عمر فاروق اعظم نے اپنی زندگی کا آخری حج کیا اور مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ بازار کا گشت کرنے نکلے تو مغیرہؓ بن شعبہ کا ایرانی غلام ابو لولو فیروز ملا۔ امیرالمومنین! مجھے مغیرہ بن شعبہ سے بچائیے۔ خراج (آمدنی کا وہ حصہ جو غلام مالک کو ادا کرتا تھا) بہت زیادہ ہے۔ پوچھا کتنا خراج ادا کررہے ہو۔ جواب دیا دو درہم روزانہ ۔اور کام کیا کرتے ہو؟ ابو لولو نے بتایا۔ بڑھئی کا کام کرتا ہوں اور لوہار کا ۔ نقاشی بھی کرتا ہوں۔ امیر المومنین نے جواب دیا۔ تمہارے پیشوں کو دیکھتے ہوئے خراج کی رقم زیادہ نہیں معلوم ہورہی۔ میں نے سنا ہے تم ہوا سے چلنے والی چکی بنانے کا دعویٰ کرتے ہو، فیروز نے کہا‘ جی ہاں‘ بنا سکتا ہوں۔ تو پھر مجھے ایک چکی بنا دو۔ نصرانی غلام نے جواب دیا۔ ’’اگر میں زندہ رہا تو آپ کے لیے ایسی چکی بنائوں گا جس کا چرچا مشرق سے مغرب تک ہوگا۔‘‘ یہ کہا اور چل دیا۔ امیر المومنین نے کہا ’’اس غلام نے مجھے ابھی ابھی دھمکی دی ہے‘‘۔ اس کے تین دن بعد ابو لولو نے ان پر حملہ کیا اور وہ شہید ہوگئے لیکن موضوع ان کی شہادت نہیں غلاموں کے ساتھ ان کا انصاف ہے۔ ابو لولو کے پیشے زرخیز تھے۔ اگر نہ ہوتے ،امیر المومنین خراج کی رقم کم کردیتے۔ اس خطّے سے، جسے آج ہم مشرق وسطیٰ کہتے ہیں، غلامی کو بالکل ختم کرنا ان کے بس میں نہ تھا لیکن جس قدر کم ہوسکتی تھی، دوسرے خلیفہ راشد نے کی۔ ہزار ہا غلام آزاد کرائے۔ صلح کے معاہدوں میں لکھوایا کہ لوگوں کے جان و مال سے تعرض نہ ہوگا۔ یہ بھی کہ گرفتار ہو کر لونڈی غلام نہیں بنائے جائیں گے۔ ابو موسیٰ اشعری کو فرمان بھیجا کہ کسی کا شتکار یا پیشہ ور کو غلام نہ بنایا جائے۔ یہ آپ ہی تھے کہ قاعدہ مقرر کردیا جس لونڈی سے اولاد ہو جائے وہ خریدی جائے گی نہ بیچی جائے گی۔ یعنی لونڈی نہیں رہے گی۔ پھر مکاتبہ نافذ کیا۔ یعنی غلام ایک معاہدہ لکھ دے کہ میں اتنی مدت میں اس قدر رقم ادا کروں گا۔ پھر جب یہ رقم ادا ہوجاتی تھی تو وہ آزاد ہوجاتا تھا۔ جنگِ بدر کے مجاہدین کی تنخواہیں مقرر کیں تو ان کے غلاموں کی تنخواہیں برابر رکھیں۔ غلاموں کی عیادت نہ کرنے والے حکام کو معزول کردیتے تھے۔ کیا خوش قسمت تھے اس زمانے کے غلام! ہائے افسوس! آج اس خطّے میں عمر فاروق اعظم ہوتے تو عبدالکریم کے ساتھ ضرور انصاف کرتے۔ مارچ کا آغاز تھا جب عبدالکریم کی بیوی مشرقِ وسطیٰ کے ایک ملک سے پاکستان واپس آئی۔ میاں وہیں رہا کہ کاروبار کررہا تھا۔ خاتون بچوں کو تعلیم دلوانے آئی تھی کہ تیل سے چھلکتے ان ملکوں میں بارہ جماعت کے بعد پاکستانی طالب علم یا تو مغربی ملکوں کا رخ کرتے ہیں یا واپس پاکستان کا۔ بیمار وہ پہلے ہی سے تھی، لیکن وقت آچکا تھا۔ زندگی اور موت کے درمیان آخری فاصلہ ہی کیا ہے۔ ایک مدھم لکیر، جو ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں مٹ سکتی ہے۔ قیامت کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ لقمہ ہاتھ میں ہوگا اور منہ میں ڈالنے سے پہلے آجائے گی۔ اپریل کے تیسرے ہفتے میں عبدالکریم کی بیوی اپنے جسدِ خاکی کو راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں چھوڑ کر خود اس جہان کو چلی گئی جس کی حقیقی نوعیت کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ ہاں یہ بات طے ہے کہ سب کو اس جہاں میں جانا ہے۔ اس کفیل کو بھی جس کے قبضے میں عبدالکریم کا پاسپورٹ تھا! عبدالکریم کی بیوی کا، اس کے پانچ بچوں کی ماں کا جسدِ خاکی راولپنڈی میں تھا۔ عبدالکریم نے اچھل کر باہر آتے دل کو سینے میں سنبھالااور کفیل کے دروازے پر حاضر ہوا۔ کفیل موجود نہیں ہے۔ اسے بتایا گیا۔ وہ کہاں ہے؟ وہ ملک سے باہر گیا ہوا ہے! کہاں؟ کب آئے گا؟ یورپ گیا ہے یا امریکہ‘ معلوم نہیں۔ یہ بھی کوئی نہیں بتا سکتا کہ واپس کب آئے گا۔ ’’مجھے پاسپورٹ چاہیے۔ مجھے اپنی بیوی کے جنازے پر پہنچنا ہے۔‘‘ پاسپورٹ تو اسی کے پاس ہے‘ کسی اور نہیں معلوم کہ کہاں پڑا ہے اور اس کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا۔ عبدالکریم نے پاکستان فون کیا۔ میت کے اردگرد بیٹھے ہوئے بھائی بہنوں کو، اپنی بیٹی اور بیٹوں کو روتے سسکتے بلکتے ہوئے بتایا کہ میں نہیں آسکتا۔ نہیں معلوم کفیل کب آئے گا اور کب پاسپورٹ ملے گا۔ اس نے کوشش کی کہ کفیل کا فون نمبر ملے، اور وہ جہا ںبھی ہے اس کی منت کرے‘ لیکن یا تو کفیل سے کسی کا بھی رابطہ نہ تھا یا کوئی ٹیلی فون نمبر دینے کے لیے تیار نہ تھا! لاتعداد عبدالکریم ہیں جن سے یہ سلوک ہورہا ہے۔ غلام کا نام نہیں استعمال ہورہا لیکن پوری دنیا اس نظام کو، اس سسٹم کو غلامی کا نام دیتی ہے۔ زنجیریں نظر نہیں آتیں لیکن انسان قید ہیں۔ عمر فاروق اعظم نے انصاف کیا تھا کہ خراج پیشے کے اعتبار سے زیادہ نہیں اور مغیرہ بن شعبہ اس غلام کے خراج پر انحصار بھی تو نہیں کرتے تھے لیکن مشرق وسطیٰ میں کام کرنے والے عبدالکریم جو خراج اپنے اپنے کفیل کو دیتے ہیں‘ اس میں کوئی انصاف نہیں ہوسکتا۔ عبدالکریم کا کاروبار چلتا ہے یا نہیں، اسے آمدنی ہورہی ہے یا نقصان‘ کفیل کو مقررہ رقم ضرور ادا کرنی ہے۔ اس لیے کہ عبدالکریم کے اپنے نام پر کاروبار ہے نہ دکان، ٹیکسی ہے نہ بنک اکائونٹ‘ یہ سب کچھ تو کفیل کے نام پر ہے‘ کفیل ایک منٹ کے اندر اندر اسے ملک سے نکلوا سکتا ہے‘ گرفتار کرا سکتا ہے، کاروبار ٹھپ کرا سکتا ہے، خراج کی رقم دوگنا کر سکتا ہے‘ عبدالکریم احتجاج کرسکتا ہے نہ انکار۔ وہ چپ رہ کر‘ خون کے گھونٹ پی کر‘ سر جھکا کر کام کرتا رہتا ہے۔ پلٹ کر دیکھتا ہے تو اپنے ملک میں اسے دہشت گردی نظر آرہی ہے اور بدعنوان مگر مچھ جوحکمرانوں کے روپ میں سب کچھ ہڑپ کیے جارہے ہیں اور پولیس جو شریفوں، چودھریوں، زرداریوں اور پرویز مشرفوں کی حفاظت پر مامور ہے اور اغوا برائے تاوان کی ان گنت وارداتیں… عبدالکریم کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے اور نظر نہ آنے والی زنجیریں پہنے‘ کاروبار جاری رکھتا ہے۔ خراج دیتا رہتا ہے، کاروبار جاری رکھنے کے لیے اسے اقامہ درکار ہے۔ اقامہ کفیل ہی دے سکتا ہے۔ ہر کام کے لیے‘ ہر قانونی کارروائی کے لیے۔ کفیل کے دستخطوں کی ضرورت ہے۔ ذرا سی غلط فہمی، معمولی سی گستاخی، عبدالکریم کو ملک سے نکلوا سکتی ہے۔ مزدوری‘ رہائش‘ ماحول یا کسی بھی سلسلے میں شکایت کرنے کا مطلب ہے کہ کفالت واپس لے لی جائے گی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 2010ء میں مشرقِ وسطیٰ کے مسلمان ممالک میں اڑھائی کروڑ ورکر کام کررہے تھے۔ ان میں تین چوتھائی کا تعلق ایشیائی ملکوں سے ہے۔ کیا یہ ایشیائی ممالک کفیل سسٹم کو بدلوانے یا نرم کرانے کی کوشش نہیں کرسکتے؟ افسوس! اس کا جواب نفی میں ہے۔ پنجاب کا محاورہ ہے کہ زبردست کے سو میں بیس پانچ بار نہیں‘ چھ بار ہوتا ہے۔ 2011ء میں انڈونیشیا اور فلپائن کی حکومتوں نے کوشش کی کہ مشرقِ وسطیٰ کے ایک مشہور ملک میں کام کرنے والے گھریلو ملازموں کی کم سے کم اجرت مقرر کردی جائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس ملک نے انڈونیشیا اور فلپائن سے مزید بھرتی بند کردی!! لیکن اس قصّے کو چھوڑیے۔ آئیے ہم ان ملکوں کی مذمت جاری رکھیں جو کافروں کے ہیں، جہاں چار کروڑسے زیادہ مسلمان اتنے ہی شہری حقوق رکھتے ہیں جتنے مقامی لوگ‘ جہاں جائیدادیں، کاروبار، کمپنیاں سب کچھ تارکین وطن کے نام پر ہے۔ جہاں کفیل کوئی نہیں، صرف دلیل سے کام نکلتا ہے۔ جہاں وہ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ وزارتوں پر فائز ہیں۔ عدالت میں کسی مقامی کے خلاف بھی، خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو‘ اپنا مقدمہ پیش کرسکتے ہیں اور انصاف حاصل کر سکتے۔ ’’طاقت ور‘‘ مسلمان ملکوں میں پیدا ہونے والے ’’’غیرملکی‘‘ مسلمان‘ وہاں رہتے رہتے بوڑھے ہوجائیں گے تب بھی شہریت نہیں حاصل کرسکتے۔ ان حقوق کا سوچ بھی نہیں سکتے جو ’’اصل‘‘ شہری کو حاصل ہیں! یہ ہم بھی کس قضیّے میں الجھ گئے‘ آئیے‘ جمہوریت کے خلاف شائع ہونے والا تازہ کالم پڑھیں۔