پر سوتا۔ صبح سویرے رات کی باسی روٹی چائے کے ساتھ کھا کر‘ ماں کا بوسہ اپنے زرد رخسار پر لے کر پھر شہر کا رُخ کرتا۔ ماں کا یہ بوسہ جو ہر صبح اُس کے رخسار پر ثبت ہوتا‘ اس کا سب سے قیمتی زادِ راہ تھا۔ یہ بوسہ اُسے بھوک میں توانائی بخشتا‘ بارش اور دھوپ میں چھتری بن جاتا اور کتاب سامنے آتی تو یہی بوسہ ذہن کے اندر روشنی دیتا ہوا چراغ بن جاتا ؎ نشاں ہونٹوں کا لَو دینے لگا ہے ذہن میں اب تو بالآخر میں نے اس کو مشعلِ رخسار کر ڈالا نتیجہ آیا تو وہ خواب جو بے شمار آسودہ حال گھروں کے نوجوانوں نے دیکھا تھا‘ گرا تو مفلس کی جھولی میں گرا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ کچھ چیزوں کی تقسیم کائنات کے پروردگار نے اپنے ہاتھ میں رکھ لی ورنہ اُسی پروردگار کی قسم! غریبوں کو ہوا‘ روشنی‘ پانی اور ماں کا بوسہ بھی نہ ملتا اور یہ نعمتیں بھی صرف بلاولوں‘ مونس الٰہیوں اور حمزہ شہبازوں کو ملتیں یا انہیں جن کے پاس قاف لیگ‘ نون لیگ‘ پی پی پی اور جے یو آئی کی پرچیاں ہوتیں! ذیشان لبھا مسیح کی خوش بختی کہ ذہانت بھی انہی چیزوں میں شامل تھی جن کی تقسیم خدائے برتر نے اپنے ہاتھ میں رکھی۔ ایک پائی ٹیکس نہ دینے والا وزیر اپنی صاحبزادی کو یورپی ملک کے پاکستانی سفارت خانے میں دھاندلی اور دبائو سے افسر تو لگوا سکتا ہے‘ مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے لیے اسے ذہانت کہیں سے خرید کر نہیں دے سکتا! حکمران کا فرزند صوبے بھر کی مرغبانی کی صنعت پر قبضہ کر کے روزانہ کروڑوں روپے تو کما سکتا ہے لیکن الحمدللہ! عقل اور اچھی شکل دینے والی ذات اور ہے! آپ آمروں کی اولاد کو باتیں کرتے سُن لیجیے۔ خدا کی قسم ہنسی آتی ہے اور اُبکائی بھی۔ وراثت میں پارٹی کی سربراہی تو مل سکتی ہے‘ سیاسی گدی اور ’’روحانی‘‘ گدی بھی ہاتھ آ سکتی ہے لیکن عزت کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔ ’’جہادی‘‘ ڈالروں سے بھرے ہوئے امریکی صندوق سرکاری ملازموں کے خاندانوں کو کھرب پتی تو بنا سکتے ہیں‘ معزز نہیں کر سکتے۔ خچر پر سونے کی زین ڈال دیں‘ لگام چاندی کی بنوا لیں‘ وہ کبھی ترکی گھوڑا نہیں بن سکتا! ذیشان لبھا مسیح کی جیب خالی تھی۔ اس کے ماں باپ تہی دست تھے۔ ہمارے نظام نے پوری کوشش کی کہ وہ آگے نہ بڑھ سکے۔ اس عظیم الشان اسلامی مملکت میں غریب کے بچے کے لیے آگے بڑھنے کا بظاہر کوئی امکان ہی نہیں! سارے راستے مسدود نظر آتے ہیں۔ یہاں راستے اُن بچوں کے لیے کھلے ہیں جن کے گھروں میں کئی کئی پجارو کھڑی ہیں‘ جو بسنت اور سالگرہوں پر کروڑوں روپے خس و خاشاک کی طرح اُڑا دیتے ہیں۔ جن کی کاروں اور جن کے مکانوں کے سائز پر کوئی پابندی نہیں اور جنہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کی زرعی زمین کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے لیکن وہ ذات جو نظر نہ آنے والا نظام چلا رہی ہے‘ کروڑوں اربوں کھربوں گنا زیادہ طاقت ور ہے۔ نظر آنے والا نظام جو چاہے کر لے‘ اُس نظام کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا جو لبھا مسیح جیسے بے یارو مددگار بچوں کو اُوپر لے آتا ہے! منطق کہتی ہے کہ ذیشان مسیح ابھی اور آگے جائے گا کیوں کہ جو نظام اُسے یہاں تک لے آیا ہے‘ جس کا وہ اور اس کے ماں باپ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے‘ وہی نظام اُسے اور آگے بھی لے جا سکتا ہے۔ خدا کرے وہ اس سے بھی بڑا آدمی بنے لیکن وہ جتنا بھی بڑا آدمی بنے اور جہاں بھی ہو‘ اُس ماں کو نہ بھولے جو اس کے رخسار کا ٹھنڈا میٹھا بوسہ لیتی تھی۔ اُس باپ کو نہ بھولے جو جھاڑو دیتے ہوئے اُس کے لیے دعائیں کرتا رہتا تھا اور ان گلیوں کو نہ بھولے جن کے خارو خس اُس کے خون میں شامل ہیں۔ اور اے اہلِ وطن! اس خاک میں بے شمار ذیشان بکھرے پڑے ہیں۔ خدا کے لیے انہیں تلاش کرو۔ ان کے ہاتھ تھامو! ذرا ان خاک آلود گلیوں کو تو دیکھو جہاں کاریں ہیں نہ روشنیاں‘ لیکن جہاں تمہارے لعل‘ تمہارے گوہر تمہارا انتظار کر رہے ہیں!